ماسکو مذاکرات :امن کی نوید یا وقت کا ضیاع !!

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے کی جانے والی کوششوں میں ایک کامیاب کوشش روس کے دارالحکومت ماسکو میں کی گئی ۔گزشتہ دو ماہ سے جاری کوششوں کے بعد بالآخر روس یہ کانفرنس کروانے میں کامیاب ہوگیا ۔کانفرنس کے اعلان کے بعد امریکہ اور مغربی ممالک نے اس کانفرنس کو ناکام کرنے کے لیے مختلف قسم کے حیلے بہانے کیے۔امریکہ و دیگر مغربی ممالک کا ایک اعتراض یا خدشہ یہ بھی تھا کہ شاید روس اس کانفرنس کے ذریعے امریکہ طالبان کی براہ راست جو بات چیت شروع ہوئی ہے اسے ثبو تاز کرنے جارہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے زیر اثر قائم افغان حکومت نے سرکاری طور پر اس کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ۔لیکن ان سب کے باجود یہ کانفرنس بہت حد تک کامیاب رہی ۔اس کانفرنس کی پہلی کامیابی تو اسی وقت مان لی گئی تھی جب طالبان نے شرکت کرنے کا اعلان کر دیا ۔طالبان کی جانب سے افغان جنگ کے بعد پہلی مرتبہ کسی بین الاقوامی سطح پر امن کانفرنس میں شرکت تھی۔طالبان کی شرکت سے افغان مسئلہ کے سیاسی حل کے لیے مزید امکانات روشن ہو چکے ہیں ۔امریکہ کے اعتراضات اپنی جگہ تاہم روس اس خطے کا ایک اہم ملک ہے ۔افغانستان کے ساتھ اس کے تعلقا ت اور مفادات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔تاہم موجودہ مذاکرات کے لیے روس کی مثبت کوششوں سے انکار شاید نہ کیا جا سکے ۔امریکہ بھی اس جنگ کا ایک نہایت اہم کردارہے تاہم اس کے باوجود سب قوتیں یہ تسلیم کر چکی ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اور انہیں سیاسی حل کا حصہ بنانا ہی واحد راستہ ہے ۔جب تک طالبان کی قوت کو تسلیم کرکے ان کو امن مذاکرات کے لیے راضی نہیں کیا جاتا امن کا قیام ناممکن ہے۔تاہم یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ امریکہ سے مذاکرات ہونے کے باوجود طالبان امریکہ کو ایک قابض ملک خیال کرتے ہیں ۔ماسکو کانفرنس سے پہلے بھی طالبان نے واضح کیا کہ ان کی اس کانفرنس میں شرکت کا مقصد افغا ن حکومت یا ان کے کسی دھڑے سے مذاکرات کرنا نہیں بلکہ اس مسئلہ کا پرامن حل اور امریکی موجودگی کو ختم کرنا ہے۔یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ طالبان افغان حکومت سے براہ راست مذاکرات کرنے پر راضی نہیں ہیں کیونکہ ان کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اشرف غنی ایک کٹھ پتلی حکومت ہے جو امریکہ کی سرپرستی میں زبردستی قائم کی گئی ہے ۔اس لیے اشرف غنی حکومت سے بات کرنے سے پہلے ہے کہ اقتدار کے اصل مالک امریکہ سے براہ راست بات کی جائے۔

