مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ کے ریاستہائے متحدہ امریکہ کا اقتدار
سنبھالنے کے بعد سے، فلسطین کے حوالے سے امریکہ کا جو ڈھکا چھپا موقف تھا
وہ اب کھل کر سامنے آرہا ہے۔ ٹرمپ حکومت کی اب تک کی حرکت سے یہ واضح ہوتا
نظر آرہا ہے کہ اب فلسطین نامی ریاست صرف تاریخ کے حصہ کے طور پر باقی رہ
جائے گی؛ نہیں تو خارج میں کوئی وجود باقی نہیں رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ
اس شخص سے پہلے تک امریکی رہنما اور حکام فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے
اپنے منافقانہ چال کو بروئے کار لاتے ہوئے "دو علاحدہ ریاست" کی تھیوری پیش
کرتے رہے ہیں؛ مگر ٹرمپ اب عملی طور پر اسرائیل کے حوالے سے جو کچھ کررہا
ہے، وہ دو ریاستی فارمولے کے سراسر مخالف ہے۔ ٹرمپ حکومت کے ہر عمل سے یہ
عیاں ہے کہ وہ یک طرفہ اور جانبدارانہ طور پر اسرائیل کی حمایت پوری طاقت
وقوت کے ساتھ کر رہا ہے اور اسرائیل ہی نہیں؛ بل کہ "عظیم تر اسرائیل" کا
خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کی فکر میں لگا ہے۔
اس نظریہ کو اس سے بھی تقویت ملتی ہے کہ ٹرمپ نے 16/فروری 2017 کو غاصب
صہیونی ریاست کے وزیر اعظم، بنجامن نتن یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس
کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان
جاری تنازع کے حل اورمشرق وسطی میں امن کے لیے جہاں دو ریاستی حل کی کوشش
کر رہے ہیں، وہیں"یک ریاستی حل" بھی زیر غور ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان سے جہاں
امریکہ کی سالوں پرانی پالیسی سے انحراف واضح طور پر نظر آتا ہے، وہیں
دوسری طرف اس سے ٹرمپ کی صہیونیت زدہ ذہن کی عکاسی بھی ہورہی ہے، جس کا
نتیجہ اب کھل کر سامنے آنے لگا ہے۔
ابھی چند دنوں پہلے یعنی 18/اکتوبر 2018 کو ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطین کے
وجود کو مٹانے کی کوشش کرتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ بیت المقدس میں قائم
امریکی قونصل خانہ برائے فلسطین کو بند کرکے، اسے امریکی سفارت برائے
اسرائیل کے ساتھ ضم کردیا جائے گا۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سکریٹری آف
اسٹیٹ، مسٹر مائک پومپیو نے، قونصل خانہ کو سفارت خانہ میں ضم کیے جانے کے
حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم امریکی سفارت خانہ برائے اسرائیل
میں، ایک نئی یونٹ برائے فلسطینی امورقائم کرکے، مغربی کنارے، غزہ اور بیت
المقدس کے فلسطینی شہریوں کے حوالے سے مستقل طور پر رہنمائی اور خبر گیری
کا فریضہ انجام دیتے رہیں گے۔ قونصل خانے کی بندی کے اعلان پر ٹرمپ حکومت
کا یہ دعوی ہے کہ اس سے اس کے حکمت عملی میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نہیں
