کیا واقعی شام میں حالات معمول پر آرہے ہیں۰۰۰؟

شام میں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کے بعد پھر ایک مرتبہ زندگی معمول کی طرف آتی بتائی جارہی ہے لیکن اس میں کتنی صداقت ہے ، اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ صدر شام بشارالاسد کی فوج نے جس طرح عام شہریوں کو ہلاک کیا ہے اور لاکھوں افراد بشمول معصوم بچے اور خواتین کوخانہ جنگی کی وجہ سے بے سروسامانی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑا۔ لاکھوں بچے تعلیم سے محروم اور یتیم ہوگئے۔انہیں غذائی اجناس اور ادویات کی کمی کی وجہ سے بیماریوں نے آگھیرا۔ ایک طرف شامی صدر بشارالاسد کی فوج تو دوسری جانب اپوزیشن جنہیں سعودی عرب و امریکی اتحادی فوج کی امداد حاصل ہے اور تیسری جانب شدت پسندنام نہاد جہادی تنظیمیں ۔ ان تمام کے درمیان عام شامی شہریوں کی تباہی و بربادی اور ہلاکت امتِ مسلمہ کیلئے سانحۂ عظیم ہے۔ بہارِ عرب کے نام سے شروع ہونے والی خانہ جنگی میں شام کی معیشت تقریباً تباہ و برباد ہوگئی۔ بشارالاسد کو اقتدار سے محروم کرنے کیلئے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کی جانب سے امریکہ پر دباؤ کے باوجود بشارالاسد آج بھی اقتدار پر فائز ہیں کیونکہ بشارالاسد کو ایران اور روس کی مکمل تائید و حمایت کے ساتھ ساتھ فوجی تعاون بھی حاصل ہے۔ بشارالاسد کی ظالمانہ کارروائیوں کے نتیجہ میں شام کی جو حالت ہوئی ہے اس کا ہمیں اندازہ نہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق شامی حکومت کی جانب سے یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ شام میں حالات معمول پر آرہے ہیں ۔ اس کی ایک مثال اس طرح بتائی جارہی ہے کہ شام کے نیشنل میوزیم کا کچھ حصہ، جوخانہ جنگی کے باعث چھ سال تک بند رہنے کے بعد عوام کیلئے دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق دمشق میں واقع دنیا کا یہ معروف عجائب گھر سنہ 2012 میں بند کر دیا گیا تھا تاکہ یہاں رکھی گئی پیش قیمت نوادرات کو محفوظ رکھا جا سکے۔تحفظ کے پیش نظر بہت سارے نوادرات کو یہاں سے ایک خفیہ مقام منتقل کر دیا گیا تھا۔عجائب گھر دوبارہ کھولنے کا فیصلہ ایک ایسے وقت کیا گیاہے جب شامی حکومت یہ بتانے کی کوشش کررہی ہے کہ ملک میں حالات معمول پر آرہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق رواں سال کے آغاز میں صدر بشار الاسد کی افواج نے دارالحکومت پر مکمل طور پر کنٹرول سنبھال لیا تھا تاہم ملک کے کچھ میں حصوں اب بھی لڑائی جاری ہے۔شام میں سات سال سے جاری خانہ جنگی سے ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے جبکہ ملک کے کئی تاریخی شہر اور مقامات تباہی کا نشانہ بنے۔ شامی وزیر ثقافت محمد الاحمد کا کہنا ہیکہ عجائب گھر کا دوبارہ کھلنا یہ پیغام دیتا ہے کہ ملک کی ثقافتی ورثہ ، دہشت گردی سے تباہ نہیں ہوا ہے جبکہ ڈپٹی ڈائرکٹر احمد دیب کا کہنا ہیکہ حکام پورے عجائب گھر کو دوبارہ کھولنے کیلئے کام کررہے ہیں۔ شام کی ایک عظیم تاریخ رہی ہے ۔ شام اپنے محل وقوع کے لحاظ سے قدیم دور سے اہمیت کا حامل رہا ہے اور اس کا شمار قدیم تجارتی راستوں میں ہوتا ہے۔