مہا گٹھ بندھن کو مہا ٹھگ بندھن کہنے والے امیت شاہ نے
بہار میں وہی کیا جو لالو نے نتیش کے ساتھ مل کر کیا تھا یعنی بی جے پی نے
جے ڈی یو کے ساتھ برابر نشستوں پر انتخاب لڑنے پرر ضامندی ظاہر کردی ۔
۲۰۱۴ کے انتخاب سے قبل مودی سے اختلاف کرکے نتیش کمار این ڈی اے سے الگ
ہوگئے تھے اور انہیں کی منہ کی کھانی پڑی ۔ بی جے پی کشواہا اور پاسوان کے
ساتھ مل کر نتیش کمار کو دھول چٹا دی ۔ بی جے پی کو خود ۴۰ میں سے ۲۲سیٹیں
ملیں نیز اس کے حلیفوں نے ۹نشستوں پر کامیابی حاصل کی ۔ نتیش کا ر کی جے ڈی
یو کو صرف مقامات پر کامیابی مل سکی ۔ نتیش نے اس شکست ہار نہیں مانی بلکہ
لالو اور کانگریس کے ساتھ الحاق کرکے اسمبلی انتخاب میں انتقام لے لیا۔
مہا گٹھ بندھن کے سبب بہار کی صوبائی اسمبلی میں بی جے پیکے ارکان اسمبلی
کی تعداد گھٹ کر ۵۳ پر پہنچ گئی۔ لالو کی آرایل ڈی نے سب سے زیادہ ۸۰اور
نتیش کی جے ڈی یو نے اس سے کم ۷۱ مگر بی جے پی سے زیادہ نشستوں پر کامیابی
حاصل کی۔ اب کی بار بی جے پی نے شکست تسلیم نہیں کی بلکہ نتیش کمار کو سرجن
گھوٹالا میں لالو پرشاد یادو کے پاس جیل میں بھیجنے کی دھمکی دے کراپنے
ساتھ کرلیا۔ اس بلیک میلنگ کے نتیجے میں نتیش کماراپنے تھوکے کو چاٹ کر شاہ
جی سے بغلگیر ہوگئے ۔ یہ نئی دلہن پہلے سے این ڈی اے کے اندر موجودمانجھی،
پاسوان اور کشواہا پر بجلی بن کر گری ۔ ایک بڑی بلی کے گھر میں آجانے سے
چھوٹے موٹے چوہوں کا خوفزدہ ہوجانا فطری بات تھی۔
سیاسی مبصرین کا اندازہ تھا چونکہ مودی جی کے مقابلے نتیش کمار کو اپنی
اوقات کا اندازہ ہوگیا ہے اس لیے وہ صرف صوبائی سطح پر بی جے پی سے زیادہ
نشستوں کا مطالبہ کریں گے لیکن مرکزی انتخاب میں بی جے پی کا دبدبہ قائم
رہے گا اس طرح وہ ننھے منے ساتھیوں کا خیال رکھا جا سکے گا۔ مرکزی انتخابات
جیسے جیسے قریب آرہے ہیں بی جے پی کی حالت پتلی ہوتی جارہی ہے ایسے میں
نتیش کمار نے اپنا سر ُ بدلنا شروع کردیا اور چندرا بابو نائیڈو کی طرح
باغیانہ تیور دکھانے لگے ۔آندھرا پردیش میں بی جے پی کے پاس گنوانے کے لیے
کچھ ہے نہیں اس لیے اس نے بہ آسانی نائیڈو سے ناطہ توڑ لیا لیکن بہار کی
حالت اس سے مختلف ہے۔ وہاں پر نتیش کے چلے جانے سے کیا نقصان ہوسکتا ہے اس
کا اندازہ بی جے پی کوصوبائی انتخاب میں ہوچکا تھا اس لیے شاہ جی اس بارجے
ڈی یو کے بلیک میل کا شکار ہوگئے۔
۲۲ نشستیں جیتنے والی بی جے پی کا ۲ سیٹ پر سمٹ جانے والے جے ڈی یو کے
برابر نشستوں پر انتخاب لڑنے پر راضی ہوجانا اپنے آپ میں اعتراف شکست
ہے۔آر ایس ایل پی اور ایل جے پی کو اگر ساتھ رکھنا ہے تو ان کے لیے کچھ
نشستیں چھوڑنی ہی پڑیں گی۔ پاسوان نے ۶ مقامات پر کامیابی درج کرائی تھی
اور وہ اس سے کم پر راضی نہیں ہوں گے۔ کشواہا بھی اگر ان ۳ مقامات پر اڑ
جاتے ہیں جن پر کامیاب ہوئے تھے تو بی جے پی اور جے ڈی یو صرف ۱۵ ، ۱۵
مقامات پر الیکشن لڑ سکیں گے ۔ایسے میں اگر ساری نشستوں پر بی جے پی کو
کامیابی مل جائے جو ناممکن ہے تب بھی اس کی ۷ سیٹیں کم ہوجائیں گی۔ انتخاب
کے بعد اگر این ڈی اے اکثریت نہیں جٹاپائے تو نتیش کمار اپنا بوریہ بستر
اٹھا کر بلا تکلف یو پی اے میں کوچ کرجائیں گے اس لیے کہ ابن الوقتی میں
’آیا رام گیا رام‘ کے خالق بھجن لال کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔
شاہ جی نے یہ تو اعلان کردیا کہ وہ بی جے پی اور جے ڈی یو کے مساوی نشستوں
پر انتخاب لڑیں گے لیکن یہ نہیں بتایا کہ کتنی نشستیں کشواہا اور پاسوان کے
لیے چھوڑی جائیں گی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں ایک طرف نتیش اور شاہ جی