آئے گی؛ بل کہ خدمات کی انجام دہی تشفی بخش طریقے سے ادا کی جائے گی۔ یہ
امریکی دعوی کم از کم ہم جیسے لوگوں کے لیے تو مضحکہ خیز ہی ہے۔ ٹرمپ
انتظامیہ کی اس حرکت سے یہ بات کھل کر سامنے آرہی ہے کہ امریکہ دن بہ دن
فلسطین کی حیثیت کو بتدریج کم کرنے کی پیہم کوشش میں لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
سابق اسرائیلی سفارتی نمائندہ برائے ریاستہائے متحدہ امریکہ مائیکل اورین
نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئےاس امریکی حرکت کو اسرائیل اور امریکہ کے لیے
ایک "عظیم دن" سے تعبیر کیا ہے۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اقتدار سنبھالتے ہی ڈیوڈ فریڈمین
کو اپنا سفیر بنا کر غاصب صہیونی ریاست اسرائیل میں بھیجا ہے۔ یہ شخص پہلے
سے صہیونی مزاج ہے اور غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے حوالے سے جانب دار ہے۔
امریکی سفیر بننے سے پہلے، صہیونیت کا یہ علم بردار شخص ایک ایسے گروپ کی
قیادت کرچکا ہے جو فلسطین کے "مغربی کنارے" میں، غیر قانونی طور پر آباد
صہیونی نو آباد کے لیے ملینوں ڈالرس چندہ کرکے، ان کو امداد پہونچانے میں
پیش پیش رہا ہے۔ ٹرمپ کا ایسے شخص کو سفیر بناکر، غاصب ریاست میں بھیجنے کا
مقصد اسرائیل کو نظریاتی قوت فراہم کرنے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
امریکی قونصل خانہ برائے فلسطین کو بند کرنے سے قبل، 10/ستمبر 2018 کو مسٹر
ٹرمپ نے واشنگٹن میں قائم فلسطینی مشن/فلسطین لبریشن آئرگنائزیشن کی سفارتی
آفس کو بند کرکے، مشن کے ہیڈ، عزت مآب حسان زولمت اور ان کی بیوی بچے کا
ویزا منسوخ کرکے، ان کو یو ایس اے سے نکال باہر کیا۔ مشن کو بند کرنے کی
وضاحت پیش کرتے ہوئے یو ایس نیشنل سیکوریٹی مشیر مسٹر جون بولٹن نے کہا تھا
کہ "فلسطینی انتظامیہ اسرائیل کے ساتھ بلاواسطہ معنی خیز گفت وشنید اور
مذاکرات سے انکار کررہی ہے؛ اس لیے ہم فلسطینی مشن کو بند کررہے ہیں۔"
واشنگٹن میں واقع فلسطینی مشن تقریبا 24/سالوں سے کام کر رہا تھا۔ اب ٹرمپ
انتظامیہ کا اس کو بند کرنا اور اس طرح کا غیر معقول سبب پیش کرنا، کسی بھی
عقلمند انسان کے حلق سے نیچے نہیں اتر رہا ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ بیت
المقدس کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرلے، اسرائیل عالمی عدالت کے فرمان
کی اپنے قدم سے روندتے ہوئے فلسطینیوں کی زمین قبضہ کرکے نئی کالونیاں
تعمیر کرتا رہے اور اسرائیلی افواج روز وشب فلسطینیوں کو اپنی گولی سے
بھونتا رہے، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ فلسطینی انتظامیہ، امریکہ کی اطاعت
وفرماں برداری کرتے ہوئے، اس کے اشارے پر اسرائیل سے معنی خیز مذاکرات کرے!
