گزشتہ دنوں سٹیٹ بنک آف پاکستان نے معاشی جائزہ
رپورٹ میں مہنگائی مذید بڑھنے کی پیش گوئی کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ
بجلی، گیس اور ڈالر کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی بڑھے گی ،افراط زر کی شرح
ساڑھے 6 سے ساڑھے 7 فیصد تک رہے گی ،جی ڈی پی میں 6.2 فیصد اضافے کا ہدف
پورا نہیں ہو سکے گا۔ شرح نمو 4.7 سے 5.2 فیصد کے درمیان رہے گی۔ صنعتی
شعبہ سست روی کا شکار ، اور زرعی شعبہ پچھلے سال سے کم کارکردگی دکھائے گا
دونوں شعبوں کی کارکردگی کا منفی اثر سروسز سیکٹر پرپڑے گا۔ سٹیٹ بنک کے
مطابق اکتوبر کے دوسرے ہفتے کے دوران غیر ملکی قرضوں کی واپسی، سود اور
دوسری سرکاری ادائیگیوں کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر میں 21 کروڑ 89 لاکھ
ڈالر کی کمی ریکارڈ آئی جس سے سٹیٹ بنک کے پاس زرمبادلہ کا حجم 8 ارب 8
کروڑ 89 لاکھ ڈالر رہ گیاہے۔بینک دولت پاکستان کی رپورٹ میں بلند معاشی نمو
کو برقرار رکھنے کیلئے سرمایہ کاری میں اضافے کی ضرورت پر زور بھی دیا گیا
ہے۔ جبکہ یہ حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی نئی سیاسی جماعت اور پرانے سیاسی چہرے
بھیس بدل کر نئے روپ میں جلوہ گر ہوتے ہیں تو عوام پاکستان نئی قیادت سے
امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے انتخابات سے قبل بڑے
بڑے دعوے کیے گئے،آئی ایم ایف کے پاس جانے والوں کو فقیر کہا گیا اور یہ
تاثر دیا گیا کہ پی ٹی آئی حکومت کے آتے ہی دودھ و شہد کی نہریں بہنا شروع
ہوجائیں گی۔ قرضوں میں ڈوبی قوم کو جب عمران خان نے برسراقتدار آنے کے بعد
مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھر مار ختم کرنے کے خواب دکھائے تو قوم کو ان کے
روپ میں ایک مسیحا نظر آیا ۔ پاکستانی قوم نئے پاکستان میں سنہرے دور کے
خواب دیکھنے لگی اور عمران خان سے خوشحالی کی نہ جانے کتنی توقعات وابستہ
کرلیں ، غربت و مہنگائی کے خاتمے کے لئے نہ جانے کتنی امیدیں باندھ لیں۔
کیونکہ پاکستانی قوم گزشتہ اکہتر سالوں سے کبھی کسی فوجی ڈکٹیٹر تو کبھی
کسی جمہوری حکومت کے دعوؤوں اور وعدوں کے سہارے محض جوتیاں گھساتی چلی آئی
ہے ۔ مگر نتیجہ یہ نکلا کہ مہنگائی و بے روز گاری اور ملکی قرضوں میں مذید
اضافہ ہو رہا ہے اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے باوجود موجودہ حکمران بھی
کشکول تھامے آئی ایم ایف کے در پہ ہیں۔ جبکہ ڈالرکی مسلسل اڑان کی وجہ سے
مہنگائی میں30فیصدسے زائد تک کااضافہ ہوچکا ہے جس سے عام عوام کی مشکلات
مزیدبڑھ گئیں ہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت بھی جس رفتار سے چل رہی ہے اس میں کردار سے زیادہ گفتار
سے کام لیا جا رہا ہے اور دو ماہ کے حکومتی اقدامات محض ہاتھ باندھنے کی
حکمت عملی سے زیادہ نہیں۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان
عوام پاکستان سے معاشی و اقتصادی ترقی کے جو وعدے اور دعوے کرتے رہے ہیں اب
برسراقتدار آنے کے بعد ان کے برعکس اقدامات اٹھا تے دکھائی دے رہے ہیں،
