اﷲ رب العزت کیلئے تمام حمدو ثنا جو سب خوبیوں کا مالک ہے
اور سارے جہان کا رب وپالنے والاہے رب العالمین نے ہر زمانے میں بنی نوع
انسان کی ہدایت کیلئے پیغمبران عظام کو مبعوث فرمایا اپنے پیارے محبوب ﷺ کو
رؤف و رحیم بنا کر بھیجا اور آپ کی شان ورفعت کا اعلان خود اپنے کلام قرآن
مجید میں ارشاد فرمایا ۔
وَرَفَعْنَاْ لَکَ ذِکْرَکَ۔ اور ہم نے تمہارے لئے تمہارا ذکر بلند کردیا
۔(القرآن ، سورہ الم نشرح ، آیت ۶ )
تمام انبیاء کرام آپ پرایمان لائے ااور آپ کی عزت و تکریم کی اور آپ کی
خدمت کا عہدلیا سب کا ذکرفقط فرش پر ہی ہے مگرمصطفےٰ کا ذکر فرش و عرش جنت
میں ہے اور اپنے نام کے ساتھ اپنے محبوب کا نام رکھا تمام انبیاء کو نام سے
پکاراآپ کو اچھے اچھے القاب سے پکارا اور فرمایا تمہارا ذکر ہمیشہ بلند رہے
گا اسے کوئی بند نہیں کر سکتا جیسے کوئی چاند سورج کو نہیں بجھا سکتا کہ یہ
اﷲ کے روشن کئے ہوئے ہیں ایسے ہی تمہیں کوئی نیچا نہیں دکھا سکتا کبھی کسی
بد بخت نے اگر حضور کی شان میں گستاخی کی تو خود رب تبارک و تعالیٰ نے قرآن
مجید میں آیت مبارکہ نازل فرماکر حضور کی جانب سے خود جواب دیا ماشاء اﷲ
قرآن میں بہت سی آیتیں اس پر شاہد ہیں حضور کا دشمن ولید بن مغیرہ نے آپ ﷺ
کو مجنوں ( پاگل ) کہا معاذ اﷲ ثم معاذاﷲ رب ذو الجلال نے فوراً قرآن میں
اس کی مذمت فرمائی اور اس کے دس عیوب گنوائے ۔
محبوب خدا ﷺ کے گستاخوں کی برائی کرنا سنت الٰہی ہے :
نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَایَسْطُرُوْنَ مَآ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّکَ
بِمَجْنُوْنٍ۔(سورہ القلم ۶۸، آیت ۱،۲ )
ترجمہ: قلم کی قسم اور ان کے لکھے کی قسم تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں
۔
پھر ارشاد فرمایا یٰسِیْنَ وَ الْقُرْآنِ الْحَکِیْمِ اِنَّکَ لَمِنَ
الْمُرْسَلِیْنَ۔( سور ہ یٰسن ۳۶ ، آیت ۱،۲ )
ترجمہ: حکمت والے قرآن کی قسم ہے بیشک تم رسولوں میں سے ہو ۔
یہ ہے شان مصطفی جس کا اعلان خود رب تبارک و تعالیٰ فرمارہاہے یہی نہیں
بلکہ مصطفےٰ کی شان میں گستاخی کرنے والے کی برائیاں گنوارہا ہے، عیب ظاہر
فرمارہاہے، آپ کا گستاخ بڑ ا جھوٹ بولنے والا ہے ،بہت جھوٹی قسمیں کھانے
والا ہے، بہت ذلیل ہے، بہت طعنے دینے والا ہے ،بہت ادھر کی بات ادھر لگا تا
( چغلخور ) پھرنے والا ہے ،بھلائی سے بڑا روکنے والا ہے، درشت خوہے ،تند
مزاج والا ہے، کرخت آواز والا ہے اور حد سے بڑھنے والا ہے، اور اس سے بڑھکر
یہ کہ عُتُلٍّمبَعْدَذَٰلِکَ زَنِیْم۔ترجمہ: اسکی اصل میں خطاہے ( حرامی ہے
) ۔ رب تبار ک و تعالی ستار العیوب ہے لیکن جو اس کے محبوب ﷺ کی شان میں
گستاخی کرے اسکے عیب کو اﷲ ظاہر فرماتا اور اعلان فرماتا ہے اس سے یہ بھی
معلوم ہوا کہ حضور ﷺکے گستاخوں کو جواب دینا انکے عیبوں کو ظاہر کرنا سنت