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کا معنی خیز گفت وشنید اور مذاکرات کا مطلب یہ ہے کہ
فلسطینی انتظامیہ بغیر کسی شروط وقیود کے اسرائیل وامریکہ کے مطالبات کو
قبول کرلے اور فلسطینی عوام بغیر کسی حدود اور بوڈرس کے ایک ایسے فلسطین کو
قبول کرلے جس کا حقیقت میں کوئی وجود نہ ہویا دوسرے لفظوں میں وہ آنکھ بند
کرکے جو کچھ بچا کھچا فلسطین ہے، اسے غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے حوالے
کردے؛ تاکہ ان کا "عظیم تر اسرائیل" (Greater Israel) کا خواب بہ سہولت
پورا ہوجائے۔ فلسطینی انتظامیہ ٹرمپ حکومت کی اس طرح کی من مانی کے سامنے
سرنگوں ہونے کو تیار نہیں؛لہذا ٹرمپ حکومت مختلف طریقے سے فلسطینیوں کو
گھیرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
گزشتہ سال 6/دسمبر 2017 کو مسٹر ٹرمپ نے اپنی تخریبی ذہن کا ثبوت دیتے ہوئے
بیت المقدس (Jerusalem) کو غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کا دار الخلافت تسلیم
کرلیا۔ پھر 14/مئی 2018 کو اس نے اپنے سفارت خانہ کو تیل ابیب سے مقبوضہ
بیت المقدس میں منتقل کردیا۔ مسٹر ٹرمپ نے سفارت خانے کی منتقلی کو
"اسرائیل کے لیے ایک عظیم دن" سے تعبیر کیا۔ جب کہ تاریخ کا یہ وہ سیاہ دن
ہے کہ جس میں 60/معصوم فلسطینیوں کو، سفارت خانے کی منتقلی کی وجہ سے
مظاہرے کے دوران، اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پرا تھا۔ یہ سب کچھ ٹرمپ
نے اپنے حکم سے کروایا؛ جب کہ اقوامِ عالم فلسطینیوں کے اِس دعوی پر متفق
ہیں کہ بیت المقدس فلسطین کا اٹوٹ حصّہ ہے۔ اسے صہیونی ریاست نے غیر قانونی
طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اسے فلسطین کو واپس کیا جانا چاہیے۔
"اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجینسی" (UNRWA) جو اردن، لبنان، شام
وغیرہ میں لاکھوں کی تعداد میں غربت وافلاس کی زندگی گزار رہےفلسطینی
مہاجرین اور پناہ گزینوں کی ترقیاتی اور انسانی بنیادوں پر امداد کرتی ہے،
ٹرمپ انتظامیہ نے پہلے اس کو دی جانی والی امداد میں کٹوتی کیا۔ پھر اگست
2018 میں، اُس نے حکم صادر کیا کہ اب اُس ایجینسی کو دی جانی والی مالی
امداد مکمل طور پر ختم کردی جائے۔ اس کا اثر ان فلسطینیوں پر واضح طور
پردکھائی دے رہا ہے، جن کو زبردستی طور پر غاصب صہیونی ریاست اسرائیل نے
ہجرت پر مجبور کیا۔ خدا بھلا کرے سعودی، قطر، امارات وغیرہ کے حکمرانوں کا
کہ انھوں نے بروقت ہنگامی طور پر ایجینسی کو اضافی امداد فراہم کرکے کسی حد
تک حالات کو سدھارنے کی کوشش کی۔بہرحال، ٹرمپ کی اس حرکت کو اقوام متحدہ
اور متعدد یورپی ممالک نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے؛ لیکن ٹرمپ حکومت نے اس
کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔
ان سارے مظالم کو روا رکھنے کے باوجود، ریاستہائے متحدہ امریکہ کا یہ دعوی
ہے کہ فلسطین کے حوالے سے اس کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے؛ بل کہ
وہ ایسے دیر پا، جامع اور پر امن حل کے حصول کی کوشش میں ہے جس سے
فلسطینیوں اور اسرائیلوں کا مستقبل روشن ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ
فلسطینیوں کو اس بات کی سزا دے رہی کہ وہ اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے، جس
حد تک ممکن ہے، مستقل اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ مقام تاسف تو یہ ہے کہ
صہیونی ذہن ٹرمپ، اسرائیل کے حوالے سے کھلے عام جانبداری کامظاہرہ کر رہا
ہے؛ مگر دنیا کے سیکڑوں ممالک کے حکام وقائدین ٹرمپ حکومت کے ان مظالم کو
روکنے اور مظلوم فلسطینیوں کو ان کے حقوق دلوانے سےعاجز وقاصر نظر آرہے
ہیں!
ہزاروں ظلم ہوں مظلوم پر تو چپ رہے دنیا --- اگر مظلوم کچھ بولے تو دہشت
گرد کہتی ہے
٭٭٭ |