جانے کس منزل پہ ٹھہرے بے بسی کا سلسلہ

عوامی نمائندوں اور اور قومی خدام کے ہاتھوں آئے روز بڑھتی ہوئی درگت دیکھ دیکھ کے دماغ سوچنے پر مجبور ہوا اور دل نے اس کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے آج ایک مرتبہ پھر ہاتھوں کو تحریک دی کہ آج اپنے ہموطنوں سے بات کروں اور ان راہبران قوم سے پوچھیں کہ آخر ہمیں عوام ہونے کی سزا کب تک جاری رہے گی ؟اور یہ سزا مزید کتنی طویل ہے ؟اب آپ لوگ سوچیں گے کہ کس سزا کا بے وقت تذکرہ لے کر بیٹھ گیا ہوں تو جناب پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے بقول کسی چور ،اور بد عنوان کو اب معافی نہیں ملے گی بہت اچھی بات ہے اور جن کے نام پر یہ لوگ بد عنوانیاں کرتے رہے ہیں ان کی گلو خلاصی کیسے ہو گی ؟جس مزدور بیچارے کی بارش کے باعث چھت ٹپکتی ہو اسے کبھی کسی راہبر ملت نے اتنے پیسے نہیں دیئے کہ وہ مسکین اپنے گھر کی چھت مرمت کروا لے ،جس غریب کے گھر میں کھانے کو روٹی نہیں اسے کبھی کسی نے مہینے کا راشن ڈال کر کسی نے نہیں دیا ،جو بیچارا اپنے بچوں کی فیسیں ادا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا اسے کبھی ان عوامی سیوا کاروں نے یہ نہیں کہا کہ آپ کے بچوں کے تعلیمی اخراجات ہمارے ذمہ ہوئے ،ایسا کسی کو بھی کرنے کی توفیق نہیں ہوئی ہاں مگر یہ ضرور ہوا کہ اس کے نام سے اکاؤنٹ کھلوا کر ان میں کروڑوں نہیں اربوں روپے جمع کرواتے اور نکلواتے رہتے ہیں کیسی خدمت کر رہے ہیں یہ خدام ملت ؟کبھی کسی فالودے والے کو علم ہوتا ہے کہ وہ ارب پتی شہری ہے تو وہ سن کر ہی سن ہو جاتا ہے کہ مجھے تو اپنے دستخط بھی کرنے نہیں آتے، میں تو بمشکل تین چار سو روپے دیہاڑی کمانے والا آدمی ہوں اور اتنی کمائی سے آٹا دال دلیا کھینچ تان کے پورا ہوتا ہے اتنی آمدن میں سے تو دس روپے بچانا محال ہے میری بچت اتنی کہاں سے آگئی کہ کروڑوں نہیں اربوں روپے بچا کر بینک میں رکھوا سکوں ،کسی طالب علم کے اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے مل رہے ہیں ،کبھی کسی دھوبی کے اکاؤنٹ نکل رہے ہیں ، کبھی کسی کی کمپنیاں نکل رہی ہیں ،آخر یہ خادمین قوم چاہتے کیا ہیں ؟وہ رقم اپنے اکاؤنٹس میں کیوں نہیں رکھواتے ؟وہ اپنی کمپنیاں اپنے نام سے ہی کیوں نہیں چلاتے ؟ ہاں اب سمجھ میں آیا یہ تو عوام کی خدمت ہے کہ کہیں دنیا یہ نہ کہہ دے پاکستانی عوام غریب ہے غربت تو تب ظاہر ہو گی نا جب ان کے اکاؤنٹس میں کچھ نہیں ہو گا ارے ہماری عوام تو ارب پتی ہے بھلے کاغذوں میں ہی سہی ارب پتی تو بن گئی نا !ویسے بھی ہمارے راہبران قوم برابری کے خواہاں ہیں وہ یہ نہیں چاہتے کہ نیب ،ایف آئی اے اور ایف بی آر والے صرف ان ہی سے پوچھ گچھ کریں وہ اپنی عوام کو بھی پورا پورا حق دے رہے ہیں کہ یہ تمام ادارے ان سے بھی تفتیش کریں تا کہ جمہوریت ظاہر تو ہو سکے نا !۔ پانامہ سے اٹھنے والے ہنگامہ سے لے کر دھوبی کی کمپنی تک ،بڑے بڑے لوگوں کی آف شور کمپنیوں سے غریبوں کے دلدوز اکاؤنٹس تک آپ ذرا جائزہ لے کر دیکھیں تو بہت کچھ کھل کر سامنے آجائے گا کہ قومی خزانے کی صفائی اور دولت کی دھلائی (منی لانڈرنگ )کا عمل کیسے مکمل ہوتا رہا ہے اور تا حال ہو رہا ہے ۔کبھی کسی مفلس کی چار چار ملیں نکل رہی ہیں واہ کیا کہنے جو چار عزیزوں سے اپنی مفلسی کے باعث مل نہیں سکتا اسے مل مالک بنا دیا گیا اور ایسی ملوں کا مالک جس کی نہ آمدن اسکی ہے اور نہ پروڈکشن واہ کیا کہنے ایسا کیا کیوں جاتا ہے اور کس لئے غریب کی پیوند لگی چادر کے پلو سے باندھ کر اپنی ناجائز دولت خود پارسا بن رہے ہیں یہ قومی ڈاکو اور عالمی غنڈے جنہیں لوگ اشرافیہ کے نام سے جانتے ہیں حالانکہ شرافت ان سے کوسوں دور اپنا چہرہ بھی ان بھیڑیوں کو دکھانا اپنی توہین گردانتی ہے۔ یہ اشرافیہ کے بھیس میں بدمعاشیہ کمیونٹی لومڑی سے زیادہ چالاک اور بھیڑیئے سے بڑھ کر درندوں کا غول ہے انہیں اقتدار میں پہنچنا ہو تو غریب کے ووٹ کی بیساکھی استعمال کرتے ہیں ،انہیں اپنی ناجائز دولت کو چھپانا ہو تو غریب کے نام پر اکاؤنٹس اوپن کروا لیتے ہیں کہ کل کلاں اگر انکوائری کی زد میں آئے تو بیچارہ غریب ہم تو پارسا کے پارسا ہی رہیں گے ۔بقول شاعر
شب کو مئے خوب سے پی صبح کو توبہ کرلی
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

