فی الوقت مملکت میں جاری دھرنے و احتجاجی مظاہرے ختم
ہوچکے ہیں۔ گو ملک بھر میں قریباً تمام مذہبی جماعتوں نے مظاہرے اور سخت
زبان استعمال کی، لیکن مظاہروں کے مرکزی کردار کی جانب سے سوشل میڈیا میں
جو کہا گیا وہ ہمارے وزیراعظم نے پوری دنیا کو قوم سے خطاب میں بتادیا کہ
’’پاکستان میں چل کیا رہا؟‘‘ دھرنے و احتجاجی مظاہروں کے قائدین اور حکومت
کے درمیان جو معاہدہ طے پایا، اس میں ایسا کوئی نکتہ نہیں جو ڈیڈلاک کا سبب
بنتا۔
اب حکومت کیلے کے ٹھیلے کی لوٹ مار سے لے کر اربوں روپے کے نقصان کا تخمینہ
لگارہی ہے۔ کراچی کی یومیہ تجارت میں اربوں روپے کے خسارے سمیت کھربوں کے
نقصانات کی بڑی لمبی چوڑی تفصیل مرتب کی جارہی ہے۔ (جسے بلیک آؤٹ میڈیا کی
وجہ سے نہیں دیکھا جاسکا تھا)۔ میڈیا کا ’’ذمے دارانہ‘‘ رویہ تھا کہ دھرنوں
اور نقصانات کی براہ راست کوریج سے گریز کیا۔ لیکن اس وقت سوشل میڈیا سب سے
طاقتور فورم ہے، جہاں ہزاروں لاکھوں موبائل کیمروں کے ذریعے براہ راست ہر
قسم کے مظاہرے اور احتجاجی تقاریر سمیت وہ سب کچھ جو الیکٹرونک میڈیا نہیں
دکھاتا، بغیر کسی اشتہار اور وقفے کے دیکھا جاسکتاہے۔ عارضی طور پر موبائل
فون و انٹرنیٹ سروسز پر پابندی تو لگ جاتی ہے لیکن ان تقاریر اور مظاہروں
کی ریکارڈنگ من و عن آجاتی ہے۔ دنیا بھر میں اس قدر تیز رفتار میڈیا سروس
کی مثال بہت کم ملے گی۔
سوشل میڈیا پر پابندی کی افواہ نما خبر گزشتہ حکومت میں سنائی دی تھی، لیکن
موجودہ حکومت نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ مئی 2017 میں عمران خان نے کہا
تھا کہ ’’میڈیا یا سوشل میڈیا کی آزادی کو نقصان پہنچایا تو ہم سڑکوں پر
نکلیں گے۔ نواز شریف نے ایف آئی اے کے ذریعے سوشل میڈیا پر پابندی لگائی
اور لوگوں کی آواز بند کی گئی تو سڑکوں پر نکلیں گے۔ ہم کسی صورت لوگوں کی
آواز دبانے نہیں دیں گے۔‘‘ لیکن کچھ عبث نہیں کہ تحریک انصاف جہاں دوسرے
کہیں معاملات پر نظرثانی (یوٹرن) کرچکی ہے۔ اس معاملے میں بھی نظرثانی
پرمجبور نہ ہوجائے، (کیونکہ الیکٹرونک میڈیا کا بلیک آؤٹ کرانے سے کوئی فرق
نہیں پڑا)۔ اینکرز تلملارہے ہیں کہ انہیں ’’حساس‘‘ معاملات پر تجزیے سے
روکا جارہا ہے۔ میڈیا مالکان بھی پریشان کہ ریٹنگ کا کیا ہوگا۔ ادھر عدالت
عظمیٰ بھی عندیہ دے رہی ہے کہ ’’ریٹنگ‘‘ کا چکر ہی ختم کردیتے ہیں۔ چیف
جسٹس کا کہنا تھا کہ ’’ایسا کرتے ہیں ہم آرٹیکل 184 کی شق 3 کا مقدمہ ہی
ختم کردیتے ہیں اور ریٹنگ جیسی لعنت کو بھی ختم کردیتے ہیں، یہ بدعت ہے۔‘‘
اہم بات کہ فواد چودھری، شہریار آفریدی، مراد سعید، شیریں مزاری سمیت کئی
وزرا دھرنے کے خاتمے کے بعد دوبارہ میڈیا پر وارد ہوئے ہیں کہ ’’شرپسندوں‘‘
کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ یہ کیا جائے وہ کیا جائے گا۔ یہ سب عارضی تھا۔
مستقل علاج کی ضرورت ہے۔ شرپسندوں کی تصاویر اور نقصانات کی تفصیلات سبک
رفتاری سے اکٹھا کرکے ایف آئی آر درج (سیل) بھی کردی ہیں۔ دھرنے تو کچھ وقت
کے لیے رک گئے لیکن ختم نہیں ہوئے۔ یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومت (جو
بھی رہی ہو) عارضی علاج کرتی ہے۔ دھرنے ختم کرنے کا کریڈٹ حکومت کے بجائے
دھرنوں کے قائدین کو دینا ہوگا۔ مولانا سمیع الحق کی شہادت کے بعد ملک دشمن
عناصر اور نادان دوستوں نے جذباتی ہوکر سوشلستان پر جنگ کا آغاز کردیا تھا۔
لیکن وہ چنگاری شعلہ بننے سے قبل بجھ گئی۔ حکومتی وزرا کے بیانات کھسیانی
بلی کھمبا نوچے کے مترادف ہیں۔ کیا وزرا یہ سمجھ رہے ہیں کہ حکومت ان
دھرنوں والوں کے خلاف کوئی کارروائی کرے گی تو اسے انتقامی نہیں سمجھا جائے
