آزاد حکومت ادارے اور دربار سہیلی سرکار ؒ کی تعمیرونوکے تقاضے

آزاد حکومت ادارے اور دربار سہیلی سرکار ؒ کی تعمیرونوکے تقاضے

برصغیر پاک و ہند میں اسلامی معاشرے کو اس کے حقیقی پیغام و روح کے مطابق قائم ودائم کرنے میں کردار کی طاقت مسلمہ ہے جس کے دست و بازو محبت خیر و برکات ہیں جن کے خزانے اولیاء اللہ کو عطاء ہوئے اور کشمیر جنت نظیر کی تاریخ تہذیب و ثقافت میں قلب و جان کا مقام رکھتے ہیں ‘ جن کے فیض و ثمرات تا قیامت جاری و ساری رہیں گے ۔ آزاد جموں و کشمیر کے تعارف و تاریخ کا پاکیزہ و برکات کے سلسلے میں ذکر خیر آتا ہے تو حضرت سیدنا سائیں سہیلی سرکارؒ کے نام و لقب اور مقام کو اعلیٰ و ارفع منازل رتبہ حاصل ہے جن کے پچپن جوانی سے لیکر رحلت تک کے سفر میں فقر و ریاضت مجاہدوں مراقبوں یاد الٰہی ‘ سیاحت و چلہ کشی سے لیکر کرامات و فیض کے باب رقم ہیں اور کشف و داد رسی کے نیاز و نظر رکے ہیں نہ رُکیں گے۔ 8اکتوبر2005ء کے زلزلے میں تباہی و بربادی کے ناقابل بیان حالات ومناظر رقم ہوئے مگر آپ کا دربار محفوظ رہا اور مایوسی کے اندھیروں میں اُمید و یقین کا قوت روحانی برکات روشنی کا مرکز رہا ہے اور رہے گا ۔تاہم زلزلے سے قبل آپ کی زیارت گاہ و مسجد کے اندر اور باہر ارد گرد چاروں اطراف خصوصاً عرس کے ایام میں میلہ کا سلسلہ ناصرف روحانی اعتبار سے بلکہ تہذیب ثقافت کے لحاظ سے ریاست آزادکشمیر کا سب سے بڑا خلق خدا کی دلچسپی کا عشرہ ہوتا تھا ۔ جس کے دوران ملک بھر اور بشمول مقامی تاجر ملکر دومیل سے لیکر تانگہ اسٹینڈ فٹ پاتھ تک بازار سجایا کرتے تھے اور سارے مظفر آباد ڈویژن پونچھ کے اضلاع خصوصاً صوبہ کے پی کے ہزارہ کے تمام ہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے امیر سے امیر ‘ غریب سے غریب تر یہاں آ کر مزار پر حاضری محفل سماع کے جوش خروش عشق و مستی والے اجتماعات میں شرکت ‘ تلوار بازی ‘ گتگا اور دیگر اس جڑے فن و فنوں کے انداز و رنگ سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ نوجوانوں ‘ بچوں کو ان کا سال بھر انتظار رہتا تھا جو زلزلے کے بعد دفاتر یہاں منتقل ہو جانے پھر حکومتوں اور اداروں کی طرف سے ماضی کی طرح دلچسپی و توجہ نہ دینے کے باعث کم ہو کر احاطے کے اندر تک محدود ہو کر رہ گیا مگر موجودہ فاروق حیدر حکومت میں احاطے کے اندر ہی دفاتر واپس اپنی جگہ منتقل کرتے ہوئے اس کے رنگ بحال کرنے کے اقدامات ہوئے ہیں مگر وہ پہلے والا رنگ و عروج ،احساس ذمہ داری کے فقدان کے باعث پروان نہیں چڑھ پارہا ہے جس کا میزبان محکمہ اوقاف ہوتا ہے جو واحد محکمہ ہے جو سرکار کے بجٹ پر بوجھ ہے نہ کچھ لیتا ہے بلکہ اس محکمے کے تمام ملازمین کی تنخواہوں سمیت انتظامات انصرام کا بجٹ خود پورا کرتا ہے ‘ خصوصاً دربار سہیلی سرکار سے جڑے مسجد کی ذیلی عمارت کے مدرسے میں بچوں کی قرآنی تعلیم ‘ قیام و طعام صبح شام پانچ سے 6 سو لوگوں کا لنگر کا سلسلہ دبار کی اپنی برکات کا ثمر ہے ‘ اگرچہ زائرین کیلئے دو