حضرت امام ابوحنیفہ ؒ (۸۰؁ھ۔۱۵۰؁ھ): حیات اور کارنامے

مختصر حالاتِ زندگی: آپ کا اسم گرامی نعمان اور کنیت ابوحنیفہ ہے۔ آپ کی ولادت ۸۰ ؁ھ میں عراق کے کوفہ شہر میں ہوئی۔ آپ فارسی النسل تھے۔آپ کے والد کا نام ثابت تھا اور آپ کے دادا نعمان کابل کے اعیان واشراف میں بڑی فہم وفراست کے مالک تھے۔ آپ کے پردادا مرزبان فارس کے ایک علاقہ کے حاکم تھے۔ آپ کے والد حضرت ثابتؒ بچپن میں حضرت علی ؓکی خدمت میں لائے گئے تو حضرت علیؓ نے آپ اور آپ کی اولاد کے لئے برکت کی دعا فرمائی جو ایسی قبول ہوئی کہ امام ابوحنیفہ ؒ جیسا عظیم محدث وفقیہ اور خدا ترس انسان پیدا ہوا۔ آپ نے زندگی کے ابتدائی ایام میں ضروری علم کی تحصیل کے بعد تجارت شروع کی لیکن آپ کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے علم حدیث کی معروف شخصیت شیخ عامر شعبی کوفی ؒ(۱۷؁ھ۔ ۱۰۴؁ھ)، جنہیں پانچ سو سے زیادہ اصحاب رسول کی زیارت کا شرف حاصل ہے، نے آپ کو تجارت چھوڑکر مزید علمی کمال حاصل کرنے کا مشورہ دیا چنانچہ آپ نے علم کلام، علم حدیث اور علم فقہ کی طرف توجہ فرمائی اور ایسا کمال پیدا کیا کہ علمی وعملی دنیا میں امام اعظم کہلائے۔ آپ نے کوفہ، بصرہ اور بغداد کے بے شمار شیوخ سے علمی استفادہ کرنے کے ساتھ حصول علم کے لئے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور ملک شام کے متعدد اسفار کئے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کو ملک کے قاضی ہونے کا مشورہ دیا لیکن آپ نے معذرت چاہی تو وہ اپنے مشورہ پر اصرار کرنے لگا چنانچہ آپ نے صراحۃً انکار کردیا اور قسم کھالی کہ وہ یہ عہدہ قبول نہیں کرسکتے، جس کی وجہ سے ۱۴۶ہجری میں آپ کو قید کردیا گیا۔ امام صاحب کی علمی شہرت کی وجہ سے قید خانہ میں بھی تعلیمی سلسلہ جاری رہا اور امام محمدؒجیسے محدث وفقیہ نے جیل میں ہی امام ابوحنیفہ ؒ سے تعلیم حاصل کی۔امام ابوحنیفہؒ کی مقبولیت سے خوفزدہ خلیفۂ وقت نے امام صاحب ؒ کو زہر دلوادیا۔ جب امام صاحبؒ کو زہر کا اثر محسوس ہوا تو سجدہ کیا اور اسی حالت میں وفات پاگئے۔ تقریباً پچاس ہزار افراد نے نمازجنازہ پڑھی، بغداد کے خیزران قبرستان میں دفن کئے گئے۔ غرض ۱۵۰؁ھ میں صحابہ وبڑے بڑے تابعین سے روایت کرنے والا ایک عظیم محدث وفقیہ دنیا سے رخصت ہوگیا اور اس طرح صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کے خوف سے قاضی کے عہدہ کو قبول نہ کرنے والے نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا تاکہ خلیفۂ وقت اپنی مرضی کے مطابق کوئی فیصلہ نہ کراسکے جس کی وجہ سے مولاء حقیقی ناراض ہو۔

حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے بارے میں حضور اکرم ﷺ کی بشارت:مفسر قرآن شیخ جلال الدین سیوطی شافعی مصریؒ (۸۴۹؁ھ۔۹۱۱؁ھ) نے اپنی کتاب "تبیےض الصحیفۃ فی مناقب الامام ابی حنیفہؒ" میں بخاری ومسلم ودیگر کتب حدیث میں واردنبی اکرم ﷺ کے قول: (اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس بھی ہوگا تواہل فارس میں سے ایک شخص اس میں سے اپناحصہ حاصل کرلے گا )ذکر کرنے کے بعد تحریر فرمایا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ حضور اکرم ﷺ نے امام ابوحنیفہؒ (شیخ نعمان بن ثابتؒ) کے بارے میں ان احادیث میں بشارت دی ہے اور یہ احادیث امام صاحب کی بشارت وفضیلت کے بارے میں ایسی صریح ہیں کہ ان پر مکمل اعتماد کیا جاتا ہے۔ دیگر بڑے بڑے محدثین حتی کہ شیخ ابن حجر الہیتمی المکی الشافعی ؒ (۹۰۹ھ۔۹۷۳ھ) نے بھی اس کی تائید کی ہے۔

حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی تابعیت: حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ( جو فن حدیث کے امام شمار کئے جاتے ہیں) سے جب امام ابوحنیفہؒ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہؒ نے صحابۂ کرام کی ایک جماعت کو پایا ، اس لئے کہ وہ ۸۰ ہجری میں کوفہ میں پیدا ہوئے اور وہاں صحابۂ کرام میں سے حضرت عبداﷲ بن اوفی ؓ موجود تھے، ان کا انتقال اس کے بعد ہوا ہے۔ بصرہ میں حضرت انس بن مالک ؓ تھے اور ان کا انتقال ۹۰ یا ۹۳ہجری میں ہوا ہے۔ ابن سعد ؒ نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ کہا جائے کہ امام ابوحنیفہؒ نے حضرت انس بن مالک ؓ کو دیکھا ہے اور وہ طبقہ تابعین میں سے ہیں۔ نیز حضرت انس بن مالک ؓ کے علاوہ بھی اس شہر میں دیگر صحابۂ کرام اس وقت حیات تھے۔ شیخ محمد بن یوسف صالحی دمشقی شافعیؒ نے "عقود الجمان فی مناقب الامام ابی حنیفہؒ "کے نویں باب میں ذکر کیا ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہؒ اس زمانہ میں پیدا ہوئے جس میں صحابۂ کرام کی کثرت تھی۔ اکثر محدثین کا یہی فیصلہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ کو و دیکھا ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور حدیث کی مشہور کتابیں: احادیث کی مشہور کتابیں امام ابوحنیفہ ؒکی وفات کے تقریباً سو سال بعد تحریر کی گئی ہیں۔ ان مذکورہ کتابوں کے مصنفین امام ابوحنیفہ ؒ کی حیات میں موجود ہی نہیں تھے، ان میں سے اکثر امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں کے شاگرد ہیں۔ مشہور کتب حدیث کی تصنیف سے قبل ہی امام ابوحنیفہؒ کے مشہور شاگردوں (قاضی ابویوسفؒ اور امام محمدؒ) نے امام ابوحنیفہؒ کے حدیث اور فقہ کے دروس کو کتابی شکل میں مرتب کردیا تھاجو آج بھی دستیاب ہیں۔ مشہور کتب حدیث میں عموماً چار یا پانچ یا چھ واسطوں سے احادیث ذکر کی گئی ہیں جبکہ امام ابوحنیفہؒ کے پاس اکثر احادیث صرف دو واسطوں سے آئی تھیں۔

حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے اساتذہ وتلامذہ: امام ابوحنیفہؒ نے تقریباً چار ہزار مشائخ سے علم حاصل کیا، خود امام ابوحنیفہؒ کا قول ہے کہ میں نے کوفہ وبصرہ کا کوئی ایسا محدث نہیں چھوڑا جس سے میں نے علمی استفادہ نہ کیا ہو، تفصیلات کے لئے سوانح امام ابوحنیفہ ؒ کا مطالعہ کریں۔ علامہ شبلی نعمانی ؒنے اپنی مشہور ومعروف کتاب ’’سیرۃ النعمان‘‘ میں لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے درس کا حلقہ اتنا وسیع تھا کہ خلیفۂ وقت کی حدودِ حکومت اس سے زیادہ وسیع نہ تھیں۔ سینکڑوں علماء ومحدثین نے امام ابوحنیفہؒ سے علمی استفادہ کیا۔ امام شافعیؒ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص علم فقہ میں کمال حاصل کرنا چاہے اس کو امام ابوحنیفہؒ کے فقہ کی طرف رخ کرنا چاہئے، اور یہ بھی فرمایا کہ اگر امام محمدؒ(امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد) مجھے نہ ملتے تو شافعی ؒ، شافعیؒ نہ ہوتا بلکہ کچھ اور ہوتا۔ امام ابوحنیفہؒ کے چند مشہور شاگردوں کے نام حسب ذیل ہیں جنہوں نے اپنے استاذ کے مسلک کے مطابق درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ قاضی ابویوسفؒ، امام محمد بن حسن الشیبانیؒ، امام زفر بن ہذیلؒ، امام یحییٰ بن سعید القطانؒ، امام یحییٰ بن زکریاؒ، محدث عبد اﷲ بن مبارکؒوغیرہ۔

