جنگیں ڈنڈوں اور اسلحے سے نہیں بلکہ عقل سے لڑی جاتی ہیں،
عقل کی غذاعلم اور تحقیق ہے، جب عقلیں آپس میں ٹکراتی ہیں تو جودماغ علم
اور تحقیق میں کمزور ہوتا ہے وہ شکست کھاجاتا ہے۔نپولین ۱۷۹۸میں جب فاتح کی
حیثیت سے مصر کے مسلمان مملوکی بادشاہوں کو شکست دے کر مصر میں داخل ہوا تو
اس وقت اسلام اور مشرقی ممالک کے بارے میں جاننے والے غیر مسلم ماہرین کا
ایک بڑا گروہ بھی اس کے ہمراہ تھا جو قدم قدم پر اس کی کی رہنمائی کر رہا
تھا۔
ان ماہرین نے نپولین کو یہ سمجھایاکہ مصر کے لوگ اپنے بادشاہوں سے زیادہ
دین کے بارے میں بہت حساس ہیں۔لہذا لوگوں کو یہ باور کرایاجائے کہ ہم حملہ
آور اسلام کی تعلیمات پر کامل یقین رکھتے ہیں اور اسلام کو دینِ بشریت اور
دینِ ہمدردی و اخوت سمجھتے ہیں نیز بانی اسلام کی تعلیمات کو عالم بشریت کی
سعادت و خوشبختی کا باعث سمجھتے ہیں۔
چنانچہ نپولین مصر میں جہاں بھی تقریرکرتا تھا انہی نکات کو دہراتا تھا،اس
نے مصرمیں پہلی انجمن شرق شناسی مصر کی بنیادرکھی،اور اہل مصر کو بہت کم
فوج کے ساتھ قابو کرنے کےلئے نمازیں پڑھانے والے اماموں،قاضیوں، مفتیوں اور
مقامی علمائے کرام کے لئے وظائف مقررقائم کئے،بعض نے حکومت سے وظائف لینےسے
انکار کیاتوانہیں یہ کہا گیا کہ آپ لوگ یہ رقم اپنے لئے استعمال نہ کریں
بلکہ اسلام کی خدمت کے لئے صرف کریں۔
اس نے مکمل پروٹوکول کے ساتھ جامعۃ الازہر کےساٹھ استادوں کو فوجی چھاونی
میں عربی سکھانے اور اسلامی معارف بیان کرنے کے لئے مامور کیا تاکہ
مستشرقین دینِ اسلام کے عربی متون پر اچھی طرح عبور حاصل کر پائیں۔ نپولین
کی یہ حکمت عملی اتنی کارگر ثابت ہوئی کہ بہت جلد مسلمانوں نے اپنی اسلامی
حکومت کے جانے کےغم کو فراموش کردیا اور پورا مصر نپولین کے گُن گانے لگا۔
یہانتک کہ آج بھی بعض سادہ دل مسلمان ، نپولین کو عاشقِ رسولﷺاورعاشق امام
حسینؑ گردانتے ہیں۔
جب نپولین نے مصر کوچھوڑنے کا ارادہ کیا تو اپنے نائب کلبرKleber کو یہ
تاکید کی کہ مستشرقین کے مشورے سے مصر کی مدیریت کی جائے۔چونکہ اس کے علاوہ
ہرطریقہ خرچے کا باعث اور احمقانہ تھا۔
یہ طریقہ کار دنیا بھر کے حکمرانوں کوسمجھ آچکا ہے اور وہ ایسے حربوں سے
بھرپور استفادہ کرتے ہیں ۔عصر حاضر میں اس کی واضح مثال یہ ہے کہ امریکی
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے جو بین المذاہب دعائیہ تقریب کیپٹل ہل میں منعقد
ہوئی اس میں قرآن مجید کی تلاوت کی گئی اور اس کےعلاوہ امریکی صدر ڈونلڈ
ٹرمپ اور نائب صدر مائیک پینس کی واشنگٹن کے گرجا گھرمیں منعقدہ ایک مذہبی
