جانے یہ خبر سچی ہے کہ جھوٹی کہ دھرنے میں ہونے والی
شرپسندی اور دھنگے فسا د کے خلاف کاروائیوں کے لیے تحریک لبیک والوں کی طرف
سے تعاون کی پیش کش کی گئی ہے۔کچھ بھی ہو یہ بڑی اہم خبر ہے۔اس سے تحریک
لبیک کی حقیقت عیان ہونے کا امکان بڑھ سکتاہے۔اگر یہ جماعت واقعی ان
شرپسندوں اورفسادیوں کو سامنے لانے کا فیصلہ کرچکی ہے جوا س سمیت دیگر
مذہبی دھڑوں کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں تو یہ بڑی اچھی با ت ہے۔اس سے اس
جماعت کا امیج بہتر ہوگا۔اس سے جڑے کچھ خدشات دور ہونگے۔اس جماعت سے عمومی
رائے بڑی منفی ہے۔خیال کیا جارہا ہے کہ تحریک لبیک کا قیام مخصوص طر ف سے
سامنے لایا گیا ہے۔اس کا مقصد مسلم لیگ ن کو مذہبی حلقوں سے ملنے والے ووٹ
سے محروم کرنا ہے۔یہی نہیں بلکہ عوامی مسلم لیگ کے وجود کی ضرورت بھی اسی
مقصد سے پیش آئی۔اس مقصد کے لیے عدلیہ کو ٹٹولا جاتا رہا۔سیاستدانوں پر
کنڈیاں پھینکی گئیں۔تحریک لبیک کی اصل طاقت علامہ خادم حسین رضوی ہیں حدود
وقیود سے عاری ان کا خطاب ہمیشہ اس جماعت کامناسب ہتھیار رہا ہے۔اگر چہ بعض
خطابا ت کی ذمہ داری ا ن کے قریبی رفقاء بھی نہیں اٹھانے کو تیا رہوتے مگر
اس کے باوجود رضوی صاحب کے خطاب ہر طرح کی نوک ٹوک سے آزادرہے۔اس جماعت کو
ان نو رتنوں میں سے ایک شمار کیا جاتاہے جو نوازشریف کو ہروانے کے لیے تیار
کیے گئے۔رضوی صاحب کو پوری طرح کی ہلہ شیر ی مل پانے کا یقین ہورہا ہے۔یوں
پیٹھ ٹھونکی جارہی ہے کہ شاباش جو مرضی کہہ ڈالو، جو مرضی کرگزرو تمہاری
کوئی ہوا کی طرف بھی نہیں دیکھ پائے گا۔اسی طرح کی ہلہ شیری سے عمران خاں
بھی مسلسل کئی برسوں سے آپے سے باہر ہوتے رہے ہیں۔کچھ اداروں میں بیٹھے لوگ
بھی اس ہلا شیر ی کے سبب اکثر آپے سے باہر نظر آتے ہیں۔تحریک لبیک کی طرف
سے دھرنے کے دوران توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں کی نشان دہی میں
مدد فراہم کرنے کا اعلان حیران کن ہے۔اگر آگے چل کر یہ جماعت واقعی ایسے
افراد کی نشان دہی اور ان کے خلاف کاروئیوں میں معاون بنی تو یہ اس جماعت
پر لگے کئی داغ دھوڈالے گا۔
حالیہ دھرنا سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف تھا۔سپریم کورٹ سے آسیہ بی بی کی
بریت کا فیصلہ اور لوگوں کی طرح تحریک لبیک والوں کو بھی مشتعل کرگیا۔اگر
چہ فیصلہ سنانے والے ججز بالخصوص چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے بہتیری
صفائیاں سامنے آئی مگر فیصلے کے مخالفین کی تسلی نہیں ہوئی۔چیف جسٹس نے یہ
بھی کہہ دیا کہ ججز دوسروں سے کم عاشق رسولﷺ نہیں ہیں۔بعض ججز درود پاک کا
ورد کرتے رہتے ہیں۔ہم کسی بے گناہ کو موت کی سز اکیسے سنا دیں؟حکومت کی طرف
سے بھی عدالتی فیصلے کا دفاع کیا گیا۔وزیراعظم نے یہ فیصلہ نہ ماننے والوں
کو فسادی قرارددے دیا۔اپنے ٹیلی ویژن خطاب میں انہوں نے متنبیہ کیا تھا کہ
ریاست کی رٹ کو چیلنج نہ کیا جائے۔ریاست کو طاقت استعمال کرنے پر مجبور نہ
کیا جائے۔عدالتی اور حکومتی وضاحتیں اپنی جگہ مگرکیا یہ حقیقت نہیں کہ
ہمارے عدالتی نظام میں بے پناہ کمزوریاں موجود ہیں۔چیف جسٹس کہہ رہے ہیں کہ
وہ کسی سے کم عاشق رسولﷺ نہیں وہ کسی بے گناہ کو پھانسی کیوں لگائیں؟کیا
انہیں پتہ ہے کہ اس سے قبل آسیہ بی بی کو دو دفعہ ججز نے پھانسی دینے کی
سزا سنائی تھی۔کیا وہ عاشق رسول ﷺ نہ تھے۔آسیہ بی بی کوسپریم کورٹ سے ریلیف
ملنے سے قبل دو عدالتوں نے مجرم قراردے دیا تھا۔اب قوم آپ کے فیصلے کو درست
سمجھے یا پچھلے دوفیصلوں کو صحیح تصور کرے۔آپ نے آسیہ مسیح کو بے گناہ
قرارتو دے دیا۔مگر ان ججز کے بارے میں آپ خامو ش ہیں جو آپ کے بقول بے گناہ
آسیہ مسیح کو پھانسی پر لٹکانے کے حق میں تھے۔عدلیہ میں پائی جانے والی اسی
دھندلی صورت حال نے تحریک لبیک سمیت دیگران کے لیے ملک گیر ٹریفک جام کی
شہہ دی۔اگر ٹرائل کورٹ بھی اسے بے گناہ دے دیتی۔ہائی کورٹ سے بھی وہ بچ
جاتی تو سپریم کورٹ سے بری ہونے پر کبھی بھی اتنا ہنگامہ نہ کھڑا
ہوتا۔عدلیہ کو اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہوگا۔مگر
کیا عدالتوں میں بیٹھے لوگ اس کا عزم رکھتے ہیں؟یہ کام باہر سے آکر کسی نے
نہیں کرنا۔آپ صدق دل سے عدالتی نظام میں پائی جانے والی کوتاہیاں
کھوجیں۔انہیں دور کرنے کالائحہ عمل بنائیں۔کوئی وجہ نہیں کہ کچھ ہی برسوں
بعد عدلیہ کی ساکھ اس قدر مضبو ط ہوجائے کہ اس کے ہر فیصلے کو قوم خوش دلی
سے قبول کرلے۔آپ لوگ جب تک عدالتیں چھوڑ کر کبھی روٹی کبھی پانی اور کبھی
بجلی کے معاملات میں سرکھپاتے رہیں گے۔کچھ لوگوں کو دیوار سے لگانے کی خدمت
پر مامور رہیں گے۔عدلیہ کی مہارت اور ساکھ دونوں داؤ پر لگے رہیں گے۔ |