کی تصاویر شائع ہوئیں وہیں تیجسوی کے ساتھ کشواہا کھڑے ہوئے نظر آئے۔ اسے
کہتے ہیں نہلے پہ دہلا۔ ایک مرکزی وزیر کا حریف اول کے ساتھ مل جانا شاہ جی
کے منہ پر طمانچہ تھا اور ساتھ ہی طارق انور کا این سی پی کوچھوڑ کرراہل سے
ہاتھ ملا لینا ہوا کا رخ بتانے کے لیے کافی ہے۔اس موقع پر تیجسوی یادو نے
یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا کہ اب تو ٹرمپ کوبھی ساتھ لے آئیں تب بھی وہ
(بی جے پی) انتخاب جیت نہیں سکتی ۔ بظاہر بہار کے تناظر میں امریکہ کا ذکر
حیرت انگیز تھا لیکن جب یہ خبر آئی کہ امریکی صدر نے آئندہ سال یوم
جمہوریہ کے موقع پر دہلی آنے کی دعوت کو ٹھکرا دیا تو پتہ چلا کہ واقعی
ڈونالڈ ٹرمپ بھی تیجسوی یادو سے اتفاق کرتے ہیں۔
وزیراعظم بننے کے بعد مودی جی نے اولین فرصت میں امریکہ کی سیر کا منصوبہ
بنایا۔ نیویارک میں اقوام متحدہ سے خطاب کے بعد جب وہ دانشورنظر آنے والے
براک اوبامہ سے ملے تو انہیں اس قدر متاثر کیا کہ براک اوبامہ نے ۲۶ جنوری
۲۰۱۵ کو یوم جمہوریہ کے موقع دہلی آنے کی دعوت قبول کرلی۔ مودی جی کو
توقع تھی کہ اس دورے کی مدد سے وہ دہلی کی عوام کو متاثر کرسکیں گے لیکن
ایسا نہیں ہوا۔ دہلی میں کیجریوال نے دھوبی پچھاڑ مارکر بی جے پی کو ۳۱ سے
۳ پر پہنچا دیا ۔ اس سے امریکی صدر کی بھی مٹی پلید ہوگئی۔ ڈونالڈ ٹرمپ جو
بظاہر بے وقوف نظر آتے ہیں مودی جی کی اس چال کو سمجھ گئے اور انہوں نے
اپنی عزت بچانے کے لیے جنوری ۲۰۱۸ میں دہلی آنے کی دعوت کو مسترد کرکے
اپنا پلہ ّ جھاڑ لیا۔ وہ سمجھ گئے ہیں کہ اس بار قومی انتخاب میں کچھ بھی
ہوسکتا ہے۔
اڑنے والے جہاز میں سوار ہونے کا شوق ہر کسی کو ہوتا ہے لیکن جب اس میں
سوراخ ہوجائے تو چوہے بھی باہر چھلانگ دیتے ہیں ۔ مودی جی کے ساتھ یہی
ہورہا ہے۔ ابھی تک تو یہ کہا جاتا تھا کہ بی جے پی ضرور کمزور ہورہی ہے مگر
وزیراعظم کے امیدوار کی حیثیت سے راہل گاندھی ان سے بہت پیچھے ہیں۔ہندوستان
میں چونکہ امریکہ کی مانند صدارتی نظام نہیں ہے اس لیے فیصلہ فرد کی مقبولت
پر نہیں بلکہ جماعت کی کامیابی پر ہوتا ہے لیکن اب تو انڈیا ٹوڈے نے بھی
اعتراف کرلیا کہ کیرالہ اور تمل ناڈو میں راہل گاندھی نے مقبولیت کی دوڑ
میں مودی جی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کرناٹک ، آندھرا اور تلنگانہ میں بھی
صورتحال مختلف نہیں ہے۔ بعید نہیں کہ جنوب سےاٹھنے والی یہ لہر جلد یا بہ
دیرشمالی ہند کو اپنی لپیٹ میں لے کر مودی جی کے اقتدار کو بہا کرلے جائے۔
کوئنٹ کے مطابق شمالی صوبوں میں بی جے پی اسٹرائیک ریٹ ۹۰ فیصد سے زیادہ
تھا جو اب گھٹ کر ۵۰ فیصد پرپہنچ گیا ہے۔ اس تبدیلی کی زبردست قیمت بی جے
پی کو چکانی پڑے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی جی کےوہ وعدہ جبراً پورا ہونے
جارہا ہے کہ ’’ میرا کیا ہے میں اپنا جھولا اٹھا کر چل دوں گا‘‘۔ لیکن سوال
یہ ہے کہ وہ جھولا اٹھا کر کہاں جائیں گے؟ راہل کا کہنا یہ ہے سی بی آئی
کے معاملے میں ساری اٹھا پٹخ گرفتاری کے خوف سے بچنے کے لیے ہے۔کہیں ایسا
نہ ہو کہ انہیں رافیل بدعنوانی ایوان پارلیمان سے سیدھے تہاڑ جیل لے جائے۔
سی بی آئی کے ڈائرکٹر آلوک ورما ایک زمانے میں تہاڑ جیل کے جیلر بھی تھے۔
مودی جی کے لیے بہترین آرام گاہ کا انتخاب ورما جی کے علاوہ کوئی اور نہیں
کرسکتا اس لیے کہ فی الحال مودی جی نے انہیں تہاڑ روانہ کرنے کا پورا
انتظام کردیا ہے۔ تہاڑ کی یاترا پر کون کب روانہ ہوگا ؟اور کون وہاں سے کب
لوٹےگا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
|