الٰہی ہے اسی آیت کے نزول پر ولید بن مغیرہ اپنی ماں کے پاس گیا اور بولا
کہ حضور ﷺ نے میرے دس عیوب کو بیان کیاہے جو ان پر نازل ہونے والی کتاب میں
ان کے رب نے بیان کی ہے۔ جن کو میں جانتا ہوں اور اپنے اندر پاتاہوں سچ سچ
بتاکہ کیا میں اصل سے ہوں یا حرامی ، سچ کہنا ورنہ میں تیری گردن ماردوں گا
۔ تب اس کی ماں بولی کہ ’’ تیرا باپ نامرد تھا مجھے اندیشہ ہوا کہ اس کے
بعد اس کا مال غیر لے جائیں گے تب میں نے فلاں چرواہے کو بلایا تو اس سے
پیدا ہوا ‘‘۔(روح البیان ، ضیاء القرآن خزائن العرفان ص ۹۷۷)
گساخان رسول اﷲ ﷺ کا عبرتناک انجام :
یہ صحیح ہے کہ آپ ﷺ کمال عفو درگزر فرمانے والے تھے حدیث شریف میں ہے ما
انتقم لنفسہ حضور ﷺ نے اپنی ذات کے تعلق سے کسی سے انتقام نہ لیا ہاں اﷲ
تعالیٰ کی حرمتوں کو پامال کرنے کے سبب سزادی حضور کی شان اقدس میں انتہائی
ذلیل گستاخی کرنے والے بعض کافر و مرتد کو مثلا عقبہ بن معیط ، کعب ابن
اشرف ، اور عبد اﷲ بن خطل کو قتل کا حکم دیا یہود و نصاریٰ شروع دن ہی سے
شان اقدس میں نازیبا کلمات کہتے چلے آرہے تھے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے
تو رسول اﷲ ﷺ شان نبوت میں گستاخی کرنے والے بعض مردوں اور عورتوں کو بعض
مواقع پر قتل کروایا کبھی صحابۂ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیھم اجمعین کو حکم
دے کر اور کبھی انہیں پوری تیاری کے ساتھ روانہ کرکے کبھی کسی صحابی رضی اﷲ
عنہ نے گستاخ رسول کے جگر کو چیر دیا کبھی کسی صحابی نے نذر مان لی کہ
گستاخ رسول کو ضرور قتل کروں گا ۔
اس تعلق سے دلچسپ واقعہ ملاحظہ فرمائیں عصماء نامی یہودیہ خبیثہ نے توہین
رسالت کا ارتکاب کیا تو ۲۵رمضان ۲ھ میں ایک نابینا صحابی حضرت عمر بن عدی
رضی ا ﷲ عنہ نے ا س کو کیفر کردار تک پہنچاکر اپنی نذر پوری فرمائی ان کے
کارنامے کو دیکھ کرتاجدار عدالت حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ نے رشک کرتے
ہوئے فرمایا : انظر الیٰ ھٰذا الاعمیٰ تسرق فی طاعتہ اﷲ ، ذرہ اس نابینا کو
دیکھو کیسے چپکے سے اﷲ کی اطاعت کر گزرا ، حضور تشریف فرماتھے آپ نے فرمایا
: اے عمر ! اس کو اندھامت کہو اس کے دل کی آنکھ بہت تیز ہے (ابوداؤد )
کبھی کسی نے تمام رشتہ دار وں کو ایک طرف بالائے طاق رکھتے ہوئے حضور کے
گستاخ کا سرقلم کر کے آپ کے سامنے لا کر رکھدیا ۔ جو گستاخ مسلمانوں کی
تلواروں سے بچے رہے اﷲ تعالیٰ نے ان کو سخت عذاب میں مبتلا فرمایا اور وہ
انتہائی ذلت و رسوائی کا شکا ر ہوئے ابولہب کا بد ترین انجام ہوا ،لاش سڑ
گئی تعفن پھیل گیا لکڑی اور پتھروں کے سہارے گڈھے میں دھکیل دیا گیا اس کی
بیوی کا بھی انتہائی برا انجام ہوا قرآن واحادیث ،سیرت و تاریخ میں یہ ذکر
صراحت کے ساتھ موجود ہے یہا ں تک کہ گستاخ رسول کو قبر نے اپنے اندرجگہ نہ
