یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ناصر دُرانی سابق آئی جی پولیس
کا وقت ختم ہو رہا تھا ۔وہ اپنے جانشین کی تلاش میں تھے۔ سابق کمانڈنٹ ایف
سی لیاقت علی خان کے آئی جی پی بننے کی صورت میں دُرانی کو اِسی طرح ہتھکڑی
لگ سکتی تھی جس طرح اَسلحہ و بلٹ پروف جیکٹس کے اسکینڈل میں سابق آئی جی پی
ملک نوید کو صفت غیور شہید نے لگوائی تھیں۔ مگر ناصر دُرانی بچ نکلے ۔ ابھی
موجودہ آئی جی پی خیبرپختونخواہ گریڈ اکیس میں نہیں تھے اس لیئے دُرانی نے
اُس وقت کے ہوم سیکرٹری سید اختر علی شاہ کو دانہ ڈال دیا۔ پہلے پہل شاہ جی
دام میں نہیں آ رہے تھے اور صوبائی انسپکشن ٹیم کے چیئرمین بننے کو ترجیح
دی کیونکہ وہ ناصر دُرانی کے بالمقابل نمبر ون پوزیشن میں کام کر چکے تھے۔
تاہم ایڈیشنل آئی جی پی نعیم خان کے قریبی رشتہ دار ڈپٹی کمانڈنٹ ایف آر پی
میاں اِسرار باچا نے ایک صوبائی وزیر میاں جمشید کے ہمراہ شاہ جی سے ملاقات
کی اور اُن کو واپس پولیس میں آنے پر راضی کیا اور پھر معاملات طے پا گئے۔
شاہ جی واپس آگئے مگر ناصر دُرانی نے ہمیشہ اُ ن کو شک کی نگاہ سے دیکھا
اور ذیادہ تر مشورے صلاح الدین محسود اور اُن کی ٹیم سے جاری رکھے۔شاہ جی
نے آرام سے بیٹھ کر مستقبل کے لیئے ہوم ورک شروع کیا ، بطورِ ایڈیشنل آئی
جی ہیڈکوارٹرز اُنہوں نے ناصر دُرانی اور میاں آصف سابق ایڈیشنل آئی جی پی
کے خلاف بہت سارا مواد جمع کیا، آئی جی پی آفس کا عملہ بھی مجبوراًساتھ
دیتا رہا کیونکہ وہ کسی وقت بھی آئی جی پی لگ سکتے تھے،شاہ جی کو جب قائم
مقام آئی جی کا چارج ملا تو سب کلرکوں اور ماتحت عملہ نے وہ باتیں اُگل دیں
اور وہ تمام ضروری کاغذات اُن کی میز پر رکھ دیئے جس کا جاننا اُن کے لیئے
ضروری تھا۔اِن باتوں کی ناصردُرانی کو بھنک پڑ گئی اور ڈر گئے کہ میرا
مجوزہ جا نشین کسی بھی وقت میرا انجام ملک نوید کی طرح کر سکتا ہے اس لیئے
دُرانی نے پی ٹی آئی میں اپنے تمام تعلقات بروئے کار لاتے ہوئے شاہ جی کا
نام اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی طرف سے وزیر اعظم کے نام نئے آئی
جی پی کی سمری میں تیسرے نمبر پر ڈلوایا۔ ساتھ ہی ساتھ میڈیا کے بعض دوستوں
کے ذریعے وزیر اعلیٰ کو یہ پیغام دیا کہ شاہ جی کے اے این پی سے گہرے مراسم
ہیں اور اِن کے پولیس اصلاحات کو شاہ جی سے سخت خطرہ ہے اور اس خطرے کی
صورت میں وہ اگلا الیکشن ہار سکتے ہیں ، دُرانی کی چال کامیاب ہوئی اور شاہ
جی اپنے جمع شدہ کاغذات سمیت گھر آ گئے ۔ صلاح الدین محسود جس نے چھٹی کی
درخواست دی تھی تو وہ آئی جی بن گئے، وزیر اعلیٰ کی سمری بھی شاید اتنی
جلدی منظور نہ ہوتی مگر شاہ جی نے ایڈیشنل آئی جی پی اسپیشل برانچ صلاح
الدین محسودسے اختیارات لے کر ایڈیشنل آئی جی پی نعیم خان کو دے دیئے ، اس
نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور ناصر دُرانی نے حکومت کو شاہ کے "خطرناک
عزائم " سے آگاہ کیا اور ڈرایا، شاہ جی کے پاس اب اس کے سوا کچھ بھی نہیں
تھا کہ وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے اور جمع شدہ مواد کسی ذریعے سے نیب تک
پہنچائے ۔شاہ جی کو قریبی دوستوں نے مشورہ دیا کہ وہ ایسا نہ کریں اور ایک
پختون آئی جی کو چلنے دیں مگر وہ "اُصولوں کی خاطر" لڑنے پر ڈٹے رہے ۔ شاہ
جی کو اپنے قریبی رشتہ دارسابق آئی جی پی اکبر ہوتی کی حمایت بھی حاصل رہی
جو ایس پی کے زمانے سے صلاح الدین محسود سے رنجش رکھتے تھے۔ شاہ جی کا کیس
