گردش ایام سے اُفقِ کائنات پرکچھ ایسی مایہ
نازاوریکتائے روزگارشخصیتیں جلوہ بارہوئی ہیں جن کی علمی ،عملی ،فکری ا
ورتجدیدی کارنامے تاریخ انسانیت کے لئے اصول ورہنمااورآنے والی ذاتوں
ونسلوں کے لئے لائق فخراورقابل تقلیدوعمل ثابت ہوئے ہیں۔جن کی فقاہت وذہانت
،حق گوئی،بے باکی،بالغ نظری،اصابت فکری اورمحققانہ صلاحیت جیسی تمام
خصوصیات ایک عالَم کودرخشاں وتابندہ کئے رہتی ہے۔خدائے وحدہٗ لاشریک ایسی
شخصیتوں کوبیشتران ہی مقامات وعلاقوں میں پیدافرماتاہے جہاں کفروشرک
،گمراہی،بدمذہبی،بے حیائی،دین حق سے دوری،سنت رسول ؐکے خلاف ورزی اورمعصیت
عروج پرہوایسی جگہوں پریہ مقدس شخصیتیں اپنے قدم رنجہ فرماکرلوگوں کے قلوب
واذہان میں سنتِ رسولؐ کوعام اورمحبت مصطفی ﷺکاچراغ روشن کرتے ہیں اورکیوں
نہ ہوں جبکہ ان کامقصدزیست ہی یہی ہے،ان کی زندگی کامقصدالحب فی اللّٰہ
والبغض فی اللّٰہ ہے،اسی سلسلۃ الذہب کی ایک اہم کڑی حضوراعلیٰ حضرت ،عظیم
البرکت ،عظیم المرتبت، امام اہلسنت،مجدددین وملت،پروانہ ٔ شمع رسالت،عالم
شریعت،واقف اسرارحقیقت ،پیرطریقت،رہبرشریعت،مخزن علم وحکمت،امام عشق
ومحبت،پیکررشدوہدایت،عارف شریعت وطریقت،غواص بحرحقیقت
ومعرفت،تاجدارولایت،شیخ االاسلام والمسلمین،سراج الفقہاوالمحدثین،زبدۃ
العارفین والسالکین،آیت من آیت اﷲ رب العٰلمین،معجزۃ من معجزات رحمۃ
للعالمین،تاج المحققین،سراج المدققین،حامی السنن،ماحی الفتن ،بقیۃ
السلف،حجۃ الخلف،معرفت کاآفتاب،فضائل کاسمندر،بلندستارہ،دریائے
ذخار،بحرناپیداکنار،یکتائے زمانہ،دین اسلام کی سعادت،دائرۂ علوم
کامرکز،سَحبان فصیح اللسان،یکتائے روزگارمجدداعظم امام احمدرضاخان فاضل
بریلوی قدس سرہٗ العزیز کی ذات بابرکات ہے۔آپ قدس سرہ العزیزکی ذات گرامی
محتاج تعارف نہیں،ہرسنی صحیح العقیدہ شخص خواہ وہ عوام میں سے ہویاخواص سے
اپنے اعتبارسے آپ کے تجدیدی وعلمی کارناموں سے بحسن وخوبی واقف ہے۔آپؒکے
جداعلیٰ سعیداﷲ خان قندھارکے قبیلہ بڑہیچ کے پٹھان تھے۔مغلوں کے دورمیں
ہندوستان تشریف لائے اورمعززعہدوں پرفائز رہے ۔ان کے بیٹے سعادت یارخان
حکومت کی جانب سے ایک جنگی مہم سرکرنے روہیل کھنڈآئے۔فتح یابی کے بعدان
کایہیں انتقال ہوااس کے بعدان کے صاحبزادے اعظم خان نے بریلی آکرسکونت
اختیارکرلی۔کاظم علی خان بدایوں کے تحصیلداران ہی کے بیٹے تھے۔
ان کے بیٹے رضاعلی خان (متوفی1282ہجری)تھے۔یہ اپنے وقت کے قطب اورولی کامل
اورروہیل کھنڈکے بزرگ ترین علماء میں تھے ۔اس خاندان میں انہیں کے زمانے سے
دنیوی حکمرانوں کادورختم ہوا۔اورفقرودرویشی کارنگ غالب آیا۔ان کے صاحبزادے
حضرت مفتی نقی علی خان ؒ(متوفی1297ہجری)علوم ظاہری وباطنی دونوں سے متصف
جلیل القدرعالم دین تھے۔حضوراعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہٗ العزیزانہیں
