و زیراعظم عمران خان نے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے منصوبے
‘‘نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام’’ کا افتتاح کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ گھروں
کی تعمیر کیلئے پہلے مرحلے میں رجسٹریشن کا عمل شروع کیا جائے گا جو نادرا
کے ذریعے ہو گا۔ کم آمدنی والے وفاقی ملازمین کیلئے آج سے فیڈرل گورنمنٹ
ایمپلائز ہاؤسنگ اسکیم کا آغاز کیا جا رہا ہے ، کچی آبادیوں کے رہائشیوں کو
مالکانہ حقوق دیں گے۔وزیرا عظم نے نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کے قیام کا
اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے غریبوں کو چھت میسر آنے کے ساتھ ساتھ
نوجوانوں کو روزگار ملے گا اور اقتصادی سرگرمی سے شرح نمو میں اضافہ ہو
گا۔انہو ں نے کہا کہ وہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کی نگرانی خو د کرینگے۔
ابتدائی طور پر سات اضلاع فیصل آباد، سکھر، کوئٹہ، ڈیرہ اسماعیل خان، اسلام
آباد، گلگت اور مظفر آباد میں پائلٹ پراجیکٹ آج سے شروع ہو گا، 60 دنوں میں
رجسٹریشن کا عمل مکمل ہو گا۔فنانسنگ سے متعلقہ رکاوٹیں دور کرنے کیلئے 60
روز میں نیشنل فنانشل ریگولیٹری ادارہ بھی قائم کیا جا رہا ہے ، گھروں
کیلئے اراضی حکومت فراہم کرے گی جبکہ باقی کام نجی شعبہ انجام دے گا۔ گھر
منصوبے میں حکومت کا کام رکاوٹیں دور کرنا ہوگا اور ترقیاتی کام پرائیویٹ
سیکٹر کرے گا ، اس منصوبے میں غیرسرکاری تنظیموں کو بھی شامل کریں گے جس
میں 'اخوت' بھی شامل ہے جس نے بے گھروں کو اپنا گھر دینے میں زبردست کام
کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ امریکہ میں 75 سے 80فیصد لوگ قرضہ لے کر گھر
بناتے ہیں، ملائیشیا میں یہ شرح 33فیصد، بھارت میں تقریباً 11 فیصد، بنگلہ
دیش میں 3 فیصد اور پاکستان میں یہ شرح صرف 0.25 فیصد ہے۔انہوں نے کہا کہ
بیرون ملک سے کمپنی نے اس شعبہ میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں دلچسپی
ظاہر کی ہے ، ملک میں ایک کروڑ گھروں کی طلب ہے ، ہم پانچ سالوں میں 50
لاکھ گھر بنا رہے ہیں جس سے شرح نمو بھی اوپر جائے گی۔بے گھرافرادکیلئے
نادرارجسٹریشن فارم جاری کر دیا گیا۔ نادرا کی ویب سائٹ پر جاری "نیا
پاکستان ہاؤسنگ پروگرام "فارم کی قیمت 250 روپے مقرر کی گئی ہے ، فارم ضلعی
ہاؤسنگ پروگرام آفس میں 250 روپے رجسٹریشن فیس کے ساتھ 22 اکتوبر سے 21
دسمبر 2018 تک جمع کرائے جا سکتے ہیں،بے گھرافرادرجسٹریشن کیلئے آن لائن
فارم بھی حاصل کرسکتے ہیں۔پنجاب میں پائلٹ پراجیکٹ کیلئے فیصل آباد
اوراسلام آباد،خیبرپختونخوامیں سوات ،سندھ سے سکھر،بلوچستان سے کوئٹہ
،آزادکشمیرسے مظفرآباد اور گلگت بلتستان سے گلگت شہر کا انتخاب کیا گیا ہے
،بے گھرافرادکوترجیح دی جائے گی۔ خاوند،بیوی،بچوں میں سے صرف ایک شخص
گھرکیلئے درخواست دینے کااہل ہوگا، نادرافارم میں نام،شناختی
کارڈنمبر،موبائل فون نمبر،رہائشی نمبربتاناہوگا،فارم میں اپنے یاکرائے کے
موجودہ گھرکاایڈریس بتاناہوگا، درخواست دہندہ ماہانہ آمدن بھی بتانے
کاپابند ہوگا۔اس کے علاوہ نادرافارم میں رجسٹریشن کے لیے گھرکامطلوبہ مقام
بتانا ہوگا۔ وزیر ہاؤسنگ پنجاب کے مطابق متعلقہ شہروں میں نادراکے دفاترسے
فارم ستیاب ہوں گے۔دنیا بھر میں دس کروڑ لوگ بے گھر ہیں جبکہ ایک ارب کو
رہنے کی مناسب سہولت میسر نہیں، ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بے گھر
افراد کی تعداد تیس لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق
دنیا بھر میں دس کروڑ سے زائد لوگ رات کو سڑک کنارے اور پارکوں میں کھلے
آسمان تلے سوتے ہیں۔ ایک ارب سے زائد لوگوں کو گھر کی مناسب سہولت ہی میسر
نہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد بھارتیوں کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں
سات کروڑ اسی لاکھ افراد بے گھر ہیں۔ پاکستان میں بے گھر افراد کی تعداد
تیس لاکھ تک پہنچ گئی ہے جن کی اکثریت بڑے شہروں میں پائی جاتی ہے۔ لاہور
اور کراچی میں پانچ پانچ لاکھ افراد کو گھر کی سہولت میسر نہیں۔ ملک میں
