پیپلز پارٹی کے لیاری کراچی سے
رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر مملکت پورٹ اینڈ شپنگ ”سردار“ نبیل گبول نے
وزارت سے استعفیٰ دیدیا۔ میڈیا رپورٹس اور باوثوق ذرائع کے مطابق ان کے کچھ
عرصہ سے پیپلز پارٹی کی ہائی (جیک) کمان سے اختلافات چل رہے تھے، وہ نہ صرف
لیاری میں آپریشن کے بھی مخالف تھے اور رحمٰن ملک کے ناقد بھی تھے ، ان کے
بقول رحمٰن ملک کو کیا حق ہے کہ وہ کراچی کے معاملات میں دخل اندازی کرے
اور ان کے حلقہ (جہاں سے وہ بلا مبالغہ عرصہ دراز سے بھاری اکثریت سے رکن
قومی اسمبلی منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں) میں فوجی آپریشن کرے یا بیان بازی
کرے۔ خبروں کے مطابق سردار نبیل گبول اپنے استعفیٰ کے بعد منظر عام سے غائب
ہوگئے ہیں اور ان کے گھر پر پولیس نے نہ صرف چھاپہ مار کر ان کے تین گارڈز
کو گرفتار کرلیا ہے، ان کے پولیس محافظین کو واپس بلا لیا گیا ہے بلکہ ان
کے حلقہ، لیاری کے علاقے میں ہی ان کے خلاف مظاہرہ بھی ”ارینج“ کیا گیا اور
ان کی تصاویر اور پتلوں کو باقاعدہ جلایا گیا ہے ۔ سردار نبیل گبول نے خفیہ
مقام سے میڈیا سے بات چیت بھی کی اور یہ بھی کہا کہ وہ کراچی کے مختلف
علاقوں میں اپنی جگہ بدل رہے ہیں اور ان کے خلاف سازش کی جارہی ہے۔ وہ
گذشتہ کچھ عرصہ سے اپنی وزارت کے معاملات سے مطمئن نہیں تھے اور ان کا یہ
بھی کہنا تھا کہ سارے معاملات بابر غوری چلا رہے ہیں اور وہ وزیر ہوتے ہوئے
بھی نہ تو وزارت کے معاملات میں دخیل ہوسکتے ہیں نہ ہی اپنے حلقہ کے لوگوں
کے کسی کام آرہے ہیں۔ لوگ جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے ان پر کچھ عرصہ سے
میڈیا پر آنے پر بھی پابندی لگا رکھی تھی، پیپلز پارٹی کے شریک چئرمین نے
انہیں اپنے نام کے ساتھ ”سردار“ لکھنے سے بھی منع کردیا ہوا تھا۔ باخبر لوگ
یہ بھی کہتے ہیں کہ سردار نبیل گول کو اس وقت جان کا خطرہ بھی ہے اور ان کا
پتاّ اس لئے صاف کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ لیاری، جو پیپلز پارٹی کا گڑھ
ہے، وہاں سے آئندہ الیکشن بلاول بھٹو کو لڑوانے کا منصوبہ بھی فائنل ہوچکا
ہوا ہے، نیز نبیل گبول کے قریبی دوستوں نے انہیں کچھ عرصہ کے لئے زیر زمین
ہونے یا ملک چھوڑنے کا بھی مشورہ دیا ہے۔
جہاں تک سردار نبیل گبول کا تعلق ہے، عوام جانتے ہیں کہ وہ ایک سیدھے، سچے
اور کھرے آدمی ہیں اور بقول حاجی اشرف، پیپلز پارٹی میں ”سردار“ہونے کے
باوجود اتنے سچے اور کھرے آدمی کا موجود ہونا بذات خود ایک حیرت ناک امر ہے۔
نبیل گبول کو استعفیٰ دینے پر کیوں مجبور ہونا پڑا اور استعفیٰ کے فوراً
بعد ان کے خلاف پولیس کاروائی اور ان کے ہی حلقہ میں ان کے خلاف مظاہرہ،
مظاہرہ میں ان کی تصاویر کا جلایا جانا اور پتلے کا نظر آتش کیا جانا معنی
خیز ہیں۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی شیری رحمٰن کے گھر کے باہر بھی ”جیالے“
اس سے ملتی جلتی ”کاروائی“ ڈال چکے ہیں۔ کیا نبیل گبول بھی شیری رحمٰن کی
طرح واپس ”اسی تنخواہ“ پر کام کرنے پر راضی ہوجائیں گے اور راوی چین لکھنا