تدوین فقہ: عصر قدیم وجدید میں علم فقہ کی مختلف الفاظ کے ساتھ تعریف کی گئی ہے، مگر اُن کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام شرعیہ کا جاننا فقہ کہلاتا ہے۔ احکام شرعیہ کے جاننے کے لئے سب سے قبل قرآن کریم اور پھر احادیث کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ قرآن وحدیث میں کسی مسئلہ کی وضاحت نہ ملنے پر اجماع وقیاس (یعنی قرآن وحدیث کی روشنی میں نئے مسائل کے لئے اجتہاد) کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔فقہ کو سمجھنے سے قبل امام ابوحنیفہ ؒ کے ایک اہم اصول وضابطہ کو ذہن میں رکھیں کہ میں پہلے کتاب اﷲ اور سنت نبوی کو اختیار کرتا ہوں، جب کوئی مسئلہ کتاب اﷲ اور سنت رسول میں نہیں ملتا تو صحابۂ کرام کے اقوال وعمل کو اختیار کرتا ہوں۔ اس کے بعد دوسروں کے فتاویٰ کے ساتھ اپنے اجتہاد وقیاس پر توجہ دیتا ہوں۔ جب مسئلہ قیاس واجتہاد پر آجاتا ہے تو پھر میں اپنے اجتہاد کو ترجیح دیتا ہوں۔ فقہ کا دارو مدار صحابی رسول حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کی ذات اقدس پر ہے اور اس فقہ کی بنیاد وہ احادیث رسول ﷺ ہیں جن کو حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ کی زندگی میں ہی حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ سے صحابۂ کرام مسائل شرعیہ معلوم کرتے تھے۔ کوفہ شہر میں حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ قرآن وحدیث کی روشنی میں لوگوں کی رہنمائی فرماتے تھے۔ حضرت علقمہ بن قیس کوفی ؒ اور حضرت اسودبن یزید کوفی ؒ حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓکے خاص شاگرد ہیں۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓخود فرماتے تھے کہ جو کچھ میں نے پڑھا لکھا اور حاصل کیا وہ سب کچھ علقمہؒ کو دیدیا، اب میری معلومات علقمہؒ سے زیادہ نہیں ہے۔ حضرت علقمہؒ اور حضرت اسودؒ کے انتقال کے بعد حضرت ابراہیم نخعی کوفی ؒ مسند نشین ہوئے اور علم فقہ کو بہت کچھ وسعت دی یہاں تک کہ انہیں "فقیہ العراق" کا لقب ملا۔ حضرت ابراہیم نخعی کوفی ؒ کے زمانے میں فقہ کا غیر مرتب ذخیرہ جمع ہوگیا تھا جو ان کے شاگردوں نے خاص کر حضرت حماد کوفی ؒ نے محفوظ کررکھا تھا۔ حضرت حمادؒ کے اس ذخیرہ کو امام ابوحنیفہ ؒ نے اپنے شاگردوں خاص کر امام یوسفؒ، امام محمدؒ اور امام زفر ؒ کو بہت منظم شکل میں پیش کردیاجو انہوں نے باقاعدہ کتابوں میں مرتب کردیا، یہ کتابیں آج بھی موجود ہیں۔ اس طرح امام ابوحنیفہؒ حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ کے دو واسطوں سے حقیقی وارث بنے اور امام ابوحنیفہؒ کے ذریعہ حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ نے قرآن وسنت کی روشنی میں جو سمجھا تھا وہ امت مسلمہ کو پہونچ گیا۔ غرضیکہ فقہ حنفی کی تدوین اُس دور کا کارنامہ ہے جس کو رسول اﷲ ﷺنے خیر القرون قرار دیا اور احادیث رسول ﷺ مکمل حفاظت کے ساتھ اسی زمانہ میں کتابی شکل میں مرتب کی گئیں۔ فقہ حنفی کا یہ خصوصی امتیاز ہے کہ سابقہ حکومتوں (خاص کر عباسیہ وعثمانیہ حکومت) کا ۸۰ فیصد قانون عدالت وفوجداری فقہ حنفی رہا ہے اور آج بھی بیشتر مسلم ممالک کا قانون عدالت فقہ حنفی پر قائم ہے۔یہ قوانین قرآن وحدیث کی روشنی میں بنائے گئے ہیں۔

حضرت امام ابوحنیفہ ؒکی کتابیں: حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے دوران ِدرس جو احادیث بیان کی ہیں انہیں شاگردوں نے حدثنا اور اخبرنا وغیرہ الفاظ کے ساتھ جمع کردیا۔امام ابوحنیفہؒ کے درسی افادات کا نام "کتاب الآثار"ہے، جو دوسری صدی ہجری میں مرتب ہوئی، اس زمانہ تک کتابوں کی تالیف بہت زیادہ عام نہیں تھی۔ "کتاب الآثار"اس دور کی پہلی کتاب ہے جس نے بعد کے آنے والے محدثین کے لئے ترتیب وتبویب کے راہ نما اصول فراہم کئے۔ مسانید امام ابوحنیفہؒ: علماء کرام نے حضرت امام ابوحنیفہؒ کی پندرہ مسانید شمار کی ہیں جس میں ائمہ دین اور حفاظ حدیث نے آپ کی روایات کو جمع کرکے ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیا، ان میں سے مسند امام اعظم ؒ علمی دنیا میں مشہور ہے ، جس کی متعدد شروحات بھی تحریر کی گئی ہیں۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے مشہور شاگرد امام محمد ؒکی مشہور ومعروف کتابیں بھی فقہ حنفی کے اہم مآخد ہیں۔ المبسوط۔ الجامع الصغیر۔ الجامع الکبیر۔ الزیادات۔ السیر الصغیر۔ السیر الکبیر۔

حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے علوم کا نفع:حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے انتقال کے بعد آپ کے شاگردوں نے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے قرآن وحدیث وفقہ کے دروس کو کتابی شکل دے کر ان کے علم کے نفع کو بہت عام کردیا،خاص کر جب آپ کے شاگرد قاضی ابویوسفؒ عباسی حکومت میں قاضی القضاۃ کے عہدہ پر فائز ہوئے تو انہوں نے قرآن وحدیث کی روشنی میں امام ابوحنیفہ ؒ کے فیصلوں سے حکومتی سطح پر عوام کو متعارف کرایا چنانچہ چند ہی سالوں میں فقہ حنفی دنیا کے کونے کونے میں رائج ہوگیا اور اس کے بعد یہ سلسلہ برابر جاری رہا حتی کہ عباسی وعثمانی حکومت میں مذہب ابی حنیفہؒ کو سرکاری حیثیت دے دی گئی چنانچہ آج ۱۲۰۰ سال گزرجانے کے بعد بھی تقریباً ۷۵ فیصد امت مسلمہ اس پر عمل پیرا ہے اور ایک ہزار سال سے امت مسلمہ کی اکثریت امام ابوحنیفہؒ کی قرآن وحدیث کی تفسیر وتشریح اور وضاحت وبیان پر ہی عمل کرتی چلی آرہی ہے۔ ہندوستان، پاکستان، بنگلادیش اور افغانستان کے مسلمانوں کی بڑی اکثریت جو دنیا میں مسلم آبادی کا ۵۵ فیصد سے زیادہ ہے، اسی طرح ترکیا اور روس سے الگ ہونے والے ممالک نیز عرب ممالک کی ایک جماعت قرآن وحدیث کی روشنی میں امام ابوحنیفہ ؒ کے ہی فیصلوں پر عمل پیرا ہے۔

Najeeb Qasimi
About the Author: Najeeb Qasimi Read More Articles by Najeeb Qasimi: 188 Articles with 144988 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.