ڈھائی کروڑ سے زائد افراد کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔ایسوسی ایشن آف بلڈرز
اینڈ ڈیولپرز (آباد) نے مجوزہ ایفورڈایبل ہاوسنگ اسکیم کے لیے ایک ارب روپے
کے بنیادی فنڈکے قیام کا اعلان کردیا ہے جس میں آباد کے ممبران اور عارف
حبیب گروپ اپنے اپنے حصے کی رقم ادا کریں گے۔عارف جیوا نے کہا کہ آبادکا
عزم ہے کہ پاکستان میں ہر شہری کا اپنا گھر ہو جس کے تحت آباد نے اسلام
آباد اور کراچی میں آباد ایفورڈ ایبل ہاوسنگ اسکیم کا اعلان کیا ہے جو
فلاحی اسکیم ہے، آباد نے ملک بھر میں بغیر کسی مالی معاونت کے سستے گھر 19
لاکھ روپے میں بنانے کی تجویز دی تھی، اب تک سیاسی جماعتوں نے روٹی کپڑا
مکان کے نعرے تو لگائے لیکن کم آمدنی والے طبقے کو گھر مہیا نہیں کیا، نواز
شریف نے بھی اپنے منشور میں کم آمدنی کے حامل طبقے کے لیے 5 لاکھ گھربنانے
کا وعدہ کیا لیکن انھوں نے آباد کے مکمل تعاون فراہم کرنے کے باوجود اس
وعدے کو پورا نہیں کیا، پی ٹی آئی نے بھی اپنے منشور میں 1لاکھ گھر بنانے
کے منصوبے کا اعلان کیا ہے لیکن معلوم نہیں کہ اس پر عمل ہوتا ہے یا نہیں،
انتخابات میں نئے لوگ منتخب ہوکر آئیں گے اور اپنے آپ کو مضبوط کرکے چلے
جائیں گے۔ دنیا بھر میں حکومتیں اپنے اپنے شہریوں گھر فراہم کرتی ہیں جس کے
لیے کم آمدنی والے طبقے کوکم سود سے طویل مدتی قرضے فراہم کرتی ہیں لیکن
افسوس پاکستان میں اس کے برعکس ہو رہا ہے، آباد نے ایفورڈ ایبل ہاوسنگ
اسکیم کے لیے ون ونڈو سہولت کے ذریعے زمین، پانی، گیس، بجلی فراہم کرنے کا
مطالبہ کیا تھا جس پرن لیگ کی حکومت نے کوئی توجہ ہی نہیں دی۔ پاکستان میں
غریب آدمی کے لیے اپنا گھر بنانا ناممکن ہوگیا ہے، ملک میں کم لاگت گھروں
کے منصوبے کی اشد ضرورت ہے۔ملک میں مجموعی طور پر ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد
ہاؤسنگ یونٹس کی قلت کا سامنا ہے جب کہ حکومتوں کی جانب سے لوگوں کو چھت کی
فراہمی کے لیے کم قیمت مکانوں کی فراہمی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود کروڑوں
لوگ بے گھر ہیں جس کی بنیادی وجہ رہائشی مکانات اورپلاٹوں کی قیمتوں کا عام
آدمی کی پہنچ سے باہر ہونا ہے۔سابق وفاقی حکومت کی جانب سے ملک میں گھروں
کی قلت کو پورا کرنے کے لیے اپنا گھر اسکیم کے تحت 5لاکھ ہاؤسنگ یونٹس کی
تعمیر کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے لیے سابق وفاقی حکومت کی جانب سے وزارت
ہاؤسنگ اینڈ ورکس میں اپنا گھر لمیٹڈ نامی کمپنی بھی قائم کی گئی تھی۔سابق
حکومت کی جانب سے اپنا گھر اسکیم منصوبے کے تحت ملک بھر میں کم آمدن افراد
کے لیے 3ہزار 971کنال اراضی کی نشاندہی کی گئی تھی جبکہ سی پیک کے پیش نظر
وفاقی حکومت کی جانب سے گوادر میں بھی کم آمدن افراد کے لیے اپنا گھر اسکیم
کے تحت رہائش گاہوں کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا تھا، تاہم وفاقی حکومت کی
جانب سے اس اسکیم پر ورکنگ مکمل کرنے کے باوجود گزشتہ پانچ سال کے دوران اس
اہم منصوبے پر عملدرآمد یقینی نہیں بنایا جا سکا جس کے باعث مسلم لیگ ن کی
جانب سے کم آمدن افراد کو پانچ لاکھ ہاؤسنگ یونٹس کی فراہمی کا وعدہ ادھورا
رہ گیا۔بہرحال وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بھی ملک میں ہاؤسنگ یونٹس کی
قلت کو پورا کرنے کے لیے 50لاکھ گھروں کی فراہمی کا اعلان کر دیا گیا ہے جس
سے ملک میں گھروں کی قلت پوری ہونے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے لیے رو زگارکے
مواقع بھی پیدا ہوں گے لیکن سابق وفاقی حکومت کی جانب سے پانچ لاکھ گھروں
کی تعمیر کے وعدے کے باوجود پورے دور حکومت میں ایک بھی شہری کے لیے سستا
گھر فراہم نہیں کیا جا سکا جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نئی حکومت کے لیے
50 لاکھ گھروں کی تعمیر ایک چیلنج بن سکتا ہے۔ اس وقت ملک میں ایک کروڑ 20
لاکھ تک ہاؤسنگ یونٹس کی قلت کا سامنا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اگر
حکومت کی جانب سے اس پر قابو نہیں پایا گیا تو ہاؤسنگ یونٹس میں قلت 2025تک
2کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ |