دسہرہ کے موقع پر مودی جی نے دہلی کے رام لیلا میدان میں
’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ والا نعرہ پھر سے بلندکیا لیکن آر ایس ایس نے
ناگپور سے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ اب یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی اس لیے
بھلائی اسی میں ہے کہ ۲۰۱۹ کے انتخاب میں اپنا آخری ہتھیار رام مندر باہر
نکال لو۔ زعفرانی عناصر کے سارے حربے جب ناکام ہوجاتے ہیں تو انہیں رام جی
کی یاد آتی ہے۔ روادارمکھوٹے کے اندرسرسنگھ چالک موہن بھاگوت کا دم جب
گھٹنے لگا تو وہ بابر کا نعرہ لگا کر اس میں سے باہر نکل آئے۔ انہوں نے بی
جے پی کو یاد دلایا کہ لوگ پوچھتے ہیں ’اقتدار کے باوجود مندر کیوں نہیں
بنا؟‘ ۔ بھاگوت جی بھول گئے کہ یہ سرکار تو’ سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ کے
لیے آئی تھی ۔ اس لیےپوچھنا تو یہ چاہیے کہ چار سال ہوگئے وکاس کیوں نہیں
ہوا؟ لیکن ووٹ گھٹانے والا سوال پوچھنے کی غلطی بھلا کوئی بھکت کیسے
کرسکتاہے ؟
آر ایس ایس شروع سے فکر و نظر کی سطح پر منافقت کا شکار رہا ہے۔ ابتدائی
دور میں اس نے کانگریس اور ہندو مہاسبھا سے اپنے آپ کو دور رکھنے کی کوشش
کی ۔ اس تذبذب نتیجہ یہ ہوا کانگریس نے اس کو تنگ نظر اور فرقہ پرست کہا
اور ہندو مہا سبھا نے اسے بزدل اور ڈرپوک کے لقب سے نوازہ ۔ گاندھی جی کے
نظریات کی سخت مخالفت کی مگر گوڈسے کی حرکت سے پلاّ جھاڑ لیا۔ خود غیر
سیاسی ثقافتی تنظیم کہلانے والوں نے جن سنگھ جیسی سیاسی جماعت قائم کردی ۔
اس مرتبہ بھی بھاگوت جی نے اپنی تقریر میں کہا ’’ اپنے آغاز سے ہی آریس
ایس نے خود کو جماعتی سیاست یعنی ذات پات سے متاثرسیاست سے دور رکھا ہے اور
آگے بھی ایسا ہی کرے گی ۔ لیکن ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے سوئم سیوک
(کارکنان سنگھ) قومی مفاد کے حق میں ایک شہری کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری
ادا کرتے رہیں گے ۔ یہ قوم کے مفاد میں ایک لازمی ہدف ہے۔‘‘ ایک طرف تو یہ
پاکھنڈی بیان ہے دوسری طرف ہرسال دسہرہ کے موقع پر نشر ہونے والی سر سنگھ
چالک کی تقریر یں جو اس موقف کو آئینہ دکھاتی ہیں ۔
رام مندر کی یاد اس سے قبل موہن بھاگوت جی کو ۶ سال قبل ۲۰۱۲ میں آئی تھی۔
اس وقت تک بی جے پی نے یہ طے نہیں کیا تھا کہ آئندہ انتخاب کس بنیاد پر
لڑا جائے گا؟ بھاگوت جی نے اندازہ لگایا کہ پھر سے انتخاب میں رام مندر کی
ضرورت پیش آئے گی اس لیے ڈیڑھ سال قبل یہ راگ چھیڑ دیا تاکہ رام مندر کے
حق میں ہوا بنائی جائے۔ بھاگوت جی کی قیاس آرائی پر مودی جی نے پانی پھیر
دیا۔ ۲۰۱۳ کی ابتداء میں بی جے پی نے طے کیا اس بار رام مندر کے بجائے
بدعنوانی، مہنگائی اور روزگار پر انتخاب لڑا جائے ۔ اچھے دن کے خواب
دکھائیں جائیں اور وکاس کی بات جائے ۔ یہی وجہ ہے ۲۰۱۳ کے اندر بھاگوت جی
نے جو رام مندر کو پس پشت ڈالا تو اب ۶ سال بعد اور آئندہ انتخاب سے ۶ ماہ
