اعتدال انسان کو متوازن رکھتا ہے، مجموعی طور پر خواتین
میں اعتدال کی کمی ہوتی ہے، وہ جسے اچھا سمجھتی ہیں ، اس کے بارے میں زمین
و آسمان کے قلابے ملانے لگتی ہیں اور اسے میٹھا ہی میٹھا کہنا شروع کر
دیتی ہیں اور جسے برا سمجھتی ہیں ، اس کی اچھائیوں کو بھی پسِ پشت ڈال کر
اسے برا ہی برا اور کڑوا ہی کڑوا کہنے لگتی ہیں۔ہمارے ہاں بعض مردوں میں
بھی زنانہ سوچ پائی جاتی ہے، ان کے ہاں یا تو کوئی میٹھا ہی میٹھا اور یا
پھر کڑوا ہی کڑوا ہوتا ہے۔
عمران خان کے بارے میں بھی ہمارے ہاں یہی رویہ پایا جاتا ہے، عمران خان سے
لوگوں کو جو بڑی بڑی شکایات لاحق ہیں ، ان میں سے چند ایک مندرجہ زیل ہیں:
۱۔انصافی حکومت نے بین الاقوامی پلیٹ فارم پر یمن کے خلاف اور سعودی عرب کے
حق میں ووٹ دیا
۲۔ سعودی ایمبیسی نے اپنے ہی ملک کے صحافی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے لیکن ہماری
حکومت نے مذمت نہیں کی
۳۔ بڑے بڑے دعووں کے باوجود آئی ایم ایف کے سامنے جھک گئے
۴۔ سرکاری اداروں کا عوام کے ساتھ رویہ پہلے کی طرح منفی ہی ہے، جس کی مثال
یہ ہے کہ گزشتہ دنوں بلوچستان پولیس نے ایک زائر خاتون پر گاڑی چڑھا کر جاں
بحق کردیا اور فورٹ عباس پولیس نے خواتین پر بدترین تشدد کیا
۵۔ نواز شریف کو رہا کر دیا گیا
۶۔ فیصل رضا عابدی کو گرفتار کر دیا گیا
اس طرح کےاشکالات کی ایک لمبی فہرست ہے ، ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ رائے عامہ
ایک بہت بڑی پاور ہے، یہ رائے عامہ ہے جو کسی بھی حکمران کی خارجہ و داخلہ
پالیسی کے خد و خال معین کرتی ہے۔ الیکشن کے بعد چونکہ ہماری اکثریت عمران
خان کے نام کی مالا جھپ رہی تھی اور ہم نے رائے عامہ کو فراموش کر کے عمران
خان کے میٹھا میٹھا ہونے کی تسبیح پڑھنی شروع کر دی تھی چنانچہ انہوں نے
ہماری مدح سرائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یمن کے خلاف سعودی عرب کے حق میں ووٹ
دے دیا۔ ورنہ الیکشن سے پہلے جب رائے عامہ یمن کے حق میں تھی تو یہی تحریک
انصاف یمن کے مسئلے پر سعودی عرب کے خلاف تھی۔ اس میں تحریک انصاف کا قصور
نہیں بلکہ وہ لوگ زمہ دار ہیں جو رائے عامہ کو تشکیل دیتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ ترکی میں سعودی ایمبیسی کا اپنے ہی ملک کے صحافی کا زندہ زندہ
ٹکڑے کرنا اور ہماری حکومت کا مذمت نہ کرنا ہے، اس میں ہمیں یہ معلوم ہونا
چاہیے کہ کیا ہمارے ہاں صحافیوں کا قتل اور صحافیوں پر تشدد روز مرہ کا
معمول نہیں۔ دیگ دوسری دیگ سے کیسے کہے کہ تیرا منہ کالا ہے۔
تیسرا مسئلہ آئی ایم ایف کے سامنے جھکنا ہے،یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ جس
قوم کے تھنک ٹینکس اپنی ملت اور قومی وسائل پر انحصار کے بجائے قرضوں اور
بھیک کو ترجیح دیتے ہوں وہاں یہ جھکنا اور بکنا معمول کی بات ہے۔
چوتھا مسئلہ سرکاری اداروں کا عوام کے ساتھ منفی رویہ ہے۔ ہمارے ہاں کی
سرکار بھی اور سرکاری ادارے بھی استعمار کے ایجنٹ ہیں۔ اس کے لئے ہمیں
چاہیے کہ عوام میں یہ شعور بیدار کریں کہ عوام خود اپنی سیکورٹی اور تحفظ
کا بندوبست کریں اور جہاں بھی کسی سرکاری ادارے کے لوگ خصوصاً اگر پولیس
والے لوگوں کو ستائیں ، بھتہ مانگیں یا ان پر تشدد کریں تو ان کی صاف
تصاویر اور ویڈیوز بنانے کا پہلے سے ہی بہترین انتظام کیا جائے تاکہ کرپٹ
اور ظالم افراد کی صحیح شناخت کے لئے حسبِ ضرورت ان کی تصاویر اور ویڈیوز
کو سوشل میڈیا پر اور قانونی اداروں میں بطور ثبوت پیش کیا جاسکے۔اس کے لئے
ضروری ہے کہ عوام کو سوشل میڈیا کے بہترین استعمال کا شعور دیا جائے۔
باقی جہاں تک بات نواز شریف کی رہائی اور فیصل رضا عابدی کی گرفتاری کی ہے
، تو یہ بھی میٹھا میٹھا اور کڑوا کڑوا والی بات ہے۔ اگر کوئی ابھی تک یہ
نہیں سمجھا کہ ہمارے ملک میں حکومتیں کیسے چلتی ہیں اور اگر کوئی عمران خان
کو اب بھی دیگر حکمرانوں سے مختلف سمجھتا ہے اور یا پھر اس کا یہ خیال ہے
کہ عمران خان کوئی تبدیلی لانے والے ہیں تو ایسے آدمی کے زنانہ پن کا کوئی
علاج نہیں۔
ہماری ملکی سیاسی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ عمران خان نہ اچھا ہے اور نہ
برا یعنی نہ میٹھا ہے اور نہ کڑوا بلکہ یہ ہم ہیں جو اعتدال کے راستے سے
اتر چکے ہیں۔ اگر ہم خود اعتدال کے راستے پر آجائیں اور عوام کو ان کے
حقوق کا تحفظ کرنے کا شعور دیں اور رائے عامہ کو قومی مفادات کے لئے بیدار
کریں تو ہم دیکھیں گے کہ عمران خان وہی ہے جو زرداری اور نواز شریف تھے، ان
میں سے کوئی برا یا اچھا نہیں ، ہم نے اپنی اپنی سوچ کے مطابق انہیں برا یا
اچھا اور کڑوا یا میٹھا بنا رکھا ہے۔ |