سعودی عرب کا امدادی پیکیج

یہ اپریل 2015کی بات ہے کہ جب سعودی حکومت نے یمن کے معاملے پرپاکستان سے تعاون کی اپیل کی تھی تواس معاملے پر تحریک انصاف نے آسمان سرپراٹھالیاتھا اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف لانگ مارچ اوردھرنے سے گھائل ہونے کے بعد فیصلہ کرنے میں احتیاط برت رہے تھے سعودی اپیل پروہ بھی تذبذب کاشکارتھے اور اپوزیشن جماعتیں خاص کرکے پاکستان تحریک انصاف سعودی عرب کے ساتھ تعاون کے بالکل حق میں نہیں تھیں اپوزیشن جماعتوں نے اس اپیل پرسعودی عرب کوگندہ کرنے کاگھناؤناکھیل شروع کیا اوراس وقت کے اخبارات نکال کردیکھیے توجوحکومتی زعماء آج سعودی عرب کے بادشاہ اوران کے وزاراء کے سامنے بچھے جارہے ہیں ان ہی رہنماؤں کی زبانیں تین سال قبل سعودی عرب کے خلاف شعلے اگل رہی تھیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء کل تک سعودی عرب کے ساتھ تعاون وامدادکوحرام قراردہے رہے تھے اورآج سعودی امدادکوخوشخبری اوراﷲ کاانعام قراردہے ہیں ۔کل سعودی عرب کی امدادکرناغلط اورآج سعودی عرب سے امدادلینادرست ہوگیا ۔

اپوزیشن کے دباؤپراس وقت کی مسلم لیگ ن کی حکومت سعودی اپیل کوپارلیمنٹ میں لے گئی،حالانکہ اس معاملے کوپارلیمنٹ لے جانے کی ضرورت نہیں تھی مگراپوزیشن جماعتوں کاغصہ ٹھنڈانہیں ہورہاتھا اس لیے پارلیمنٹ میں سعودی عرب کی اس اپیل کے بخیے ادھیڑدیئے گئے تقریروں میں برادرملک کوخوب لتاڑاگیا چھ اپریل 2015سے دس اپریل تک پارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس ہوا، بارہ نکات پرمشتمل قراردادپاس کی گئی جس میں سعودی عرب کوکوراجواب دے دیااور الفاظ کی ہیرپھرکرتے ہوئے سعودی عرب کوبین الاقوامی چنگل میں ڈالنے کی کوشش کی گئی اس قراردادمیں کہاگیاکہ حکومتِ پاکستان یمن کے معاملے پر غیر جانبدار رہے اور وہاں فوری جنگ بندی کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور او آئی سی میں کردار ادا کرے۔اس قراردادکی تیاری میں پی ٹی آئی کاسب سے زیادہ ہاتھ تھا ۔گزشتہ روز نجی ٹی سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ محمد آصف نے اعتراف کرتے ہوئے کہاہے کہ میری سعودی قیادت سے ملاقات ہوئی تھی جس میں انہوں نے قومی اسمبلی کی قرار داد پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھامیں نے سعودی قیادت کو یقین دلایا تھا کہ ہم آپ کی جغرافیائی حدود کی حفاظت کریں گے مگر ہم آپ کے ملک سے باہر آپ کے لئے کچھ کرنے سے قاصر ہیں ہماری کچھ مجبوریاں ہیں ۔کاش خواجہ آصف ان مجبوریوں کی تفصیلات سے بھی قوم کوآگاہ کردیں ۔

آج سعودی ریال جھولی میں آئے توعمران خان پارلیمنٹ کے اس قرارداداوراپنے مؤقف کوہی بھول گئے یمن میں غیرجانب داری سے ثالثی کاسفریک دم طے کردیاحالانکہ جنگ میں شریک کسی بھی فریق نے ثالثی کی اپیل نہیں کی ہے ،خود بدلتے نہیں اصول بدل دیتے ہیں ،ریال کی چمک ہی ایسی ہے کہ جس کے بعد بہت سوں کاایمان ڈول جاتاہے ۔اصل بات تویہ ہے کہ اس وقت سعودی عرب ہم سے مددکاطلب گارتھا اورآج ہم سعودی عرب کے محتاج ہیں فرق اتناہے کہ ہم نے سیاسی اورذاتی مفادکی خاطراپنے بھائی سے آنکھیں پھیرلیں جبکہ آج سعودی عرب نے ہمیں ڈیفالٹ ہونے سے بچایاہے۔ اس وقت بھی ہم سعودی عرب سے ڈیڑھ ارب ڈالرکی امدادلے کر بھڑکیں ماررہے تھے اورآج بھی قرض کی مے پی رہے ہیں ۔ الغرض اپنے ملک کے معاشی مسائل حل نہیں ہورہے ہیں اوردوسروں کے ازخودثالث بننے جارہے ہیں سعودی قرض نہ ملے توہمیں جا ن کے لالے پڑجاتے ہیں۔ خود امریکی جنگ سے باہرنہیں آرہے مگرسعودی عرب کے احسان کابدلہ چکانے کے لیے اسے ثالثی کاجھانسہ دے رہے ہیں ۔
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