دی۔ فَاْعْتَبِرُوْ یَا اولو االابصار : اے صاحب نظر عبرت حاصل کرو ۔ (
سورہ حشر ۵۹آیت ۲ ) کی گستاخ رسول کا انجام کیا ہے دریائے نیل نے بھی حضرت
موسیٰ علیہ السلام کے گستاخوں کو ہلاک کرکے فورا لاشوں کو باہر پھینک دیا
تفسیروں میں اس کا ذکر بھی موجود ہے ۔
کعب بن اشرف یہودی کے قتل کا حکم :
کعب بن اشرف رسول مکرم ﷺ کا بدترین دشمن تھا آپ کی ہجو میں اشعار کہا
کرتاتھا یہودی عالم تھا کفار و قریش کو جنگ کے لئے بھڑکاتارہتاتھا صحابۂ
کرام کی عزت مآب بیویوں کانام لیکر اپنے اشعار میں فرضی عشق و محبت کے
افسانے لوگوں کو سناتا اسے بار بار منع کیا گیا لیکن اس نے ذرا بھی پرواہ
نہ کی ۔ جب صبر کا پیمانہ چھلک گیا تو رحمت عالم ﷺنے فرمایا ۔ ومن لنا بابن
الاشرف ہمیں اشرف کے بیٹے کعب کے شر سے کون بچائے گا؟ اس نے ہماری دشمنی کی
انتہا کردی ہماری اعلانیہ ہجو کرتاہے مکہ جاکر اس نے کفار قریش کو غلاف
کعبہ کے قریب جمع کیاہے اور ان سے وعدہ لیا ہے کہ وہ ہم پر چڑھائی کریں گے
اور وہ ان کا مدد گار اور حلیف ہوگا ۔ پھر سرکار دوعالم ﷺ نے یہ آیات پڑھیں
۔ ترجمہ:کیا تم نے وہ نہ دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ ملا ایمان لاتے ہیں
بت اور شیطان پر اور کافروں کو کہتے یہ مسلمانوں سے زیادہ راہ پر ہیں ، یہ
ہیں جن پر اﷲ نے لعنت کی اور جسے خدا لعنت کرے تو ہرگز اس کا کوئی یار نہ
ہو گا ( القرآن ، سورہ نساء ۴آیت ۵۳، ۵۲ )۔ کعب بن اشرف نے حضور ﷺ کی شان
میں اور اسلامی معاشرے کے خلاف انتہا کردی چنانچہ رحمت عالم ﷺ نے اپنے جاں
نثار فدائیوں کو خطاب کرتے ہو فرمایا ۔ کعب کو قتل کرنے کے لئے کون اپنے آپ
کو پیش کرنا چاہتاہے حضرت محمد بن مسلمہ اوسی کھڑے ہوئے عرض کی ۔انا اتکفل
لک بہ یا رسول اﷲ! اے اﷲ کے رسول! اس خبیث کو موت کے گھاٹ اتارنے کی ذمے
داری میں قبول کرتاہوں ۔ ’’حضور ﷺ نے فرمایا کوئی اقدام کرنے سے پہلے سعد
بن معاذ سے ضرور مشورہ کرلینا ۔ اسکے بعد محمد بن مسلمہ حضرت ابونائلہ
،عباد بن بشیر، حارث بن عوث اور ابو عبس بن جبر کے پاس گئے ۔ حضور ﷺ سے جو
وعدہ کیا تھا اس سے ان سب کو آگاہ کیا سب نے کہا ہم آپ کے ساتھ چلیں گیں
اور اس بد بخت کا خاتمہ کردیں گے (محمد بن مسلمہ کعب کے رضاعی بھائی کے
بیٹے تھے ) ابو نائلہ محمد بن مسلمہ اور ان کے ساتھ ان کے تین ساتھی بھی
تھے ان کا تعلق اوس قبیلہ سے تھا ۔ یہ جانباز اس خطرناک مہم کو سر کرنے کے
لئے جب جانے لگے تو نبی کریم ﷺ الوداع کہنے کے لئے جنت البقیع تک تشریف
لائے وہاں انہیں اﷲ کے حوالے کیا اور اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت فرمایا وہاں
جاکر کعب بن اشرف کو پکڑا ابونائلہ نے اپنا ہاتھ اس کے سر کے بالو ں میں
ڈالا اور مضبوطی سے پکڑلیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا۔ اضربوا عدو اﷲ’’ اﷲ کے
