ایک کہانی، حکومتی عیاشیاں اور بے چارے عوام

بچپن میں ایک کہانی سنا کرتے تھے کہ پرائے وقتوں میں کہ ایک غریب لکڑہارا روزانہ روزی کی تلاش میں جنگل جایا کرتا تھا،جنگل کے راستے میں ایک بہت بڑا کوہستانی پتھر پڑتا تھا جس کو عبور کرنا اس کیلئے بہت مشکل ہوتا تھا،ایک دن حسب معمول وہ روزی کی تلاش میں جنگل جارہا تھا کہ راستے میں اس نے دیکھا کہ ایک چڑیا زخمی حالت میں پڑی ہے،لکڑہارے کو چڑیا کی حالت پر رحم آگیا،اس نے چڑیا کو اٹھایا اور اس کی مرہم پٹی کی اور جیسے ہی اسے آرام دہ محفوظ جگہ پر چھوڑا،چڑیا یکایک ایک خوبصورت پری میں تبدیل ہوگئی اور اس نے لکڑہارے کی رحمدلی سے متاثر ہوکر اسے تین انڈے دیتے ہوئے کہا،جب تم اپنی کوئی خواہش پوری کرنا چاہو تو ایک انڈا توڑ دینا،یہ کہہ کر پری غائب ہوگئی،لکڑہارا بہت خوش ہوا اور خوشی خوشی واپس گھر کی جانب روانہ ہوا، راستے میں جب وہ اس کوہستانی پتھر کے پاس پہنچا تو جوش مسرت میں اس نے پتھر کو ایک زور دار لات رسید کی،تاکہ وہ راستے سے ہٹ جائے،پتھر کیا ہٹتا،بیوقوف اپنی ہی ٹانگ تڑوا بیٹھا،اِس افراتفری میں ایک انڈا بھی اس کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا، یوں اب اس کے پاس دو انڈے رہ گئے،اس نے سوچا کہ ایک انڈا توڑ دوں تاکہ ٹانگ واپس مل جائے،یہ سوچ کر اس نے ایک انڈا توڑ دیا،ٹانگ تو واپس آگئی،مگر اس کے ساتھ کئی اور ٹانگیں بھی نکل آئیں،یہ دیکھ کر وہ اور بھی پریشان ہوا کہ یہ کیا ہوگیا،آخرکار اس نے تیسرا انڈا بھی اِس خواہش کا اظہار کرکے توڑ دیا کہ میری اصل ٹانگ واپس مل جائے،چنانچہ اس کو اصل ٹانگ تو واپس مل گئی، مگر تینوں انڈے ٹانگ توڑنے اور جوڑنے میں ختم ہوگئے اور کوہستانی پتھر بدستور اپنی جگہ پر موجود رہا۔

پاکستان میں ہر پیدا ہونے والے بچے کے ساٹھ ہزار کا مقروض ہونے اور اس کی اصل وجہ جان کر بچپن میں سنی کہانی کے لکڑے ہارے اور اپنے موجودہ حکمرانوں میں ہمیں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ایک مسئلے سے نجات کے لئے نیا قرض لینے اور پھر اس کی ادائیگی کے لئے پہلے سے بھی زیادہ مقروض ہونے کی روش کچھ اس تیزی سے جاری ہے کہ ملک کا ہر باشندہ ساٹھ ہزار روپے جبکہ ہر پیدا ہونے والا بچہ 59ہزار700روپے کا مقروض ہے۔ستم ظریقی دیکھئے کہ یہ قرضے عوامی فلاح و بہبود کے لئے نہیں بلکہ حکومتی عیاشیوں کے لیے حاصل کئے جاتے ہیں جن کا مجموعی حجم 107کھرب سے بھی تجاوز کر گیا ہے ۔ مالی مشکلات کم کرنے کے لئے بے تحاشا نوٹ چھاپنے سے جہاں افراط زر کی صورتحال کنٹرول سے باہر ہے وہاں مہنگائی بھی جلد تیونس جیسے رد عمل کے خدشات پیدا کرنے لگی ہے لیکن حکومت کی شا ن بے نیازی دیکھئے کہ فکر احوال تو کر رہی ہے لیکن بالکل متذکرہ لکڑ ہارے کی طرح۔ حکومت کے پاس بینکوں کی صورت میں مرغیاں اور سونے کے انڈے تو موجود ہیں لیکن راستے کے ”پتھر“ ہٹانے کی کوشش میں وہ ایک ایک کرکے توڑے جا چکے ہیں لیکن اس کے باوجودمعیشت بدستور اس بری طرح سے مفلوج ہے کہ بہتری کی کوئی بھی راہ دکھائی نہیں دیتی۔