اور ایک طرف وطن عزیزکی معصوم اور بھولی بھالی عوام ہے انہی لوگوں کے آگے پیچھے زندہ باد زندہ باد کے نعرے لگا لگا کر ہلکان ہوئی جارہی ہے ارے میرے معصوم ہموطنو پہچانو پہچانو ایسے نوسر بازوں کو وہ خواہ کسی پارٹی ہی کا راہنما کیوں نہ ہو آپ کے ووٹ کے سہارے کے بغیر زینت اسمبلی نہیں بن سکتا تو کیوں مسترد نہیں کرتے ایسے جعلسازوں کو جو ایوان اقتدار میں پہنچتے ہی آپ کی امنگوں اور امیدوں کو رد کر دیتے ہیں کیوں ایسے غاصبوں سے پیچھا نہیں چھڑواتے جو آپ کے حقوق غصب کر رہے ہیں ۔انصاف کی تحریک کے داعی اب مسند نشین ہو چکے ہیں اب ان کا فرض بنتا ہے کہ بلا امتیاز سب قوم کے حقوق اور ملکی دولت پر شب خون مارنے والوں کا احتساب کریں یہ نہیں کہ صرف مخالفین کا ان کی اپنی چھتری کے سائے تلے بھی اگر کوئی ایسا ناسور چھپ کے بیٹھا ہے تو اسکو سزا پہلے دے کر انصاف کے علم کو بلندی و رفعت بخشیں اور غریبوں کے نام پر کھلنے والے تمام بے نامی اکاؤنٹس بحق سرکار ضبط کر کے فلاح وطن میں وہ تمام دولت خرچ کریں اور جو املاک غرباء کے نام پر بنی ہیں وہ انہی غریبوں کی بہبود پر خرچ کرتے ہوئے قومی دولت قوم کے لئے کے نعرے سے سرخرو ہوں ۔مزید یہ کہ جن غرباء کے نام پر جس بھی قومی مجرم نے جرم کیا ہے بھلے وہ کوئی بھی ہو اسے قوم کے سامنے لایا جائے قرارواقعی سزا دی جائے مزید برآں ان بے چارے غریب ، مزدور ،طالبعلم ، اور محنت کشوں کو انکوائریوں اور پیشیوں سے چھٹکارہ دلایا جائے ۔

M.H BABAR
About the Author: M.H BABAR Read More Articles by M.H BABAR: 83 Articles with 73031 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.