شام اپنی متوع ثقافت اور تاریخی ورثے کے حوالے سے بھی شہرت رکھتاہے۔ عجائب گھر کے ڈپٹی ڈائرکٹر کے مطابق یہاں پر قدیم مشرقی ، کلاسیکل اور اسلامی ادوار تک کے تمام نوادرات موجود ہیں جنہیں عنقریب نمائش کیلئے پیش کریں گے۔ اب دیکھنا ہے کہ واقعی کیا شام کے حالات معمول پر آتے جارہے ہیں یا پھر بشارالاسد یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھے ہوئے ہیں اور مستقبل قریب میں انکے مخالفین انکا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہیں اور واقعی بشارالاسد کے مخالفین کیلئے انکا اقتدار پر فائز رہنا ان تمام کی ناکامی تصور کیا جائے گا۔ شام کی جنگ کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں شامی حکومت کے بعد سعودی عرب کا سب سے بڑا نقصان ہوا ہے ۔سعودی عرب شام میں بشارالاسدکی ظالمانہ کاروائیوں کے خلاف انہیں اقتدار سے محروم کرنے کیلئے مکمل کوشش کرچکا ہے جبکہ یمن میں صدر عبدربہ منصور ہادی کو اقتدار پر فائز رکھنے کیلئے انکی مکمل تائید و حمایت کرتے ہوئے فوجی سازو سامان فراہم کررہا ہے ، سعودی عرب کی سرکردگی میں یمن میں حوثی بغاوت کے خلاف ابھی کارروائیاں جاری ہیں۔ سعودی عرب کی معیشت پرشام کی خانہ جنگی میں بشارالاسد کے خلاف کارروائیاں اور یمن میں حوثی بغاوت کو کچلنے کے خلاف بُرا اثر پڑا ہے ۔ شام اور یمن کے حالات نے مشرقِ وسطیٰ کے حالات کو کشیدہ کردیاہے۔ مشرقِ وسطی کے حالات نے سعودی عرب کو امریکہ اور دیگر ممالک سے کروڑہا ڈالرس کے ہتھیار اور فوجی سازو سامان خریدنے پر مجبور ہونا پڑا کیونکہ یمن کے حوثی باغی سعودی عرب پر میزائلس حملے کرچکے ہیں اور انکی سعودی عرب کے خلاف مخالفانہ کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔نہیں معلوم یہ سلسلہ مزید کب تک جاری رہے گااور مشرقِ وسطیٰ کے حالات کب بہتر ہونگے۰۰۰

یمن میں حوثی باغیوں کے دھماکے خیز آلات اور بارودی سرنگیں
سعودی اتحادی فورسس یمن میں حوثی باغیوں کو پسپا کرنے کی بھرپور کوششیں کررہی ہیں تو دوسری جانب حوثی باغی بارودی سرنگیں بچھا کر جان لیوا حملے کررہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق حوثی باغی ملیشیا کی جانب سے بارودی سرنگیں بچھانے کے عمل میں نت نئی طریقے استعمال کئے جارہے ہیں جس کی وجہ سے روزانہ کئی افراد ہلاک ہورہے ہیں۔بتایا جارہاہیکہ حوثیوں نے اپنی تازہ ترین جدّت طرازی میں کھجور کے درخت کے تنوں کی شکل میں دھماکا خیز آلات اور بارودی سرنگیں نصب کررہے ہیں۔یمنی فوج میں العمالقہ بریگیڈز کے میڈیا سینٹر کے مطابق حوثی ملیشیا نے الحدیدہ صوبے میں کیلو 16کے علاقے کے نزدیک شہریوں کے کھیتوں میں کھجور کے تنوں کی شکل میں دھماکا خیز مواد اور آلات نصب کئے۔ شکر ہے کہ یمنی فوج کی انجینئرنگ ٹیم نے ان کا پتہ چلا کر تمام مواد کو ناکارہ بنا دیا ورنہ اس سے مزید کئی ہلاکتیں ہوتی تھیں۔اس سلسلے میں بتایا جارہا ہے کہ مذکورہ دھماکا خیز آلات کو ایرانی تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے کھجور کے تنوں کی شکل میں تیار کیا گیا ہے۔اس سے قبل بھی حوثی ملیشیا نے مغربی ساحل کے علاقے میں ہزاروں بارودی سرنگیں اور دھماکا خیز آلات نصب کیے تھے جن کے سبب سیکڑوں یمنی شہری ہلاک ہوئے ہیں۔