چھوٹے ہالوں کا شب بسری کیلئے اہتمام بھی بحال ہوا ہے ‘ اور گزشتہ سالوں سے سیاحوں کا بہت بڑا سلسلہ یہاں وارد ہوتا ہے تو رہائش نہ ملنے پر کم خرچ آمدن والے جتنا ہو سکے یہاں قیام کر لیتے ہیں مگر دربار کے منتظمین عملہ کی بھرپور محنت و دلچسپی کے باوجود اچھا اور قابل اطمینان انتظام ہر گز نہیں ہے یہاں ملک بھر سے ذائرین کی آمد کے سلسلے میں روز بہ روز قابل رشک اضافہ ہوتا جا رہا ہے ‘ سیاحوں کی سہولت کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے خصوصاً مظفر آباد ڈویژن اور جڑے ضلع باغ و ہزارہ کیلئے ریاست میں سب سے بڑے روحانی مرکز و عرس میلہ کی مناسبت سے تہذیب ثقافت کا وہی پہلے جیسا سلسلہ بحال کرنا ہو گا جس کے لیے مزار کے عقبی 6 کنال رقبے کے آدھے کو قبرستان کی چاردیواری دیتے ہوئے باقی کو ہموارکر کے ڈسٹرکٹ کمپلیکس کے اندر کی طرف راستے کی بحالی اور مسجد کے ساتھ والے رقبے کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت کمرشل پلازے مارکیٹ اندر باہر دکانات کرنے والوں کو واپس دکانات ملنے کی گارنٹی کے ساتھ ان کو ڈبل سٹوری بنانے اور مزار مبارک کی بلندی کرتے ہوئے شایان شان انداز میں ڈویلپ کرنے کی ضرورت ہے اور سیکرٹری حکومت خواجا احسن کی طرف سے سہیلی نالہ میں ہائیڈل کا پراجیکٹ لگانے کی تجویز طویل عرصہ سے پاور ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن میں زیر کار ہے ۔زیر التوا تجویز پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے ۔جبکہ گیلانی پیٹرول پمپ کے سامنے رقبہ پر نااہلی ‘ نالائقی کا ثبوت عارضی شیلٹر اور ڈربہ، دکانات سے بدل کر بڑے تجارتی مرکز بنانے سے آمدن کا بہت بڑا ذریعہ شروع ہو جائے گااس کے لیے وہی جذبہ چاہیے جو بطور سیکرٹری اوقاف اکرم سہیل نے اُدھار پر اکاؤنٹ بحال کر کے محکمے کے ملازمین کی چار سال کی تنخواہوں کی ادائیگی سمیت اس کو بغیر سرکار کی مدد کے اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا تھا۔ یہ خوش آئند امر ہے اولیاء اللہ کے سلسلہ سے بطور مرید و خاص منسلک راجہ عبدالقیوم خان وزیر اوقاف کی ذمہ داریوں کا آغاز کر چکے ہیں اور ان کی شخصیت تجربے کا استفادہ کرتے ہوئے اوقاف اور اس سے منسلک اُمور کے حامل محکموں کو خصوصی ٹاسک دیا جائے جس کی میزبانی وزیراعظم فاروق حیدر خود کریں تاکہ ایک اچھے عمل کا آغاز ہو سکے ‘ بے شک سالانہ ترقیاتی پروگرام سے دوچار منصوبے کاٹ کر لیا جائے ‘ خصوصاً مدرسے کو ماڈل سکول مدرسہ بنانے کیلئے دینی دنیاوی تعلیم کا بہترین مرکز بنانے کا ایک تجربہ ضرور کیا جائے ۔ اس مزار اور اس کی مسجد کے میناروں سمیت اردگرد رب کی حمد و ثناء بیان کرتے کبوتروں کے غولوں کی پروازیں اور ان کے رہنے کیلئے چھوٹے چھوٹے خانوں والے محفوظ ڈربوں کا انتظام انصرام نہ ہونا سوالیہ نشان ہے آخر کون اس کا ذمہ دار ہے ۔

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 148983 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.