مولانا سمیع الحق کو فادر آف طالبان کے نام سے پہچانا
جاتا ہے، جب سے طالبان کی بنیادیں رکھی گئیں مولانا سمیع الحق کو بابائے
طالبان کی حیثیت حاصل رہی اور یہ فقط الفاظ کا کھیل نہیں تھا بلکہ یہ ایک
حقیقت ہے کہ ملا عمر سمیت طالبان کی اکثریت مولانا سمیع الحق کے مدرسے کی
ہی فارغ التحصیل ہے۔
طالبان کے ساتھ حکومت پاکستان کے تعلقات میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن
مولانا سمیع الحق نے کبھی بھی طالبان سے جدائی یا لاتعلقی کا اظہار نہیں
کیا۔ انہوں نے تادمِ آخر طالبان کے ساتھ اپنے عقیدتی و معنوی رشتے کو
نبھایا یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جس سانپ کو مولانا
دودھ پلا کر جوان کرتے رہے ، اسی نے بالاخرمولانا کو ڈس لیا ہے۔ بہر حال یہ
ماننا پڑے گا کہ طالبان نے جس تحریک کا آغاز گولی کے ساتھ کیا تھا اس کا
ایک باب مولانا کے خون کے ساتھ بند ہوگیا ہے اور اس کے نئے باب کا آغاز
اسی ہفتے میں ماسکو سے ہونے جارہا ہے۔
ابھی مولانا کا کفن بھی میلا نہیں ہوا کہ نو نومبر کو روس میں افغانستان
حکومت اور طالبان کے نمائندوں کا اجلاس ہو رہا ہے۔روسی ترجمان کے مطابق
طالبان کے سیاسی دفتر دوحہ کے وفد کی اس طرح کے اعلیٰ سطحی مذاکرات میں
شرکت پہلی مرتبہ ہوگی۔ایسی کانفرنس سے کچھ روز پہلے مولانا کا مشکوک انداز
میں قتل ہوجانا مزید کئی شکوک کو جنم دیتا ہے۔قابلِ ذکر ہے کہ اس اعلیٰ
سطحی کانفرنس میں امریکا، پاکستان، بھارت، ایران اور چین کے ساتھ ساتھ
سابقہ سوویت یونین کا حصہ رہنے والی وسطی ایشیا کی پانچ ریاستوں کو بھی
مدعو کیا گیاہے۔
یاد رہے کہ اس وقت جہاں طالبان کو قانونی حیثیت دینے کا کام ہورہا ہے وہیں
پر افغانستان میں بھارت کے مضبوط سفارتی وجود کو بھی کسی طور پرنظر انداز
نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ چند سالوں سے پاک افغان مشترکہ سرحد کو بھارتی
ایجنٹ اور تربیت یافتہ دہشت گرد مسلسل استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں۔
پاکستان کو اپنے تحفظ اور بقا کے لئے افغانستان و طالبان مذاکرات کے ساتھ
ساتھ افغانستان میں بھارت کے سفارتی کردار پر گہری نگاہ رکھنی ہوگی۔
دوسری طرف ان دنوں اسرائیل کو بھی قانونی طور پر تسلیم کئے جانے کی کوششیں
عروج پر ہیں۔گزشتہ دنوں اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے اومان کا دورہ
اور سلطان قابوس سے ملاقات بھی کی ہے۔ اس کے علاوہ منامہ میں عرب کانفرنس
سے خطاب کرتے ہوئے اومان کے وزیر خارجہ یوسف بن علاوی نے کہا کہ اسرائیل
خطے میں موجود اور مشرق وسطیٰ کی ایک تسلیم شدہ ریاست ہے۔ شاید اب وقت آگیا
ہے کہ اسرائیل کو بھی دوسری ریاستوں کی طرح سمجھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ
ہمیں اس جھگڑے کو ختم کرنا ہے۔اومان مشرق وسطیٰ میں امن کیلئے امریکی صدر
ٹرمپ کی کوششوں کے ساتھ ہے۔ اس کے بعد خالد بن احمد الخلیفہ جوکہ بحرین کے
وزیر خارجہ ہیں انہوں نے بھی اومان کے وزیرخارجہ کی تائید کی اور ایسا ہی
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے بھی کیا۔ گرشتہ دنوں میری ریغیف ،
اسرائیلی وزیر ثقافت و کھیل نے یو اے ای کا خصوصی دورہ بھی کیا، جسے مقامی
میڈیا نے ’’حمامۃ سلام‘‘ (امن کی کبوتری یا فاختہ) قرار دیا۔ گویا ساری ہی
عرب ریاستیں اسرائیل کے سامنے سر تسلیم خم کر چکی ہیں۔
اس وقت عرب ممالک جس طرح امریکہ و اسرائیل کے آگے بچھے جا رہے ہیں اس کا
خمیازہ مسلمانوں کی آئندہ کئی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ چونکہ زمینی حقائق
کے مطابق اس وقت بھی تیس مارچ ۲۰۱۸ سے اب تک غزہ پر اسرائیل کی بمباری جاری
ہے اور تحریک حق واپسی کو کچلنے کے لئے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا جا رہا
ہے لیکن اقوامِ متحدہ یا عرب ممالک کا گویا فلسطین سے کوئی تعلق ہی نہیں۔
یہ امر انتہائی توجہ کا طالب ہے کہ ماسکو میں ایک کانفرنس میں طالبان کے
وجود کو قانونی حیثیت دینے کے لئے کوششیں جاری ہیں جوکہ پہلے سے ہی
پاکستانیوں کے خون کے پیاسے ہیں اور مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد مزید
بے لگام ہوچکے ہیں اورسونے پر سہاگہ یہ کہ بھارت ان پر دستِ شفقت رکھے ہوئے
ہے جبکہ دوسری کانفرنس کے ذریعے اسرائیل کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کی
گئی ہے جو کہ صرف عرب ریاستوں کے لئے ہی خطرناک نہیں بلکہ پاکستان کے ایٹمی
اثاثوں کے لئے بھی شدید تھریڈ ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی
کوشش کا دائرہ کار اس وقت صرف عرب ممالک تک محدود نہیں بلکہ اس کی باز گشت
پاکستان کے اندر بھی سنائی دے رہی ہے۔
حکومتِ پاکستان اظہار کرے یا نہ کرے ، یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کا
مستقبل اور تحفظ ان دونوں کانفرنسوں کے جواب میں ایک مناسب اور ٹھوس رد عمل
میں مضمر ہے۔ |