(یعنی حضرت مفتی نقی علی خان ؒ)کے صاحبزادے ہیں۔
ولادت باسعادت:آپؒ کی ولادت باسعادت بریلی شریف (یوپی)کے جسولی محلہ میں
10؍شوال المکرم 1272ہجری مطابق 14؍جون 1856 عیسوی شنبہ کے دن ظہرکے وقت
ہوئی۔یعنی انقلاب 1857 ء سے ایک سال قبل ایک فکری انقلاب کابے باک نقیب
دنیامیں تشریف لایا۔آپ ؒکا اسم شریف محمدرکھاگیا۔اورتاریخی
نام’’المختار‘‘جدامجدرضاعلی خان علیہ الرحمہ نے آپ ؒکا نام’’
احمدرضا‘‘تجویز فرمایا۔آپؒ نے خوداس آیت کریمہ سے اپناسنہ ولادت
نکالاہے۔’’اولٰئک کتب فی قلوبہم الایمان وایدیہم بروح منہ‘‘ترجمہ:’’یہ ہیں
وہ جن کے دلوں میں اﷲ تعالیٰ نے ایمان نقش فرمایاہے اوراپنی طرف کی روح سے
ان کی مدد فرمائی ہے‘‘۔آپ کے زمانۂ طفولیت کے واقعات کوسامنے رکھاجائے
توحضرت شیخ سعدی شیرازی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کاوہ شعریادآتاہے کہ!
بالائے سرش زہوش مندی می تافت ستارہ بلندی
تحصیل علم وشرف بیعت: عموماً ہرزمانے کے بچوں کاوہی حال ہوتاہے جوآج کل
بچوں کاہے کہ سات آٹھ سال تک توانہیں کسی بات کاہوش نہیں ہوتااورنہ ہی وہ
کسی بات کی تہ تک پہنچ سکتے ہیں،مگراعلیٰ حضرت کابچپن بڑی اہمیت کاحامل
تھا۔کم سنی،خردسالی اورکم عمری میں ہوشمندی اورقوت حافظہ کایہ عالم تھاکہ
آپ نے چارسال کی ننھی سی عمرشریف میں قرآن کریم کاناظرہ ختم کیا۔اورچھ سال
کی عمرشریف میں ربیع الاول شریف کے موقع پربہت بڑے مجمع کے سامنے مسلسل
پونے دوگھنٹے نفیس اندازمیں تقریرفرماکرعلمائے کرام اورمشائخ عظام سے تحسین
وآفرین کی دادوصول کی۔اسی عمرمیں آپ نے بغدادشریف کے بارے میں سَمت معلوم
کرلی پھرتادم حیات بَلدۂ مبارکۂ غوث اعظم ؓکی طرف پاؤ ں نہ پھیلائے۔آٹھ سال
کی عمرشریف میں درسی کتاب ’’ہدایۃ النحو‘‘کی شرح عربی زبان میں تصنیف
فرمائی جوآپ کی سب سے پہلی تصنیف ہے۔دس سال کی عمرمبارک میں درس نظامیہ کی
مشہورومعرف کتاب ''مسلم الثبوت'' پرحاشیہ لکھا۔اورچودہ سال کی عمرمبارک میں
فارغ التحصیل ہوگئے ۔عربی ،فارسی کی ابتدائی کتب مرزاغلام قادربیگ سے
پڑھی۔شرح چغمینی کے چنداسباق مولاناعبدالعلی رامپوری سے پڑھی جوعلم ہئیت
میں بہت مشہورتھے۔علم جفروتکسیرحضرت سیدشاہ ابولحسین احمدنوری مارہروی ؒسے
حاصل کیا۔اور5؍جمادی الا ُخریٰ 1294ھمطابق 17؍جون 1877ء کوآپ
حضورپرنورمولاناسیدآل رسول مارہروی قدس سرہٗ العزیز سے مریدہوئے اورحضرت
مُرشدگرامی سے باطنی تعلیم حاصل کی اورباقی جمیع علوم عقلیہ ونقلیہ
والدماجدحضرت علامہ مفتی نقی علی خان صاحب قدس سرہٗ العزیزسے حاصل
کئے۔14؍شعبان المعظم کو آپ نے فراغت حاصل کی ۔آپ فرماتے ہیں کہ جس دن میں
فارغ ہوااُسی دن مجھ پرنماز فرض ہوئی اسی دن رضاعت کے مسئلہ کاجواب لکھ