اس کانفرنس سے شاید براہ راست یا فوری طور پر کوئی نتائج ممکن نہیں لیکن یہ ایک مثبت قدم ضرور ہے جو امن کے قیام کے لیے اہمیت کا حامل ہے ۔اس کانفرنس کی دوسری بڑی کامیابی خطے کے دیگر اہم ممالک کا شرکت کرنا بھی ہے ۔ اس کانفرنس میں طالبان نے پہلی دفعہ بھارت کے ساتھ کسی کانفرنس میں شرکت کی ہے ۔روس نے اس کانفرنس میں شرکت کے لیے جن گیارہ ممالک کو دعوت دی تھی ان میں امریکہ ، چین ،پاکستان ، بھارت ، ایران اور روس کے ہمسایہ ممالک شامل تھے ۔یہ سارے ممالک ہی اس کانفرنس کا حصہ بنے ۔اس کانفرنس میں اگرچہ افغان حکومت نے شرکت کرنے سے انکار کیا تاہم اس کے باجود افغان امن کونسل کے نمائندے نے شرکت کی جس سے کسی حد تک افغان حکومت کی کمی پوری کی گئی ۔یہ خبریں بھی موجود ہیں کہ افغان امن کونسل کے اس وفد نے طالبان کو افغان حکومت کا یہ پیغام بھی پہنچایا کہ وہ جب چاہیں جہاں چاہیں افغان حکومت بغیر کسی پیشگی شرائط کے مذاکرات کے لیے تیار ہیں ۔طالبان نے اس پیشکش کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ انہیں یقین ہے افغان حکومت اختیار نہیں رکھتی لہٰذا اس لیے ضروری ہے کہ اختیارات رکھنے والے امریکہ سے بات چیت کی جائے ۔اس کانفرنس میں افغان حکومت کی غیر موجودگی کو جہاں غیر جانبدارتجزیہ نگار تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں وہاں بعض افغان رہنما بھی اس پر خوش نہیں ہیں ۔سابق صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ افغان امن کے لیے جہاں بھی مذاکرات ہوں اور جو بھی اس کا میزبان ہو شرکت کرنی چاہیے کیونکہ یہ سب افغان کے سیاسی حل کے لیے ہو رہا ہے ۔اگر دنیا اس حل کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا چاہتی ہے تو اس میں شرکت کرنے میں کیا مضائقہ ہے ۔یہ مذاکرات گزشتہ ماہ افغان حکومت کے انکار کے بعد ملتوی کر دیے گئے تھے تاہم خوش آئند ہے کہ ایک ماہ کی تاخیر کے ساتھ اس پر عمل کر لیا گیا ۔اس کانفرنس میں بھارت اور پاکستان کا بیٹھنا بھی کسی حد تک جنگ زدہ ریاست کے لیے نیک شگون سمجھا جا رہا ہے ۔ بھارت نے اگرچہ سرکاری حیثیت سے اس میں شرکت نہیں کی تاہم غیر رسمی طور پر اس کے دو نمائندوں نے اس میں شرکت کی ۔ اس کانفرنس میں شریک امریکہ ، بھارت اور افغان حکومت کو ہم خیال سمجھا جاتا ہے تاہم دوسری جانب چین ، روس ، پاکستان اور دیگر علاقائی ممالک امن کے لیے اس مسئلہ کا سیاسی حل نکالنے کے لیے مثبت کوششوں میں مصروف ہیں ۔چین افغانستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر چکا ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ ملحقہ سرحد افغانستان میں بدامنی اور جنگ کی وجہ سے شدید متاثر ہے ۔افغانستان جنگ میں افغان قوم کے بعد اس کی سب سے بڑی قیمت پاکستان نے چکائی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان امن کے قیام کے لیے ہر سطح پر جانے کے لیے تیار نظر آتا ہے ۔بھارت افغانستان کی بدامنی سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کے ملحقہ علاقوں میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے مصروف ہے جس ناقابل تردید ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں دوسری طرف بھارت کے زیر اثر افغان حکومت اور خفیہ ادارے کی جانب سے بھی پاکستان کے خلاف عسکری و سفارتی محاذپر حملے جاری ہیں ۔چین اور روس اس خطے کی اہم قوتیں ہیں جو معاشی لحاظ سے علاقائی تعاون کے لیے کام کر رہی ہیں ۔خطے میں جاری ان کے معاشی منصوبوں اسی وقت جاری رہ سکتے ہیں جب افغانستان مسئلہ کا سیاسی حل نکالا جائے ۔جنگ ، بدامنی اوردہشت گردی دونوں ممالک کے معاشی منصوبوں کے لیے زہر قاتل ہے اس لیے چین اور روس کی کوششیں قابل قدر ہیں ۔

تین روزہ ماسکو کانفرنس کے اختتام پر مغربی ناقدین کے اعتراضات کے باوجود اس کے مثبت نتائج کی توقع کی جارہی ہے ۔ طالبان کی جانب سے کانفرنس کے اختتام پر ایک بار پھر سے اپنے اس موقف کا دہرایا گیا ہے کہ وہ امریکہ کو ایک قابض قوت سمجھتے ہیں اور اس مسئلہ کا واحد حل امریکی افواج کا انخلاء ہے تاہم طالبان رہنماؤں نے یہ واضح کر دیا کہ وہ افغان مسئلہ کے سیاسی حل کے لیے مکمل تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں ۔اس کانفرنس نے یہ واضح کر دیا ہے کہ علاقائی طاقتیں اس مسئلہ کے حل لیے مخلص ہو چکی ہیں جس کے بعد یہ امید کی جا سکتی ہے جنگ زدہ علاقے میں امن کی بحالی ذیادہ دور نہیں ۔

 

Asif Khurshid
About the Author: Asif Khurshid Read More Articles by Asif Khurshid: 97 Articles with 64526 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.