پاکستان میں آج کل ان لوگوں کے احتساب کا عمل شروع ہوا ہے
جو خود کو پاکستان کا مالک گمان کرتے رہے ہیں اگرچہ یہ عمل بہت سست روی کا
شکار ہے پھر بھی کافی خوش آئند بات ہے کہ اب جو لوگ صاحب اقتدار رہے ہیں
اور دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کر کے نا صرف اپنی جیبیں بھرتے رہے ہیں بلکہ
اپنے حواریوں کی بھی بھرپور دلجوئی کرتے رہیں اور اپنے نمائندوں اور منطور
نظر افراد کو ڈویلپمنٹ فنڈز کی زد میں نوازا جاتا رہا ہے
اب اگر نیب اپنا کام خوش اصلوبی سے کر رہی ہے اور ملک کے نامی گرامی لوگوں
نواز اور شہباز شریف اور آصف علی زرداری جیسے پاکستانی سیاست کے بڑے ناموں
اور ان کے حواریوں پر ہاتھ ڈال کر ان کے کالے دھن کی تحقیق کر رہی ہے تو
پاکستانی سیاست میں بھونچال آیا ہوا ہے یہ سب نیب زدہ سیاست دان نیب کے
کردار کو اور تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو مشکوک بنانے کی غرض سے ان کا گٹھ
جوڑ ثابت کرنے میں مصروف عمل ہیں اور ہر کسی آپشن جیسے سیاسی وابستگیاں
بیوروکریٹس اور میڈیا کو بروئے کار لا رہے ہیں تاکہ یہ جو احتساب کا ماحول
بنا ہوا جس کی وجہ سے نہ صرف ان کا کالا دھن بلکہ سیاست کا بھی خاتمہ ہوتا
دکھ رہا ہے
آج کل جب بھی نیب کسی سیاست دان پر پہلے سے بنے ہوئے کیسز اور کچھ حالیہ
کیسز جن کی بنیاد کرپشن اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے ملکی
خزانہ اور معشیت کو نقصان پہنچانا ہے عمل درآمد کی کوشش کرتا ہے تو یہ سب
کردار کے ہلکے سیاست دان جمہوریت کو خطرہ کا مقبول نعرا لگانا شروع کر دیتے
ہیں
پوری دنیا میں کرپشن کی بنا پر سربراہان مملکت کو سزائیں ہو رہی ہیں ان کے
اثاثے منجمد ہو رہے ہیں انہیں جیل کی کال کوٹھری میں اپنی زندگیاں گزارنی
پڑ رہی ہیں وہاں تو پاکستان کے برعکس جمہوریت خطرے میں نہیں جاتی بلکہ
مضبوطی میں آتی ہے اور انصاف اور احتساب کا بول بولا ہوتا ہے
حال ہی میں بنگلہ دیش کی سابقہ وزیر اعظم خالدہ ضیاء کو اپنے خاوند کے نام
پر چیرٹی فنڈز میں غیر قانونی طور پر رقم جمع کرنے پر ۷ سال کی مزید سزا
سنا دی گئی وہ پہلے سے ہی ۵ سال کی سزا کاٹ رہی تھی خالدا ضیاء کا ۷۳ برس
کا ہونا نہ ہی اس کا تابناک سیاسی کیرئیر اسے اس تذلیل اور قید و بند کی
صعوبتوں سے بچا پایا
ذرا سوچیَے ضرور کیوں صرف پاکستان ہی میں جب بھی کسی بڑے آدمی کا احتساب
ہونے لگتا ہے ملک کی سالمیت اور جمہوریت خطرے سے دوچار ہو جاتی ہے آخر
کیوں!
|