کروالدماجدکی خدمت میں پیش کیا جوبالکل صحیح تھا۔والدمحترم نے اسی دن سے ہی
فتویٰ نویسی کاکام آپ ؒکوسپردفرمادیا۔آپ ؒ کی تصانیف تقریباً پچاس علوم
وفنون میں ہیں جن کی تعدادایک ہزارکے قریب ہے۔اورآپ نے علوم ومعارف کے وہ
دریابہائے کہ تلامذہ ومعتقدین کاتوکہناہی کیابلکہ معاصرین ومخالفین بھی یہ
کہنے پرمجبورہوگئے کہ آپ ؒقلم کے بادشاہ ہیں۔انہیں چیزوں سے متاثرہوکرعلماء
عرب وعجم نے بالاتفاق آپ ؒکوچودہویں صدی ہجری کامجدداعظم تسلیم کیا
۔اورحرمین شریفین زادہمااﷲ شرفاوتکریماً کے مشائخ عظام وعلماء کرام نے معزز
القابات وخطابات سے نوازاجوآج بھی اہل حق کے نزدیک ایک مسلم حقیقت
ہے۔نمازسے توآپؒ کوعشق کی حدتک لگاؤ تھا چنانچہ نمازپنج گانہ باجماعت
تکبیراولیٰ کاتحفظ کرتے ہوئے مسجدمیں جاکرادافرمایاکرتے،جب کبھی کسی خاتون
کاسامناہوتاتوفوراًنظریں نیچی کرتے ہوئے سرجھکالیاکرتے،گویاکہ سنت مصطفی
علیہ التحیۃ والثناکاآپ پرغلبہ تھاجس کااظہارکرتے ہوئے حضورپُرنورصلی اﷲ
علیہ وسلم کی خدمت ِعالیہ میں یوں سلام پیش کرتے ہیں:
نیچی آنکھوں کی شرم وحیاپردُرود اُونچی بینی کی رِفعت پہ لاکھوں سلام
اعلیٰ حضرت ؒ نے لڑکپن میں تقویٰ کواس قدراپنالیاتھاکہ چلتے وقت قدموں کی
آہٹ تک سُنائی نہ دیتی تھی۔سات سال کے تھے کہ ماہِ رمضان المبارک میں روزے
رکھنے شروع کردئیے۔آپ عشق مصطفیﷺ کاسرتاپانمونہ تھے، آپ نے حضورتاجدارمدینہ
ﷺ کی اطاعت وغلامی کودل وجان سے قبول کرلیاتھااوراس میں مرتبۂ کمال کوپہنچے
ہوئے تھے۔آپ فرماتے ہیں کہ:اگرکوئی میرے دل کے دوٹکڑے کردے توایک پرلاالٰہ
الا اﷲ اوردوسرے پرمحمدرسول اﷲ لکھاہوپائے گا۔ مشائخ زمانہ کی نظروں میں آپ
واقعی فنافی الرّسول تھے۔اکثرفراق مصطفی ﷺ میں غمگین رہتے اورسردآہیں
بھراکرتے۔غرباء کوکبھی خالی ہاتھ نہ لوٹاتے تھے،ہمیشہ غریبوں کی امدادکرتے
رہتے۔بلکہ آخری وقت بھی عزیزواقارب کووصیت کی کہ غرباء کاخاص خیال رکھنا۔ان
کوخاطرداری سے اچھے اچھے اورلذیذ کھانے اپنے گھرسے کھلایاکرنااورکسی غریب
کومطلق نہ چھوڑنا۔
حج بیت اﷲ شریف اورالدولۃ المکیہ کی تصنیف: ذی الحجہ296 1 ھمطابق
دسمبر1878 ء میں پہلی مرتبہ آپ نے حج ادافرمایااورمدینہ طیبہ پہنچ
کرسرکارمصطفیٰ ﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضری دی۔ پھردوسراحج ذی الحجہ
1323ہجری مطابق فروری 1906ء میں اداکیا آپ نے ڈھائی ماہ مکہ شریف میں قیام
فرمایاپھرربیع الاول 1324 ؍ہجری مطابق اپریل 1906 ء میں سرکاراعظم پیارے
مصطفیٰ ﷺ کی بارگاہ عالیہ میں حاضرہوئے ایک ماہ تک مدینہ طیبہ میں رہ
کربارگاہ رسالت کی زیارت کرتے رہے۔مکہ معظمہ اورمدینہ طیبہ کے بڑے بڑے
علماء آپ کے علمی کمالات اوردینی خدمات کودیکھ کرآپ کے نورانی ہاتھوں
