اسحاق ڈار نواز شریف کے دور میں وزیر خزانہ رہے۔وہ بنیادی
طور پر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھے۔ حسابی کتابی ہندسوں کے ساتھ کھیلنا ایک خاص فن
ہے جس سے وہ بخوبی واقف تھے۔ لوگ کہتے رہے کہ وہ ماہر اقتصادیات نہیں فقط
منشی تھے۔مگر تمام تر نا مساعد حالات کے باوجود وہ اپنے دور کو کسی نہ کسی
طرح نباہ گئے۔جو لوگ انہیں اپنے مخصوص مقاصد کے لئے لائے تھے وہ لوگ ان سے
مطمن رہے اور ہیں۔ موجودہ وزیر خزانہ اسد عمر مینجمنٹ کے آدمی ہیں۔ ماہر
اقتصادیات یہ بھی نہیں۔ ان کے بارے مشہور تھا کہ یہ بندوں سے کام لینا بہتر
جانتے ہیں عملی طور پر اگر اسحاق ڈار منشی اول تھے تو اسد عمرابھی تک تو
منشی ثانی ہیں۔ معیشت کا انہیں بھی کچھ پتا نہیں ۔ اپنے ابتدائی چند دنوں
میں یہ جو گل کھلا رہے ہیں وہ نظر آ رہے ہیں۔ کچھ لوگ ڈر رہے ہیں کہ اگر
اسی طرح رہا تو پوری حکومت کو لے ڈوبیں گے۔ہاں جیسا کہ دعویٰ کرتے ہیں اگر
کچھ کر گئے تو قوم کے ہیرو ہوں گے۔سست روی کی وجہ سے آثار ویسے کم نظر آتے
ہیں۔
موجودہ وزرا کہتے ہیں کہ سب بگاڑ پچھلی حکومت کی وجہ سے ہے۔ یہ وہی بات ہے
جو تمام اہل اقتدار لوگ ، اقتدار میں آتے ہی کسی نا کسی شکل میں اپنے سے
پہلے لوگوں کے بارے مسلسل کہتے رہے ہیں اور ساتھ ساتھ لوگوں کواپنے حکومت
میں آنے کے پہلے جو خوبصورت سپنے دکھاتے رہے ہوتے ہیں، انہیں بھول جاتے ہیں۔
سب حالات وہی ہیں جن کو دیکھ کر اور دکھا کر آپ اقتدار میں آئے ہیں۔پھرآپ
کے دکھائے سب سپنے چند دنوں میں اس قدر بھیانک کیوں ہو رئے ہیں ۔ آپ لوگ
خود کہتے تھے کہ ڈالر کی قیمت میں ایک روپے کی کمی سے حکومتی قرضہ کروڑوں
اور اربوں بڑھ جاتا ہے ۔ اب ڈالر ایک ہی رات میں گیارہ بارہ روپے پھلانگ
جاتا ہے قوم قرضے میں مکمل دفن ہونے لگی ہے اور آپ ابھی سوچوں اور منصوبوں
سے باہر نہیں نکل سکے۔ آپ کو کوئی پریشانی بھی محسوس نہیں ہو رہی۔ قوم نے
آپ کو کرپشن کے خلاف مینڈیٹ دیا ہے۔ قوم نے آپ کی بے شمار کہانیاں سنی ہیں
مگر اب کہانیاں سننے کا وقت گزر چکا۔ اب عملی اقدامات کی فوری ضرورت
ہے۔ہنگامی اقدامات درکار ہیں۔نیب کام نہیں کر رہی۔ FIA ناکام ہے۔ یہ سب
باتیں اپنی جگہ مگر آپ کی بقا صرف اس میں ہے کہ کرپٹ لوگوں کے خلاف فوری
اور تیز کاروائی کریں ان کاپیٹ پھاڑ کران سے کرپشن کی رقوم حاصل کریں۔
لوگوں کو پتہ توچلے کہ واقعی کرپشن ہوئی ہے۔ہو سکتا ہے کہ اس راہ میں آپ کو
کچھ اپنے ساتھی بھی قربان کرنے ہوں لیکن کوئی حرج نہیں، کریں۔یہ کام ضروری
ہے مگر مشکل بھی نہیں ۔ احتساب کے دوران آپ کا اپنے اور بیگانے کا تصور ختم
نہ کرنا تو عوام میں برے تاثر کا باعث ہو گا۔
مجھے ایک عرصے سے مینجمنٹ کے لوگوں سے واسطہ ہے۔ یہ بلا کے باتونی اور پر
کشش باتوں اور وعدوں کے پیامبر ہوتے ہیں ۔ مگر کام اسی وقت کر سکتے ہیں جب
ماحول اور حالات بہت سازگار ہوں۔کرائسس مینجمنٹ ان کیلئے آسان بات نہیں
ہوتی۔مجھے ایک خوبصورت واقعہ یاد آیا۔ایک بہت بڑے اسد عمر نما مینجمنٹ گرو
اپنی گاڑی میں شہر کی طرف جا رہے تھے۔ اتفاق سے ان کی نظر ایک بنجر پلاٹ پر
پڑی۔ پورے پلاٹ میں کہیں کہیں گھاس اگی تھی جو مٹی سے اٹی ہوئی تھی۔ جگہ
جگہ گوبر اور جانوروں کی چھوڑی ہوئی غلاظتوں سے اتنی بدبو اٹھ رہی تھی کہ
وہاں کھڑا ہونا مشکل تھا۔ مگر کچھ لوگ گھاس کو توڑ توڑ کر مزے سے کھا
رہے۔انہوں نے گاڑی روکی ، باہر نکلے ،ناک پر رومال رکھا اور بگڑی سی شکل
بنا کر ان لوگوں میں موجود دو بالغ مردحضرات کو اپنی طرف بلایا۔ دونوں مرد