دشمن کو پرزے پر زے کرو ‘‘ یہ بچ کر جانے نہ پائے سب نے یکبارگی اپنی تلوار
سے اس پر حملہ کر دیا اس نے بڑی خوفناک چیخ ماری جو اس کی بیوی نے سن لی ۔
اس نے چلا کر کہا اے قریظہ ! اے نضیر کے لوگو! مدد کو پہنچو اسلام کے
فدائیوں نے اس موذی کا سر تن سے جدا کر دیا اور ایک تو برے میں ڈال لیا ۔(
توبرے وہ تھیلا جس میں گھوڑے کو کھانا کھلاتے ہیں ) ۔ اتنے میں یہودی ہر
طرف سے اکھٹے ہوگئے ۔ یہ صحابہ کرام عام راستہ چھوڑ کر غیر معروف راستہ
اختیار کرلیا اور جب بقیع کے پاس پہنچے تو انہوں نے فلک شگاف نعرہ بلند کیا
۔ سرکار دوعالم ﷺ اس رات کو کھڑے ہوکر نماز اداکررہے تھے ان کی تکبیر کی
آواز سن کرحضور ﷺ نے بھی نعرہ بلند کیا حضور نے جان لیا کہ یہ لوگ اس بدبخت
دشمن اسلام کو قتل کرکے آئے ہیں پھر وہ حضور کے قدموں میں حاضر ہوئے اور
سارا ماجرا عرض کیا حضور نے فرمایا ۔ و افلحت الوجوہ خدا ان مجاہدوں کو سر
خروکرے ۔ ’’و جھک یا رسول اﷲ ‘‘ اے اﷲ کے رسول ! آپ کے رخ انور کو بھی اﷲ
تعالیٰ سرخرو کرے پھر انہوں نے کعب کا سر توبرے سے نکال کر حضور کے قدموں
میں ڈال دیا حضور ﷺ نے ان کی کامیابی پر اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ۔ (سیرت
ابن کثیر جلد ۳ ص ۹،۱۰۔ سیرت رسول ضیاء النبی ، جلد ۳ ص ۴۴۸،۴۴۷)
نبی رحمت ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا بہت برا انجام ہوا اپنی دنیا و
آخرت تباہ کر بیٹھے رسوائی آنے والی صبح قیامت تک کے لئے مقدر بن گئی بہت
سے واقعات قرآن و احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں ماضی قریب و
ماضی بعید میں بے شمار واقعات قابل ذکر ہیں مضمون طویل ہونے کا خوف لاحق ہے
ان اوراق میں کچھ اہم اور دلچسپ واقعات قلمبند کر رہا ہوں۔ قارئین کرام !بے
شک جو ایذا دیتے ہیں اﷲ اور اس کے رسول کو ان پر لعنت ہے دنیا میں اور آخرت
میں اور اﷲ نے ان کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ ( القرآن ، سورہ
احزاب ۳۳ آیت ۵۷ ،کنز الایمان ) ۔اﷲ کو ایذا دینا یہ ہے کی ا س کی ایسی
صفات بیان کر ے جس سے وہ پاک اور منزہ ہے یا اس کے محبوب بندوں کو ستائے
حضور کو ایذا دینایہ ہے کہ حضور کے فعل کو ہلکا جانے ہلکی نگاہ سے دیکھے یا
کسی قسم کا لعن طعن کرے یا آپ کے ذکر خیر کو روکے آپ کو عیب لگائے ایسے لوگ
دنیا و آخرت میں لعنت کے مستحق ہیں ۔( خزائن العرفان ، نور العرفان ص۶۹۹)
۔گستاخ رسول ابو جہل ،ولید بن مغیرہ اورابو لہب وغیرہ سے لیکر اب تک جتنے
بھی گستاخ گزرے ہیں انہیں وقت کے مجاہدوں نے کیفرکردار تک پہنچا کر جہنم
رسید کیا ہے یہ ایک فطری بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سرکار دو عالم ﷺ کی محبت
انسان کیا جانوروں کے اندر بھی رکھی ہے جانوروں نے بھی حضور ﷺ سے محبت کا
