ضمنی الیکشن حکومت کی مقبولیت کا ریفرنڈم

ضمنی الیکشن کے نتائج حکومت سازی کے حوالے سے تو کوئی خاص اہمیت کے حامل نہیں ہیں یعنی اِن نتائج کی بناء پر حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ ایک بات ظاہری طور پر خوش آئین ہے کہ جیسی بھی لنگڑی لولی جمہوریت پاکستان میں ہے اِس کو استحکام ملا ہے۔ وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ بہرحال آمریت سے جمہوریت بہتر ہی ہے۔پچھلے پچاس دنوں میں پی ٹی آئی کی حکومت کو جن مشکلات کا سامنا ہے اور جس کے مسائل میں گھری ہوئی ہے اُس کا اندازہ ضمنی الیکشن میں بھی ہوا کہ سعد رفیق اور خاقان عباسی بھی قومی اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں۔پاکستان میں جمہوریت کو استحکام دئیے جانے کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کو کردار اہم ہے۔ تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار نے بھی چوہدری سالک حسین کے مقابلے میں چونتیس ہزار ووٹ لیے۔شاید پاکستانی اسٹبلشمنٹ تحریک لبیک پاکستان کی مقبولیت سے خائف ہے۔ عام انتخابات میں بھی تحریک لبیک نے بائیس لاکھ ووٹ لیے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر طبقہ فکر کو قومی دھارئے میں لایا جائے لیکن تحریک لبیک کے معاملے پر ارباب اختیار کو انداز مختلف ہی ہے۔جماعت اسلامی جے یو پی کی سیاست سب کے سامنے ہے اور اِس وقت اُن کی اسمبلی میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جے یو آئی پھر بھی فعال ہے۔ اِن حالات میں تحریک لبیک کے ساتھ سوتیلا سلوک نہیں کیا جانا چاہیے۔ شہباز شریف گرفتار ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز بھی زیر عتاب ہیں اِن حالات میں ن لیگ کی کارگردگی بہتر ہے۔

ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی 35 نشتوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق لاہور میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی چاروں نشستوں پر مسلم لیگ ن نے کامیابی حاصل کر لی ہے، لاہور میں ’’شیر کی دھاڑ‘‘ نے کھلاڑیوں کے چھکے چھڑا دیئے ہیں۔ این اے 131 کے بڑے معرکے میں خواجہ سعد رفیق نے ہمایوں اختر خان کودس ہزارووٹوں سے شکست دیدی شکست دے کر حکمران جماعت کو حیرت زدہ کر دیا ہے جبکہ این اے 124 لاہور میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تحریک انصاف کے امیدوار غلام محی الدین دیوان کو واضح اور بھاری اکثریت سے شکست سے دو چار کر دیا ہے،لاہور کی صوبائی اسمبلی کی 2 نشستوں پی پی 164 اور پی پی 156 سے بھی ن لیگ کے امیدوار سہیل شوکت بٹ اور ملک سیف الملوک کھوکھر نے تحریک انصاف کے امیدواروں کو چاروں شانے چت کرتے ہوئے فتح حاصل کر کے پی ٹی آئی کو بڑا جھٹکا دے دیا ہے۔

ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کو بنوں میں بھی بڑا جھٹکا لگا ہے،این اے 35 بنوں سیغیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی چھوڑی ہوئی نشست پر متحدہ مجلس عمل کے امیدوار اور سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کے بیٹے زاہد خان درانی نے بڑے مارجن سے تحریک انصاف کے امیدوار مولانا سید نسیم علی شاہ کو شکست سے دو چار کر دیا ہے۔

عمران خان کی حکومت کا آغاز بہت سی توقعات سے ہوا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ عمران نے گذشتہ پانچ سالوں سے اِسی طرح کی سیاست کی ہے کہ بہت زیادہ سنسنی پیدا کی گئی ۔ شائد عمران کی کامیابی کی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ عوام کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوگئے کہ اسٹیٹس کو کو ختم کیے بغیر عام پاکستانی کی حالت نہیں سُدھرئے گی۔ عوام کی طاقت، اسٹیبلشمنٹ کی نوازشات اور نواز شریف کی پاک فوج کے خلاف اور ختم نبوت کے قانون کے خلاف محاذآرائی عمران خان کے لیے اقتدار میں آنے کا سبب بنا۔ نواز شریف کا سیاسی زوال اُن کے ذاتی جابرانہ رویے کا نتیجہ ہے کہ اُن کے اندر کی خود پسندی نے اُن کو جس طرح اپنے حصار میں لے رکھا ہے اُس کی وجہ سے کسی بھی دوسرئے ریاستی ادارئے کو خاطر میں نہیں لاتے رہے اور یوں وہ جیل کی ہوا کھانے کے بعد پھر سے جیل یاترہ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔اور شہباز شریف گرفتار ہو کر نیب کے پاس ہیں۔

واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ نواز شریف ایک نئے انداز میں پاکستانی فوج کے خلاف مہم جوئی شروع کرنے والے ہیں اور شہباز شریف کی تمام تر کو ششوں کے باجود نواز شریف کا ذہن فوج اور عدلیہ مخالفت میں اٹکا ہوا ہے ۔یوں نواز شریف کی سیاست کے عنصر کو ن لیگی محور سے کم کرنے کے لیے شہباز شریف کو گرفتار کرکے اُس کو واقعی اپوزیشن لیڈر بنائے جانے کے لیے عوام میں تاثر دیا جا رہا ہے۔

عمران خان کی حکومت کے دو انتہائی رہنماء جناب فواد چوہدری اور فیاض الحسن چوہان کا رویہ ایسا ہے کہ جیسے وہ اپوزیشن میں ہیں اور وہ ہر وقت لڑنے مرنے کے تیار رہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے پی ٹی آئی کی حکومت کو اِس بات کا ادراک ہے کہ اسٹیٹس کو کو توڑنے کے لیے اِسی طرح کا جارحانہ رویہ ہی اُن کے لیے کار گر ثابت ہوگا۔دوسری طرف پی ٹی آئی کی حکومت نے جو بیانیہ اپنایا ہے کہ اُن کے پاس جادو کی چھڑی نہیں کہ وہ ستر سال کے مسائل چالیس دنوں میں حل کریں۔ اِس بیانیے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا نابالغ پن دیکھائی دیتا ہے اور اِس طرح کا رویہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے کے لیے جس طرح کے بلند بانگ دعوے کیے تھے وہ سارئے کے سارئے جذبات پر مبنی تھے اور عقل سے عاری تھے۔ اِس لیے تحریک انصاف کی حکومت کو اِس انداز کو بدلنا ہوگا کہ ہم اتنی جلدی کچھ نہیں کر سکتے۔ گویا عوام اُن کے اِس بیانیے سے مایوس ہورہے ہیں رہی سہی کسر سوئی گیس اور سی این جی کی قیمتوں میں ہوشروبا اضافہ کرکے نکل گئی ہے۔ عوام کو ریلیف دینے کی بجائے مہنگائی کی چکی میں ڈال دیا گیا ہے۔ عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ ن لیگ اور پی ٹی آئی میں کوئی فرق نہیں رہا۔

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 382747 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More