گزشتہ حکمران جماعتوں نے بھی ایسا قتل عام نہیں کیا جیسا کہ ٹیکسوں اور
قیمتوں میں اضافے کے نام پر عوام کو نشانہ ستم بنانے کی تیاری کی گئی ہے۔
ہوناتو یہ چاہئے تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے وعدوں کو پوراکرتی اورعوام
کوریلیف فراہم کیاجاتامگرافسوسناک امر یہ ہے کہ ریلیف کی بجائے عوام کو
تکلیف دی جارہی ہے۔موجودہ حکومتی اقدامات سے غریب عوام کے مسائل حل ہونے کی
بجائے بڑھتے جارہے ہیں جس سے لوگوں میں مایوسی پھیل چکی ہے، آج عوام کو کسی
بھی قسم کاکوئی ریلیف میسر نہیں۔دعوؤں کے برعکس گیس کی قیمت میں اضافہ
کردیا گیا، روپے کی قیمت ایک ہی دن میں ریکارڈ توڑ گری جس کی وجہ سے قرضوں
کے بوجھ میں 900ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوگیاہے، اس صورتحال پر شہری چیخ
رہے ہیں کہ اس نوع کے فیصلے کرنے میں اسحاق ڈار تو کہیں بہت پیچھے رہ گئے،
اسد عمر رفتار اور قد میں ان سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔ اگر موجودہ حکومت
عوام کو ریلیف فراہم نہیں کرسکتی تو اس کوعوامی مسائل میں اضافہ کرنے کابھی
کوئی حق نہیں ہے۔ اگر غریب پاکستانیوں کے زخموں کا مداوا کرنے کی بجائے
مہنگائی و گرانی کا سونامی ہی لانا تھا تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی
حکومت ان سے کہیں بہتر تھی۔
جبکہ ملک کے سیاسی حالات بھی کچھ اچھے نہیں ، بلاشبہ ماضی میں تو پاکستان
کے ساتھ بہت کچھ ہوچکا ہے، جہاں برا زیادہ اور اچھا کم ہوا ہے، لیکن اس پر
بعد کرنا بات از مرگ واویلے کی طر ح ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ بہتر ہے کہ
ہم آگے کی طرف دیکھیں اور تمام توجہ پاکستان کی ترقی پر فوکس کریں، پاکستان
کو آگے بڑھانا حکومت اور اپوزیشن دونوں کا ہی فرض ہے لیکن کلیدی کردار
ہمیشہ برسراقتدارسیاسی طبقات کا ہوتا ہے۔ حکومت کو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے
اپوزیشن کو گلے سے لگانا اور یہ باور کرانا چاہیے کہ پاکستان کو بلندی کی
طرف لے جانے کے لیے حکومت کو اپوزیشن کے متحرک کردار کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ
معاشی استحکام براہ راست سیاسی استحکام سے جڑا ہوتا ہے،وزیراعظم عمران خان
کو علم ہونا چاہئے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں۔آج
پاکستان معاشی طورپر ایک نازک موڑ پر آن کھڑا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ
ملکی معیشت کو بہتربنانے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر حکمت عملی مرتب کی جائے ۔
اور عام آدمی کو مہنگائی کے بوجھ سے بچانے کی تدبیر اختیار کرکے اشرافیہ کو
براہ راست ٹیکس کے نیٹ میں لایا جائے۔اگر تحریک انصاف کی حکومت غریب عوام
کے حالات زندگی بہتر بناناچاہتی ہے تو اسے آئی ایم ایف کے چنگل سے نکل کر
ملکی وسائل پر انحصار کرنا ہوگا، کیونکہ قرضے حاصل کرنے والے ممالک کبھی
بھی اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوسکتے۔ |