قبل پھر سے رام جی کو یاد کیا ۔ان کی اس تقریر کو سن کر عوام کو وہ پرانا
نعرہ یاد آگیا ’’جب جب چناو آتے ہیں مندر وہیں بناتے ہیں‘‘۔
۲۰۱۳ میں بھاگوت جی نے رام مندر کو بھلا کر بابر کے بجائے ’نوٹا ‘ کے
خلاف دھرم یدھ چھیڑ دیا۔ انہوں نے فرمایا’’نوٹا کی رائے سب سے زیادہ غیر
موثر کے حق میں چلی جاتی ہے ۔ اس لیے صد فیصد ووٹنگ ہونی چاہیے اور موجود
میں جو بہتر کو اس کو ووٹ دینا چاہیے‘‘۔ بھاگوت جی خود بی جے پی کے امیدوار
کو بہترین انتخاب نہیں سمجھتے لیکن مجبوری میں انہیں موجود لوگوں میں
نسبتاً بہتر کہہ کر حمایت کررہے تھے۔ اسی کے ساتھ بھاگوت نے یو پی اے پر
اقلیتوں کی خوشنودی کے لیے ہندووں کے ساتھ نظریہ ، الفاظ اور اعمال کی سطح
پر تفریق و امتیاز برتنے کا الزام لگا دیا تھا۔ اس کے علاوہ ۲۰۱۳ میں
بھاگوت جی نے مہنگائی میں اضافہ اور روپیہ کے قدرو قیمت میں کمی پر کانگریس
حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا تھا لیکن فی الحال مہنگائی ا ٓسمان پر ہے روپیہ
پاتال میں ہے اس کے باوجود بھاگوت جی دھرت راشٹر بنے ہوئے ہیں کیا یہ
جماعتی سیاست نہیں ہے؟ قومی معیشت پر دہاڑیں مار مار کر رونے والے بھاگوت
جی کی آنکھوں میں نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے باوجود ایک آنسو نہیں آیا۔
سمجھ یہ نہیں آتا کہ بھاگوت جی نے ہندوستان کی عوام کو نرا بےوقوف سمجھ
رکھا ہے یا وہ خود احمقوں کے سردار ہیں؟
مودی سرکار کے ۶ ماہ بعد جب ۲۰۱۴ کا دسہرہ آیا تو بھاگوت جی خوشی سے
پھولے نہیں سمارہے تھے ۔ انہوں نے فرمایا تھا ’’اس سال کا ماحول بالکل
مختلف ہے اور ہر کوئی محسوس کرسکتا ہے‘‘۔چونکہ پہلی بار ان کی تقریر
دوردرشن پر نشر ہورہی تھی اس لیےکوئی اور نہ سہی تو بھاگوت خود نیا نیا
محسوس کررہے تھے ۔ انہوں نے سرکار کی معیشت ، قومی تحفظ ، بین الاقوامی
تعلقات اور غیر قانونی تارکین وطن کو آسام و بنگال میں آنے سے روکنے کے
اقدامات کو دل کھول کر سراہا تھا ۔ آج معیشت تباہ ہوچکی ہے، قومی تحفظ کے
باب میں ایک طرف ہجومی تشدد کے واقعات رونما ہورہے ہیں اور دوسری جانب
شمالی ہندوستان کے لوگوں سے گجرات سے بھگایا جارہا ہے۔ سناتن والے بم بناتے
ہوئے پکڑے جارہے ہیں ۔ بین الاقوامی تعلقات میں چین کبھی ڈوکلام میں
آنکھیں دکھاتا ہے تو کبھی ہماچل میں دھونس جماتا ہے۔ خارجہ پالیسی کی
ناکامی کے سبب سابق ہندو راشٹر نیپال چین کی گود میں جاچکا ہے ۔سری لنکا کا
صدر ہندی تفتیشی ایجنسی پرقتل کا الزام لگا دیتا ہےمگر بھاگوت جی حکومت پر
تنقید سے گریز فرماتے ہیں ۔ کیا یہی جماعتی سیاست سے پرے رہنا ہے؟
۲۰۱۵ کے اندر تو سنگھ کی بلی پوری طرح تھیلے سے باہر آگئی۔ بھاگوت جی نے
علی الاعلان گھریلو ایندھن کے معاملے میں رضاکارانہ رعایت کو واپس کرنے کے
پرپگنڈے کی دل کھول کر تعریف کی ۔ ایسا لگتا تھا جیسے صدر اور گورنر کی طرح
وہ بھی سرکار کا فراہم کردہ خطبہ پیش کررہے ہیں۔ بھاگوت جی کی آنکھوں پر
زعفرانی عینک نہ ہوتی تو انہیں پتہ چلتا کہ عالمی سطح پر تیل کے بھاو بہت