سعودی عرب نے ہمیشہ بڑے بھائی کاکرداراداکیاہے اس نے ہماری بے رخی ،بداعتمادی ،وعدہ خلافی کاکبھی بھی برانہیں منایاہم جب بھی مشکل میں پھنسے تویہ بڑابھائی ہماری مددکوکھڑاتیارنظرآیاپاکستان تحریک انصاف کے اقتدارمیں آنے کے بعد سعودی حکام نے سابقہ تمام تلخ بیانات ،اقدامات سے صرف نظرکرتے ہوئے پاکستان کومعاشی بحران سے نکالنے میں قدم بڑھایااوروزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورہ میں سعودی عرب نے تین سال کے لیے تین ارب ڈالر سالانہ ادھار ادائیگی پر تیل اور تین ارب ڈالر سٹیٹ بینک آف پاکستان میں رکھنے سے پاکستانی معیشت کو سہارا دیا ہے۔مزید برآں سعودی عرب تین لاکھ سے زائد پاکستانیوں کا گھر ہے جو تقریبا 8 ارب ڈالر سالانہ پاکستان کو زرمبادلہ فراہم کرتے ہیں۔

سعودی عرب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے بانی ارکان میں شامل ہے سعودی عرب کی ریاست کے رہنما اصولوں میں رفاعی کاموں کو شامل کرنے کی بنیاد سعودی فرما نروا ملک عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود نے رکھی انہوں نے اس کام کو ایک دینی فریضے کے طورپر انجام دینے کا اہتمام کیا۔ سعودی عرب اسلامی اورغیر اسلامی ترقی پزید ممالک کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک کو بھی ترقیاتی مد میں مالی امداد دیتا ہے۔گزشتہ 35 سالوں کے درمیان سعودی عرب نے برطانیہ کو انچاس ارب ڈالر کی مد دی ہے۔سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کے رہنما اصولوں میں انسانی ہمددری اورحسن سلوک کو نمایاں حیثیت حاصل ہے ۔ اس اصول کے تحت دنیا کو درپیش مسائل حل کرنے میں مدد دینا اور حاجت مندوں کی ضرورتوں کا خیال رکھنا ہے۔ایک بین الاقوامی رپوٹ کے مطابق سعودی عرب دنیا بھر میں انسانی ہمدردی کی مد میں سب سے زیادہ رقم دینے والا ملک ہے ۔دوسرے نمبر پر ڈنمارک،چھٹے پر کویت، گیارھویں نمبر پر کینیڈا، تیرھویں پر برطانیہ، سترھویں پر امریکہ اور اٹھارویں پر جرمنی ہے۔سعودی عرب فلاحی اقدامات میں بھی پیش پیش رہتا ہے۔ اب تک سماجی اور علاقائی بہبود کے لئے سعودی عرب 80ممالک کو خطیر امدادی رقم مہیا کر چکا ہے۔سعودی حکومت فلاحی اور رفاہی کاموں کی مد میں جو رقم مختص کرتی ہے وہ سعودی عرب کی کل آمدنی کا 1.9فیصد ہے۔

وزیراعظم عمران خان یوٹرن لینے میں اپناثانی نہیں رکھتے مگرانہیں اوران کی ٹیم کوایسے بیانات دینے سے گریزکرناچاہیے جس سے ان کی سبکی ہوعمران خان نے13ستمبر 2011 کو برطانوی اخبار گارجین کو دیے گئے انٹر ویو میں کہا تھا کہ ایک ملک جو قرضوں پر انحصار کرے اس سے موت بہتر ہے ، امداد ذلت آمیز چیز ہے ۔ جن ممالک نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے قرضے لیے وہاں غریب کی غربت اور امیر کی امارت میں اضافہ ہوا ،خان صاحب کایہ بیان سرآنکھوں پر۔مگراب کیاکیاجائے کیوں کہ حکومت جلد آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کے لیے جارہی ہے اور تباہ کن معاشی شرائط پر مزید سودی قرضے لیے جائیں گے ۔اگرچہ وزیر خزانہ اسد عمر نے دعوی کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس آخری بارجا رہے ہیں ۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو لیکن یہ دعوی تو ماضی کی کئی حکومتیں کرتی رہی ہیں ۔ اورپی ٹی آئی توایسے دعووں سے توروزمنحرف ہوتی ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف جیسے استعماری آلے اور سرمایہ دارانہ معیشت پر عمل کر کے کبھی بھی خوش حالی نہیں آ سکتی ۔ اس کا سب سے خراب پہلو یہ ہے کہ کفار کو ہمارے امور میں مداخلت کا موقع مل جاتا ہے ۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ اسلامی نظام معیشت پر عمل کیا جائے ۔ ممکن ہے کہ اس کی وجہ سے چند سال مشکل ہوں مگر ہمیشہ کے لیے استعماری طاقتوں اور سودی معیشت سے چھٹکارا مل جائے گا۔ اب بھی تو یہی کہا جار ہا ہے کہ آئندہ چند ماہ سخت ہیں اور چند ماہ کیا پاکستان تو کئی عشروں سے سختی جھیل رہا ہے ۔ ایک بار ہمت کر کے اسلامی معاشی قوانین نافذ کر کے دیکھ لیا جائے۔

Umar Farooq
About the Author: Umar Farooq Read More Articles by Umar Farooq: 47 Articles with 36854 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.