پرمریدہوئے اورآپ کواپنااستادوپیشوامانا۔ اوراسی مرتبہ ’’الدولۃ المکیہ
‘‘نامی کتاب علم غیب مصطفی ﷺ کے ثبوت میں مکہ مکرمہ میں صرف آٹھ گھنٹے کے
اندرتصنیف فرمائی۔آپ نے ہوش سنبھالنے کے بعداپنی ساری زندگی اسلام کی خدمت
اورسنیت کی نشرواشاعت میں صرف فرمائی ۔تقریباًایک ہزارکتابیں لکھیں جن میں
’’العطایاالنبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ‘‘ بہت ہی ضخیم کتاب ہے جوقدیم نسخے
کے حساب سے 12؍جلدوں پر اورجدید نسخے مع ترجمہ30 ؍جلدوں پرمشتمل ہے۔آپ نے
قرآن کریم کاصحیح ترجمہ بنام’’کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن‘‘ اردوزبان میں
فرماکرلوگوں پربہت بڑااحسان فرمایا۔
حلیہ مبارک:حضرت مولاناحسنین رضاخان بریلویؒ اعلیٰ حضرت ؒکے حلیہ کے بارے
میں فرماتے ہیں کہ :٭ابتدائی عمرمیں آپ کارنگ چمکدارگندمی تھا٭چہرۂ مبارک
پرہرچیزنہایت موزوں ومناسب تھی٭بلندپیشانی،بینی مبارک نہایت ہی ستواں
تھی٭ہردوآنکھیں بہت موزوں اورخوبصورت تھیں٭نگاہ میں قدرے تیزی تھی جوپٹھان
قوم کی خاص علامت ہے٭ہردوابروکمان ابروکے پورے مصداق تھے٭لاغری کے سبب سے
چہرے میں گدازی نہ رہی تھی مگران میں ملاحت اس قدرعطاہوئی تھی کہ دیکھنے
والے کواس لاغری کااحساس بھی نہ ہوتاتھا٭کنپٹیاں اپنی جگہ بہت مناسب
تھیں٭داڑھی مبارک بڑی خوبصورت گردارتھی٭سرمبارک پرپٹے(زلفیں)تھے جوکان کی
لوتک تھے٭سرمبارک پرہمیشہ عمامہ بندھارہتاتھاجس کے نیچے دوپیلی ٹوپی
ضروراوڑھتے تھے٭آپ کاسینہ باوجوداس لاغری کے خوب چوڑامحسوس ہوتاتھا٭گردن
صراحی دارتھی اوربلندتھی جوسرداری کی علامت ہوتی ہے٭آپ کاقدمیانہ
تھا٭ہرموسم میں سوائے موسمی لباس کے آپ سپید(سفید)ہی کپڑے زیب تن
فرماتے٭موسم سرمامیں رضائی بھی اوڑھاکرتے تھے٭مگرسبزکاہی اونی چادربہت
پسندفرماتے تھے اوروہ آپ کے تنِ مبارک پرسجتی بھی خوب تھی٭آپ بچپن ہی میں
کچھ روزگدازرہے پھرتوسب نے آپ کوچھریرااورلاغرہی دیکھا٭آپ کی آوازنہایت ہی
پُردردتھی اورکسی قدربلند بھی تھی٭آپ جب آذان دیتے توسننے والے ہمہ تن گوش
ہوجاتے٭آپ بخاری طرزپرقرآن پاک پڑھاکرتے تھے٭آپ کاطرزاَداعام حفاظ سے
جداتھا٭آپ نے ہمیشہ ہندوستانی جوتاپہناجسے سلیم شاہی جوتاکہتے ہیں٭آپ کی
رفتارایسی نرم کہ برابرکے آدمی کوبھی
چلتامحسوس نہ ہوتاتھا۔(مجدداسلام،ص32,33،مطبوعہ لاہور)
اولاد امجاد:اعلیٰ حضرت ؒکواﷲ تبارک وتعالیٰ نے سات اولادیں
عطافرمائیں،دوصاحبزادے اورپانچ صاحبزادیاں۔(۱)حجۃ الاسلام
مولانامحمدحامدرضاخان ؒ(۲)مفتی اعظم ہندمولانامصطفی رضاخانؒ۔(۳)مصطفائی
بیگم(۴)کنیزحسن(۵)کنیزحسین(۶)کنیزحسنین(۷)مرتضائی بیگم۔(فیضان اعلیٰ
حضرت،ص۹۳تا۹۴)
مختلف موضوعات پراعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کی تصانیف کی
تفصیلات مع موضوع و تعدادکے مندرجہ ذیل ہیں!
