ستم رسیدہ عوام ۔۔۔۔!

مملکت میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں، جن کا تعلق فی الحال بگڑتی معاشی صورت حال کی بحالی سے نہیں ہے، بلکہ تبدیلیوں سے مُراد سیاسی منظرنامے میں نادیدہ قوتوں کی پیش رفت ہے۔ جس سے عوام میں سراسیمگی کے اثرات کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس بار عوام سیاسی معاملات کا بڑی باریک بینی سے مشاہدہ کررہے ہیں اور مملکت میں ہونے والی تبدیلیوں کے مخفی کرداروں سمیت سیاست کے ماہرین کو شطرنج کے مہروں کی طرح پیٹتے دیکھ اور بخوبی سمجھ بھی رہی ہے۔ گر کوئی کہتا ہے کہ یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے تو یقیناً کہا جاسکتا ہے کہ ایسا کہنا خوابوں کی دنیا سے باہر نہ نکلنے کے مترادف ہے۔

ریاست کے چاروں ستون اس وقت آزمائش کے کڑے وقت سے گزر رہے ہیں۔ ان حالات میں اندھے جذبات، عجلت یا اشتعال انگیزی کی ہر دو صورت وطن عزیز کو خدانخواستہ نقصان پہنچاسکتی ہے۔ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے اور عوام اچھی طرح سمجھنا چاہتے ہیں کہ مخصوص حالات کی ’’ٹائمنگ‘‘ کو کیا نام دیا جائے۔ وقت کا بے رحم احتساب یا پھر مخصوص حالات کا خودرو پودوں کی طرح پیدا ہوجانا۔ شاید ملکی سیاست کو مخصوص پیرائے کا تبدیل ہونے والا موسم قرار دیا جاسکتا ہے، جس کے بادل آنے و گرج برسنے کا کوئی وقت متعین نہیں۔ ماضی میں رونما ہونے والے واقعات کا تجزیہ موجودہ حالات سے کیا جاسکتا ہے کہ ماضی میں دانستہ یا غیر دانستہ فیصلوں کے نتائج کس قدر زمینی حقائق سے مطابقت رکھتے ہیں۔ جب کہا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت نئے پاکستان کا منشور لے کر آئی ہے اور اسے وقت دینا ضروری ہے تو شاید یہ بیانیہ اُنہیں اچھا لگے جنہیں کرسی اقتدار پر بیٹھنا پسند ہے۔ عوام کو پرانے چہروں کے بدلے نقابوں سے کوئی سروکار نہیں، بلکہ اُن کا بنیادی مطالبہ، فرسودہ نظام کی تبدیلی کے لیے حقیقی کوششوں کو دیکھنا ہے۔ اصلاحات کے لیے موجودہ دور سے بہتر ماحول شاید کسی دوسری حکومت کو میسر نہ آیا ہو، کیونکہ کسی بھی حکومت کی رِٹ کے لیے ریاست کے تمام ستونوں کا ایک صفحے پر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اب چاہے کوئی مانے یا تسلیم نہ کرے لیکن موجودہ سیاسی حالات کسی بھی ممکنہ غیر مقبول فیصلوں کے لیے انتہائی سازگار ہیں۔ سفارتی، معاشی، دفاعی اور سیاسی محاذوں پر ریاست کو اس وقت کسی بھی قسم کے دباؤ کا سامنا نہیں۔ اپوزیشن کا کردار اس قدر بے جان ہوچکا کہ اگر حکمراں جماعت غلطیوں سے گریز کرے تو اپوزیشن کا ’’آئی سی یو‘‘ سے جلد باہر آجانا ممکن نہیں۔

لیکن یہاں سب سے اہم مسئلہ عوام کا ہے، جو ان حالات کی ستم رسیدگی کے باعث ڈپریشن کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ توقعات، امیدیں اور سُہانے خواب ٹوٹتے نظر آرہے ہیں۔ انہیں یہ سب سلور اسکرین پر ایک ایسی فلم نظر آرہی ہے جس کے آخر میں The Endلکھا دکھائی نہیں دے رہا۔ عوام کی خواہشات میں سب سے پہلے اُن وعدوں کی تکمیل کی بنیاد رکھے جانے کا منظر دیکھنا ہے جس کے لیے انہوں نے فرسٹ ڈے فرسٹ شو، کے ٹکٹ لیے تھے۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دینے والی تاریکی میں مخصوص ہیولے ہی دوڑتے و بولتے نظر آرہے ہیں، جن کی پرفارمنس پر وہ ہی سیٹیاں اور تالیاں بجا بجاکر تھک چکے۔ اب ان میں مزید سکت نہیں کہ وہ بار بار سیٹیاں یا تالیاں بجائیں، کیونکہ وہ اب سمجھ چکے ہیں کہ یہ دونوں کام کرنے سے بھی ان کی تسلی نہیں ہورہی۔ شاید یہ عوامی خمیر ہے کہ وہ عجلت پسندی کے شکار ہوچکے اور اندھے وعدوں پر سفید چھڑی لے کر چلنے کے عادی، جس پر لگی گھنٹی کو وقتاً فوقتاً بجاتے رہنا ہے۔ گو اُنہیں نظر کچھ نہیں آرہا، صرف محسوس ہوتا ہے اور اسے ’چھٹی حس‘ کہا جاتا ہے۔ کوئی دیکھ کر بھی نابینا نظر آتا ہے تو کوئی بول کر بھی گونگا ہوجاتا ہے، جب کچھ سمجھ نہ آئے تو وہ سب کچھ سُن کر بہرا بن جاتا ہے۔ اس خودفریبی سے باہر نکلنے کے لیے جتنے بھی ہاتھ پیر مارے جائیں وہ دلدل میں دھنستا ہی چلا جاتا ہے۔ شاید اسی کو قانون فطرت کہتے ہیں۔ انسانی قانون کو ہم کوئی نام کسی بھی نظام کی شکل میں دے سکتے ہیں۔

