دینِ سیاسی اور سیاستِ دینی

دیکھنے کے لئے آنکھیں چاہیے، کیا آپ نے کبھی ایسے بے دین، شرابی، اور اوباش شخص کو دیکھا ہے جو الیکشن لڑتا ہو، ووٹ مانگتا ہو لیکن یہ کہتا ہو کہ میں سیاسی آدمی نہیں ہوں! دوسری طرف آپ نے کسی ایسے شخص کو ضرور دیکھا ہوگا کہ جو نمازی ، پرہیز گار اور دیندار ہونے کے ساتھ ساتھ یہ کہتا ہو کہ میں سیاسی آدمی نہیں ہوں!

ایسا دیندار آدمی جو اپنے آپ کو غیر سیاسی کہتا ہے ،اس کے نزدیک دین فقط عبادات اور طہارت و نجاسات تک محدود ہے ۔لہذا انسان کو عبادات اور طہارت و نجاسات کے علاوہ تمام تر امور خصوصاً سیاسی و اقتصادی معاملات میں اہلِ مغرب کی اقتدا کرنی چاہیے۔ایسے لوگ دین کو دنیا چلانے کے لئے ناکافی سمجھتے ہیں۔حالانکہ پیغمبرِ اسلام ﷺ نے دینی حکومت قائم کر کے دکھائی بھی ہے۔
مجموعی طور پر تین وجوہات کی بنیاد پر لوگ دین کو ناکافی سمجھتے ہیں:
۱۔ علم دین سے سطحی آشنائی
۲۔ دیندار سیاسی لوگوں کا منفی کردار
۳۔ علومِ سیاسی سے ناآشنائی

اب آئیے ہم ان تینوں وجوہات کا سرسری جائزہ لیتے ہیں:

۱۔علم دین سے سطحی آشنائی
ایسے لوگ دین میں اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتے اور دین کے بارے میں ان کی معلومات سطحی اور ناکافی ہوتی ہیں لہذا یہ احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور سیاسی، اقتصادی، اجتماعی، معاشی، تجارتی، نیز تعلیمی نظریات کوبھی غرب سے درآمد کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو علمی اصطلاح میں التقاطی گروہ کہتے ہیں۔ یہ مغربی دانشمندوں اور فلاسفرز حضرات کے نظریات کو اسلام کے ساتھ ملاکر ایک نئی چیز عوام کے سامنے لاتے ہیں اور اسی کو مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ایسے لوگوں کے نزدیک دین سیاسی نہیں ہوتا بلکہ یہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے سیاستِ دینی کا انتخاب کرتے ہیں۔ جیسے سیاست سیکولر ، لبرل، کیمونسٹ ہوسکتی ہے ایسے ہی ان کے نزدیک سیاست دینی بھی ہو سکتی ہے لہذا اس طرح کے لوگ اپنے مقاصد کے لئے سیاستِ دینی کا راستہ چنتے ہیں۔

۲۔ دیندار سیاسی لوگوں کا منفی کردار
یہ بھی بہت اہم بات ہے کہ جب دیندار افراد سیاسی فریضے کو ادا کرنے لگتے ہیں تو اس دوران ان میں سے بعض ایسی غلطیوں اور اشتباہات کا ارتکاب کرتے ہیں کہ جس سےمعاشرے کے دیگر دیندار لوگ مایوس ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو غیر سیاسی کہنا شروع کر دیتے ہیں۔یہ ہمارے ہاں کی عمومی فضا ہے کہ اگر کسی ایک دیندار شخص یا روحانی و مولوی سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو لوگ اسے ایک شخص کی غلطی نہیں سمجھتے بلکہ کہتے ہیں کہ سارے ہی مولوی ، یا دین کا نام لینے والے ایسے ہی ہیں۔