گا۔ تاہم گزشتہ حکومت کے مقابلے میں حالیہ دھرنے جلد ختم ہوئے۔ یہ بات
اطمینان بخش رہی۔ نواز حکومت نے فیض آباد دھرنے میں سہل پسندی کا مظاہرہ
کیا تھا، جو اس قدر نازک ہوگیا تھا کہ حساس اداروں کو براہ راست مداخلت
کرنا پڑی۔ حالیہ دھرنے میں بھی کوشش کی گئی لیکن تشویش ناک صورتحال تھی کہ
دھرنا دینے والوں نے عدلیہ کے فیصلے پر فوج کو بھی گھسٹ ڈالا تھا اور
انتہائی حساس معاملے پر غیر مصدقہ تہمت لگادی تھی۔ یہاں فوجی قیادت نے صبر
و برداشت کا قابل تحسین مظاہرہ کیا۔ اپوزیشن رہنماؤں کی فہم و فراست کی داد
نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ اپوزیشن نے فروعی مفادات کے بجائے قومی مفاد کو
ترجیح دی اور پارلیمنٹ میں خود آگے بڑھ کر حکومت کو اپنے تعاون کا یقین
دلایا۔ اگر اپوزیشن جماعتیں اس موقع پر اپنی سخت ترین مخالف جماعت کو تعاون
کا یقین نہیں دلاتیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ مملکت کے حالات انتہائی
خراب ہوسکتے تھے۔ چین سے واپسی پر وزیراعظم کو اپوزیشن قائدین کے پاس جاکر
ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
حکومت سب سے پہلے اپنی اس سوچ کو ختم کرے کہ ان کے سامنے کوئی چھوٹا طبقہ
ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو بھی حکومت میں ہوتا ہے، وہ اپنے علاوہ سب سیاسی
و مذہبی اکائیوں کو ’’چھوٹا طبقہ‘‘ سمجھتا ہے۔ مشہور ہے کہ ہاتھی کے کان
میں اگر چیونٹی گھس جائے تو ہاتھی کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ سائنسدانوں کا
کہنا ہے کہ گروہ کی صورت میں رہنے والی چیونٹیاں جن کا شمار قدرت کے قدیم
ترین اور قابل معاشروں میں ہوتا ہے، یہ اجتماعی طور پر اپنے دشمنوں کو یاد
رکھتی ہیں۔ میلبورن یونیورسٹی کی تحقیقی ٹیم کے سربراہ پروفیسر مارک ایلگر
کے مطابق ایک گروہ میں رہنے والی تمام چیونٹیاں کسی ایک ساتھی کے تجربے کی
بنیاد پر بھی کسی کے بارے میں ردِعمل ظاہر کردیتی ہیں۔ انہوں نے اسے مجموعی
یا ’گروہی دانشمندی‘ قرار دیا۔ریاست جانتی ہے کہ ملک دشمن کوئی قوت ’’چھوٹا
طبقہ‘‘ نہیں ہوتا۔ سوات میں ایک ایف ایم ریڈیو پر ہرزہ سرائی کرنے والا
’’چھوٹا طبقہ‘‘ اس قدر طاقت ور ہوا کہ مالاکنڈ ڈویژن سے حکومتی رٹ ہی ختم
ہوگئی تھی۔ شمالی مغربی سرحدوں پر ’’چھوٹا طبقہ‘‘ اس قدر بااثر ہوا متعدد
فوجی آپریشن کرنا پڑے (جو اَب بھی جاری ہیں)۔ شمالی وزیرستان میں ایک
’’چھوٹا طبقہ‘‘ ریاست کے خلاف مسلسل سرگرم ہے، جس کا اثر و منفی پروپیگنڈا
ناپختہ اذہان کو متاثر کررہا ہے۔ بلوچستان میں ’’چھوٹا طبقہ‘‘ نام نہاد قوم
پرستی کی آڑ میں کابل اور بھارتی حکومت کی فنڈنگ پر وطن عزیز کے خلاف دنیا
بھر میں منفی پروپیگنڈا کررہا اور حساس علاقوں کو نہتے محنت کشوں کا
قبرستان بنارہاہے۔ کراچی میں بھی کئی ’’چھوٹے طبقے‘‘ ہیں جن کی محاذ
آرائیوں نے چار دہائیوں سے مملکت کی معاشی شہ رگ میں ایک بھی نئی صنعت نہیں
لگنے دی۔ پنجاب میں کالعدم تنظیموں کی بنیادیں رکھی گئیں اور پھر ان چھوٹے
طبقوں نے ملک بھر میں امن و امان کی چولیں ہلادیں۔ فرقہ واریت اور مسلکی
بنیادوں پر امت واحدہ کو ’’چھوٹے طبقے‘‘ نے ہی تقسیم کیا۔
چھوٹا طبقہ کیا کیا کرتا رہا اور کیا کرسکتا ہے، یہ ہم سب اچھی طرح جانتے
ہیں۔ لیکن حکومت میں آنے والی جماعتیں جو پہلے خود ’’چھوٹا طبقہ‘‘ ہوتی
ہیں۔ اکثریت بن کر سب کو چھوٹا طبقہ سمجھنے لگتی ہیں اور پھر ان کا انجام
وہی ہوتا ہے جو ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ ہمیں مستقل علاج کے لیے چھوٹے طبقہ
بنانے کے رجحان کو پہلے ختم کرنا ہوگا، کیونکہ بڑا طبقہ ہی چھوٹا طبقہ بننے
کا موجب بنتا ہے۔
|