ثبوت پیش کیا ہے آگے ذکر آنے والا ہے ۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کی مسلمان کہیں بھی ہو کسی زبان و علاقے کا ہوکتنا
گناہ گار کیوں نہ ہو ، شرابی ہو ، جواڑی ہو، زانی ہو مگر جہاں حضور کی شان
میں کسی گستاخ نے اپنی بدزبانی کی اس گنہ گار مسلمان کو ہر گز یہ برداشت
نہیں کہ کوئی اس کے رسول ﷺ کے بارے میں کچھ کہے ایک شرابی میخانہ میں شراب
پی رہا تھا ۔ بغل کے ٹیبل سے کسی نے حضور کی شان میں گستاخی کی اور بے ہودہ
جملے اور گالیاں دیں مسلمان شرابی کے کان میں جیسے ہی وہ کلمات پڑے اس نے
آؤ دیکھا نہ تاؤ شراب کی بوتل اس گالیاں بکنے والے کے سر پر دے مارا اور
اسکا قتل کردیا اور کہا کہ ہم آج سے اس شراب خانہ میں نہیں آئیں گے جہاں
ہمارے حضور کو گالیاں دی جاتی ہیں ۔
گستا خ رسول اور ان کو جہنم رسید کرنے والے کچھ شہداء اور غازی :
گستاخ رسول ’’ابی بن خلف ‘‘ حضور ﷺ کے ہاتھوں ۳ہجری قتل ہوا ۔ گستاخ رسول
’’بشر ‘‘نام کے منافق کو حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ۳ہجری میں قتل کیا
اس کا پورا تذکرہ قرآن پاک میں سورہ نساء کی آیت ۶۰،۵۹میں موجودہے ۔ اور جب
ان سے کہا جائے کہ اﷲ کی اتاری کتاب اور رسول کی طرف آؤ تو تم دیکھو گے کہ
منافق تم سے منہ موڑ کر پھر جاتے ہیں۔ (القرآن سورہ نساء ۴آیت ۶۰) بشر نام
کے ایک منافق کا ایک یہودی سے جھگڑا تھا یہودی نے کہا چلو حضور ﷺ کے پاس چل
کر فیصلہ کرائیں بے ادب گستاخ منافق ( جو دیکھاوے کے لئے کلمہ پڑھتا تھا )
بشر بولا کعب ابن اشرف جو یہودی عالم تھا اس کے پاس چلو ( اسکے قتل کا ذکر
اوپر گذرچکا ہے جسے حضور نے وفد بھیج کر قتل کروایا اور اسکے قتل پر خوش
ہوئے سجدہ شکر ادافرمایا ) یہودی نے کعب ابن اشرف کو فیصل ماننے سے انکار
کر دیا اور کہا وہ رشوت لیکر فیصلہ کرتا ہے میں اسے منصف (Judge)نہیں مانوں
گا مقدمہ بارگاہ نبوی میں پیش ہوا حضور نے یہود ی کے حق میں فیصلہ دیا بشر
نامی منافق حضور ﷺ کے فیصلہ پر راضی نہ ہوا پھر یہ دونوں مقدمہ لیکر حضرت
عمر رضی اﷲ عنہ کے پاس پہنچے یہودی نے کہا کہ بارگاہ نبوی میں میرے حق میں
فیصلہ ہوچکا ہے مگر بشر مصطفےٰ ﷺ کے فیصلہ پر راضی نہیں حضرت عمر رضی اﷲ
عنہ نے اسے قتل کردیا اور کہاجو حضور کے فیصلہ پر راضی نہ ہوا تو اسکا
فیصلہ یہ ہے ۔ اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر ضیاء القرآن ، تفسیر
نور العرفان ص۱۳۸)
مشہور گستاخ رسول ابو جہل کو دو ننھے مجاہدوں معاذ و معوذ حضرات نے قتل کیا
۔گستاخ رسول امیہ بن خلف حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کے ہاتھوں ۲ہجری میں قتل ہوا
، گستاخ رسول نصر بن حارث حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے ہاتھوں ۲ہجری میں قتل ہوا
۔ انتہائی بد تر ین گستاخ رسول ایک سو بیس سال کا خرانٹ بوڑھا ابو عفک نامی
یہودی کو ماہ شوال ۲ھمیں حضرت سالم بن عمیر رضی اﷲ عنہ نے اس کا سر قلم
کرنے کی سعادت حاصل کی اسی طرح غزوہ بدر سے واپسی کے وقت ماہ رمضان المبارک
۲ھ میں دربار رسالت کا مجرم جو حضور کو چڑھاتا تھا (معاذ اﷲ ) نصر بن حارث
کو شیر خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم نے جہنم رسید کیا حضور کی بارگاہ
میں اس کی اطلاع دی حضور ﷺ نے خوشی کا اظہار فرمایا ۔ گستاخ رسول ابو رافع
حضرت عبد اﷲ کے ہاتھوں ۳ھ میں قتل ہوا۔ گستاخ رسول حارث بن طلال حضرت علی
کے ہاتھوں ۲ھ میں قتل ہوا گستاخ رسول بن ابی معیط حضرت علی کے ہاتھوں ۸ھ
ہجری میں قتل ہوا ۔ گستاخ رسول قریبہ ( گستاخ باندی ) فتح مکہ کے موقع پر
قتل ہوئی ۔ گستاخ رسول ریچی فالڈ (عیسائی گورنر ) مشہور مجاہد و غازی اسلام
حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں قتل ہوا غلاف کعبہ سے لپٹے ہوئے
توہین رسالت کے مرتکب کو قتل کرنے کا حکم حضور اکرم ﷺ نے دیا ۔ حضرت انس
رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول اﷲ ﷺ مکہ مکرمہ میں تشریف
فرماتھے کسی نے حضور سے عرض کیا: (آپ کی شان میں توہین کرنے والا ) ابن خطل
کعبہ کے پردوں سے لپٹا ہوا ہے آپ ﷺ نے فرمایا اسے قتل کردو (صحیح بخاری
،باب دخول الحرم و باب این رکز النبی ﷺ الرایہ یوم الفتح ، الصارم ا لمسلول
علی شاتم الرسول ،) عبد اﷲ بن خطل مرتد تھا جو رسول اﷲ ﷺ کی ہجو میں شعر
کہہ کر حضور ﷺکی شان میں توہین کرتاتھا ۔ اس نے دوگانے والی لونڈیاں اس لئے
رکھی ہوئی تھیں کہ وہ حضور ﷺ کی ہجومیں اشعار گایا کریں ۔ جب حضور اکرم ﷺ
نے اس کے قتل کا حکم دیا تو اسے غلاف کعبہ سے باہر نکا ل کر باندھا گیا اور
مسجد حرام میں مقام ابراہیم اور زم زم کنویں کے درمیان اس کی گردن اڑا دی
گئی ( فتح الباری ، باب این رکز النبی ﷺ الرایہ یوم الفتح )۔ اس دن ایک
ساعت کے لئے حرم مکہ کو حضور اکرم ﷺ کے لئے حلال قرار دیا گیاتھا بیت اﷲ سے
صرف چندقدم کے فاصلے پر اس کا قتل کیا جانااس بات کی دلیل ہے کہ گستاخ رسول
باقی مرتد ین سے بدرجہابدتر ہے ۔پوری انسانیت کویہ بات اچھی طرح معلوم ہونا
چاہئے کہ ہر مسلمان کے دل میں حضور ﷺ کی محبت دنیا کی ہر چیز سے زیادہ ہے
۵۷۷ہجری میں ۲ گستاخ رسول نصرانی سلطان نور الدین زنگی رحمۃ اﷲ علیہ کے
ہاتھوں مدینہ شریف میں قتل کئے گئے جوکہ نبی کریم ﷺ کی قبر انور تک سرنگ
کھود کر قبر مبارک کو نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتے تھے جس کی خبر آقا ئے
دوعالم ﷺ نے خواب میں سلطان نور الدین زنگی کو دی۔ ۲۰ مارچ ۲۰۰۶کو جرمنی کے
شہر برلن میں گستاخانہ (Cartoon) شائع کرنے والے ڈائی ویلٹ اخبار کے چیف
ایڈیٹر کو عامر شہید نے خنجر کے پے در پے وار کرکے واصل جہنم کیا ۴جنوری
۲۰۱۱کو گستاخ رسول سلمان تاثیر گورنر آف پنجاب کو غازی محمد ممتاز قادری نے