گر ے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت اپنے ہی شہریوں کو لوٹ رہی ہے اور
سرمایہ داروں پر ملک کی دولت لٹا رہی ہے۔ انہیں اس استحصالی ذہنیت کے خلاف
صدائے احتجاج بلند کرنی چاہیے تھی اور وہ ایسا ضرور کرتے اگر غیر بی جے پی
حکومت برسرِ اقتدار ہوتی لیکن اپنے منظور نظر کو عوام کے سامنے ڈانٹنا ہر
کسی کے بس کی بات نہیں ۔ویسے مودی جی کی سرزنش کرنے کی جرأت تو بھاگوت جی
اکیلے میں بھی نہیں کرسکتے۔ پروین توگڑیا کا انجام ان کے سامنے ہے ۔ مودی
جی نےجس طرح توگڑیا کو وی (وشو)ایچ پی سے ای(انٹرنیشنل) ایچ پی کا صدر
بنادیا اس کو دیکھ کر سنگھ پریوار کا کوئی بھی ان کی جانب نگاہِ غلط ڈالنے
کی ہمت نہیں کرسکتا۔ ۲۰۱۵ میں موہن جی نے ڈھکے چھپے الفاظ یکساں سول کوڈ
اور آبادی پر کنٹرول کرنے پالیسی نافذ کرنے کا مشورہ دیا لیکن عدالت عظمیٰ
اور مودی سرکار نے اسے نظر انداز کردیا۔
۲۰۱۶ کے دسہرہ سے قبل مودی جی نےشب خون مار کر نوٹ بندی کردی تھی ۔ اس
معاشی نس بندی نے قومی معیشت کو لہو لہان کردیا تھا ۔ سارے ملک میں
افراتفری پھیلی ہوئی تھی لوگ اے ٹی ایم قطاروں میں دم توڑ رہے تھے اور امیت
شاہ جی اپنا کالا دھن سفید کررہے تھے لیکن ان سارے مسائل سے بے نیاز بھاگوت
جی گئو ماتا کا قصہ چھیڑ کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے فرمایا مخلص گئو سیوکوں کا
ان ناپسندیدہ عناصر سے موازنہ مناسب نہیں ہے جو ا س مسئلہ کو اٹھاتے ہیں
اور اپنے ذاتی یا سیاسی مفاد ات کی خاطر افواہیں پھیلاتے ہیں۔ ۲۰۱۶ میں بی
جے پی کی حمایت سے محبوبہ مفتی کو وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا اس لیے بھاگوت
جی قومی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور مستحکم کرنے پر زور دیا اور ہندو پنڈتوں
کی وادی میں بازآباد کاری کا خواب دیکھا ۔ دوسال بعد محبوبہ مفتی کی حکومت
برخواست ہو چکی ہے ۔ کشمیر پر سنگھ کاگورنر راج ہے اور بلدیاتی انتخاب میں
قومی سرگرمیوں کے فروغ کی قلعی کھل چکی ہے۔
حال میں منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخاب میں وادی کشمیر کے اندر صرف ۲۷ء۴
فیصد رائے دہندگان نے ووٹ دیا ۔ ان میں سے کتنے حفاظتی دستوں کے لوگ تھے کو
ئی نہیں جان سکتا ؟ بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے قبل ۲۰۱۱ میں پنچایت
انتخاب کے اندر ۸۰ فیصد ووٹنگ ہوئی تھی ۔ اس سے پہلے ۲۰۰۵ میں ۴۵ فیصد
لوگوں نے ووٹ دیا تھا ۔ انتخابی عمل میں عوام کی حصہ داری کو بلا واسطہ
استصواب قرار دیا جاتا تھا لیکن اب حالت ۱۹۸۹ سے بھی خراب ہوگئے ہیں اب اس
کو بھاگوت جی کیا کہیں گے؟ اور اس سنگین صورتحال کے لیے کس کو ذمہ دار
ٹھہرائیں گے؟ ایسے میں اگر انتخابی عمل سے دوری کے لیے دہشت گردوں کے خوف
کو ذمہ ٹھہرایا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بی جے پی اس کو کم کرنے
میں ناکام ہوگی ہے۔ بیچارے بھاگوت جی کشمیری پنڈتوں تو کجا وہاں موجود
