اب کی بار غم کے جو شدید پہاڑ گرے ہیں وہ کبھی سہنے کا
نام تک نہ لیں گے۔درد کی ایسی لہر دوڑ گئی ہے جو کبھی رکنے کا نام تک نہ لے
گی۔ایسا دھواں اٹھا ہے جو ختم ہونے کا نام تک نے لے گا۔ایسا اندھیرا چھا
گیا ہے جو روشنی کا نام تک نہ لے گا۔ایسا پل ٹوٹا ہے جو کبھی جڑنے کا نام
تک نہ لے گا۔آگ کا ایسا شعلہ بھٹکا ہے جو کبھی بجھنے کا نام تک نہ لے
گا۔ایسے جذبات ابھرے ہیں جو کبھی ختم ہونے کا نام تک نہ لیں گے۔ظالمو!کیوں
ایسے ادھیڑ عمر شخص کو شھید کردیا جو سماج میں امن و سلامتی کا داعی تھا؟جو
حق گوئی کا داعی تھا۔اے ظالمو!جن رخساروں کا بوسہ لینا ہم سعادت سمجھتے تھے
کیوں تم نے اسے چھریوں سے شھید کردیا؟جن کے ساتھ ہمارا ایک ٹوٹا پھوٹا ربط
تھا کیوں اسے شھید کردیا؟
مولانا سمیع الحق شھید جیسا چاند کبھی کبھار طلوع ہوا کرتا ہے۔آپ کی شہادت
کے افسوسناک واقعہ نے ایسا خلا چھوڑا جو کبھی پر ہونے کا نام نہیں لے
گا۔مولانا سمیع الحق نے 1937 میں اکوڑہ خٹک میں آنکھ کھولی، ان کا تعلق ایک
علمی گھرانے سے وابستہ تھا،ان کا شمار دنیا میں ایک جید عالم دین کے ساتھ
ساتھ ایک حق گو سیاستدان کےطور پر بھی ہوتا تھا،انہوں نے مکمل تعلیم دار
العلوم حقانیہ سے حاصل کی،انہوں نے کئی علوم پر مہارت حاصل کی،1998 میں
اپنے والد (مولانا عبد الحق) کی وفات کے بعد وہ اس مدرسہ کے مہتمم کے بنے
اور تاحال مہتمم رہے۔
ان سے ہزاروں کی تعداد میں شاگردوں نے علم حاصل کیا۔کئی طالبان رہنماؤں کو
بھی ان کے شاگرد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
مولانا سمیع الحق نرم گوشہ انسان تھے۔وہ مثبت سوچ کے حامل ایک عظیم موتی
تھے جسے دوبارہ اس جہاں کی لڑی میں پرونا ممکن نہیں۔وہ تعمیری سوچ رکھنے
والے ایک دیدہ ور شخص تھے۔انہیں ہمیشہ اس فکر نے ستایا کہ کیسے مسلمان آپس
میں یکجاں ہوجائیں۔وہ ہمیشہ امن کے فروغ کی بات کرتے تھے۔وہ نفرت بانٹنے کے
بجائے محبت بانٹتے تھے۔وہ کوسنے کے بجائے امید دلاتے تھے۔وہ ملکی اور عالمی
حالات پر ایک جرات مندانہ موقف اختیار کیا کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ انہیں ہر
شخص پسند کرتا تھا۔وہ یہ سمجھتے تھے کہ ملک پاکستان کی تمام دینی جماعتیں
ملکر ایک معتدل پالیسی اختیار کریں اور فرقہ واریت پھیلانے کے بجائے محبت
اور بھائی چارہ قائم کرکے ملک کو امن کا گہوارہ بنائیں۔
مولانا سمیع الحق 1985 سے 1997 تک دو دفعہ سینیٹ کے رکن بھی رہے۔وہ 2002
میں بھی ایوان بالا کے رکن منتخب ہوئے اور 2008 تک اسی عھدے پر فائز رہے۔وہ
اسلامی جمہوری اتحاد کے بانی بھی تھے جو 1988 کے الیکشن کے بعد بینظیر بھٹو
کی حکومت کے خلاف بنایا گیا تھا۔وہ 2001 میں وجود میں آنے والی دفاع
افغانستان کے چیئرمین رہے اور 2012 میں دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین بھی
بنے۔وہ 2001 سے لیکر 2006 تک متحدہ مجلس عمل کے نائب صدر بھی رہے۔ 2013 میں
جب خیبر پختونخوا اور فاٹا کے علاقوں میں طالبان نے بچوں کو پولیو کے قطرے
پلانے پر پابندی لگائی تھی تو اس وقت انہوں نے آگے بڑھ کر نہ صرف پولیو
ویکسی نیشن کے حق میں فتویٰ دیا بلکہ خود مہم میں حصہ بھی لیا۔
مولانا سمیع الحق شھید کے طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔یہی وجہ تھی کہ
ان سے بارہا مطالبہ رہا کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔افغانستان
میں امن کے لیے مفاہمتی پالیسی اختیار کرنے کے لیے ہمیشہ امیدیں سمیع الحق
شھید سے کی جاتیں کیونکہ طالبان ان پر اعتماد کرتے تھے اور ان سے دیرینہ
تعلقات رکھتے تھے۔
مولانا سمیع الحق شھید پر حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب یہ ملک ایک نازک
حالت سے دوچار ہے۔یہ وقت اس لیے بھی اہم ہے کہ دشمن یہاں انتشار اور خلفشار
چاہتا ہے۔دشمن چاہتا یہی ہے کہ کسی طرح پاکستان میں انتشار پیدا ہو اور
عالم اسلام کی ایک ایٹمی طاقت کمزور ہو۔ دشمن کی یہ چال ہے کہ جس طرح شام
میں مذہبی انتشار کی وجہ سے شام کمزور ہوا ہے اسی طرح دشمن اپنا یہ حربہ
استعمال کرکے پاکستان کو بھی کمزور کرنا چاہتا ہے۔مذہبی جماعتوں کے قائدین
ملک میں امن و یکجہتی کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔مولانا کی
شہادت پر کسی کو انتشار نہ پھیلانے دیں۔اگر انتشار پھیلتا ہے تو اس سے دینی
جماعتوں کی ساکھ بھی کمزور ہوگی اور ملک دشمن اپنے مذموم مقاصد میں کامیابی
بھی حاصل کریں گے۔کیا علماء کی شہادتوں کا سلسلہ یونہی جاری رہے گا؟ دینی
جماعتوں کو ملکر ایک متفقہ اور جامع لائحہ عمل دینا چاہیے۔ وگرنہ یہ سلسلہ
یونہی بڑھتا جائے گا اور اتنا بڑھے گا کہ ختم ہونے کا نام تک نہیں لے گا۔
اب ہمارے ملکی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کیسے اور کب مولانا سمیع الحق
شھید کے قاتلوں کو گرفتار کرتے ہیں ،یا پھر پہلے واقعات کی طرح ٹرخاجاتے
ہیں۔ہمارے ملک کی ایجنسی کا شمار دنیا کی ٹاپ ایجنسیوں میں ہوتا ہے۔اب
امتحان ہے اس ایجنسی کا کہ وہ صرف اپنے ادارے کے قاتلوں کو گرفتار کرتی ہے
یا پھر سب کے قاتلوں کو گرفتار کرتی ہے۔اب تک دیکھا تو یہی گیا ہے کہ یہ
اپنے ادارے تک محدود رہی ہے۔لیکن!جید علماء کرام کے قاتلوں کو اب تک پکڑنے
میں ناکام رہی ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالی مولانا سمیع الحق شھید کی شہادت کو
قبول فرمائے اور انکی کامل مغفرت فرمائے!امین۔ |