بھی بیرسٹرمسرور شاہ نے لڑا جو اکبر ہوتی کے داماد ہیں۔ اِس لڑائی میں شاہ
جی سے چند قریبی دوست الگ ہو گئے اور ماتحت عملہ بھی واپس "جیسے تھے"کی
پوزیشن میں چلا گیا،یہ جمع شدہ مواد وقتاً فوقتاً نیب کے دفاتر میں پہنچتا
رہا۔ اِس دوران ایک اہم رینج میں تعینات ڈی آئی جی کے ہاتھوں چند چیزیں لگ
گئیں۔ یہ "مال مسروقہ" اس کے ایک قریبی دوست کے ذریعے چیئرمین نیب تک پہنچا
دیا گیا کہ پاکستان میں بچے اس لیئے پولیو کا شکار ہوتے ہیں کہ پولیس والوں
نے پولیو سیکورٹی کی رقم ہڑپ کر ڈالی ہے۔ چیئرمین نیب نے کاروائی کی مگر
اصل نشانہ ناصر دُرانی کے اثاثہ جات اور کرپشن تھی۔ یہ بات سب کو معلوم
تھاکہ بے چارے ایس پیز یا ڈی آئی جیز صاحبان نے اِن پیسوں سے پال اور پاس
اور ڈی آر سی بنائی تھی اِن کا کوئی قصور نہ تھا، اس کیس کو ختم کرانے کے
لیئے ناصر دُرانی نے کئی بار نیب کو فون کیئے اور روز روز صلاح الدین محسود
اور ڈی آئی جی محمد طاہر پر دَباؤ ڈالتے رہے کہ وہ ہر حال میں یہ کیس بند
کرائیں۔ اس بارے میں آئی جی پی اور ڈائریکٹر جنرل نیب کے درمیان ایک خفیہ
ملاقات بھی ہوئی ، دوستوں کے ذریعے گلے شکوے بھی ہوئے ، آئی بی کے سربراہ
ڈاکٹر محمد سلیمان اور ڈی آئی جی اَول خان صافی سمیت کئی اعلیٰ اَفسران نے
یہ کیس ختم کرانے کے لیئے بہت ذیادہ محنت کی ، پس پردہ اور بھی افسران نے
نیب کے ہاتھ روکنے کی بھرپور کوشش کی کہ اسلحہ اِسکینڈل کی طرح ایک اور
اسکینڈل نہ سامنے آئے۔ یہ اتحاد و اتفاق پولیس میں پہلی بار دیکھنے میں
آیا۔ویسے بھی سب اس حمام میں ننگے تھے۔ اور سب ایک ساتھ جا سکتے تھے۔سب کا
مشترکہ مؤقف تھا کہ پولیس "بے گناہ" ہے جبکہ دوسری طرف ناصر دُرانی کے خلاف
اثاثہ جات کی انکوائری کی استدعا کی گئی تھی۔ مختلف لوگوں نے مختلف زاویوں
سے خطوط لکھے جن میں چند ایک ثبوت کے ساتھ خطوط سی پی او کے ایک سپرنٹنڈنٹ
دو ڈی ایس پیزاور ایک ایڈیشنل آئی جی پی کے پاس بھی ہیں۔دُرانی کی سب سے
ذیادہ مخالفت اُن افسران نے کی جن کو پی ایس پی سے نکال کر بلوچستان بھیجا
گیا، اِن لوگوں کا قصور یہ تھا کہ وہ اپنے لیئے الگ کیڈر مانگ رہے تھے اِن
افسران کو دُرانی کی مخالفت میں سابق چیف سیکرٹری امجد علی خان اور
وزیراعظم کے موجودہ سیکرٹری اعظم خان کی حمایت حاصل تھی، اس صورتحال سے بھی
شاہ جی بخوبی واقف تھے کیونکہ یہ اَفسران بھی اے این پی دور میں بڑی بڑی
اہم پوسٹوں پر رہ چکے تھے جن کو دُرانی کے بلوچستان بھجوایا۔ شاہ جی نے
ایکسپریس ٹربیون اور روزنامہ ایکسپریس میں کھلے عام ناصر دُرانی کے پولیس
اصلاحات کو ڈھکوسلہ اور کرپشن کی جڑ قرار دیا۔ اپنے پختون تھنک ٹینک کے
اجلاسوں اور بیانات میں وہ آج بھی ناصر دُرانی کو نشانہ بناتے ہیں۔اب بعض
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس کے نوجوان اَفسران نے جنگ جیت لی ہے اور
چیئرمین نیب سے پولیوکیس اینٹی کرپشن کو بھیجنے اور ناصر دُرانی کے اثاثہ
جات کی انکوائری بند کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں، مگر یہ کیسے ممکن ہو
سکتا ہے ؟ناصر دُرانی کے اثاثہ جات میں لاہور، ملتان اور اسلام آباد کے
بنگلے اور جائیدادیں سرفہرست ہیں ۔ جواِن کے اصلاحات جھوٹ کا پلندہ ہے اس
لیئے ناصر دُرانی کا مخالف گروہ اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک
ناصر دُرانی کے اثاثہ جات کی انکوائری نہیں کی جاتی۔
|