افغان امن عمل: طالبان کی اوپن انٹری

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

افغانستان کے دارلحکومت کابل میں صبح کا آغاز اچھا نہ تھا ، افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش کے مطابق کابل کے ہائی سیکورٹی زون میں پل چرخی جیل کے قریب ایک خود کش بمبار نے اپنے آپ کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا۔ اس خود کش حملے میں اولین اطلاعات کے مطابق سات افراد جاں بحق اور دس سے زائد زخمی ہو چکے ہیں ۔ایک دن قبل ایسا ہی واقعہ الیکشن کمیشن آفس کے قریب پیش آیا تھا جس میں ایک افراد کے جاں بحق اور چھ افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات تھیں۔ یہ دونوں واقعات ایسے وقت میں پیش آئے جب افغانستان میں امن عمل کے لیے دو اہم پیش رفت دیکھنے میں آئیں ۔ اول طالبان کے ترجمان کی جانب سے ایسے پانچ افراد کو مذاکرات کا حصہ بنانے کا اعلان کیا گیا جنہیں بدنام زمانہ جیل گوانتاموبے سے رہا کیا گیا تھا ۔طالبان کی سینئر قیادت میں شمار کیے جانے والے یہ پانچوں افراد اب امن مذاکرات کا حصہ ہوں گے ۔ طالبان کے ان پانچوں رہنماؤں کو 2014میں ایک امریکی سارجنٹ کے بدلے میں رہا کیا گیا تھا اور یہ اس وقت سے قطر میں طالبان کے دفتر میں موجود ہیں ۔ان رہنماؤں میں طالبان دور حکومت کے آرمی چیف محمد فضل، وزیر داخلہ ملا خیر اﷲ خیر خواہ ،صوبہ بلخ اور لغمان کے نوراﷲ نوری ، ڈپٹی انٹیلی جنس چیف عبدالحق واثق اور کمیونکییشن چیف نبی عمری شامل ہیں ۔یہ پانچوں رہنما ملا عمر اور القاعدہ چیف اسامہ بن لادن کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے۔طالبان ذرائع نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ ان میں سے کسی ایک رہنما کو مذاکرات کے لیے چیف مقرر کیا جائے گا۔طالبان کی جانب سے دیگر رہنماؤں پر پابندی ختم کرنے اور امریکہ و افغان حکومت میں قید رہنماؤں کی رہائی کا بھی مطالبہ بھی کیا گیا ہے تاہم مذاکرات جاری رکھنے کے لیے اسے بطور شرط نہیں رکھا گیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ طالبان امن مذاکرات کے لیے سنجیدگی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اس سے قبل طالبان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات ابھی ابتدائی مرحلہ میں ہیں تاہم وہ مطمئن ہیں کہ مذاکرات مثبت سمت جارہے ہیں ۔گزشتہ تین ماہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان براہ راست دو اہم ملاقاتیں ہو چکی ہیں جن میں امن مذاکرات کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کی جانب سے ان پانچ رہنماؤں کو نامزد کرنے پر امریکہ کی جانب سے کسی قسم کا اعتراض سامنے نہیں آیا ۔امریکی محکمہ خارجہ نے اس نامزدگی پر اپنے ردعمل میں کہا طالبان اپنے نمائندے منتخب کرنے میں خود مختار ہیں ، ہماری توقع ہے کہ طالبان رہنما امن کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے ۔