شروع کردے گا یا وہ اپنے بلوچ اور سردار ہونے کی لاج نبھاتے ہوئے تمام تر
ہتھکنڈے ہمت اور حوصلے سے برداشت کریں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر خاص و
عام کے ذہن میں اٹھ رہے ہیں۔ جہاں وزیر اعظم ”جمہوریت کے حسن“ کی تعریفیں
کرتے نہیں تھکتے وہاں وہ سردار نبیل گبول کے اپنے ساتھ یا ”آقا“ کے ساتھ
اختلاف کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ یقیناً نبیل گبول کے استعفیٰ کے بعد کے حالات
سے وہ کماحقہ آگاہ ہوں گے لیکن وہ بیچارے کر بھی کیا سکتے ہیں؟ اگر نبیل
گبول ایک ایم این اے اور صرف وزیر مملکت ہونے کے باوجود ان کی بات نہیں
مانے تو ”گاڈ فادر“ سے وہ کوئی بات کیسے منوا سکتے ہیں، اگر وہ ایسا کریں
گے تو یقین رکھیں کہ چند گھنٹے بعد ہی ملتان میں ان کی تصویریں جل رہی ہوں
گی اور پتلے نذر آتش ہو رہے ہوں گے۔
سردار نبیل گبول کے استعفیٰ اور اس کے بعد کے واقعات خصوصاً ان کے خلاف
جیالوں کے ”فوری“ مظاہروں سے صاف محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے پارٹی کی لیڈر
شپ سے واضح اور شدید قسم کے اختلافات موجود ہیں اور ان خبروں میں بھی یقیناً
صداقت موجود ہے کہ لیاری کے علاقہ سے آئندہ امیدوار کون ہوگا؟ لیاری کے
علاقہ میں یقیناً پیپلز پارٹی ایک واضح اثر رکھتی ہے لیکن یہ بات بھی ذہن
میں رہنی چاہئے کہ اسی حلقہ میں ”چند لوگ“ نبیل گبول کو بھی پسند کرتے ہوں
گے اور وہ جواب میں کسی اور کے پتلے بھی جلاسکتے ہیں اور تصاویر بھی، نبیل
گبول شریف آدمی ضرور ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ وہ بزدل ہرگز نہیں ہوسکتے،
وہ کچھ عرصہ تو گمنام رہ سکتے ہیں لیکن مستقلاً ایسا کرنا ان کے لئے ہرگز
ممکن نہیں ہوگا۔ ایک ایسے وقت میں جب کراچی، خصوصاً لیاری میں پولیس اور
رینجرز آپریشن میں مصروف ہوں (کچھ لوگ اس آپریشن کو نام نہاد بھی کہتے ہیں)
عین اس وقت اس آپریشن کے مخالف کے ساتھ اس طرح کا سلوک جلتی میں تیل ڈالنے
کے مترادف ہوگا۔ ایک اور بات جو اس سلسلہ میں حکومت اور پارٹی سربراہ کو
ذہن میں رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ بلاول کو تو پاکستان کے کسی بھی ”سیف“
حلقہ سے الیکشن لڑوایا جاسکتا ہے لیکن اس طرح کی کاروائیوں سے یقیناً پارٹی
میں پھوٹ پڑ سکتی ہے، لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا پارٹی میں پھوٹ ڈلوانے اور اس
کی رہی سہی ساکھ کو ملیا میٹ کرنے کا منصوبہ بن چکا ہے؟ کیا اس منصوبے پر
عمل شروع کردیا گیا ہے؟ نبیل گبول کو استعفیٰ پر کیوں مجبور کیا گیا؟ کیا
مسلم لیگ (ن) سے رابطوں کی وجہ سے تو ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ اطلاعات کے
مطابق پولیس چھاپے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے مقامی راہنماﺅں نے میاں نواز
شریف کی خصوصی ہدائت پر کسی نامعلوم مقام پر ان سے ملاقات بھی کی ہے، یہ
رابطے پہلے سے تھے، کسی گریٹ گیم کا حصہ یا اتفاقاً ایسا ہوا ہے؟ کہیں ان
کا استعفیٰ بارش کا پہلا قطرہ تو نہیں....؟ |