حفاظتی دستوں کا دکھ درد بھی بھول چکےہیں ۔
گزشتہ سال کا دسہرہ جی ایس ٹی کی سوغات لے کر آیا تھا لیکن اس کی پریشانی
اس کو ہو جو ٹیکس ادا کرتا ہے ۔ ہندوستان میں سنگھ سیوک سے بھلا کون ٹیکس
وصول کرنے کی جرأت کرسکتا ہے اس لیے بھاگوت جی نے پاکستان اور چین کے خلاف
مضبوط وٹھوس اقدامات کا مطالبہ کردیا ۔ ہندوستانی عوام کے بے شمار مسائل کو
بھول کر وہ سرحد کے آس پاس گھومتے رہے ۔ انہوں نے روہنگیا پناہ گزینوں کو
ہندوستان کی سالمیت اور تحفظ کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ۔ اس کا اثر یہ
ہوا کہ بی جے پی کی مرکزی حکومت نے ۷ پناہ گزینوں کو میامنار کے حکام کو
سونپ دیا اس طرح گویا وہ عظیم خطرہ ٹل گیا۔ بھاگوت جی ناگپور سے ہرسال دیش
بھکتی کے پروچن دیتے ہیں لیکن اسی سال ناگپور میں دسہرہ سے ۳ دن قبل
پاکستانی آئی ایس آئیکے لیے جاسوسی کرنے والا نشانت اگروال گرفتار ہوگیا۔
وہ ناگپور کے حساس برہموس مزائل یونٹ (ایرو اسپیس سنٹر) میں پاکستانی آئی
ایس آئی اور امریکی انٹلیجنس کے لئے کام کرتا تھا۔ اس نے برہموس مزائل کی
جانکاری ان ممالک کو فراہم کی تھی ۔ اب تو بھاگوت جی کو پتہ چل جانا چاہیے
کہ اصل خطرہ کہاں ہے؟
روہنگیا پناہ گزین کا راگ الاپنے والے بھاگوت جی کی حالیہ تقریر کے دوران
ٹیلی ویژن کے پردے پر یوگی جی کے اتر پردیش میں بی ایس ایف جوان اچھوتانند
مشرا کے پاکستانی جاسوسوں کو اہم جانکاری دینے کے الزام میں گرفتاری کی
بریکنگ نیوز نشر ہورہی تھی۔ یہ جوان بی جے پی کے مدھیہ پردیش میں ریوا کا
رہنے والا ہے۔ ان واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سنگھ کے بھاشنوں کو
ملک کےہندو نوجوان کتنی سنجیدگی سے لیتے ہیں ۔ کاش بھاگوت جی ان کی جانب
توجہ فرماتے لیکن ان کی نظر تو آئندہ انتخاب پر ہے اس لیے انہوں نے فرمایا
’’اگر ہم کوئی ایسا فیصلہ چاہتے ہیں جس پر افسوس نہ کرنا پڑے تو اپنی ذات ،
محدود جذبات ، ذات پات کی معمولی انا، زبان اور علاقائیت کا تعلق سے اوپر
اٹھ کر قومی مفاد کی برتری کو پیش نظر رکھنا ہوگا‘‘۔ کاش کے بھاگوت جی یہ
تلقین مرکزی حکومت کو کرتے تاکہ وہ نیرو مودی اور وجئے ملیا کو ملک کی دولت
لوٹ کر بھاگنے سے روکتی۔ قومی مفاد کا خیال کرکے وہ رافیل کے سودے سے
سرکاری کمپنی ایچ اے ایل کو نکال کر اسے ۴۵ ہزار کروڈ کے مقروض انل امبانی
کو نہیں نوازتی ۔ بھاگوت جی وضاحت فرمائیں کہ کیا ایسی حکومت کو ہٹانا قومی
مفاد میں نہیں ہے؟ ایسا لگتا ہے انہیں کو اندازہ ہوگیا کہ وہ افسوسناک دن
جلد ہی آنے والے ہیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے سویم سیوکوں کو خبردار کردیا
ہے۔
آر ایس ایس کا قیام ہندو سماج کو متحد و منظم کرنے کے لیے ہوا تھا ۔ ہر
سال دسہرہ کے دن سر سنگھ چالک اس نصب العین کو تازہ کرتے ہیں لیکن اس سال
جب وہ ناگپور میں ہندووں کے اتحاد کی کوشش کررہے تھے تو ممبئی کے اندر
ہندوتوا دی شیوسینا نے بی جے پی کو ایک سانس میں تین طلاق دے دی اور وہ بھی