۲۷ گولیاں داغ دیں اور واصل جہنم کیا ۹جنوری ۲۰۱۲فرانس میں چا رلی ہیبڈوکے
گستاخانہ( Cartoon)بنانے والوں کو چی برادران ، المیڈ کال بیل اور حیات
باؤمیڈ یسنی نے جہنم رسید کیا ایسے لوگوں کی ایک لمبی فہرست ہے مضمون کی
طوالت کا خوف بھی دامن گیر ہے انشا اﷲ آئندہ کسی اور مضمون میں اور نئی
تفصیل سے ذکر ہوگا ۔
محبت رسول ﷺ ایمان کی جان ہے : حضور ﷺ سے محبت جان ایمان ہے بلکہ سب جہاں
سے زیادہ کرنا ضروری ہے ’’انس بن مالک رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول
اﷲ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا ہے جب تک میں اسے اپنے
بیٹے ، باپ اور تمام لوگوں سے زیادہ پیارانہ ہو جاؤں ( بخاری ، مسلم ،کتاب
الایمان کے بیان میں حدیث ۱۵) یعنی رسول پاک ﷺ سے محبت رکھنا ہی عین ایمان
ہے ۔ سہیل تستری رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کی جو شخص ہر حال میں حضور ﷺ کو
اپنا ولی نہ جانے اور اپنے نفس (جان ) کو اپنی ملک میں سمجھے وہ سنت کا مزہ
نہیں چکھ سکتا ۔(فضائل اعمال ، حکایت صحابیہ ، ہندی ۲۵۷۔اردو۱۷۲) تمام
پیغمبروں کو رب تبارک وتعالیٰ نے معصوم پیدا فرمایا ۔عصمت انبیاء کا تقاضہ
یہ ہے کہ ان خدارسیدہ ہستیوں سے کوئی بات بھی ایسی منسوب نہ کرے جو گستاخی
ہو آپ ﷺ سے جانور بھی محبت کرتے اور سلام پیش کرتے اپنے مالکوں کے ظلم کی
باتیں بتاتے اور آپ کے گستاخوں کو جانوروں نے بھی مارکر جہنم رسید کیا غزوہ
احد میں رخ انور کو زخمی کرنے والا بدبخت عبد اﷲ بن قیمہ پر اﷲ تعالیٰ نے
ایک پہاڑی بکرامسلط کردیا جس نے اسے دوڑا دوڑا کر سینگ مار مار کر لہولہان
کر کے اسے گرادیا اور اسکے پرخچے اڑا دئیے جب تک وہ مرا نہیں سینگ مارتے
رہا اس بد بخت کے مرنے کے بعد بکرانے زور دار آواز نکالی مفسرین فرماتے ہیں
کہ اس نے خوشی کا اظہار کیا اس سے یہ معلوم ہواکہ جانور بھی سمجھتے ہیں کہ
گستاخ رسو ل واجب القتل ہے ۔ ابو لہب کا بیٹا عتبہ یعنی بدنصیب باپ کا بد
نصیب بیٹا نے حضور ﷺ کے معصوم چہرہ انور پر تھوکا تو زبان نبوت سے ایک آہ
نکلی پھر آپ ﷺ نے فرمایا ’’اللھم سلط علیہ کلبا من کلابک ترجمہ یا اﷲ اس پر
اپنا کوئی درندہ مسلط کر دے ۔چنانچہ مجرم خود ہی مقتل میں حاضر ہوگیا اور
ملک شام کے سفرمیں مقام ’’زرقا‘‘پر ایک جنگلی شیرنے قافلے والوں کا منہ
سونگھتے سونگھتے اس کے منہ کو سونگھتے ہی زور دار دھاڑ ماری اور اس کو چیر
پھاڑ کر ٹکرے ٹکرے کر دیا اور دو بارہ دہاڑمارکر چلا گیا ۔ اسی لئے حضرت
مولانا احمد رضا خاں علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ۔
اپنے مولیٰ کی ہے بس شان عظیم جانوربھی کریں جنکی تعظیم سنگ کرتے ہیں ادب
سے تسلیم پیڑ سجدے میں گرا کرتے ہیں
ابھی چند سال پہلے ڈنمارک کا گستاخ سب ایڈیٹر اپنے گھر میں آرام کی نیند
