تحریر *ملک صداقت فرحان*
سورج ہوں زندگی کی رمک چھوڑجاٶں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑجاٶں گا
شہادت ان چندچیزوں میں سےایک ہےجن کا تصوردنیاکےہرمزہب وفرقےمیں موجودہے۔
شہادت کارتبہ بہت عظیم رتبہ ہےاس کی تمنہ دنیاکاہرانسان کرتانظراتاہے یہاں
تک کہ صحابہ کرام بھی شہادت کےمتلاشی نظراۓ حالانکہ اللہ تعالی نےانہیں رضی
اللہ عنہم جیسےالقابات عطاکیےتھےتاریخ گواہ ہے۔
شہادت کی موت کےبعدبھی انسان زندہ رہتاہےیہ میں نہیں کہ رہابلکہ اللہ رب
العالمین قرآن پاک کی سورت سورة البقرہ کی ایت نمبر154میں
ارشادفرمارہاہے"اورجواللہ تعالی کی راہ میں مارےجاٸیں تم انہیں مردہ نہ
کہوبلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم شعورنہیں رکھتے"
تاریخ اسلام عظیم شہادتوں سےبھری پڑی ہےانہیں شہادتوں میں سےمیں ایک شہادت
کاذکرمیں اپنی اس تحریرمیں کرناچاہوں گا۔ جی ہاں شہادت، یہ شہادت ہےغازی
علم الدین شہیدؒ کی۔
ان کی پیداٸش 3دسمبرسن1908عیسوی میں ہوٸی۔یہ ایک درکھان کی فرزندتھےمناسب
تعلیم حاصل کرنےکےبعدانہوں نےاپنےوالدکاپیشہ اختیارکیااسی دوران ان کوپتہ
چلاکہ ایک ہندوجس کانام مہیش راچپال ہےوہ ایک راٸٹرہےاس نےرسول اللہ ﷺ کی
شان میں ایک گستاخانہ کتاب لکھی ہے جوکہ 58صفحات پرمشتمل ہےاور اس کتاب
کانام رنگیلارسول ہے۔ جب یہ خبرغازی علم الدین تک پہنچی تووہ بےچین ہوگۓرات
کوٹھیک سےسونہ سکتےساری رات سوچتےرہتےان کی غیرت ایمانی نےگواراناکیاکہ ایک
غیرمسلم ان کےپاک پیغمبرﷺکامزاق اڑاۓ انہوں نےاس کافرسےبدلہ لینےکا پختہ
ارادہ کیااوروہ ایک دن تیارہوکرنکلے راستےمیں ایک ہندوکی کیٹلری شاپ یعنی
چھرویوں کی دکان پررکےوہاں چھریوں اورچاقوٶں کاڈھیرلگاتھااس ڈھیرمیں
سےانہوں نےایک مضبوط چھری پسندکی اورچل پڑے راچپال کےآفس کی طرف۔ راجپال
کاآفس انارکلی میں ہسپتال روڈپراشرف پبلیشنگ ہاٶس کےسامنےموجود تھاوہاں
پہنچنےپراپ کوایک کھوکھےوالےسےپتاچلاکہ راجپال آفس میں موجودنہیں اوراس
نےبتایاکہ تھوڑی دیرتک انےوالاہے۔ تھوڑی دیرکےبعدایک گاڑی اکررکی اس
کےاندرسےایک ہندونکلاغازی علم الدین کوبتایاگیاکہ یہ راجپال ہے۔راجپال گاڑی
سےاترکرافس کی طرف بڑھا۔ افس میں داخل ہوکروہ افس چیٸرپربراجمان
ہونےلگابراجمان ہوتےہی اس نےفون کارسیورہاتھ میں پکڑاتاکہ پولیس والوں
کواپنےانےکی اطلاع دےسکےاتنےمیں درمیانےقداورگندمی رنگت والانوجوان آفس میں
داخل ہواراجپل کوخبرہی ناتھی کہ موت اس کےسامنےکھڑی ہے۔غازی علم الدین
نےچھری کو ہاتھ میں پکڑتےہوۓہاتھ فضامیں بلندکیےاوربڑی قوت کےساتھ چھری
راجپال کےسینےمیں دےماری راجپال منہ کےبل زمین پرگرااورتڑپنےلگاباالآخرکچھ
سوچےبغرہی جہنم کاایندھن بن گیااتنی دیرمیں وہاں پرموجودراجپال کےدوملازموں
نےمل کرقریب کےتھانےمیں فون کرکےاطلاع دی۔ پولیس اٸی اوروہاں پرموجود غازی
علم الدین کوگرفتارکرکےتھانےلےگٸی اس کےبعد کٸی مقدمات چلےہاٸی کورٹ تک گۓ
لاہورکی عوام نےغازی صاحب کوبھرپورسپورٹ کیااوران کےلیےقاٸداعظم محمدعلی
جناح جیسے قابل وکیل کاانتخاب کیا۔قاٸداعظم محمدعلی جناح نےبھی بھرپورکوشش
اپنے مٶکل غازی علم الدین کوسزاسےبچانے کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔
شاٸیدشہادت کوغازی صاحب سےمحبت ہوچکی تھی اوروہ ان کےساتھ رہناچاہتی
تھی۔مختصریہ کہ غازی صاحب کوسزاۓموت سناٸی گٸ۔جب اپ کےساتھی اپ کےپاس جیل
میں سزاۓموت کی خبرلےکراۓتواپ نےکہاالحَمْدُ ِلله اللہ کالاکھ لاکھ
شکرہے۔اپ نےسزاۓموت سےقبل اپنےگھروالوں کوکچھ وصیتیں کیں اورشریعت پر
پوراپوراعمل کرنےکی تلقین کی۔باالآشہادت کےایک اورمتلاشی کو31اکتوبرسن
1929کومیانوالی کی جیل میں پھانسی دےدی گٸی اوراخرکاراپ کےنام کےساتھ
شہیدکالفظ لگ ہی گیا *إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ* اوراس
طرح اپ کانام بناغازی علم الدین شہیدؒ۔غازی علم الدین شہیدؒ،شہید
ہوکرامرہوۓاوراللہ رب العزت کےجنتوں کےمہمان بنے۔جب جب تاریخ اسلام میں محب
رسول ﷺ اورشہادت کاذکراۓگاتب وہاں پرغازی علم الدین شہیدؒکوضروریادکیاجاۓگا
ان شاء اللہ۔
|