حکومتی عیاشیوں کے تناظر میں ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی حالت اس چودھری کی سی ہے جو اپنے مزارعوں کے نام پر اپنی عیاشیوں کے لئے قرض لیتا ہے اور کچھ عرصہ کے بعد اپنی سرداری کی پگڑی اپنے بیٹے کے سر پر رکھ کر مزارعوں کے معاملات اسے سونپ کر خود حقہ سنبھال لیتا ہے، اِس طرح اِن چوہدریوں کی جائیدادیں بڑھتی رہتی ہیں،ان کی گاڑیاں، بنگلوں اور بنک بیلنس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے،جبکہ قرض دینے والے وصولی کیلئے مقروض مزارعوں کی تکہ بوٹی کرنا شروع کر دیتا ہے اور یوں عوامی استحصال کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلتا رہتا ہے،جس طرح چودھری کا قرض اس کے بیٹے نہیں بلکہ غریب مزارعوں نے ادا کرنا ہوتا ہے،بالکل اسی طرح پاکستانی حکمرانوں کے لیے ہوئے قرضے حکمرانوں یا ان کی اولادوں نے نہیں بلکہ عوام نے بمعہ سود ادا کرنے ہوتے ہیں۔ یہ بات یا گر موجودہ حکمران بھی جانتے ہیں اور اسی کا استعمال کر کے وہ آنے والی نسلوں تک کو بھی محض اپنی موج مستی کی بھینٹ چڑھا تے جارہے ہیں۔

کہنے کو تو حکومت ناقابل تردید حقائق کے باوجود عوامی بہتری کا راگ الاپتے نہیں تھکتی لیکن افراط زر اور بے تحاشا قرضوں کے حصول کے نتیجہ میں عام آدمی کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے وہ شاید حکمرانوں کے تصور ہی میں نہیں۔ موجودہ حکومت کے دور حکومت میں مہنگائی نے اپنے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں،غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 55 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے، جبکہ اِن تین برسوں کے دوران 50ارب 85کروڑ40 لاکھ کے قرضے معاف کیے گئے ہیں۔ ایک طرف یہ حال ہے کہ خزانہ خالی ہے،تو دوسری طرف وہ نظام حکومت جو صرف بیس وزراء سے چلایا جاسکتا ہے، وہاں وزیروں، مشیروں اور پارلیمانی سیکرٹریوں کی فوج ظفر موج سرکاری خزانے پر عیش کر رہی ہے اور حکومت کے اللے تللوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہو رہی اور کمال ڈھٹائی ان اللوں تللوں کو ملکی ترقی کے لیئے انتہائی ناگزیر قرار دیکر انہیں جاری رکھنے کے جواز پیدا کرنا ایسا حکومتی وطیر بن چکا ہے کہ جلد ہی پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات(خدانخواستہ) واقعی حقیقت کا روپ دھارتے دکھائی دینے لگے ہیں۔

پاکستان میں ایک رکن اسمبلی سالا نہ خرچہ تقریباً35کروڑ روپے حکومتی خزانے سے خرچ کرتا ہے۔ ایوان صدر کا روزانہ کا خرچ 10لاکھ 71ہزار ہے جبکہ وزیر اعظم ہاؤس کا11 لاکھ73ہزاراور دیگر وزراء اور ان کے معاونین کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں جو ایک ارب کے لگ بھگ ماہانہ ہیں اور یہ سب اس قومی خزانے سے ادا کئے جاتے ہیں جسے عرف عام میں ”عوام کی امانت“ قرار دیا جاتا ہے لیکن اس خزانے کے بقول سیاستدانوں”اصل مالکوں“ کی حالت یہ ہے کہ بین الاقوامی پروگرام برائے خوراک کے چیئرمین وولف گینگ کے مطابق پاکستان میں معاشی بدحالی کے سبب ہونے والی مہنگائی، گرانی اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے نتیجہ میں لوگوں کی قوت خرید اِس حد تک کم ہوگئی ہے کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد دو وقت کی روٹی خریدنے کے قابل بھی نہیں رہی ہے جبکہ سوئس ایجنسی برائے تعاون و ترقی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 48.6 فیصد آبادی خوراک کی شدید قلت کا شکار ہے جبکہ دیگر بنیادی ضروریات کا حصول اور سانس کی ڈور برقرار رکھنے کے لئے سہی جانے والی مصیبتیں اس کے علاوہ ہیں اور یہ سب حکمرانوں ہی کی عیاشیوں کا کیا دھرا ہے ، اب ”عوامی “ حکومت مزید کیا کیا گل کھلائے گی؟ واللہ علم۔۔۔۔۔!
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 54518 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.