پچھلے دِنوں سے مُلک بھر میں جو ضمنی انتخابات کی مچی
ہاہاکار مچی ہوئی تھی ،وہ14اکتوبر کو مجموعی طور پرپُرامن ہونے والے ضمی
انتخابات کے بعد ماند ہوگئی ہے، جس کے اَب تک کے غیر سرکاری غیر حتمی نتائج
کے مطابق عام انتخابات میں بہت نہیں تو کم ازکم تین اہم حلقوں میں جتنے
والوں کی ہار اور ہارنے والوں کی جیت ہوئی ہے، گرچہ، ابھی حتمی (سرکاری)نتائج
کا اعلان نہیں ہوا ہے۔ مگرآج ضمنی انتخابات میں جیتنے والے جشن اور ہارنے
والے دھاندلی کی غمزدہ راگنی پرنوحہ کناں ہیں،دونوں جانب سے اپنے لحاظ سے
نتائج پر اظہارِ خیال کا جیسا سلسلہ جاری ہے یہ بھی سب کے سا منے ہے ۔
جبکہ اِس سے اِنکار نہیں ہے کہ رواں حکومت کو ضمنی انتخابات نے بڑے حیران
کُن اَپ سیٹ دیئے ہیں۔ جیسے پہلے جیت کر نشتیں چھوڑنے والے وزیراعظم عمران
خان سمیت پی ٹی آئی کے دیگر اُمیدوار ضمنی انتخابات میں یار گئے ہیں۔ اور
25جولائی کے عام انتخابات میں ہارے ہوئے خواجہ سعدرفیق اور شاہدخاقان عباسی
کو ضمنی انتخابات میں اپنے مخالف سے ہزاروں کی لیڈ سے کامیابی ملی ہے۔ جو
یہ ثابت کرتی ہے کہ آج رواں حکومت کے پہلے سو روزہ پروگرام سے ڈالرز کی
اُونچی اُڑان اور بے لگام ہوتی مہنگا ئی سے عوام میں مایوسی پھیلی چکی ہے۔
آج ووٹرزنے سابق نوازحکومت کے کارناموں ،منصوبوں اور مہنگائی کا موازنہ
وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے کفایت شعاری اور اقتصادی اعلان اور منوں
دودہ دینے والی بھینسوں کی نیلامی ، قیمتی گاڑیوں کی نیلامی اور 100دن کے
ابتدائی اقدامات اور اعلان سے کرناشروع کردیاہے۔ جس کا ضمنی انتخابات میں
نتیجہ یہ آیا ہے کہ عام انتخابات میں ن لیگ کے ہارے ہوئے بڑے بڑے برج پھر
جیت گئے ہیں۔
اِس طرح آج ووٹرز کا ن لیگ کے اُمیدواروں کی جھولی میں جیت کا تحفہ ڈالنا
وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے لئے حیران کُن ہونا چاہئے ، اَب حکومت کو
ہر حال میں سرجوڑ کر بیٹھ جانا چاہئے کہ آج کے بعد سے ایسا کیا ، کیا جائے؟
کہ حکومت پر ووٹرز کا اعتماد بحال ہواور بار بار یوٹرنز سے اجتناب کرتے
ہوئے۔ اَب خالصتاََ عوامی مفادات جیسے گیس کی بڑھی قیمتوں کو کم اور
مہنگائی کو جلد ازجلد نچلی سطح پر لانے کے لئے عملی اقدامات کرے گی ۔تو
ممکن ہے کہ عوام کاحکومت پر اعتمادبحال ہوجائے، ورنہ ؟اَب ایوان میں نمبرز
گیم کے ساتھ مضبوط ہوتی اپوزیشن ایوانوں کے اندر اور باہر سے حکومت کو
حقیقی معنوں میں لوہے کے چنے چبواکر ہی دم لے گی ۔
یقینااِس موقع پر برسرِاقتدار جماعت پاکستان تحریک اِنصاف کو اپنی سوروزہ
پالیسیوں کا ضرورموازنہ کرنا ہوگا ۔اِسے سوچناہوگا کہ اِس سے ضرور کچھ ایسی
غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ جن کی وجہ سے اِس پر عوام کا اعتماد کم ہونا شروع
ہوگیاہے،اِسے سوچنا چاہئے کہ ابھی تو ابتداء ہے ۔حکومت کے سامنے پورے 4سال
10ماہ کا ایک لمباعرصہ پڑاہے۔ اگر حکومت کی آئندہ بھی ایسی پالیسیاں رہیں ۔جن
کی وجہ سے عوام کا حکومت پر سے اعتماد ختم ہوتارہا۔ تو ایسے میں پی ٹی آئی
کی حکومت سوچ لے کہ اِس کے لئے اپنی حکومتی مدت پوری کرنا نہ صرف مشکل بلکہ
نا ممکن بھی ثابت ہوسکتاہے۔
بیشک ! اَب اِس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ حالیہ ضمنی انتخابات میں
اپوزیشن کی زیادہ نشتوں پر کامیابی دراصل پی ٹی آئی کی حکومت کی ناکامی کا
منہ بولتاثبوت ہے ،اَب ایوان میں خواجہ سعد رفیق اور شاہد خاقان عباسی اور
دیگر ن لیگ والوں کا قدم رنجافرماناوزیراعظم عمران خان کی حکومت کے لئے
مشکلات کا باعث بنارہے گا، کیوں کہ خواجہ سعدرفیق اور شاہد خان عباسی نائبِ
نوازشریف ہیں۔ اِن دنوں کی زبان چلانے کی دوڑی نواز شریف کے ہاتھ میں ہے
۔نوازشریف جیسا سوچتے ہیں، جیساکہنا چاہتے ہیں۔ وہ خواجہ سعد رفیق اور شاہد
خاقان عباسی سے کہلوادیتے ہیں ۔ غرض یہ کہ خواجہ سعد رفیق اور شاہدخاقان
عباسی کی شکل میں نوازشریف جسمانی نہیں توکم ازکم روحانی طور پر ایوان میں
ضرورداخل ہوچکے ہیں۔
آج حکومت کے سامنے اِس کے سِوا کو ئی متبادل نہیں ہے کہ حکومت کو اپنی پچاس
پچپن دِنوں کی کارکردگی اور گڈگورنس کااحتساب کرتے ہوئے ،اپنی عوام دوست
پالیسیاں مرتب کرنی لازمی ہوگئی ہے۔ تاکہ عوام اور حکومت کا اعتماد کا رشتہ
بحال رہے۔ اور وفاق سمیت صوبوں میں اپوزیشن اپنے نمبرز گیم کا فائدہ اٹھاتے
ہوئے۔ اگر حکومت کے خلاف عوام کو اُکسا کر کسی قسم کی تحریک کوہوادے؛ تو
عوام اِس کی آواز پر لبیک کہنے سے پہلے حکومت کی جانب دیکھیں۔ ناکہ اپوزیشن
کے ایک اشارے پر حکومت کے خلاف روڈ پر نکل جا ئیں۔
اِن سطور کے رقم کرنے تک ضمنی انتخابات کے غیر حتمی غیر سرکاری جیسے نتائج
سا منے آئے ہیں اِس کے مطابق ضمنی انتخابات میں زیادہ تر اپوزیشن سے تعلق
رکھنے والے اُمیدواروں کی اچھی خاصی مارجن سے جیت نے واضح کردیاہے کہ
وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے اپنے پہلے سودِنوں میں عوام میں اپنا
اعتماد کھودیاہے۔ یہیں سے رواں حکومت کے لئے امتحانات اور نئے چیلنجز کے
نئے دریچے کھل گئے ہیں اَب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اِن سے کس طرح نبر د
آزماہوتی ہے، اور عوام میں اپنا کھویا ہوااعتماد کب اور کتنا بحال کروانے
میں کتنی کامیاب ہوتی ہے؟(ختم شُد)
|