گیلانی صاحب ، ہتھ ہولا رکھیں

جناب وزیر اعظم نے اعلان فرمایا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کے لیے تین ارب روپے کی لاگت سے نئے لاجز کی تعمیر کے ساتھ ساتھ پارلیمانی لاجز اور پارلیمینٹ ہاؤس کے درمیان ایک سرنگ بھی تیار کی جائے گی تاکہ انہیں براہ راست اپنے گھروں، سے پارلیمان اور پارلیمان سے گھروں تک آتے ہوئے باہر کی ہوا نہ لگے۔ یوسف رضا گیلانی نے اس خصوصی اہتمام کے لئے واشنگٹن کا حوالہ بھی دیا ہے جہاں پارلیمینٹ تک جانے کے لئے ایک زیر زمین راستہ بنایا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق تعمیراتی ٹھیکہ جناب وزیر اعظم کے ایک دوست فرم کو دیا جا رہا ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ لاگت کا تخمینہ ،حقیقی تخمینے سے کم و بیش35فیصد زیادہ ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی کے اس اعلان کے جواب میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان نے بھر پور عوامی ترجمانی کرتے ہوئے وزیر اعظم کے نام اپنے تفصیلی خط میں نہ صرف اس منصوبے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے بلکہ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس طرح کے منصوبوں میں اقرباء پروری پہلے ہی سے انتہاؤں کو چھوتی کرپشن کو مزید بڑھاوا دے گی۔

اپوزیشن لیڈر کے خط کے جواب میں وزیر اعظم کیا اقدام کرتے ہیں؟ یہ جاننے کے لئے تو ابھی چند روز انتظار کرنا ہوگا لیکن سردست اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے حکومت کو دیئے گئے ایجنڈے اور اس میں کرپشن کو ختم کرنے کے سرفہرست مطالبے کے بعد تین ارب روپے کی لاگت سے نئے پارلیمنٹ لاجز کے قیام کے اعلان نے بڑی حد تک اس ایجنڈے پر عمل کے حکومتی وعدے کی قلعی کھول دی ہے جبکہ سادگی کا درس دینے والے سید یوسف رضا گیلانی اپنے ہی منہ سے کئے گئے اس اعلان کے رد عمل میں بنی بنائی ساکھ کھوہ کھاتے ڈالنے کا سامان کر چکے ہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت اپنی ہی سادگی اپناؤ مہم پر عملدرآمد کے اقدامات کرتی لیکن نتیجہ اس مہم کے سلسلہ میں لگائے جانے والے نعروں کے برعکس برآمد ہوا ہے جس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کو یا تو ملک میں بدعنوانی کو ”روٹین میٹر“ سمجھتے ہوئے نظر انداز کر رہی ہے یا پھر واقعی اسے اس سنگینی کا ادراک نہیں۔ اگر تو حکمران کرپشن اور لوٹ مار کو ”معمول“ سمجھ کر اپنے پیش روؤں کو پچھاڑنے کے درپے ہیں تو پھر سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے ان کا اللہ ہی حافظ ہے لیکن اگر واقعی ان کو سنگینی کا ادراک یا علم نہیں تو یہ مسئلہ تھوڑا سا چودھری نثار علی خاں نے حل کر دیا ہے ، اعدادوشمار کی روشنی میں باقی تفصیلات فراہم کرکے ہم اپنے عوام کا حصہ ہونے کا حق ادا کئے دیتے ہیں۔

بلاشبہ ارکان پارلیمنٹ کو ان کی عوامی خدمات کے عوض کچھ سہولتیں بھی درکار ہوتی ہیں لیکن ایک ایسے وقت میں جب پہلے ہی بدترین طرز حکمرانی کے نتیجے میں پارلیمنٹ لاجز میں بعض کنٹریکٹرز اور ٹھیکیدار دندناتے پھر رہے ہوں، ارکان پارلیمنٹ کو ان کی ترقیاتی سکیموں پر کھلے عام بھاری کمیشن اور کک بیکس کی پیشکش کی جارہی ہو یہ اعلان یقینی طور پر تشویشناک ہے ۔ ایک ایسے وقت میںجب عوام دشمنی کی حد انتہا کو چھو رہی ہو،ایک سال کے اندر قومی خزانے سے ایک ہزار ارب روپے کرپشن کی نذر ہوچکے ہوں، وفاقی حکومت کے مختلف محکموں میں 300/ ارب روپے کی کرپشن کی نشاندہی کی جاچکی ہو، ملک کو عالمی سطح پر بد عنوان ترین قرار دیا جا چکا ہو، ایسے میں اس طرح کی عیاشیوں کے کیا معنی؟۔ذرا غور کیجئے مختلف محکموں میں تیس سو ارب کی کرپشن کی نشاندہی کے باوجود حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور صرف سپریم کورٹ آف پاکستان، قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) نے کرپشن کے چند معالات کا نوٹس لیا ہے۔ گزشتہ سال کے آخر میں ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کی کرپٹ ترین اقوام کی فہرست کی نئی بلندیوں کو چھو نے لگا ہے جس کی وجہ پاکستان میں فی الوقت احتساب کا کوئی موثر طریقہ کار موجود نہ ہونا ہے ۔ کرپشن کی فہرست میں ایسے منصوبے ہیں جو ٹھیکیداروں کے رحم وکرم پر ہیں ۔