۳۔ علومِ سیاسی سے ناآشنائی
ہمارے ہاں اکثریت کو یہ بھی معلوم نہیں کہ سیاست اور علومِ سیاسی میں کیا فرق ہے؟ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سارے لوگ اگرچہ ووٹ تو ڈالتے ہیں لیکن سیاست کو منافقت سمجھتے ہیں۔عام طور پر لوگ سیاست کو ایک گالی اور طعنہ سمجھتے ہیں ، مثلا اگر کسی محفل میں ایک عالم دین کا یہ تعارف کروایا جائے کہ یہ سیاسی مولوی ہیں تو اس سے لوگوں پر مثبت کے بجائے منفی اثر پڑے گا۔

اب آئیے اس مسئلے کے حل کی طرف چلتے ہیں، لوگوں کو دینِ سیاسی کا شعور دینے کے لئے ایک جہدِ مسلسل کی ضرروت ہے، تمام انبیائے کرام اسی لئے مبعوث ہوئے کہ لوگوں کے شعور میں اضافہ کریں اور مستضعفین کو مستکبرین سے نجات دلائیں۔اس کے بدلے میں لوگ انبیائے کرام کو پتھر مارتے تھے، گالیاں دیتے تھے، طعنے دیتے تھے اور قتل کرتے تھے۔ لوگوں کا یہی رویہ انبیائے کرام کے اوصیا اور اولیائے کرام کے ساتھ بھی رہا۔

ہردور میں اس پیغام کو دہرانے کی ضرورت ہے کہ سیاست سے مراد سرپرستی کرنا، تدبیر کرنا، عدل و انصاف قائم کرنا ہے اور علومِ سیاسی سے مراد ایسے علوم ہیں جو معاشرے کی مدیریت، اجتماعی فعالیت ،سرپرستی ، تنظیم اور تدبیر سے تعلق رکھتے ہیں۔حسنِ اتفاق سے دینِ اسلام کا سارا ہم و غم ہی انسانی زندگی کو انفرادی، اجتماعی اور عبادی لحاظ سے منظم کرنا ہے۔چنانچہ دینِ اسلام اور سیاست ایک ہی چیز ہیں۔

ارسطو نے علم سیاست کو حکومت کے مطالعے کا علم قرار دیا ہے اور پیغمبرِ اسلامﷺ نے اسلامی تعلیمات کے مطابق حکومت قائم کر کے دکھائی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ زمانہ قدیم سے ہی انبیائے کرم عوام کو طاغوتی اور ظالم بادشاہوں کے خلاف سیاسی شعور دیتے چلے آئے ہیں۔ سیاست کا ہدف ہی عوام کو طاقتورکرنا ہے، انبیائے کرام اور ددینِ اسلام کا ہدف بھی یہی ہے کہ مستضعف لوگوں کو اتنا باشعور کیا جائے کہ وہ ظالم حکمرانوں کے مقابلے میں طاقتور ہو جائیں۔

لغت میں سیاست سے مراد مخلوق کے امور کی اصلاح کرنا، حکومت کے کاموں کی مدیریت کرنا، ملک کے داخلی اور خارجی معاملات کی دیکھ بھال کرنا،عوام کے حقوق و فرائض اور سزا و جزا کو منظم کرنا ہے۔ اور جو مذکوہ امور میں بصیرت، دانائی اور تجربہ رکھتا ہو اسے سیاستدان کہتے ہیں۔

انسان ایک حیوانِ سیاس ہے، اور انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ خود بھی اور دوسروں کو بھی درپیش خطرات سے نجات دلانا چاہتا ہے۔ اس وقت انسانی معاشرے کو سب سے بڑا خطرہ یہ لاحق ہے کہ وہ سعادت و خوشبختی سے دور ہوتا جا رہا ہے ، لہذا کمال، سعادت اور خوشبختی کی پٹڑی سے اترے ہوئے اس معاشرے کو دینِ سیاسی اور سیاستِ دینی کا فرق سمجھایا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

nazar
About the Author: nazar Read More Articles by nazar: 115 Articles with 64241 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.