تھر میں صحت کی ناکافی صورتحال اورغذائی قلت کے باعث بچوں
کی بڑھتی ہوئی اموات کے سبب آج کل ایک بار پھر سندھ حکومت کو شدید تنقید کا
سامنا کرنا پڑرہاہے ،رواں برس غذائی قلت کے باعث چار سو سے زیادہ بچوں کی
اموات ہوچکی ہیں،سندھ اسمبلی میں موجود پیپلزپارٹی کے وزیروں کی شان و شوکت
اور ان کے اخباری بیانات دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ ان کے حلقوں کے لوگ اس
قدر آسودہ حال بھی ہوسکتے ہیں ،یہ تمام تر وزیر ان ہی علاقو ں سے منتخب
ہوکر اپنی پرتعیش زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں جہاں کے لوگ خوراک ،صحت ،معیاری
تعلیم سمیت دنیا کی تمام تر سہولیات سے محروم ہیں ،اس کے برعکس سندھ کے ان
حکمرانوں اور ان کے بچوں کے پاس آج دنیا کی کونسی ایسی نعمت ہے جو موجود
نہیں ہے، سندھ کے ان حکمرانوں کے ایسے کون سے کاروبار ہیں جو ان کی شان
وشوکت کو بڑھاتے ہی چلے جارہے ہیں یا پھر یہ بتایا جائے کہ سندھ میں صحت
تعلیم اور صاف پانی اور خوراک کی مد میں ملنے والا اربوں کا وہ بجٹ کہیں ان
ہی شان وشوکت کے اخراجات پر تو نہیں خرچ ہوجاتا؟۔ میں اس میں کوئی الزام
تراشی کرنے کی بجائے اس بات کا فیصلہ عوام پر ہی چھوڑ دیتا ہوں اور اس
تحریر میں کچھ ایسے حقائق بھی عوام کے سامنے رکھنا چاہونگا جو ان کے پاس
ابھی تک نہیں پہنچے ہونگے ، چلیے آگے بڑھتے ہیں تھرپارکر ڈسٹرکٹ میں 6سالوں
کے اندر 365لوگوں نے بیروزگاری اور بھوک سے تنگ آکر خودکشی کی یہاں
287'000خاندانوں میں 12مراحل کے اندر 50کلو مفت گندم فراہم کی گئی، بینظیر
ہاؤسنگ اسکیم کے تحت 500گھر مستحق لوگوں کو دیے گئے ،تھرپارکر میں
245ڈسپینسریاں سندھ حکومت کے ماتحت ہیں جن میں صرف 31کا بجٹ جاری ہوتا ہے
اور اس 31کے بجٹ کو 90ڈسپینسریوں میں بانٹا جاتا ہے ۔ تھرپارکر ڈسٹرکٹ میں
گریڈ 16سے 20تک کے ڈاکٹروں کی 394پوسٹس خالی ہیں مگر موجود صرف
2گائنوکلاجسٹ ہیں ۔ تھرپارکر میں رواں ماہ مرنے والے بچوں کی تعداد 28 ہے۔
2015میں ڈی سی تھرپارکر آصف اکرام نے 17ممبرز جن میں سو ل سوسائٹی ، منتخب
نمائندے ، صحافی بھی شامل تھے تھر ڈولپمنٹ کمیٹی بنائی جس نے تھر میں قحط
کو ختم کرنے کے حوالے سے ایک ڈرافٹ تیار کرکے سندھ اسمبلی میں بھیجا مگر وہ
تاحال کہیں ظاہر نہ ہوسکا ۔یہاں750آر او پلانٹس لگنے تھے جن میں صرف 450 لگ
سکے ہیں جن میں 300کے قریب ناکارہ بنے ہوئے ہیں ۔عمرکوٹ کی جب ہم بات کرتے
ہیں تو عمرکوٹ ڈسٹرکٹ کی 25یوسیز کو قحط زدہ قرار دیا گیاہے یہاں ہسپتال
میں 28بچے داخل ہیں ۔یہاں رواں ماہ مرنے والے بچوں کی تعداد 18 ہوچکی ہے
یہاں سول ہسپتال میں ڈاکٹروں ادویات کی شدید قلت ہونے کے باعث مریضو ں کو
شدید پریشانیوں کا سامناہے۔ سول ہاسپٹل عمرکوٹ کا سالانہ بجٹ تقریبا ساڑھے
4کروڑ ہونے کے باوجود یہاں کوئی ایک سہولت بھی دکھائی نہیں دیتی ،یہاں آر
او پلانٹس کی تعداد 10ہے جو کہ تمام کے تمام بند ہیں ۔ اب زرا چھاچھرو کا
رخ کرتے ہیں چھاچھرو کی عوام کی حالت بھی بلکل ایسی ہی ہے یہاں ٹوٹل450 آر
پلانٹس لگنے تھے اس وقت 150لگ چکے ہیں مگر اس میں 80فیصد آراو پلانٹ ناکارہ
ہیں اگر ہم یہا ں صحت کی بات کریں تو سول ہسپتال چھاچھرو کا بجٹ اکروڑ ہے
میں یہاں خود وزٹ کرکے آیاہوں اس ہسپتال میں اس وقت 10بچے داخل تھے اور روز
4سے 5بچے داخل ہوتے ہیں ،گو کہ چھاچھرو میں مرنے والے بچوں کا ریشو کچھ کم
ہے مگر حالات اتنے ہی سنگین ہیں جتنے کے دیگر قحط ذدہ علاقوں کے ہیں
چھاچھرومیں گندم کی تقسیم 8فیس میں کی جاچکی ہے مگر ان میں کسی ایک مستحق
کا نام بھی نہیں آتا اب باقی یہ کہاں تقسیم ہوئی یہ ان ہی لوگوں سے پوچھا