دوسری جانب العمالقہ بریگیڈز کی انجینئرنگ ٹیم نے اْن ہزاروں بارودی سرنگوں اور دھماکا خیز آلات کو ناکارہ بنایا جن کو حوثی ملیشیا نے عام راستوں، شہریوں کے کھیتوں، اسکلوں مساجد اور لوگوں کے گھروں میں بچھایا اور نصب کیا تھا۔یمن کے صوبے الجوف میں28؍ اکٹوبر کے روز انسانی حقوق کے بیورو کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ حوثیوں کی جانب سے صوبے میں بچھائی گئی بارودی سرنگوں کے نتیجے میں 713 شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق بارودی سرنگوں کا شکار افراد کی تعداد کے لحاظ سے الجوف کا یمن میں چوتھا نمبر رہاہے، جہاں پر 183 کے لگ بھگ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 300 سے زائد کا حْلیہ بگڑ گیا۔ انسانی حقوق بیورو نے ان بارودی سرنگوں سے شہریوں کو بچانے کے لیے فوری طور پر حرکت میں آنے کیلئے کہا ہے اب دیکھنا ہے کہ عبدربہ ہادی کی فوج اور سعودی اتحادی فوج اس سلسلہ میں کس طرح رہائشی علاقوں سے اس بڑے خطرے پر قابو پاسکتی ہے۔

ترکی کی ترقی کیلئے طیب اردغان کا ایک نیا اقدام
ترکی کے صدر رجب طیب اردغان اپنے ملک کو بین الاقوامی سطح پر معاشی اعتبار سے مستحکم کرنے کی سعی مسلسل میں مصروفِ عمل ہیں۔ ان دنوں رجب طیب اردغان نے استنبول کے تیسرے ایئر پورٹ کا افتتاح کیا ہے جو منصوبے کے مطابق 2028تک دنیا کا سب سے بڑا اور مصروف ترین ایئر پورٹ بن جائے گا۔ ابتدائی مراحل میں 2021تک اس ایئر پورٹ سے سالانہ 9کروڑ مسافروں کی آمدورفت کی گنجائش ہوگی ۔جس کے بعد 2023تک اسے بڑھا کر 15کروڑ اور پھر 2028تک 20کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ صدر طیب اردغان نے جدید ترکی کے قیام کی 95ویں سالگرہ کے موقع پر اس ایئرپورٹ کا افتتاح کیا ۔ 12ارب ڈالر لاگت سے بنا یہ ایئر پورٹ صدر اردغان کے لئے نہایت اہم ہے کیونکہ وہ توقع کرتے ہیں کہ اس منصوبے کی مدد سے استنبول بین الاقوامی آمد و رفت کا مرکز بن جائے گا جہاں سے ایشیاء، یورپ اور آفریقی ممالک کو ملایا جائے گا۔ استنبول میں موجودہ دو ایئر پورٹس میں ایک اتاترک ایئر پورٹ ہے جو اس سال کے آخر تک معمول کی پروازوں کیلئے استعمال ہوگا لیکن اگلے سال سے شہر کے مرکزی ایئر پورٹ کی حیثیت نئے ایئر پورٹ کو مل جائے گی اور اتاترک ایئر پورٹ نجی طور پر استعمال ہوتا رہے گا جبکہ دوسرا ایئر پورٹ صبیحا گورکن ہے جو استنبول کے ایشیائی حصے میں واقع ہے اس ایئرپورٹ پر نئے ایئرپورٹ سے کوئی اثر نہیں ہوگا اور یہاں سے پروازیں معمول کے مطابق اڑیں گی۔

لیبیا میں داعش کی بڑھتی سرگرمیاں
لیبیا میں دولت اسلامیہ (داعش) نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب الجفرہ ضلع کے قصبے الفقہاء کو حملے کا نشانہ بنایا۔ اس کے نتیجے میں قصبے کی میونسپل کونسل کے سربراہ کے بیٹے سمیت 4 افراد ہلاک ہو گئے۔ علاوہ ازیں متعدد پولیس اہل کاروں کو بھی اغوا کر لیا گیا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق الجفرہ کی بلدیاتی کونسل نے پیر کی صبح بتایا کہ داعش نے الفقہاء قصبے پر حملے کے دوران 25 مسلح گاڑیوں کا استعمال کیا۔