سورہا تھا اچانک گھر میں آگ لگی اور وہ جل کر جہنم رسید ہوگیا چند ماہ ہی
گزرے ہیں پیرس میں نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کی گئی اور وہ معاملہ میڈیامیں
چھایاہوا تھا کہ غلام نبی ﷺ وہا ں اسی کے دفتر میں تمام گستاخوں کو گولیوں
سے بھون ڈالا اور دنیا کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ :
ہم نے ہر دور میں نامو س رسالت کے لئے وقت کی تیز ہواؤں سے بغاوت کی ہے
جان مانگوتو جان دیدوں مال مانگو تو مال دیدوں مگر ہم سے یہ نہ ہو سکے گا
کہ نبی کا جاہ و جلال دیدوں
قاضی عیاض بن راہویہ و علامہ خطابی ودیگر محققین، حضرات صحابہ کرام رضوان
اﷲ تعالیٰ علیھم اجمعین و تابعین اور ائمہ اربعہ نیز پوری امت مسلمہ کا
متفقہ عقیدہ ہے کہ گستاخ رسول ملعون مرتد و کائنات کا بدترین غلیظ ترین
کافرہے ،اور ساتھ ہی اسلامی عدالت ایسے بدبختوں کے لئے سزائے موت سناتی ہے
اور تختہ دار پر لٹکانے کا حکم دیتی ۔’’اجمع العلماء ان شاتم النبی ﷺ کافر
و حکمہ عند الائمہ القتل من شک فی کفرہ و عذابہ فقد کفر ‘‘ ۔ اور یہ آج سے
نہیں حضور کے زمانے سے ہی چلا آرہا ہے حضرت سلمہ بن الاکوع سے روایت ہے کہ
جناب رسول اﷲ ﷺ کے پا س مشرکوں کا ایک جاسوس آیا اس حال میں کہ آپ ﷺ سفر
میں تھے وہ آ پ ﷺ اور آپ کے اصحاب میں بیٹھا اور پھر چپکے سے چلا گیا آپ ﷺ
نے فرمایا اس کو ڈھونڈو اور مار ڈالو حضرت سلمہ بن الاکوع کہتے ہیں کہ سب
سے پہلے میں نے اس کو پایا اور مار ڈالا اور قتل کے بعد اس کا مال و اسباب
لے لیا ۔ پھر آپ ﷺ نے بطور نفل (نہ کی بطور حق ) وہ سامان مجھ ہی کو عنایت
فرمادیا (سنن ابو داؤد ۔جہاد کا بیان ، حدیث ۲۶۴۷)
اسی لئے عروہ بن مسعودجب جاسوسی کرنے آئے اور حضور ﷺ کے ارد گر د صحابہ کا
عشق دیکھ کر کہا میں نے آج تک کسی کو اتنی محبت کرتے نہیں دیکھا جتنا محمد
ﷺ کے ساتھ ان کے ماننے والے کرتے ہیں قاضی عیاض رحمتہ اﷲ علیہ نقل کرتے ہیں
کہ ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر بولا آپ ﷺ مجھے اپنے اہل وعیال سب
سے آپ زیادہ محبوب ہیں مجھے آپ ﷺ کی یاد آتی ہے تو صبر نہیں ہوتا جب تک
یہاں آکر آپ ﷺ کو دیکھ نہیں لیتا اب غم یہ ہے کہ وفات کے بعد آپ تو انبیاء
علیھم السلام کے ساتھ ہونگے وہاں میں آپ کو کیسے دیکھا کروں گا ۔ اس پر یہ
آیت کریمہ نازل ہوئی ۔ترجمہ : جو لوگ اﷲ ورسول کا کہنا ما نتے ہیں وہ ان
لوگوں کے ساتھ ہونگے جن پر خدا کا انعام ہے یعنی نبی ،صدیق ،شہید اور نیک
لوگ اور ان لوگوں کی صحبت بڑی غنیمت ہے (القرآن ، سورہ نساء ۴ آیت ۶۹)۔ آپ
ﷺ نے اسے بلا کر یہ آیت بتادی نبی کا گستاخ کہیں بھی پناہ نہیں پائے گا اور
سرکار دوعالم ﷺ سے محبت کرنے والا اﷲ کی بارگاہ میں سرخرورہے گا اور دنیا
میں بھی، اﷲ ہمیں سرکار دوعالم کی عظمت کو جاننے کی توفیق عطا فرمائے اور
بے ادبی و گستاخی سے بچائے آمین ثم آمین ۔ |