رام مندر کی شرن میں چلی گئی۔ ویسے سینا اور بی جے پی کے ازدواجی تعلقات
ایسے ہیں ایک لمحہ میں یکمشت تین طلاق ہوتی ہے اور دوسرے ہی پل بغیر حلالہ
کے من مٹاو ہوجاتا ہے۔ اس ’تو تو میں میں‘ کے چلتے شیوسینا کو یہ بتانا
ہوگا کہ بی جے پی کے ساتھ ایسی زبردست شکایا ت کے باوجود وہ ’می ٹو‘ کا
نعرہ بلند کرکے این ڈی اے کی مرکز اور صوبائی حکومتوں سے الگ کیوں نہیں
ہوجاتی ؟ وہ کون سی مجبوریا ں ہیں جو اسے چندرا بابو کی طرح بغاوت کا علم
بلند کرنے سے روکتی ہیں ؟ ہندو تواوادیوں کا یہ پرانا کھیل ہے کہ جب جی میں
آتا رام مندر کا نعرہ لگا تے ہیں اور جب چاہتے ہیں اسےبھول جاتے ہیں۔
ادھو جی نے مودی جی سے سوال کیا کہ وہ ان چار سالوں میں ایک مرتبہ بھی
ایودھیا کیوں نہیں گئے؟ ساتھ ہی اعلان کیا کہ ۲۵ نومبر کو وہ خود ایودھیا
جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ وہ خود ابھی تک ایودھیا کیوں نہیں گئے؟ نیز بالا
صاحب ٹھاکرے نے اپنی پوری زندگی میں ایودھیا کا سفر کیوں نہیں کیا؟ بابری
مسجد کو شہید کرنے والے جن دہشت گردوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے وہ
جارہے ہیں ان میں شیوسینا کے کتنے کا ر سیوک تھے ؟ ایسا کیوں ہوا تھا کہ
شیوسینا کے رہنمامنوہر جوشی کی قیادت میں روانہ ہونے والا قافلہ ایودھیا
جانے کے بجائے کولکاتہ پہنچ گیا اور وہیں سے لوٹ آیا ؟ ان تلخ سوالات کے
ساتھ ادھو جی کو یہ بتانا پڑے گا کہ انتخاب کے قریب آتے ہی ایودھیا جانے
کی ضرورت کیوں آن پڑی ہے؟
ایسا لگتا ہے کل یگ کی رامائن فی الحال ہندوتوا وادیوں کی مہابھارت میں
تبدیل ہو نے جارہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کروکشیتر میں جب یوگی اور ادھو
آمنے سامنے ہوں گے تو کورو کون کہلا ئے گا اور پانڈو کسے کہا جائے گا؟ اس
وقت ایودھیا میں کرشن کا سوروپ دھار کر پروین توگڑیا ضرور ادھوجی کی حمایت
کریں گے اور بھاگوت جی یوگی کے ساتھ ہوں گے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ کل یگ کے
رام بھکت ایودھیا میں ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار ہیں ۔ ایودھیا کے ویسے
تو کئی معنیٰ ہیں لیکن ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس کے خلاف جنگ نہ کی جائے۔
فی الحال یہ سارے لوگ ایودھیا پر فتح حاصل کرنے کی خاطر یُدھ ّ(جنگ ) کررہے
ہیں۔ اس جنگ کا بگل بجانے کے لیے ان لوگوں اس دن کا انتخاب کیا جس دن رام
جی نے راون کو سری لنکا میں شکست فاش سے دوچار کیا تھا۔ اس نئی جنگ میں کون
کس کو دھول چٹاتا یہ تو وقت ہی بتائے گا؟ ایودھیا کے معنیٰ ناقابلِ تسخیر
کے بھی ہوتے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کل یگ میں اسے توگڑیا مسخر کرتے ہیں یا
بھاگوت ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے اس کی تسخیر یوگی یا ادھو میں سے کسی ایک ذریعہ
عمل میں آئے؟ خیر انجام جو بھی ہو لیکن وہ یقیناًبی آر چوپڑہ کی مہا
بھارت اور رامانند ساگر کی رامائن سے زیادہ دلچسپ ہوگا۔ |