علم عقائد۳۱،علم کلام۱۷،علم تجوید۲،علم تفسیر۶،علم اصول حدیث۲،علم حدیث
۱۱،علم اصول فقہ۹،علم فقہ ۱۵۰،علم الفرائض ۴،علم رسم خط قرآن مجید۱،علم
الادب العربی۲۶،علم لغت۲،علم سیر۳،علم الفضائل۳۰،علم المناقب۱۸،علم
سلوک۲،علم اخلاق۲،علم تصوف۳،علم اذکار۵،علم ترغیب وترہیب۱،علم تاریخ ۳،علم
مناظرہ۱۸،علم تکسیر۱،علم الوفق ۱،علم التوقیت۶،علم ہیٔت۳،علم الحساب۱،علم
ارثماطیقی۳،علم ریاضی۳،علم الہندسہ۳،علم جبرومقابلہ۱،علم الزیجات۱،علم
۳،علم النجوم۱،ردِّمفسقہ۷،ردِّتفضیلیہ۷،ردِّمتصوفہ۲،علم
شتی۵،ردِّنصاریٰ۳،ردِّہنود۱،ردِّآریہ۲،ردِّنیچریہ۷،ردِّقادیانیہ۶،ردِّروافض۶،ردِّنواصب۱،ردبدعقیدگی
میں۷۶۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
سرکاراعلیٰ حضرت رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کی جملہ تصانیف کا مطالعہ کرنے کے
بعدعلماء کرام نے پچپن علوم وفنون کی نشاندہی کی ہے جس پرسرکاراعلیٰ حضرت
ؒکودسترس ومہارت تامہ وکاملہ حاصل تھی اورجدیدتحقیق کے مطابق ایک
سوپانچ(105)علوم وفنون ہیں جواعلیٰ حضرت کے تبحرعلمی پردلالت کرتے
ہیں۔مختصرطورپرچندعلوم وفنون کے نام پیش خدمت ہیں:
(۱)القرآن
العظیم(۲)والسیر(۳)والتفسیر(۴)والتواریخ(۵)واصولہ(۶)واللغۃ(۷)الحدیث
الشریف(۸)الادب(۹)اصولہ(۱۰)العقائد(۱۱)الفقہ(۱۲)والکلام
المحدثللردّوالتفریع(۱۳)اصولہ(۱۴)والنحو(۱۵)والجدل(۱۶)والمناظرۃ(۱۷)والقرائات(۱۸)والفلسفۃالمدلّسۃ(۱۹)والتجوید(۲۰)والتکسیر(۲۱)والتصوف
(۲۲)والھیئۃ(۲۳)والسلوک(۲۴)والحساب(۲۵)والاخلاق(۲۶)والھندسۃ(۲۷)واسماء
الرجال(۲۸)والہیئۃ الجدیدۃ المرّبعات(۲۹)والصرف(۳۰)ونبذمن علم
الجفر(۳۱)والمعانی (۳۲)والزائجۃ(۳۳)والبیان(۳۴)وعلم
الفرائض(۳۵)والبدیع(۳۶)والمثلت المسطح(۳۷)والمنطق(۳۸)والنظم
العربی(۳۹)والنظم الفارسی(۴۰)والنظم
الھندی(۴۱)والارثماطیقی(۴۲)والجبروالمقابلہ(۴۳)والنثرالعربی(۴۴)والحساب
الستینی(۴۵)والنثرالفارسی(۴۶)واللوغارثمات(۴۷)والنثرالھندی(۴۸)وعلم
التوقیت(۴۹)وتلاوت القرآن(۵۰)والمناظروالمرایا(۵۱)وخط النسخ(۵۲)وعلم
الاکر(۵۳)وخط النستعلیق(۵۴)والزیجات(۵۵)والمثلّث الکروی۔(الاجازت المتینۃ
لعلماء بکّۃ والمدینۃ،ص۵۸-۵۳،ملخصاً)
آپؒ جملہ علوم عقلیہ ونقلیہ میں مہارت کے ساتھ ساتھ شعرگوئی میں بھی