رینٹل پاور پروجیکٹس کو ہی لیجئے، ان منصوبوں کے تحت حکومت نے کم از کم 14/ ٹھیکے دیئے جن میں 2/ ارب ڈالرز سے زائد کا خورد برد ہوا۔ پاکستان اسٹیل کی جانب سے سامان کے حصول اور فروختگی کی پالیسی کے نتیجے میں 22/ ارب روپے کا نقصان گھپلا کیا گیا اگرچہ حکومت نے کرپشن کے اس معاملے کو نظر انداز کردیا لیکن یہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔سٹیل ملز کے بعد پاکستان ریلویز کو دیکھیں تو یہ قومی ادارہ بھی کرپشن ہی کے طفیل آخری سانسیں لے رہا ہے ، ریلوے حکام کی جانب سے امریکہ کے تیار کردہ 150/ لوکوموٹوز (انجن) کے حصول کے ٹینڈر میں بھی کے قوائد کی خلاف ورزی کے ذریعے قومی خزانے کو تقریباً 40/ ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا تھا تاہم یہ منصوبہ فی الحال تعطل کا شکار ہے۔ حال ہی میں آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) کا ادارہ خبروں کی سرخیوں میں آنے لگا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے جیل کے ساتھی، جو تعلیم کے معاملے میں پورے گریجویٹ بھی نہیں تھے، کو اس ادارے کا مینیجنگ ڈائریکٹر لگا دیا۔ او جی ڈی سی ایل کے تحت قادر پور گیس فیلڈ کیلئے ٹینڈرز جاری کئے بغیر میسرز ویلرس (Valerus) سے 30/ ملین ڈالرز کے کمپریسرز حاصل کئے جا رہے ہیں لیکن حکومت اس سے آگاہ ہونے کے باوجود ”سب اچھا“ کی گردان کئے جارہی ہے ۔ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) نے 2009ءمیں Stevedores & Transporters کے کارٹل کوبھی انتہائی زیادہ نرخوں پر گندم اور کھاد کے ٹھیکے دیئے گئے جس سے 2/ ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ نیشنل انشورنس کارپوریشن (این آئی سی) کے حوالے سے دیکھیں تو اس ادارے نے دبئی لبرٹی ٹاور میں 803 کنال - 19 مرلہ کا پلاٹ مارکیٹ کے 1200/ درہم فی مربع فٹ کے نرخ کے برعکس 2750/ درہم فی مربع فٹ کے نرخ پر خریدا۔ اس معاملے میں 900/ ملین روپے کا نقصان ہوا۔ ایک اور معاملے میں اگست 2009ءمیں 90/ ملین روپے فی ایکڑ کے نرخ پر کورنگی دیہہ پھہائی میں 10/ ایکڑ کا پلاٹ خریدا گیا جبکہ مارکیٹ کے نرخ 20/ ملین روپے فی ایکڑ تھے۔ اس سے مجموعی طور پر 7/ ارب روپے کا نقصان ہوا۔ ایک اور معاملے میں نیشنل انشورنس کارپوریشن لمیٹڈ نے 2009ءمیں لاہور میں ایک ایسا پلاٹ ڈیڑھ ارب روپے میں خریدا جس کی مارکیٹ پرائس صرف 30/ ملین روپے تھی۔ اس سے قومی خزانے کو 1.2/ ارب روپے کا نقصان ہوا۔

ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹس انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) میں بھی کرپشن کا معاملہ عروج پر ہے اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق ای او بی آئی کی جانب سے اسلام آباد کے سینٹراس ٹاور اور انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں سرمایہ کاری کرنے میں جو گھپلے کئے گئے وہ بھی ریکارڈ پر ہیں ۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے بارے میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی وہ رپورٹ بھی یقیناً حکومتی ریکارڈ پر ہوگی جس میں بتایا گیا ہے کہ این ایچ اے کے سالانہ فنڈز کے 42/ ارب روپے میں سے 29/ ارب روپے کی بے ضابطگیاں ہوئیں۔ اپنا 2010ءکا بجٹ کھا جانے کے بعد اب این ایچ اے کراچی حیدرآباد کا M-9 موٹر وے دوسری سرمایہ کاری کے ذریعے بنانا چاہتا ہے۔متذکرہ بالا اعدادو شمار صرف ایک ”ٹریلر“ ہیں اگر پوری ”فلم“ چلادی جائے تو شاید عوام کے سانس لینے، ہنسنے اور رونے پر ٹیکس وصولیوں کے نام پر بھی ٹھیکے اور گھپلے سامنے آجائیں کہ اخلاقی پستیوں میں گرے اپنے رہنماؤں سے کچھ بھی بعید نہیں البتہ وزیر اعظم گیلانی کی تو اچھی خاصی ساکھ ہے، وہ اس طرح کے عیاشیانہ اعلان پر کیونکر مجبور ہوئے یہ الگ موضوع ہے تاہم جناب گیلانی سے اتنی گزارش ضرور ہے کہ ہتھ ذرا ہولا رکھیں کہ قوم کی آہ اگردرست جگہ پر پہنچ گئی تو پھر ٹھیکوں کے نام پر نوازے جانے والے ٹھیکدار دوست کام آئیں گے اور نہ ہی ملکی خزانے سے عیاشیاں کرنے والے ارکان اسمبلی۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 58387 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.