حملہ آوروں نے ایک پولیس اسٹیشن، شہری دفاع کے مرکز، بلدیاتی محافظین کے صدر دفتر اور المدار موبائل فون نیٹ ورک کے اسٹیشن کو نذر آتش کر دیا۔بلدیاتی کونسل کے مطابق داعشی دہشت گردوں نے مقامی آبادی میں دہشت پھیلا کر علاقے سے واپس ہوئے۔ اس دوران بعض گھروں کو آگ لگا دی گئی اور متعدد نوجوانوں کو اغوا کر لیا گیا جن کی درست تعداد معلوم نہیں ہو سکی۔الفقہاء کی بلدیاتی کونسل کے سربراہ نے علاقے کی صورت حال کو انتہائی افسوس ناک قرار دیتے ہوئے فوج سے مطالبہ کیا کہ وہ حملہ آوروں کا تعاقب کرے۔بتایا جارہا ہے کہ داعش کے اس حملے سے دو ہفتے قبل لیبیا کی فوج نے ملک میں داعش کے ایک اہم لیبیائی رہنما جمعہ القرقعی کو گرفتار کر لیا تھا سمجھا جارہا ہے کہ داعش کا یہ حملہ اسی کی کڑی ہے۔لیبیاء فوج کی جانب سے داعش کے حملے کے بعد عوام خوفزدہ ہیں اب دیکھنا ہے کہ داعش کی جانب سے اغوا کئے گئے نوجوانوں کو چھوڑا جاتا ہے یا انہیں اذیتیں دے کر داعش اپنے رہنماء کو چھڑانے کی کوشش کریں گے۔

انڈونیشیا میں مسافر بردار طیارہ حادثہ کا شکار
29؍ اکٹوبر کو انڈونیشیا میں نجی ایئرلائن 'لوئن ایئر' کا ایک مسافر طیارہ سمندر میں گر کر تباہ ہوگیا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق حادثے کا شکار پرواز جے ٹی 610 جکارتہ سے جزیرہ سماٹرا کے شہر پنگ کل پنانگ جارہا تھا۔انڈونیشیا کی وزارت ٹرانسپورٹ نے تصدیق کی ہے کہ طیارے میں عملے کے ارکان سمیت 189 افراد سوار تھے۔واضح رہے کہ حادثے کا شکار ہونے والے بوئنگ 737 میکس 8 طیارے میں 210 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ طیارہ مقامی وقت کے مطابق صبح 6 بج کر 10 منٹ پر جکارتہ سے روانہ ہوا اور 7 بج کر 20 منٹ پر اسے اپنی منزل پر پہنچنا تھا، تاہم اڑان بھرنے کے 13 منٹ بعد ریڈار سے اچانک غائب ہوا اور ایئر ٹریفک کنٹرول سے اس کا رابطہ منقطع گیا۔ترجمان کے مطابق ایئر ٹریفک سے رابطہ منقطع ہونے کے وقت طیارہ 3 ہزار 650 فٹ کی بلندی پر تھا۔غیر ملکی نیوز ایجنسی کے مطابق کشتی میں موجود چند مسافروں نے جزیرہ سماٹرا کی جانب جاتے ہوئے طیارے کو سمندر میں گرتے دیکھا ہے۔طیارے کے ملبے کی تلاش کے لیے انڈونیشیا کے ریسکیو اداروں نے امدادی کارروائی شروع کردی ہے۔انڈونیشی وزارت ٹرانسپورٹ کے ڈائریکٹر جنرل آف سول ایوی ایشن سندھو رہایو نے بتایا کہ جہاز میں 178 افراد ایک بچہ اور 2 نومولود سوار تھے جبکہ جہاز کے عملے میں 2 پائلٹ اور6 فضائی میزبان شامل تھے۔رپورٹس کے مطابق طیارے کے ملبے کے تکڑے ، مہلوکین کا سازو سامان اور چندافراد کی نعشیں ملیں ہیں جبکہ طیارے کا بلیک باکس بھی ملنے کی اطلاعات ہیں۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق نعشوں کو پوسٹ مارٹم کیلئے مقامی ہاسپتل منتقل کیا گیا جبکہ 132افراد خاندان کے ڈی این اے ٹسٹ کی جانچ کیلئے لئے گئے تاکہ اس سے ان مہلوکین کی نعشوں کا پتہ چلایا جاسکے۔
***
 

M  A Rasheed Junaid
About the Author: M A Rasheed Junaid Read More Articles by M A Rasheed Junaid: 352 Articles with 210581 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.