افغان امن عمل کے لیے دوسری اہم پیش رفت پاکستان کی جانب سے اہم طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر کی رہائی ہے۔ ملا برادر کو 2010میں کراچی سے اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ طالبان کے نائب امیر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ملا برادر کی رہائی بھی قطر میں قائم طالبان کے دفتر نے اس سلسلہ میں نہایت اہم کردار ادا کیا گیا ۔ یہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ اس رہائی میں گزشتہ دنوں پاکستان کا دورہ کرنے والے قطر ی وفد کا ہاتھ ہے جس کی قیادت نائب وزیر اعظم قطر اور وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی کررہے تھے ۔اگرچہ اس وفد نے سرکاری طور پر ایسی کسی بھی کارروائی کا ذکر کرنے کی بجائے دو طرفہ سفارتی و اقتصادی تعاون کا ذکر کیا ۔جنوبی افغانستان سے تعلق رکھنے والے ملا برادر پر اقوام متحدہ کے تحت 2001میں سفری اور مالیاتی پابندیاں عاید کی گئی تھیں۔کچھ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان کے امور کے متعلق امریکی نمائندے زلمے خلیل ذاد کے پاکستانی دورے کے دوران ملا برادر کی رہائی کا فیصلہ کیا جا چکا تھاتاہم رسمی کارروائی اب کی گئی ہے ۔زلمے خلیل ذاد نے اپنی تعیناتی کے بعد قطر ، پاکستان ، سعودی عرب کے دورے کے بعد افغانستان پہنچے جہاں انہوں نے افغان حکومت کو افغان امن عمل پیش رفت سے آگاہ کیا ۔قطر کے دوران زلمے خلیل ذاد نے طالبان کے وفد سے دوحہ میں ملاقات کی جس کی قیادت طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ محمد عباس نے کی جبکہ نائب سربراہ مولوی عبدالسلام ، صلاح الدین دلاور ، قاری دین محمد ، زاہد احمد زئی اور سہیل شاہین شامل تھے۔اس ملاقات کو دونوں فریقین نے مثبت قرار دیتے ہوئے اطمینان کا اظہار کیا۔رواں سال جولائی میں امریکی نائب معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشا ایلس ویلز نے بھی دوحہ میں طالبان کے وفد سے ملاقات کی تھی جس کا مقصد طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا جائزہ لینا تھا ۔اس ملاقات کے بعد ہی یہ فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ امریکہ طالبان سے براہ راست مذاکرات کرے گا اور افغان امور کے ماہر زلمے خلیل ذادکو دوبارہ نمائندہ مقرر کر دیا گیا ۔گزشتہ ماہ طالبان کے دوحہ دفتر اور امریکہ کے درمیان اس وقت کشیدگی نظر آئی جب یہ خبر منظر عام پر آئی کہ امریکی عہدیداروں نے بگرام ائیر بیس اور دبئی میں چند طالبان رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں ۔طالبان کے دوحہ دفتر نے ان رہنماؤں کو اپنا نمائندہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ امریکہ جعلی طالبان سے خبردار رہے ۔بگرام ائیر بیس اور دبئی میں ملاقاتیں کرنے والے طالبان کے نمائندے نہیں تھے ۔انہوں نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ ایسے عناصر سے ملاقاتیں امن مذاکرات کو نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ طالبان کا سیاسی دفتر دوحہ میں قائم ہے اور امریکہ سمیت کوئی بھی ملک اس دفتر تک بآسانی رابطہ کر سکتا ہے ۔

افغانستان میں جاری امن مذاکرات میں جہاں مثبت پیش رفت جاری ہے وہاں خونریزی کا عمل بھی رکنے میں نہیں آرہا ۔اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ان مذاکرات کے باوجود طالبان اور امریکہ میں ایک بڑا خلا موجود ہے ۔ طالبان افغانستان میں اپنے فوجی اڈے رکھنے پر اصرار کر رہا ہے جبکہ طالبان امریکہ کو ابھی تک ایک قابض فوج سمجھتے ہیں اور وہ ان کی افغانستان میں موجودگی محض سفارتی حد تک چاہتے ہیں طالبان رہنما یہ بات بہت سے موقعوں پر کہہ چکے ہیں کہ امن مذاکرات کے بعد امریکہ کی فوج کی نقل وحرکت غیر ضروری ہے اور ان کی موجودگی ہی لڑائی جاری رہنے کی وجہ ہو سکتی ہے ۔دوسری طرف امریکہ اپنے فوجی اڈے چھوڑنے کے لیے کسی صورت تیار نظر نہیں آتا ۔امریکہ اپنے علاقائی حریفوں کے لیے ان اڈوں کو موجودگی کو ضروری سمجھتا ہے ۔یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ واقع ممالک روس، پاکستان ،ایران اورچین بھی امریکہ افواج کے انخلا کو ضروری خیال کرتا ہے ۔ تاہم جنوبی ایشیا کا اہم ملک بھارت اپنے مفاد کے لیے افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کے قیام کو ضروری سمجھتا ہے ۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان یہ تنازعہ جب تک حل نہیں ہوپاتا شاید خونریزی کا عمل بھی ختم نہ ہو سکے ۔۔طالبان کی جانب سے افغان حکومت کو تسلیم نہ کرنا بھی خونریزی کی ایک بڑی وجہ ہے۔طالبان موجودہ افغان حکومت کو ایک کٹھ پتلی سمجھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ براہ راست امریکہ سے مذاکرات پر راضی ہوا ۔دوسری طرف طالبان کے علاوہ داعش کی افغانستان میں موجودگی اور ان کے اثر روسوخ میں اضافہ بھی اس خونریزی کی ایک وجہ ہے ۔ امریکہ اور افغان حکومت داعش کی بڑے پیمانے پر موجودگی سے انکار کرتے ہیں تاہم ان کا وجود ایک حقیقت ہے ۔ تاہم ان سب کے باوجود دنیا کی نظر امریکہ طالبان مذاکرات سے ہے جس کی وجہ سے امید کی شمع روشن ہوئی ہے ۔

Asif Khurshid
About the Author: Asif Khurshid Read More Articles by Asif Khurshid: 97 Articles with 74407 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.