تقریب کے دوران توجہ سے قرآن کریم کی تلاوت سننے کی ویڈیو بھی وائرل کی
گئی۔جب تلاوت شروع ہوئی توخاتون اول ملنیا ٹرمپ فائل اٹھانے لگیں۔ اس دوران
ٹرمپ انہیں بیٹھے رہنے کا اشارہ کرتے بھی نظر آئے۔
اس طریقہ کار کو غیرمسلم حکمرانوں کی طرح مسلم دنیا کے حکمران بھی استعمال
کرتے ہیں جیساکہ سعودی حکومت کی واضح مثال ہمارے سامنے ہے کہ جہاں ایک طرف
تو بین الاقوامی اسلامی عسکری اتحاد تشکیل دیا جاتا ہے اوردوسری طرف فلسطین
اور کشمیر کی آزادی کے لئےایک لفظ بھی نہیں بولا جاتا۔
یہی کچھ ہمارے پاکستان میں بھی ہو رہا ہے۔ضیاالحق نے امریکی تھنک ٹینکس کے
ساتھ مل کر اسلام کے نام پر چند مدارس، مولویوں اور مفتیوں کو خرید کر
طالبان کی بنیاد رکھی اور پاکستان کو دہشت گردوں کی جنت بنا دیا ۔وہ ایک
طرف نظامِ مصطفیﷺ کااعلان کرکے ہمارے مذہبی حلقوں کو خوش کرتا رہا اور
دوسری طرف مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف صف آرا کرتا رہا۔
اسی طرح آج بھی ہمارے ملک میں عوام کے دینی جذبات کو ابھار کر مختلف لوگ
اپنے اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں،یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ آئے روز شر
پسندعناصرتوہین رسالت اور عشق نبیﷺ کے نام پر لوگوں کوبغاوت پر اکساتے
ہیں،چونکہ چالاک لوگوں ہماری اس کمزوری کا علم ہے کہ ہم لوگ مذہبی معاملات
میں بہت جذباتی ہیں، چالاک افرادکی تقریروں سے مشتعل ہوکر سادہ دل لوگ ملکی
و قومی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں ، یہ سب کچھ عشقِ نبی ﷺ کے نام پر کیا
جاتا ہے اور بعد ازاں دوسری طرف حکومت بھی باغیوں کو کچلنے کے بجائے نمازیں
پڑھانے والے اماموں،قاضیوں،پیروں، مفتیوں اورمولویوں کو خریدکرمعاملے پرمٹی
دال دیتی ہے۔
یوں دین دوستی کے نام پر حکومت کا پہیہ بھی گردش میں رہتا ہے اور باغی بھی
مکمل آزاد گھومتے ہیں۔ اب اگر زیرِ اعتاب کوئی آتا بھی ہے تو وہ بے چارہ
قانون کے شکنجے میں پھنستا ہے جس نے مولویوں اور پیروں پراندھا اعتماد کرتے
ہوئے آتشِ عشق میں بے خطر چھلانگ لگائی ہوتی ہے۔
جب تک لوگوں کی شعوری سطح بلند نہیں کی جاتی اور ان کی سادہ دلی کے مرض کا
درمان نہیں کیا جاتا تب تک ہمارے ہاں اسلام کے نام پر طالبان بنتے رہیں گے،
خود کش حملے ہوتےرہیں گے اور ملکی و قومی املاک جلتی رہیں گی۔ہمیں عاشقانِ
رسولﷺ کو یہ سمجھانا ہو گا کہ جنگیں ڈنڈوں اور اسلحے سے نہیں بلکہ عقل سے
لڑی جاتی ہیں، عقل کی غذاعلم اور تحقیق ہے، جب عقلیں آپس میں ٹکراتی ہیں
تو جودماغ علم اور تحقیق میں کمزور ہوتا ہے وہ شکست کھاجاتا ہے۔
|