یدطولیٰ رکھتے تھے۔لیکن آپ کی شاعری لغویات وخرافات سے بالکل پاک وصاف
ہوتی۔حمدباری تعالیٰ ونعت سرورکونین ﷺاوراولیاء کرام کی تعریف وتوصیف آپ کی
شاعری میں پائی جاتی ہے اورعشق رسول ﷺآپ کاخاص موضوع تھا۔عام شاعروں کی طرح
دنیوی حاکموں کی تعریف میں آپ نے کبھی کوئی شعرنہیں لکھا۔ایک مرتبہ نانپارہ
کے حاکم کی تعریف میں قصیدہ لکھنے کے لئے کہاگیاتوآپ ؒ نے یہ
شعرتحریرفرمایا!
کروں مدح اہل دول رضاؔ پڑے اس بلا میں میری بلا میں گداہوں اپنے کریم
کامیرادین پارۂ نان نہیں
آپ کے اشعارمیں سوزوگداز،کیف وجذب،فصاحت وبلاغت،جوش وبیان اورپاس شریعت غرض
کہ آپ کے کلام میں ہرطرح حسن صوری ومعنوی بدرجۂ اتم موجودہے ۔احکام شریعت
کااس طرح لحاظ وپاس آپ کے کلام میں پایاجاتاہے کہ کوئی شعرقرآن وحدیث کے
خلاف ثابت نہیں کرسکتابلکہ خودآپ فرماتے ہیں کہ میں نے قرآن کریم سے ہی نعت
گوئی سیکھی ہے۔آپ کے نعتیہ کلام کا مجموعہ’’حدائق بخشش‘‘کوجام کوثرکہاجائے
تویقینابجاہوگا۔آپ کانعتیہ کلام اہل ایمان ومحبت کے سازوروح کادل نواز نغمہ
معلوم ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ ذوق سلیم رکھنے والے آپ کاکلام سن کرجھوم جاتے
ہیں۔حضورمحدث اعظم ہندعلیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ لکھنؤ
کے ادیبوں کی شاندارمحفل میں اعلیٰ حضرت کا’’قصیدۂ معراجیہ ‘‘میں نے اپنے
اندازمیں پڑھاتوسب جھومنے لگے میں نے اعلان کیاکہ اردوادب کے نقطۂ نظرسے
میں ادیبوں کافیصلہ اس قصیدہ کی زبان کے متعلق چاہتاہوں ۔توسب نے کہاکہ اس
کی زبان توکوثرکی دھلی ہوئی زبان ہے۔اسی قسم کاایک واقعہ دہلی میں بھی پیش
آیا،توسب نے کہاکہ ہم سے کچھ نہ پوچھئے آپ پڑھتے رہئے اورہم عمربھرسنتے
رہیں۔
وصال مبارک:آپ نے 25؍صفرالمظفر1340ھ مطابق 28؍اکتوبر1921ء کوجمعۃ
المبارکہ کے دن دوبجکراڑتیس (2:38)منٹ پر،عین آذان کے وقت اِدھرمؤذن نے حی
علی الفلاح کہااوراُدھراعلیٰ حضرت رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے داعیٔ اجل کولبیک
کہا۔(اِنّاللّٰہ وَاِنّااِلیہ رَاجعون)۔آپ کامزارمبارک شہربریلی شریف کے
محلہ سوداگران میں مرجع خلائق ہے۔مولیٰ تعالیٰ ہم سب کوآپ کے فیوض وبرکات
سے مالامال عطافرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین۔ |