بھاگتے ہوئے ان کے پاس پہنچ گئے۔’’یہ کیا کر رہے ہو‘‘ انہوں نے سوال کیا۔
دونوں نے جواب دیا کہ بھوکے ہیں، ارد گرد کوشش کے باوجود کہیں کوئی مزدوری
نہیں ملی۔ پیسے بھی بالکل نہیں ہیں۔ مجبوری میں کچھ اور نہ ملنے کے سبب
گھاس کھا کر گزارا کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس تو کوئی گھر بھی نہیں ہے۔کیا کریں
، رات کو یہیں سو جاتے ہیں۔مینجمنٹ گرو نے انتہائی افسوس کا اظہار کیا اور
بولے مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوا کہ انسان اس قدر گندے ماحول میں اس قدر
گندی گھاس کھائے اور پھر اسی گندے ماحول میں رہے۔ زمین پر یہ گند دیکھ رہے
ہو۔ گھاس پر جمی ہوئی مٹی دیکھی ہے ۔ مجھے ترس آ رہا ہے کہ وہ جگہ جہاں
جانور بھی گھاس چرنا پسند نہیں کرتے ،انسان ہو کر آپ لوگ وہاں بیٹھے ہیں۔
کس قدر ظلم ہے۔پھر اپنے کپڑوں کی حالت دیکھو کس قدر گندے ہیں۔ لگتا ہے کبھی
نہائے بھی نہیں۔ صاف اور پاک پانی آپ کا حق ہے مگر آپ کو وہ بھی میسر نہیں۔
یہ بڑے دکھ کی بات ہے۔ آؤ میرے ساتھ۔ میں تمہاری حالت بدلوں گا۔میں تبدیلی
کا پیامبر ہوں۔
ایک آدمی نے عرض کی کہ اس کے ساتھ اس کی بیوی اور دو بچے بھی ہیں ۔ دوسرا
بولا کہ اس کی بیوی اور تین بچے ہیں۔مینجمنٹ گرو بولے ’’ جتنے بھی ہو ں اس
کی کوئی فکر نہیں ،تم گاڑی میں جلدی بیٹھو’’۔اب و ہ دونوں خاندانوں کے کل
نو لوگ مینجمنٹ گرو کی لمبی سی نئی بڑی گاڑی میں بیٹھے بہت سی امیدیں اور
آسیں لئے مستقبل کی طرف گامزن تھے ۔ وہ جاگتے میں خواب دیکھ رہے تھے کہ
انہوں نے نہا دھو کر نئے اجلے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ ایک بڑی لمبی شاندار میز
پر انواع واقسام کے کھانے پڑے ہیں اور وہ سبھی اس میز پر بیٹھے ان کھانوں
سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔تھوڑی دیر بعد ایک جھٹکے نے سارے خواب منتشر کر
دیے ،گاڑی ایک شاندار گھر کے باہر رکی۔ ہارن سن کر چوکیدار نے دروازہ کھولا۔
گاڑی اندر گھسی تو دروازہ بند ہو گیا، سب گاڑی سے اترے اسی دوران ایک دو
ملازم بھاگتے ہوئے آئے ۔ مینجمنٹ گرو نے ملازموں سے کہا، ’’یہ ہمارے مہمان
ہیں۔ انہیں پیچھے بھینسوں کے طویلے سے ملحقہ کمروں میں لے جاؤ۔ ایک کمرہ
خالی ہے ۔ اس کا فرش بھی صاف ہے یہ کچھ دن وہیں رہیں گے۔انہیں صابن بھی دے
دو ۔ یہ خود بھی نہا لیں گے اور کپڑے بھی دھو لیں گے‘‘۔ اس کے بعد مینجمنٹ
گرو مڑے اور مہمانوں سے مخاطب ہوئے،’’آپ نے تبدیلی محسوس کی ہو گی۔ وہاں کس
قدر گندہ ماحول تھا، مجھے تو سوچ کر گھن آتی ہے۔گھاس کس قدر گندی اور خراب
تھی ۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر تھے۔پانی کا نام اور نشان نہیں تھا۔وہاں تو
بیٹھنا بھی دوبھر تھا۔ دیکھیں یہاں آپ کو صاف پانی ملے گا۔ آپ نہا دھو کر
آئیں اور دیکھیں میرا یہ جو وسیع و عریض لان ہے اس میں کس قدر صاف ستھری
اجلی اجلی گھاس ہے۔ زمین پر کوئی گندگی بھی نہیں۔آپ ایک طرف سے اسے کھانا
شروع کریں اور جی بھر کر کھائیں ۔امید ہے یہ کم از کم آپ کی ایک مہینے سے
زیادہ کی خوراک ہے۔ ایک مہینے بعد نئی گھاس اگ آئی ہوگی۔اب آپ مزے کریں۔
کوئی مشکل ہو تو مجھے بتا دیں۔یہ کہا اور چل دئیے۔ دونوں مرد حضرات نے ایک
دوسرے کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولے، ’’واہ ری قسمت،کمال تبدیلی ہے،یہاں
بھی گھاس ہی کھانی ہے ، بس ذرا صاف ستھری ۔مگریہاں سے باہر جانا بھی مشکل
کہ گیٹ بند ہے اور گیٹ پر بندوق بردار بھی بیٹھا ہے۔ اب تو تبدیلی کی تلاش
میں آزادی بھی کھو گئی ہے‘‘۔
|