مفادات کے تالاب میں جب ایک گندی مچھلی سارے جَل کو گندا کرنے کی قوت رکھتی ہو تو ہمیں ادراک کرلینا چاہیے کہ ایک کے مقابلے میں کئی صاف مچھلیاں ڈال کر تالاب صاف نہیں کیا جاسکتا۔ گو اُن کی تعداد اُس ایک گندی مچھلی سے زیادہ ہے جو صاف تالاب کو گندا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے، لیکن کئی صاف مچھلیاں گندے تالاب کو واقعتاً صاف نہیں کرسکتیں۔ وطن عزیز میں جس قسم کے بھی حالات ہیں، اس پر اکتفا ہے کہ اس سے حالات میں کوئی بڑی تبدیلی جلد نہیں آسکتی۔ وقتی اُبال آنے پر چولہے پر لگی آگ بجھ جاتی ہے اور دھواں باقی رہ جاتا ہے، پھر وقت کے ساتھ وہ تمام گرمی اثر کھو بیٹھتی ہے، جس نے درجہ حرارت بڑھا دیا تھا۔ کہنا صرف اتنا ہے کہ تیز آگ پر پکائی جانے والی ہانڈی بہت جلد جل جایا کرتی ہے جب کہ ہلکی آنچ کے لیے سانج کی ضرورت نہیں پڑتی۔ گرم لقمے کو پھونکیں مارنے سے ٹھنڈا کرنا بہتر ہے کہ تحمل اور صبر سے کام لیا جائے۔

موجودہ ملکی حالات میں کئی ایسے سوالات پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں جو وقت پر بے لگام ہوجائیں گے۔ ضروری ہے کہ رستے زخموں کو مرہم فراہم کیا جائے۔ زخموں کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو وہ ’’ناسور‘‘ بن جاتے ہیں۔ کرم خوردہ پاکستان اپنے قیام سے آج تک اُس نازک دور سے گزر رہا ہے جس کی مسافت کا کسی کو علم نہیں۔ کانچ کے نازک فرش پر آہنی جوتوں کے ساتھ دوڑا نہیں جاسکتا، کیونکہ شیشے کا انجام کرچی کرچی ہوجانا سب کو پتا ہے۔ تو پھر کیوں ہم ایسے حالات پیدا کرتے ہیں۔ سب سے پہلے اعتماد کی ایک ایسی دیوار کی ضرورت ہے جس کی بنیادیں اس قدر مضبوط ہوں کہ یقین کامل ڈگمگا نہ سکے۔ بے یقینی، شکوک و شبہات کی بے ترتیب و مکدر فضائیں گرد آلودہ ہوتی ہیں جو صاف منظر کو بھی دھندلادیتی ہیں۔ ارباب اختیار وہ سب کچھ کریں جو اس مملکت کی بقا و سلامتی کے لیے ضروری ہو، لیکن کسی بھی مرض کا علاج ’’آب خضر‘‘ کی امید پر نہیں کیا جائے، بلکہ بیچ سمندر میں کشتی کے اُس سوراخ کو پہلے بند کیا جائے جو ناخداؤں کو ڈبو سکتا ہے۔ گندے تالاب میں صاف مچھلیاں ڈالنے سے بہتر ہے کہ گندی مچھلی کو ہی اُس تالاب سے پہلے باہر نکال لیا جائے۔ کنویں میں گرے نجس جانور کو پہلے نکالا جائے، پھر چاہے اُس پانی کو صاف کرنے کے لیے پورا کنواں ہی خالی کیوں نہیں کرنا پڑے۔ صاف مچھلیوں کے لیے صاف ستھرے تالاب بنادیے جائیں تاکہ گندی مچھلیوں کی عدم موجودگی سے آب شفاف رہے۔ بس اس کے لیے ضروری ہے کہ فروعی مفادات کے بجائے اجتماعی مفادات کو مقدم رکھا جائے۔ پاکستان کا مفاد سب سے پہلے ہونا چاہیے، کیونکہ اس نعمت کے کھونے کے خمیازے کی کیفیت سے گزر چکے ہیں۔ سکت و طاقت کے لیے ضروری ہے کہ منزل کی درست سمت کا تعین کیا جاچکا ہو۔ تجارب اور کسوٹیاں کھیلنے کے بجائے ہم سب کے حق میں بہتر یہی ہے کہ رب کائنات کی نعمتوں کا کفران نہ کریں، کیونکہ یہی ستم رسیدہ عوام کے حق میں بہتر ہے۔
 

Qadir Khan Yousuf Zai
About the Author: Qadir Khan Yousuf Zai Read More Articles by Qadir Khan Yousuf Zai: 399 Articles with 296184 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.