جائے جو یہ ذمہ داریاں اداکرتے رہے ہیں یہاں بھی ایک سال میں مرنے والے
بچوں کی تعداد 350ہے ۔ رواں ماہ مرنے والے بچوں کی تعداد 5ہے ۔ اب ہم مٹھی
میں چلتے ہیں مٹھی سول ہسپتال میں میں 45سے 50 بچے داخل ہیں جن میں سے
ہسپتال میں روزانہ تین سے چار بچے علاج کی بہتر سہولیات نہ ہونے کے باعث
مررہے ہیں۔ مٹھی سول ہسپتال میں ڈاکٹروں اورادویات کی شدید قلت کی گونج
سندھ اسمبلی میں بھی سنائی دی گئی ہے میں نے خود ان تمام رپورٹوں کو سندھ
کے منتخب نمائندوں اور وزیراعلیٰ کی موجود گی میں پیش کیاہے مٹھی ہسپتال کا
بجٹ ڈبل کرنے کا اعلان کیا گیا مگر تاحال عملدآمد نظر نہیں آیا یہاں اس قدر
مشکلات کے باوجود ٹوٹل چار موبائل میڈیکل یونٹس تھے جن میں سے سنائی یہ دیا
ہے کہ دو وزیراعلیٰ سندھ صاحب اپنے شہر سیہون لے گئے تھے اور خدا کی شان یہ
ہے کہ جو دو مٹھی میں ہی چھوڑ گئے تھے وہ باقی دو دراصل ناکارہ تھے یعنی یہ
دو موبائل یونٹس اگر ٹھیک ہوتے تو چاروں ہی اس وقت سیہون میں موجود ہوتے
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعلیٰ صاحب نوٹس لیتے مگر یہاں تو اربوں روپے
کا بجٹ تو دور کی بات جو چیزیں منگالی گئی ہیں ان پر بھی چھینا جھپٹی کا
کام جاری ہے اور جو خراب ہے ان کی مالیت بھی کروڑوں روپے ہے جن پر توجہ
دینے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے ،دوسری جانب موبائل میڈیکل یونٹس فور
بائے فور نہ ہونے کی وجہ سے مٹھی شہر سے باہر بھی نہیں جاسکتی ۔ اس کے
علاوہ مٹھی شہر میں بڑے آر او پلانٹ میں 22ہزار گیلن پانی جمع کرنے کا ٹینک
تاحال بن نہیں سکا اس لیے شہریوں کو صاف پانی کی بجائے کڑوا پانی پلایا
جارہا ہے ،رپورٹ یہ ہے کہ سندھ حکومت نے پاک اوایس ایس کمپنی کو بجٹ کی رقم
جاری نہیں کی ہے اس لیے کمپنی نے آر او پلانٹس چلانا چھوڑ رکھے ہیں اس طرح
ضلعی حکومت نے بھی بجٹ کی کمی کی وجہ سے انکار کردیا ہے ۔ اس طرح مٹھی میں
اگر خوراک کی صورتحال کچھ یوں ہے مٹھی میں گندم کی تقسیم چار فیس میں 50کلو
فی گھر کی گئی لیکن دیگر اضلاع کی طرح یہاں بھی متاثرین تک نہیں پہنچ سکی
ہیں ۔ مٹھی میں بی ایچ یو ز کی تعداد 46 ہے یعنی قحط زدہ قرار دیے ایک ماہ
سے زیادہ گزر چکاہے مگر امدادی سرگرمیاں شروع نہیں ہوسکی ہیں، جبکہ امن
وامان کی اگر بات کی جائے تو یہاں دن دہاڑے اغوا برائے تاوان ،جھوٹی ایف
آئی آر سے مزدور اور کسانوں کو ہراساں کرکے ان کی زمینوں کو ہتیانا معصوم
بچیوں کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات سمیت متعدد لخراش واقعات کا ہونا معمول
کی بات ہے اس طرح سندھ میں بے شمار ایسے مقامات ہیں جن کازکر تحریر کی لمٹ
سے زیادہ نہیں کیا جاسکتاہے مگر پھر کسی آرٹیکل میں یہ تمام حقائق لانے کی
کوشش کرینگے ، میں سمجھتا ہوں کہ سندھ میں بھی ابھی تبدیلی کا سفر باقی ہے
گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل حکومت کرنے والی سندھ حکومت ان تمام معاملات کو
درست کرنے میں آخر کتنا اور وقت چاہتی ہے ؟ کیا یہ تین دہائیاں کم ہیں ؟
باقی عوام خود سمجھدار ہے ویسے تو یہ ذمہ داری سندھ حکومت کی بنتی ہے مگر
خوشی کی خبر یہ ہے وزیراعظم عمران خان اور صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے
بھی اس تمام ترتشویشانک صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے اپنے وزرا کو سندھ میں
غذائی قلت سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کی ہدایت جاری کی ہیں جس سے امید
یہ ہی کی جاسکتی ہے جو مسائل سندھ حکومت پورے نہ کرسکی ہے وہ وفاقی حکومت
ضرور حل کرنے میں کامیاب ہوجائیگی۔ آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔ |