فسادی(آخری قسط)

آپ میرے ساتھ چلیں گی۔ ثریا نے حیرت سے کہا۔ تم کہاں جاوگی۔ مجھے کہاں لے کر جاو گی۔ نصرت نے جلیل کی ساری باتوں کو تفصیل سے بیان کیا۔ ثریا کی انکھوں میں آنسو تھے ۔ ہائے اس نے روتے ہوئے کہا۔ کتاکہیں کا۔ اسے تو یہاں کی ہر عورت اپنی زر خرید ہی لگتی ہے۔ روٹی مفت کی کوئی بھی نہیں دیتا۔ نصرت ۔
نصرت نے افسردگی سے کہا۔ کیا کوئی بھی جگہ عورت کے لیے محفوظ پنا ہ گاہ نہیں ۔ ثریا کی انکھوں سے آنسو چھلک گئے ۔ اپنے شوہر کا گھر ہی سب سے اچھی پناہ گاہ ہے۔

ہمارے معاشرے میں بے سہارا عورت اس ہڈی کی طرح ہے جس کو ہر کتا چکھنا چاہتا ہے۔

نصرت کا نواں ماہ شروع ہوا تو اس نے چھٹی مانگی ، ایک ماہ کی چھٹی ۔ وہ کافی پیسے جمع کر چکی تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ مدد ملتی نہیں خریدی جاتی ہے۔ خیرات ملتی ہے جسے وہ لینے کے حق میں نہ تھی۔ اس نے اپنی ہمت سے بڑھ کر پچھلے کچھ ماہ میں کام کیا تھا۔ وہ اس بات پر مکمل یقین رکھتی تھی کہ انسان کرنا چاہے تو کچھ بھی کر سکتا ہے۔ حوصلہ انسان کے لیے کامیابی کی ضمانت ہے۔ اپنے کام میں اچھی ہونے کی وجہ سے نہ صرف اسے چھٹی مل گئی بلکہ اسے ایک ماہ کی ایڈوانس تنخواہ کی پیشکش بھی کی گئی۔
اس کی گود میں بچہ دیتے ہوئے لیڈی ڈاکٹر نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ آج کل ٹیکنالوجی اس قدر ایڈوانس ہے۔ دس بارہ سال کی عمر میں ایسے بچوں کا آپریشن ہوتا ہے ۔ جس سے وہ مکمل ہو جاتے ہیں ۔ نصرت نے لیڈی ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ آپ ٹھیک کہتی ہیں ۔ اس نے اپنے بچے کو دیکھا۔ جو انکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ نصرت کے آنسو اس کے چہرے پر گرے۔ ایک آنسو اس کے ہونٹ پر گِرا تو ہو فوراً اسے چاٹ گیا۔ نصرت نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میں اپنے آنسو خود پی سکتی ہوں ۔ آپ کو کبھی آنسو پینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔اس نے بچے کی پیشانی کو چومااور پیار سے کہاتم تعریف کے لائق بننا سپاس ۔
ایک ماہ گزر چکا تھا۔ اب دوبارہ سے اسے کام پر جانا تھا۔ اپنا گھر کی تمام عورتیں اس سے بہت پیار کرتی تھیں ۔ اس نے اپنے بیٹے کا نام ایان رکھا ۔ اپنا گھر کی وہ بوڑھی عورتیں جو کھانے پکانے اور صفائی کا کام کرتی تھیں ۔ نصرت نے ان میں سے دو کو ایان کی ذمہ داری سونپی تھی۔ وہ نصرت کو اپنی بیٹی کی طرح چاہتی تھیں ۔ نصرت بھی ان کی ضرورتوں کا خیال رکھتی تھی۔ کچھ ہفتہ پہلے جب ان میں سے ایک عورت بیمار تھی تو نصرت اسے ہسپتال لے کر گئی ۔ تمام رات اس کا خیال رکھا۔ جب وہ ٹھیک ہوئی تو اس نے روتے ہوئے نصرت سے کہا۔ میرا اپنا بیٹا مجھے یہاں چھوڑ گیا۔ جس کی پیدائش پر مجھے لگتا تھا کہ وہ میرا سہارا ہو گا۔ نصرت نے اس کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ثریا آنٹی وقت سے پہلے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کل کیا ہو گا۔ ہمیں تو بس اپنے عمل ایسے کرنے چاہیں کہ آنے والے وقت میں جب پیچھے مڑ کر دیکھیں تو یہ افسوس نہ ہو کہ یہ کیوں کیا تھا۔ کسی کے عمل پر ہمارا اختیار نہیں مگر خود پر ہمارا اختیار ہے۔ آنٹی ثریا نے آنسو صاف کیے تھے اور اثبات میں سر ہلایا تھا۔ تب سے وہ نصرت کا ہر ممکن خیال رکھتی تھیں ۔
نصرت نے واپس اپنا کام شروع کر دیا۔ فارغ پیریڈ میں وہ مطالعہ کرتی۔ سعد جب سٹاف روم میں داخل ہوا تو بہت دنوں بعد نصرت کو دیکھ کر اسے دل میں ایک خوشی کی لہر اُٹھتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ وہ نصرت کی طرف دیکھتا ہوا ، اس کے قریبی صوفہ پر جا بیٹھا۔ اس نے اسلام علیکم کہا۔ نصرت کتاب پڑھنے میں مصروف رہی ۔ سعد نے اپنی آواز کو تھوڑ ا اونچا کرتے ہوئے کہا۔ میڈم نصرت آپ کو مبارک ہو ۔ نصرت نے کتاب میں انگلی رکھتے ہوئے کہا۔ خیر مبارک۔
سعد نے مسکراتے ہوئے کہا۔ آپ کو یہاں دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔ نصرت نے تعجب سے کہا۔ مجھے دیکھ کر آپ کو خوشی کیوں ہو رہی ہے۔ نہ ہی آپ میرے سٹوڈنٹ ہیں اور نہ ہی میں آپ کی سٹوڈنٹس میں ہوں ۔
سعد نے سنجیدگی سے نصرت کی طرف دیکھ کر کہا۔ دوستی کی جا سکتی ہے۔ نصرت نے کتاب کھولتے ہوئے کہا۔ میں یہاں دوستی کے مقصد سے نہیں آتی ، اگر آپ کے یہاں آنے کا مقصد دوست تلاش کرنا ہے تو مہربانی کر کے کسی اور کو ڈھونڈ لیجئے۔ سعد نے بات جاری رکھنے کے لیے کہا۔ آپ کی وہ پہلے والی کتاب میں نے بھی پڑھی ۔ بہت اچھا لکھا ہے اس رائٹر نے ۔سعد نے پریشانی سے نظریں ارد گرد گمائیں اور بولا۔آپ کو پتہ ہے اس کی موت خود کشی کرنے سے ہوئی۔ نصرت نے گھور کر سعد کی طرف دیکھا۔
جانتی ہوں ۔ کچھ اور ۔۔۔ سعد کو سمجھ نہیں آیا کہ بات کیسے جاری رکھے۔ اس نے کہا۔ آپ کون سی بک پڑھ رہی ہیں ۔ نصرت نے کتاب میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ یہ لیں آپ پڑھ لیں ۔ ٹیبل پر چھوڑ دیجئے گا۔ یہ کہتے ہوئے وہ اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ کتاب ٹیبل پر پڑی تھی۔ سعد نےمیز پر پڑھی کتاب کو دیکھا۔ آ ۔ مین ۔ سرچ۔ فار ۔ میننگ۔ ڈاکٹر فرینکل اس نے رائٹر کا نام پڑھتے ہوئے ۔کتاب کا سرسری جائزہ لیا۔ کتاب ٹیبل پر چھوڑنے کے بعد اس نے ہنس کر کہا۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
سعداپنے لیب ٹاپ پر ڈاکٹر فرینکل کو گوگل پر سرچ کر رہا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا ، یہ میڈم نصرت کتابیں کیسے انتخاب کرتی ہیں یار۔ پہلے ورجینا وولف اور اب ڈاکٹر فرینکل ہٹلر کے قید خانہ سے زندہ بچ کر نکلنے والا انسان۔ یہ اپنے آپ کو تسلی دینا چاہتی ہیں کہ ان کی مشکل کچھ بھی نہیں یا پھر یہ جاننا چاہتی ہیں کہ مشکلات میں ثابت قدم کیسے رہا جاتا ہے۔ اس نے تخیل میں خود کو میڈم نصرت کے ساتھ تھوڑی دیر پایا۔ موبائل پر آنے والے میسج نے اس کا تخیل توڑ دیا۔ اس نے افسردگی سے اپنے آپ سے کہا۔ کاش کبھی ایسا ہو کہ جب میں میڈم نصرت سے بات کرنے جاوں تو وہ کافی دیر وہیں بیٹھیں رہیں ، وہاں سے اُٹھ کر کہیں نہ جائیں ۔ کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصرت کو اپنا گھر کے کیر ٹیکر نے اپنے پاس بلایا۔اس کے بات کرنے کا انداز نصرت کو پسند نہیں آیا تو نصرت نے صاف صاف اسے اس کا کام سمجھانے کی کوشش کی ۔ نصرت اچھے طریقے سے جانتی تھی کہ ہمارے معاشرے میں پڑھے لکھے جاہل مردوں کی سوچ گھر کو چھوڑ دینے والی عورتوں سے متعلق کیا ہوتی ہے۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ ہمارے معاشرے میں بے سہارا عورت اس ہڈی کی طرح ہے جس کو ہر کتا چکھنا چاہتا ہے۔
کیر ٹیکر نے دوبارہ کوشش کرتے ہوئے کہا ۔ میں جانتا ہوں آپ پڑھی لکھی ہیں ۔ اس لیے آپ کو تو اور بھی سمجھدار ہونا چاہیے۔ کچھ دینا اور کچھ لینا اسی طرح تو دنیا کے کاروبار چلتے ہیں ۔ نصرت نے اس کی نظروں میں گندگی کو محسوس کیا تو غصے سے اسے گالوں میں جلن محسوس ہونے لگی ۔ اس سے رہا نہ گیا اس نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ جلیل صاحب آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ میں سمجھدار بھی ہوں پڑھی لکھی بھی۔ لیکن آپ نے شاہد اس گدھے کی کہانی پر غور نہیں کیا جسے بات بہت دیر سے سمجھ آتی تھی۔ تنگ آ کر جب سمجھانے والا جانے کو تیار ہوتاتھا۔جلیل صاحب کی مردانگی کو جلال آ گیا ۔ وہ غصے سے بولے۔ میڈم نصرت ،ہمارے ہاں عورتوں کو پنا ہ دی جاتی ہے ، بچوں کو نہیں ۔ اس لیے آپ اپنے بچے کو کسی یتیم خانے میں دے دیں۔
نصرت نے تمسخر خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ جلیل صاحب میں سمجھ دار ضرور ہوں مگر آپ جتنی نہیں کہ اپنے بچے کو یتیم خانہ چھوڑ دوں ۔ نصرت جانے لگی تو وہ پیچھے سے چیخ کر بولا ۔ شام تک ۔ رات کو ورنہ میں خود بچہ کو کہیں اور بھیج دو ں گا۔ نصرت نے سنا اور خاموشی سے اس کمرے سے نکل گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باہر نکل کر اس نے گہرا سانس لیا۔ ثریا سپاس کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ اس نے گھڑی دیکھی شام کے ساڑھے چار ہو رہے تھے۔ اس نے سوچتے ہوئے خود سےکہا۔ کیا امی کے گھر چلی جاوں ۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس کا دل نہیں مانا۔ ۔۔۔۔۔ کافی دیر وہ سر پر بازو رکھے بستر پر لیٹی رہی۔ثریا نے بہت بار اسے کھانے کا پوچھا مگر اس نے منع کر دیا۔ اس نے ثریا کی طرف دیکھا جو اس کے لیے ماں جیسی تھی۔ ثریا بھی اسے اپنی بیٹی کی طرح چاہتی تھی۔ ثریا نے اسے اپنی طرف دیکھتے دیکھا تو پیار سے بولی ۔ آج بہت تھک گئی ۔ اس نے بھری ہوئی آواز میں کہا۔ نہیں آنٹی ۔ اگر میں یہاں سے چلی جاوں تو آپ مجھے یاد کریں گی۔ثریا نے ہنس کر کہا ، جہاں جاو گی ۔وہاں مجھے بھی لے جانا۔ نصرت کچھ دیر ثریا کی طرف دیکھتی رہی۔
آپ میرے ساتھ چلیں گی۔ ثریا نے حیرت سے کہا۔ تم کہاں جاوگی۔ مجھے کہاں لے کر جاو گی۔ نصرت نے جلیل کی ساری باتوں کو تفصیل سے بیان کیا۔ ثریا کی انکھوں میں آنسو تھے ۔ ہائے اس نے روتے ہوئے کہا۔ کتاکہیں کا۔ اسے تو یہاں کی ہر عورت اپنی زر خرید ہی لگتی ہے۔ روٹی مفت کی کوئی بھی نہیں دیتا۔ نصرت ۔
نصرت نے افسردگی سے کہا۔ کیا کوئی بھی جگہ عورت کے لیے محفوظ پنا ہ گاہ نہیں ۔ ثریا کی انکھوں سے آنسو چھلک گئے ۔ اپنے شوہر کا گھر ہی سب سے اچھی پناہ گاہ ہے۔میرے خصم کو مرے زمانہ ہو گیا۔ جب تک زندہ تھا۔ جو روکھی سوکھی دیتا تھا،میں خوش تھی۔ ثریا نے دوپٹہ سے آنسو صاف کیے ۔نصرت کو فوراً اپنے گھر کا خیال آیا ۔ اس نے پھر گھڑی دیکھی ۔ سوا پانچ ہوئے تھے ۔ وہ فوراً سے اُٹھی اور بولی ۔ سپاس کا خیال رکھنا ، میں کچھ دیر میں آ جاوں گی۔ ثریا نے نصرت کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ کھانا تو کھا لو۔ صبح کے ناشتے پر ہو تم۔ نصرت نے مسکرا کر ثریا کی پیشانی کو چوما۔
کھانا تو اب اپنے گھر میں کھاوں گی۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے پرس لیتے ہوئے چلی گئی۔ کچھ دیر میں وہ گھر کے دروازے پر کھڑی تھی۔ دروازے پر ابھی بھی تالا لگا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا ۔ آفاق تم جب بھی لوٹوں گئے ، مجھے اپنے سامنے پاو گئے۔ میرے بیٹے کو تم کب تک مجھ سے دور رکھ سکتے ہو۔ کچھ دیر میں تالا توڑوا کر وہ گھر کے اندر داخل ہو چکی تھی۔ ساری چیزیں اپنی جگہ پر تھی ۔ بس کلکاریاں مارنے والا وہ معصوم چہرہ ہی نہ تھا ۔جسے وہ اپنی جان کہتی تھی۔ اس کا چہرہ آنسووں سے دھل چکا تھا۔ وہ ارحم کے کھلونوں کو دیکھ رہی تھی۔ انہیں چوم رہی تھی۔اسے سپاس کا خیال آیا تو وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے دروازے کو تالا لگایا ۔ ٹیکسی کی اور اپنا گھر سے ثریا اور سپاس کے ساتھ واپس آفاق کے گھر آ گئی۔ ثریا اس کے گھر آکر حیران تھی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ کیوں اچھا خاصا گھر ہونے کے باوجود نصرت بے چاری بے سہارا عورتوں کے ساتھ رہ رہی تھی۔ اس نے نصرت سے پوچھا ، جو الماری میں کپڑے رکھ رہی تھی۔
ثریا نے سپاس کو بیڈ پر ڈالا جو میٹھی نیند سو رہا تھا۔ اس نے نصرت کے قریب آ کر پوچھا ۔ تمہارے پاس گھر تھا تو کیوں وہاں پڑی تھی ۔ کچھ سمجھ نہیں آیا۔ نصرت نے ثریا کے کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ آپ نےکہا تھا نا کہ سب سے محفوظ جگہ شوہر کا گھر ہی ہوتا ہے تو اسی لیے وہیں آ گئی۔ ثریا نے تعجب سے دیکھتے ہوئے کہامگر یہاں تو کوئی نہیں ہے۔ نصرت کچھ دیر خاموش رہی
وہ کافی عرصہ بعد دوبارہ سے اپنے بیڈ پر لیٹی تھی ۔ اسے آفاق کی یاد آرہی تھی۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا ، ہمارے درمیان کچھ بھی ہوا ہومگر وہ بے وفا نہیں تھا۔ میں نے خواہ مخواہ اس پر اور راحت پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے ایک آہ بھری ۔ اس کی انکھوں سے آنسو چھلک گئے۔ اس نے اپنے آپ سے کہا۔ ہم انسان کس قدر جلد باز ہوتے ہیں اور ناشکرے بھی۔ کس قدر جلد فیصلہ کرتے ہیں ۔ جنس خواہ کچھ بھی ہو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ نصرت نے سپاس کی طرف پیار سے دیکھتے ہوئے سوچا۔زندگی کی سب سے بڑی سچائی یہی ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں ۔ انہیں ان کا ملنا ہی پورا کرتا ہے اس نے آفاق کی اور اپنی شادی کی تصویر کو دیکھا اور کچھ دیر دیکھتی رہی۔
سعدیہ سے بات کرتے ہوئے نصرت نے اسے اپنے گھر واپس آ جانے کا بتایا تو سعدیہ کو حیرت ہوئی۔ اس نے کہا میں تم سے ملنے آوں گی۔ اس کا شوہر اس کی باتیں سن رہا تھا۔ جیسے ہی اس نے فون بند کیا۔ تو نجیب نے ہنس کر کہا، تم کہاں جا کر ملوں گی اس سے ۔ سعدیہ نے بتایا کہ وہ واپس آفاق کے گھر میں ہی ہے۔ نجیب نے حیرت سے کہا۔ اسے بے چارے کو گھر سے نکال کے خود اسی کے گھر پر قبضہ کر لیا۔ بڑی چالاک ہے تمہاری بہن۔ ہو بھی کیوں نا۔ پڑھی لکھی عورتیں جو مردوں کے ساتھ کام کرتیں ہیں ۔ ایک آدمی سے گزاراتھوڑا ہی ہوتا ہے ان کا۔ سعدیہ کو شدید غصہ آیا مگر وہ خا موشی سے کمرے سے باہر جانے لگی تھی کہ نجیب پھر بولا ۔وہ کیا کہہ رہی تھی تمہیں ۔ ایسی عورتوں سے دور رہتے ہیں سمجھی!جس نے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا۔ سعدیہ نے دھیرے سے مری ہوئی آواز میں کہا۔ اس نے نہیں چھوڑا تھا آفاق نے چھوڑ دیا تھا اسے۔ نجیب گرج دار آواز میں دھاڑا۔ سب بتایا ہے میری امی نے مجھے، نہیں پیدا کرتی کھسرا تو گزارا نہیں تھا اس کا۔ کل وہ ناچے گا اور یہ تالیاں بجائے گی ،تمہاری بہن۔ سعدیہ کی انکھیں آنسووں سے بھر گئیں ۔ وہ چپ چاپ باہر نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مس لبنی اپنی عادت سے مجبور مس عطیہ سے باتیں کر رہیں تھیں ۔ موضوع مس نصرت تھیں ۔ ان کا بچہ ، جس کی جنس کا تعین نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مس لبنی نے جب مس عطیہ کو بتایا تو انہوں نے افسوس کرتے ہوئے کہا۔ یہ تو بہت بُرا ہوا مس نصرت کے ساتھ ۔ مس لبنی نے کچھ دیر ہونٹو ں پر زبان پھری اور بولیں ۔ میری امی کہا کرتی تھی کہ انسان کو سوچ سمجھ کر عمل کرنا چاہیے ۔ کب اللہ کس بات پر پکڑ لے پتہ ہی نہیں چلتا۔ اب وہ اوپر سے لاٹھی تو مارے گا نہیں ۔ حدیث نبویﷺ بھی ہے نا وہ کہ جب انسان کے گناہ ذیادہ ہو جاتے ہیں تو رب ان پر غم مسلط کر دیتا ہے ۔سعد ان کی باتیں سن رہا تھا۔ اسے بہت بُرا محسوس ہوا۔ وہ کھڑا ہوا اور مس لبنی اور مس عطیہ کے قریب والے صوفے پر آ بیٹھا ۔ اسے کچھ سمجھ نہ آئی کہ کیا کہے ۔ غصے میں فقط اس نے یہی بولا ۔ جب کوئی انسان موجود نہ ہو ۔ اس کی برائی نہیں کرنی چاہیے۔ مس لبنی کو سعد کے الفاظ بہت بُرے معلوم ہوئے ۔ اس نے فوراً کہا ۔ آپ تو حمائت کریں گئے ہی ۔۔۔ آپ کی نئی نئی دوستی جو ہوئی ہےمس نصرت کے ساتھ ۔ نصرت جیسے ہی سٹاف روم میں داخل ہوئی ، اس کے کانوں میں مس لبنی کے الفاظ نے ہتھوڑا جیسی ضرب لگائی۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا اور ان تینوں سے الگ کونے میں پڑھے صوفے پر بیٹھ گئی۔ اپنے آپ کو سکون دینے کے لیے پرس نے پانی کی بوتل نکالی اور پانی پیا۔ سعد کو لگا کہ نصرت آ کر مس لبنی کو کچھ کہے گی۔کچھ دیر خاموشی سے بیٹھنے کے بعد نصرت باہر گارڈن میں بینچ پر بیٹھ گئی۔ تھوری دیر بعد سعد نصر ت کے پاس بینچ کے دوسرے سرے پر بیٹھ گیا۔ نصرت اپنی کتاب کی طرف دیکھ کر اونچی آواز میں پڑھنے لگی ۔ سعد نے افسردگی سے کہا۔ میڈم نصرت سوری۔ اس نے مذید بات کی کوشش کی۔اٹکتے ہوئے لیجے میں بولا۔
مس نصرت پلیز آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نصرت نے غصے سے اس کی طرف دیکھااور کہا۔ آپ کو یہاں کوئی اور جگہ نہیں ملی بیٹھنے کے لیے۔ کیوں پریشان کر کے رکھا ہے آپ نے مجھے۔ سعد نے اوپر کے ہونٹ کو دانتوں کے درمیان لا کر کاٹا۔۔ ۔۔۔اس نے اداسی سے ہلکی آواز میں کہا۔ میں تو یہاں سے چلا جاوں گالیکن میرا دھیان وہ نہ جانے کیوں آپ کی طرف لگا رہتا ہے۔ میں کیا کروں ۔
نصرت نے اس کی طرف دیکھ کرسنجیدگی سے کہا۔ جس شخص کا اپنے دھیان پر کنٹرول نہ ہو ۔ وہ اس کٹی پتنگ کی طرح ہے جو ہوا کے دوش پر سوار خود کو اسی کے رحم کرم پر چھوڑ دیتی ہے۔ آپ جس عہدہ پر ہیں ،مہربانی کر کے اس کی عزت کا خیال کریں ۔ استاد بچوں کے لیے رول ماڈلز ہوتے ہیں ،جہاں استاد آپ اور میڈم لبنی کی طرح نفس کے غلام ہوں ،وہاں ہم اپنی آنے والی نسل سے کیا امید کریں گئے۔ میرا آپ کو مشورہ ہے کہ کچھ بھی پروفیشن اختیار کر لیں مگر اس استاد کی کرسی سے مستصنی ہو جائیں۔ یہ کہتے ہوئے نصرت وہاں سے جا چکی تھی۔
سعد کے دماغ میں نصرت کی باتیں لگا تار ریکارڈنگ کی طرح چل رہی تھیں ۔ وہ دیر تک گھر میں اوندھا بستر پر لیٹا رہا۔ وہ اپنے دماغ میں بجنے والی ریکارڈنگ کو آف کرنا چاہتا تھا۔ وہ اُٹھ کر واش روم گیا ۔نہاتے ہوئے گانا گانے لگا ،تا کہ نصرت یا اس کی کوئی بات ذہن میں نہ آئےمگر وہ اس کو جس قدر فراموش کرنا چاہتا تھا۔ وہ اور اس کے دماغ میں اُترتی جاتی تھی۔
ساحل پر کھڑے ہو تمہیں کیا ڈر ہے چلے جانا۔
میں ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں ۔۔
کچھ دن تک جب وہ غائب رہا تو مس لبنی نے اسے فون کر کے خیرت معلوم کی ۔ اس نے ہنس کر کہا۔ مجھے کسی نے کہا ہے کہ میں اور آپ استاد بننے کے لائق نہیں ہیں ۔ مجھے اس کہنے والے کی بات پر یقین ہے۔ آپ کو مبارک یہ پروفیشن میں کچھ اور کر لوں گا۔دوسروں کو خراب کرنے سے اچھا ہے انسان تنہا خراب ہو۔ مس لبنی نے سعد کی بات نصرت تک پہنچاتے ہوئے مرچ مصالہ کا اضافہ کیا۔ بولی ۔ مس نصرت سعد آپ کے بارے میں بہت کچھ کہہ رہا تھا۔ نصرت نے ایک نظر مس لبنی کی طرف دیکھا اور بولی ۔ مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں کہ کس کی میرے بارے میں کیا رائے ہیں ۔ مس لبنی ہم یہاں جس مقصد کے لیے آتے ہیں ،وہ ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے۔ یہ کہتے ہوئے نصرت وہاں سے اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ مس عطیہ سے اسے پہلے ہی معلوم ہو چکا تھاکہ سعد نے یہ جاب چھوڑ دی ہے۔
نصرت نے آمنہ سے اور راحت سے آفاق سے متعلق پوچھا۔ آفاق کا کسی سے کسی قسم کا رابطہ نہیں تھا۔ نصرت کو ان کی بات پر یقین نہیں تھامگر وہ کر ہی کیا سکتی تھی۔ نصرت کبھی تو آفاق کودل میں خوب بُرا بھلا کہتی اور کبھی اس کی تعریف کرتی۔ کبھی ارحم کی یادیں اسے محظوظ کرتیں تو کبھی وہی یادیں اسے رُلاتیں ۔ وقت کسی کے لیے نہ رُکتا ہے نہ رُکا۔ سپاس بڑا ہو رہا تھا۔ نصرت بچپن سے اسے اپنی ذات کو تسلیم کرنا سکھا رہی تھی ۔
اس کی زندگی کا مقصد سپاس کو ایک بہترین انسان بنانا تھا۔ وہ لڑکیوں کے ساتھ پڑتا تھامگر اس نے دل ہی دل میں لڑکا بننے کی خواہش پال رکھی تھی ۔ نصرت نے اسے جب سے بتایا تھا کہ سائنس نے بہت ترقی کر لی ہے ایسا ممکن ہے۔ جنس تبدیل کروانا بہت آسان ہے۔وہ دن میں ایک بار ضرور دوبارہ سے کنفرم کرتا ، امی کیا واقعی جنس بدل سکتی ہے ۔ لڑکی لڑکا اور لڑکا لڑکی بن سکتا ہے؟ نصرت نے جب گیارہ سال کے سپاس کے ساتھ ڈاکٹر کی رائے لی تو جو اخراجات ڈاکٹر نے بتائے وہ نصرت کے بس کے نہ تھے۔ سپاس کو اکیلے کھیلنے اور پڑھنے کی عادت پڑھ چکی تھی۔
وہ سکول سے گھر اور گھر سے سکول تک محدود تھا۔ نصرت اسے باہر جا کر کھیلنے پر مجبور نہ کرتی مگر وہ اسے لوگوں کے ساتھ مل کر رہنے کے فائدے بتاتی ۔ کچھ لڑکیوں سے اس کی اچھی دوستی تھی ۔
ایک بار وہ نکڑ کی دکان سے انڈے لینے گیا تو دکان دار نے اسے اندر آنے کو کہا۔ اس نے پھر انڈے طلب کیے تو دکان دار نے ہنس کر کہا،ارے تو چیز کیا ہے بتا تو۔ جیسے ہی دوکان دار باہر آیا ،،سپاس بھاگتا ہوا گھر واپس آ گیا۔ اس نے نصرت کو بتایا تو نصرت اسے ساتھ لے کر دوبارہ دکان میں گئی۔ سپاس سے بولی ، انکل سے انڈے لو ۔ سپاس نے اٹکتے ہوئے کہا۔ انکل چھ انڈے دے دیں ۔ دوکان دار نے چھ انڈے شاپر میں ڈالے اور نصرت کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا ،یہ لیں باجی۔ نصرت نے غصے سے اس کی طرف گھور کر دیکھتے ہوئے کہا، بچے کو دیں ۔ اس نے انڈے سپاس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔یہ لو بیٹا۔ انڈے۔
نصرت نے دکان دار سے غصے سے کہا۔ بس یہی کرنا تھا آپ کو پہلے بھی ۔ عقلمند انسان کو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اس کے لہجے میں اس قدر تلخی تھی کہ دوکان دار نے نظریں نیچی کر لیں ۔ وہ نصرت سے کچھ نہیں بولا اس کی بیٹی نصرت سے ٹیوشن پڑھتی تھی۔
سپاس جیسے جیسے بڑا ہو رہا تھا ۔وہ لوگوں کے رویوں سے پریشان تھا۔ اس کے سوال نصر ت کے لیے پیچیدہ ہوتے جا رہے تھے۔ کہیں بار وہ نصرت کے ساتھ الجھ جاتا۔ ثریا اسے سمجھا تی تو وہ اس سے بھی بدتمیزی کرتا۔ نصرت جب رونے لگتی تو وہ پاوں پٹخ کر باہر چلا جاتا۔ جب اس کا خود پر غصہ کم ہوتا تو وہ واپس آ کر نصرت سے معافی مانگ لیتا۔
نصرت کو وہ آفاق کی یاد دلاتا تھا۔وہ جب بھی اسے کہتی آپ بلکل اپنے پاپا کی کاربن کاپی ہیں ۔وہ خوش ہونے کے بجائے اداس ہو جاتا۔ نصرت نے اسے بتا دیا تھا کہ کس طرح اس کے باپ نے اس کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ ہمیشہ اسے کہتی ، سپاس آپ کو ثابت کرنا ہے میرے بیٹے کہ میں غلط نہیں تھی۔کہیں بار تو سپاس کہتا۔ کاش امی آپ نے پاپا کی بات مان لی ہوتی ۔ آپ کی زندگی کتنی خوبصورت ہوتی۔ نصرت اداسی سے کہتی، میری زندگی اب بھی خوبصورت ہے ،بہت خوبصورت ہے۔ سپاس پھر غصے سے کہتا ، میری زندگی بہت بد صورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بی اے کرنے کے بعد سپاس نے جب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو اسے سکالرشپ ملی ۔ وہ بہت لائق تھا۔ اس نے مقصد طے کر لیا تھا کہ اسے بہت سا پیسہ کمانا ہے اور آپریشن سے مرد بننا ہے۔ نصرت سے اس کا بار بار مباحثہ اس سلسلے میں ہو چکا تھا۔ آفاق کا کچھ پتہ نہ تھا۔ نصرت کو صرف یہ ہی پتہ تھا کہ وہ دُبئی میں ہے۔ سپاس نے ڈریس ڈیزائنر بننے کی ٹھانی تھی۔ وہ مختلف مقابلوں میں حصہ لینے لگا۔ ۔۔۔نصرت نے اس کے نام کے ساتھ کوئی نام نہیں رکھا تھا۔ جب اس نے مقابلہ جیتا تو اسے انعام کے لیے سپاس جی کہہ کر بلایا گیا۔ اس کے کانوں کو یہ نام اس قدر پسند آیا کہ اس نے اپنے ہر ڈیزائن کردہ ڈریس پر سپاس جی لکھنا شروع کیا۔
نصرت اپنے بیٹے کی کامیابیوں پر بہت خوش تھی مگر پے در پے غموں نے اسے اندر سے کھوکھلا کر دیا تھا۔ اس کی امی کی موت ، پھر ثریا کی موت نے اسے بہت تنہا کر دیا تھا۔ سعدیہ کے شوہر نے اسے نصرت سے ملنے کی اجاذت نہیں دی تھی۔ وہ کبھی کبھار چھپ کر نصرت سے ملنے آ جاتی۔ نصرت سعدیہ کی مجبوری سمجھتی تھی ۔ وہ اسے کوئی گلہ نہیں کرتی۔ وقاص اور اشفاق بھی کبھی کبھار اس سے ملتے مگر وہ امی کی وفات کے بعد اس گھر میں نہیں جاتی تھی۔
وہ اکثر آفاق کو یاد کرتی۔ ارحم کا نام لے لے کر رونے لگتی ۔ سپاس ایک مشہور ڈریس ڈیزانر بن چکا تھا۔ ایک ٹی وی چینل کے اونر نے اس کےنام کی بتیک بنانے میں اس کی مدد کی تھی۔ بہت بڑے شاپنگ مال میں سپاس جی ڈیزائنر ڈریس رکھے گئے تھے۔ سپاس جی ایک نیا برینڈ بن چکا تھا۔ ہاف ہاف کی پاٹنر شپ پر سپاس کو بہت ذیادہ منافع ہو رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سغرہ بیمار تھی ، رمشہ کام پر جانے لگی تو سغرہ نے اسے رُک جانے کے لیے کہا۔ اس نے بیزاری سے کہا،اماں تجھے تو پتہ ہے چھٹی ہو تو کتنی باتیں سناتی ہیں ۔ میں یہاں رہوں گی تو کون سا تجھے آرام آنا ہے۔ وہ دوپٹہ لیتی ہوئی نکل گئی۔ سغرہ کھانس رہی تھی ۔ کھانستے کھانستے اوندھی ہو رہی تھی۔ اسے عارفہ کی بات یاد آئی ۔ تم لوگوں کے پاس پیسہ ہوتا نہیں تو کیوں بچے ہر سال کر لیتے ہو۔ سغرہ کو اپنا جواب یاد آیا ۔ اللہ کرتا ہے باجی ،سب اللہ کرتا ہے۔پانچ بیٹیوں کے بعد اللہ نے بیٹا دیا ہے ۔ زبیر ۔بھائی کا بھائی نہ ہو تو اس کی کنڈ نہیں ہوتی ۔ عارفہ کو کچھ سمجھ نہیں آیا تھا۔اس کا چہرہ ۔اپنا گناہ اسے سب یاد آ رہا تھا۔اس کی سوچوں میں، عارفہ کی آواز گونجی اور گرم گرم آنسو اس کی انکھ سے گرتا ہوا کان تک جا پہنچا۔ اللہ برکت دیتا ہے اس میں جس کی ہم کوشش کرتے ہیں۔
کھانے کو ہے نہیں تمہارے پاس اور میری مانو تو اس بارے میں سوچو۔ سات بچے کر لیے تم نے ،تعلیم کیسے دو گی، جب کھانا ہی پورا نہیں ہو گا۔ نیک اولاد ہو تو ایک دو بچے ہی بہت ہوتے ہیں ۔ انہیں اچھی تربیت دو۔ اچھا کھلاو۔ کل تمہاری تکلیف میں سہارا بنیں ۔ آج تمہیں ان بچوں کی خوشی اور درد کا احساس نہیں تو کل انہیں بھی نہیں ہو گا یاد رکھنا۔ سغرہ نے شدید تنگی محسوس کی۔ وہ اپنے بچوں کو بار بار بلا رہی تھی۔ سات میں سے کوئی ایک بھی اس کے پاس نہ تھا۔
شام کو جب رمشہ اور اس کی چھوٹی بہنیں لوگوں کے گھروں میں کام کر کے واپس آئی تو رمشہ سغرہ کے پاس آئی ۔ اس نے ہلایا تو وہ بلکل ٹھنڈی تھی ۔اس نے ہاتھ پکڑا تو وہ اسے لکڑی کا سا محسوس ہوا۔ اس نے منہ سیدھا کرنے کی کوشش کی ، تو نہیں ہوا۔ اس نے تعجب سے چلا کر کہا۔ اے اماں تو مر گئی۔ اس نے گالیاں دیتے ہوئے تمام بہن بھائیوں کو اندر بلایا۔ عظمیٰ رو رہی تھی۔ رمشہ نے چلاتے ہوئے زبیر کو گالی دیتے ہوئے کہا۔ تو گھر تھا۔ تجھے پتہ نہیں چلا اماں کب مری ۔ اس نے غصے سے گالی دیتے ہوئے کہا، مجھے بتا کر تھوڑی مری ہے۔ مجھے کیوں کہہ رہی ہے۔ اتنا تھا تو رُک جاتی ، نہ جاتی۔ رمشہ نے غصے سے کہا۔ گھی کے پراٹھے تیرے کو ٹھونستی تھی ، مجھے تو مکے ہی مارتی رہی۔ بچے رو تو سب ہی رہے تھے مگر ہر ایک کا غم اپنا اپنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو بکر گھر آ چکا تھا۔ عارفہ اس کے لیے کھانا بنانے کے لیے کھڑی تھی کہ عاتکہ بھاگتی ہوئی آئی۔ مما مجھے ارین کے گھر جانا ہے چلی جاوں ۔ عارفہ نے اسے کھانا کھا کر جانے کی اجاذت دے دی۔ ابو بکر اور وہ ٹیبل پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے ۔ عاتکہ جلدی جلدی کھانا کھا رہی تھی۔ ابو بکر نے ہنس کر کہا ۔ دھیرے کھاو۔نوالہ پھنس جاتا ہے۔ اتنی جلدی کیا ہے۔ ابوبکر کو عارفہ نے بتایا، اسے ارین کے گھر جانا ہے۔ ابو بکر نے فوراً پوچھا ارین کا گھر کہاں ہے۔ عاتکہ نے کہا بھائی اتنا دور نہیں ہے ۔ بس رکشہ والے کو پچاس روپے دوں گی۔ بھائی وہ کل ٹیسٹ ہے اور میرے پاس وہ نوٹس نہیں ہیں جو ٹیچر نے کل سب کو دیے تھے ۔ میرے نوٹس کالج میں رہ گئے ۔ میں نے ارین سے کہا تھا۔ اس نے میرے لیے فوٹو کاپی کروائی ہے۔ ابو بکر نے عاتکہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ تم اس کے گھر کتنی دیر رہو گی۔ عاتکہ نے جواب دیا ۔ بس نوٹس لے کر واپس ا ٓ جاوں گی۔ تیاری بھی تو کرنی ہے نا۔ اگر اس نے ذیادہ اصرار کیا تو پانچ منٹ رُک جاوں گی۔
عاتکہ کھانا کھا کر اُٹھی تو ابو بکر بھی اُٹھ کھڑا ہوا۔ عارفہ نے ابو بکر سے کہا۔ بیٹا تم نے تو بہت تھوڑا کھایا ہے۔ ابو بکر نے مسکرا کر کہا۔ مما میر ا پیٹ بھر گیا۔ وہ عاتکہ کے پیچھے پیچھے باہر جانے لگا تو عارفہ نے کہا۔ ابو بکر آپ کہاں جا رہے ہیں ۔ ابو بکر نے عارفہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ مما عاتکہ کو ارین کے کے ہاں لے جاتا ہوں ۔عارفہ نے ابو بکر کے پاس آئی ۔ وہ ابھی کام سے تھکا ہوا آیا تھا۔ اس نے عارفہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ میرے ہوتے ہوئے عاتکہ اکیلی کیوں جائے ۔ میں خود لے کر جاتا ہوں اور لے کر آ جاوں گا۔ اس نے جاتے ہوئے کہا۔ آپ اس طرح اکیلے نہ بھیجا کریں ، خود جایا کریں ساتھ۔وہ کہتا ہوا عاتکہ کے ساتھ چلا گیا۔ عارفہ کو خوشی محسوس ہو رہی تھی۔ ابو بکر بہت ذمہ دار اور حساس نوجوان تھا۔ اسے اپنے گھراور گھر والوں سے بے حد محبت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپاس نے اپنے ڈیٹکٹو سے بات کی تو اسے پتہ چلا کہ آفاق دُبئی میں نہیں ہے۔ وہ اٹلی میں ہے ۔ سپاس نے اسے تاکید کی کہ اسے جہاں جانا پڑے جائے ،وہ ہر حال میں اپنے بھائی سے اپنی ماں کو ملانا چاہتا ہے۔ اس کے لیے خواہ کتنے پیسے خرچ ہوں اسے کوئی پرواہ نہیں ۔ ڈیٹکٹونے اسے یقین دلایا کہ وہ آفاق اور ارحم کو اٹلی سے ڈھونڈ نکالے گا۔
سپاس اپنی کامیابیوں کا تذکرہ کر رہا تھا۔ اس نے اپنی ماں کو بتایا کہ اس نے آپریشن کے لیے انگلینڈ کے ایک ڈاکٹر سے سارے معاملات طے کر لیے ہیں ۔ نصرت خوشی اور فخر سے سپاس کی باتیں سنی ۔ سپاس نے اپنی ماں کے گلے لگتے ہوئے کہا۔ مجھے کچھ دنوں میں انگلینڈ جانا ہو گا۔ امی آپریشن کے لیے۔نصرت نے مسکراتے ہوئے اس کے سر کو چوما۔ضرور جاو۔ ہر جگہ کامیاب رہو۔ ہمیشہ خوش رہو۔ سپاس۔ وہاں ذیادہ دن نہیں رہنا ۔ مجھے بھی آپ کو ایک خاص بات بتانی ہے۔ سپاس نے حیرت سے کہا۔ کیا۔ نصرت نے مسکراتے ہوئے کہاجب واپس آو گئے تو بتاوں گی۔ سپاس انگلینڈ میں تھا۔ نصرت اس کے لیے دعائیں مانگ رہی تھی ۔ اس کا گلا اس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ نصرت کی تکلیف بڑھتی جا رہی تھی۔ سپاس نے اس کے اکاونٹ میں کافی پیسے جمع کروائے تھے۔ نصرت ڈاکٹر کے پاس گئی تو اس نے اسے ہوسپٹل میں ایڈمنٹ ہونے کا مشورہ دیا۔ جسے نصرت نے پہلے کی طرح رد کرتے ہوئے کہا۔ ابھی نہیں ۔
سپاس جب واپس آیا تو وہ بہت خوش تھا۔ اس کی خوشی کی وجہ فقط آپریشن نہیں تھابلکہ آفاق سے متعلق مل جانے والی معلومات تھیں ۔ وہ اب اٹلی کے شہرٹسکنی میں تھے۔ آفاق نے کام کے سلسلے میں اٹلی کا سفر کیا تو وہاں اسے انگلش لینگوئج ٹیچر کے طور پر اچھی جاب مل گئی ۔ اس نے جان لیا تھا کہ بزنس اس کے بس کا کام نہیں ہے ۔ وہ دوبارہ سے تعلیم کے شعبہ سے منسلک ہو گیا۔ارحم سے متعلق مگر اسے کوئی معلومات نہیں ملی تھی۔ اس کے ہائر کردہ آدمی نے آفاق کے متعلق اسے سب کچھ بتا دیا تھا۔ سپاس نے آفاق کے فون نمبر کو غور سے دیکھا۔آفاق کی تصاویر اس کے ہاتھ میں تھیں ۔ وہ چاہتا تھا کہ یہ خوشخبری وہ اپنی ماں کو خود جا تے ہی سنائے گامگر نصرت اسے لینے ایرپورٹ نہیں آئی تھی۔
وہ حیران تھا کہ اس کی ماں اسے لینے نہیں آئی۔ وہ جب گھر پہنچا تو گھر پر تالا لگا تھا۔ اس نے اپنی ماں کے فون پر کال کی تو فون اس کی خالہ سعدیہ نے اُٹھایا ۔ سپاس نے حیرت سے کہا۔ امی کہاں ہیں ۔ سعدیہ نے روتے ہوئے کہا۔ سپاس ، نصرت ہوسپٹل میں ہے۔ سپاس جب ہوسپٹل پہنچا تووہ سپاس سے بات کرنا چاہ رہی تھی مگر تکلیف کے باعث بات نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے گلے کا آپریشن کر دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر نے سپاس کو بتایا کہ رسولی پھٹ چکی تھی ۔ ان کے پاس وقت بہت کم ہے۔دوسال پہلے میں نے انہیں بتا دیا تھا کہ اگر زندگی چاہیے تو فوراً آپریشن کروا لیں ۔ ممکن ہے کہ آپ بول نہ سکیں مگر زندہ تو رہیں گی۔ انہوں نے جواب دیا تھاکہ میرا بیٹا ابھی اپنے مقاصد کو پانے کے بلکل قریب پہنچا ہے ایسے میں میں اس پر اپنا بوجھ ڈال دو ں تو ممکن ہے کہ وہ میری وجہ سے وہ نہ پا سکے جو اس نے طے کیا ہے۔ اگر وہ ہار گیا تو میری زندگی کا مقصد مر جائے گا۔ مقصد نہ ہو تو زندگی جینے کا فائدہ ۔
سپاس نے روتے ہوئے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑا تھا۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔ آپریشن کیوں نہیں کروایا۔ مجھے کچھ نہیں چاہیے امی ، کچھ بھی نہیں چاہیے۔ آپ مجھے چھوڑ کر نہ جانا۔ نصرت نے بند ہوتی ہوئی انکھوں کو کھولنے کی نا کام کوشش کی۔سپاس اپنی ماں کے ہاتھ چوم رہا تھا۔ نصرت نے اس کے سرپر ہاتھ پھیرنے کی کوشش کی۔
سپاس نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا اور فوراً سے باہر آتے ہوئے فون ملایا۔ آفاق کا نمبر جو ڈیٹکٹو نے دیا تھا اس پر گھنٹی بج رہی تھی۔ آفاق نے فون اُٹھایا تو سپاس نے روتے ہوئے کہا۔ میں سپاس ہوں ۔ آفاق صاحب ۔۔۔نصرت کا بیٹا ۔دوسری طرف سے کوئی آواز سنائی نہ دی۔ سپاس نے روتے ہوئے کہا۔ میری ماں نے ہزاروں بار مجھ سے اپنی دلی خواہش کا ذکر کیا اور وہ ارحم کو دیکھنا ہے۔آج وہ مر رہی ہے، میں اپنی ماں کی آخری خواہش پوری کرنا چاہتا ہوا۔ آپریشن کے بعد میں بھی آپ کی طرح مکمل مرد بن چکا ہوں۔ اگر آپ یہاں آئیں گئے تو آپ کو وہ طعنے نہیں سننا پڑے گئے جو میری ماں نے میری وجہ سے تمام عمر برداشت کئے۔ آفاق صاحب کیا آپ ارحم کو یہاں بھیج سکتے ہیں ۔ ہم آپ ہی کے گھر ہیں ۔ میری ماں اب بھی آپ کی منقوعہ ہیں۔دوسری طرف سے اب بھی کوئی آواز نہیں تھی مگر سپاس کو لگا جیسے کسی نے بڑی مشکل سےتھوک نگلا ہو۔
نصرت جب ہوش میں ہوتی تو اس کے چہرے پر اطمینان اور درد ساتھ ساتھ نظر آتے۔ایک دن گزر رہا تھا۔ سپاس نہیں جانتا تھا کہ آفاق تک اس کی بات پہنچی بھی یا نہیں ۔ اس کے پاس آفاق کی تصاویر تھی ۔ جو اس کے ہائر کردہ آدمی نے دی تھی۔ ارحم کی کوئی تصویر نہ تھی۔ ڈیٹکٹو نے معذت کرتے ہوئے کہا تھا،سر یہ آدمی تو بس ایک عورت کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ اولاد نہیں ہے اس کی۔ آپ نے جس بچے کی تصویر دی ہے دُبئی میں تھا ۔ اس کے ساتھ ۔ پھر مجھے اس کے متعلق معلومات نہیں مل سکیں ۔ اگرچہ میں نے بہت کوشش کی ہے۔
نصرت کا ہاتھ پکڑے سپاس بیٹھا تھا کہ اچانک سے ہاتھ میں اسے ہلکی سی جنبش محسوس ہوئی۔ نصرت نے آنکھ کھولی ۔ سپاس نے روتے ہوئے کہا۔ امی ۔نصرت کے چہرے پر تکلیف کے ساتھ ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔ اسے اچانک سے وہ ہاتھ بے جان محسوس ہوا جو اسے نوالے بنا بنا کر کھلاتا تھا۔ جو اس کے آنسو پونجھتا تھا۔ آج وہ رو رہا تھا مگر وہ ہاتھ بے جان اور ٹھنڈا تھا۔
تین دن پہلے ہی تو اس کی سکائپ ہر نصرت سے بات ہوئی تھی۔ اسے لگاہی نہیں تھا کہ اسے کچھ ہے۔ وہ اسی لیے کچھ ماہ سے گلے کو لپیٹ کر رکھنے لگی تھی۔ اسے اندازہ بھی نہیں ہوا کہ کیوں نصرت بہت کم بولنے لگی تھی۔ اس نے خودکام چھوڑ دیا تھا۔ وہ اپنے کاموں میں اس قدر مصروف رہنے لگا تھا۔ وہ انکھیں بند کئے اپنی امی کی آرام کرسی پر بیٹھا تھا۔ نصرت کو دفن کئے چار دن ہو چکے تھے۔ اسے اچانک سے یاد آیا اس کی امی اکثر ڈائری لکھا کرتی تھیں ۔ وہ فوراً بھاگتا ہوا کمرے میں آیا ۔ وہ آگے پیچھے یوں دیکھ رہا تھا جیسے ابھی اس کی امی اسے نظر آئیں گی اور وہ بات کرئے گا۔
جب بھی وہ اپنی جنس کو لے کر غصہ کرتا وہ اسے سینے سے لگا کر کہتی ۔ ماں کے لیے اور رب کے لیے جنس اہم نہیں ہے میری جان۔ اللہ تمہیں سب کچھ اُتنا ہی دیتا ہے جتنا کسی بھی دوسرے بچے کو دیتا ہے۔ سپاس کو اپنی آواز سنائی دی ۔تو پھر اس نے مجھے مکمل کیوں نہیں بنایا۔ مجھے لڑکی بنا دیتا یا لڑکا۔ لڑکے میرا مذاق اُڑتے ہیں کہ میں لڑکی ہوں ۔ لڑکیاں مذاق اُڑاتی ہیں کہ میں لڑکا ہوں ۔ امی۔ میں کیا ہوں ۔۔میں کیوں ہوں۔نصرت اسے ذور سے سینے سے بھینچتی اور کہتی تم انسان ہو۔ جو اپنی محنت سے ہر شے پا سکتا ہے۔ جو احساس رکھتا ہے۔محبت کرنے والا دل بھی۔ جہاں تک مکمل کا تعلق ہے تو کوئی بھی مکمل نہیں ۔ہر کوئی ادھورا ہے۔ ایک محدود مدت میں ہمیں اپنی مکمل کوشش کرنی ہےسپاس،یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم بہترین انسان ہیں ۔ میرا بیٹا ثابت کرئے گا نا۔ سپاس روتی ہوئی ماں کو تسلی دیتا کہ وہ ایسا ضرور کرئے گا۔وہ حالات کو بدل دے گا۔ وہ حالات کو ویسا بنا دے گا جیسا وہ چاہتا ہے۔
کچھ دیر میں اسے اپنی ماں کی وہ ڈائری مل گئی جو اس کے لیے غیر مانوس نہیں تھی مگر وہ اس کے اندر کیا تھا۔اس بات سے انجان تھا۔ سپاس کو ارحم اور آفاق سے متعلق نصرت نے سب صاف صاف بتا دیا تھا۔ وہ سچ بولنے اور سچ سننے کی قائل تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ سپاس کو کوئی جھوٹی امید نہیں دیتی تھی۔ سپاس نے جب نصرت کی ڈائری پڑھنی شروع کی تو وہ اپنی ماں کی بے بسی ، اس کے خیالات سے متعلق پڑھ رہا تھا۔
بہت سی باتیں اسے پہلے ہی پتہ تھیں ۔وہ پڑھتا جا رہا تھا۔نصرت نے اپنی زندگی کے تمام تلخ اور اچھے تجربات کو تحریر کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔پھر اچانک اس کی نظر ایک صفحہ پر پڑھی ، جس پر لکھا تھا۔مجھے اچانک پتہ چلا ہے کہ میرے گلے میں رسولیاں ہیں ۔ جن کا جلد آپریشن نہیں ہوا تو وہ پھٹ جائیں گی مگر میرے پاس جو پیسے ہیں وہ سپاس کے لیے ہیں ۔ اس کی پڑھائی رُک گئی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں یہ سوچ بھی نہیں سکتی ۔ میری زندگی کا مقصد اسے کامیاب بنانا ہے۔ مرنا تو ہے ہی ۔ جب مقصد پورا ہو جائے تو مجھے ایک دن بھی ذیادہ نہیں چاہیے۔
کاش میں ارحم کو ایک نظر دیکھ پاتی۔ سپاس نے دائری کا وہ صفحہ بھربھرا ساپایا۔ جیسے نصرت کے آنسو اس میں جذب ہو گئے ہوں ۔ وہ دیر تک اس صفحہ کو چومتا رہا۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا کاش کہ میں ارحم کو لا پاتا۔کس قدر ظالم اور سفاک ہے میرا باپ ، جس نے ارحم تک میرا پیغام نہیں پہنچایا ۔ میری ماں کی آخری خواہش پوری ہو جاتی ، اگر وہ چاہتا۔ اس نے صفحہ پلٹا تو اگلے صفحہ پر جو لکھا تھا وہ دیکھ کراس کی انکھیں حیران رہ گئی۔ اس کی ماں نے اس کے لیے لکھا تھا۔
سپاس
میں جانتی ہوں ،جب تم یہ پڑھ رہے ہو گئے ، میں شاہد تمہارے سامنے نہیں ہوں گی مگر میں جانتی ہوں تم یہ ضرور پڑھو گئے۔ آج ہی مجھے پتہ چلا ہے کہ میرے پاس ایک سال سے بھی کم وقت ہے۔ ایسے میں میرا دل تو یہی چاہتا ہے کہ میں تمہیں اور ارحم کو دیکھتی رہوں ۔ اپنے پاس بٹھا کر دیر تک باتیں کروں ۔ ایسا مگر ممکن نہیں ۔ نہ جانے ارحم کیسا ہو گا۔ اسے دیکھنے کو بہت دل کرتا ہے۔ فقط ایک نظر ، کاش ۔
تم اسے ڈھونڈنا ، ہو سکے تو ۔ میں چاہتی ہوں کہ تم اپنے بھائی سے ملو۔ آفاق سے ملو۔ مجھے تم پر فخر ہے تم میرے بیٹے ہو۔ میرے نزدیک ایک مکمل انسان۔ سپاس میرے نزدیک بھی کسی دور میں جنس بہت بڑا مسلہ رہی ہے ۔ ایک دور تھا جب میں سوچتی تھی کہ میں لڑکا ہوتی ۔میں سمجھتی تھی کہ جو فائدے ایک لڑکا زندگی سے اُٹھا سکتی ہے لڑکی اس سے محروم رہ جاتی ہے۔اس خواہش نے مجھے میرے بھائیوں کے مخالف لا کھڑا کیا۔ پھر ایک دور آیا مجھے احساس ہونے لگا کہ عورت مظلوم نہیں بلکہ شعور سے دور ہے۔دور بدلتے رہے میں بھی بدلتی رہی۔ ماں بننے پر مجھے اندازہ ہوا کہ مشکل کے ساتھ آسانی اور درد کے ساتھ خوشی کا گہرا ناتا ہے۔ مجھے سمجھ آیا کہ ہر وہ انسان مظلوم ہے جو مظلوم ہونا قبول کر لے۔ ہر وہ انسان جابر ہے جو جابر بن جائے ۔ مرد ہو یا عورت ۔۔۔۔جنس کوئی بھی ہو کچھ فرق نہیں پڑتا۔اچھائی کو پایا نہیں جا سکتا ،وہ تو ہر انسان کے اندر ہے۔ اسے تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ہمارا عمل ہی ہماری ذات ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کبھی آفاق سے اور ارحم سے ملاقات ہو گی یا نہیں ۔ اگر میرے بعد کبھی تمہاری ان سے ملاقات ہو تو اپنے بھائی کو گلے سے لگا لینااور اپنے پاپا کو معاف کر دینا۔ میں نے انہیں معاف کر دیا۔ اگر تمہیں ان پر غصہ آئے تو یہ سوچ لینا ،کہ آج تک ہم ان ہی کے گھر میں تھے۔انہوں نے مجھے طلاق نہیں دی اور نہ ہی اس گھر کو بیچنے کے لیے آئے۔ کیا خبر انہیں پتہ ہو کہ ہم یہاں رہتے ہیں۔سپاس معاف کرنے والا انسان اپنی تکلیف کو ختم کر دیتا ہے۔ سپاس نے ڈائری کو بند کر کے رکھ دیا۔
کچھ دیر بعد اس نے اپنے سیکٹریری سے کہا۔ مجھے اٹلی جانا ہے ۔ ٹسکنی میں ۔ آفاق صاحب سے ملنے۔ اس کے لیے ٹکٹ ارینج ہو چکا تھا۔ جب وہ آفاق کے گھر کے باہر کھڑا تھا تو اپنی ماں کی یادوں اور باتوں میں کھو گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے دروازے پر گھنٹی بجائی۔ ایک اٹلی کی کسی عورت سے شادی کی ہے آفاق صاحب نے۔ اس نے دل ہی دل میں کہا۔ اس نے صاف اردو زبان میں کہا ۔ سپاس۔۔۔
وہ حیران تھا۔ اس نے مسکراہٹ بھرے چہرے سے کہا۔ آ ۔ جاو۔
سپاس نے گھر کو دیکھتے ہوئے کہا۔ مجھے آفاق صاحب سے ملنا تھا۔ اس نے موبائل سے فون کیا۔ اردو میں ہی کہا۔ سپاس آگیا۔
اس عورت نے افسردہ لہجے میں کہا۔ مجھے افسوس ہے تمہاری امی کی موت کا۔ آفاق نے بتایامجھے۔ سپاس نے تعجب سے کہا۔ اچھا۔ مگر آنے کی توفیق تو نہیں ہوئی آپ کے آفاق صاحب کو۔
وہ عورت اسے گیسٹ روم میں بٹھا کر خود چلی گئی۔ سپاس اپنے سوالوں کے ساتھ اپنے ذہن میں الجھ رہا تھا کہ کمرے میں آفاق داخل ہوا۔ اس پر بڑھاپے نے نصرت سے بھی ذیادہ اثر ڈالا تھا۔ اس نے سپاس کو دیکھا تو اس کی انکھو ں میں چمک کے ساتھ ساتھ پریشانی بھی آ گئی تھی۔ سپاس نے اسے سنجیدگی سے سر سے پاو ں تک دیکھا۔
آفاق نے سپاس کی طرف بڑھتے ہوئے اسلام علیکم کہا۔ سپاس نے گہری سانس لیتے ہوئے سلام کا جواب دینے کے بعد سوال کیا۔ آپ کو میں نے بتایا تھا کہ میری ماں مر رہی ہےاور ان کی آخری خواہش اپنے بچھڑے ہوئے بیٹے کو دیکھنا ہے ۔ آپ نے کیوں ارحم کو نہیں بھیجا۔ آفاق نے صوفے پر سر کو پیچھے کو ٹیکایا تا کہ سپاس اس کی انکھو ں سے آنسو کا گِرنا نہ دیکھ سکے اور بولا ۔ ارحم ہوتا تو ضرور بھیج دیتا۔
سپاس نے حیرت سے کہا۔ اس بات کا کیا مطلب ہے۔ ارحم ہوتا تو۔ ارحم کہاں ہے۔ آفاق نے افسردگی سے کہا ۔ وہ تو دُبئی میں ہی بیمار ی کے بعد مر گیاتھا۔ سپاس نے اداسی سے کہا۔ آپ نے پیچھے مڑ کر کیوں نہیں دیکھا۔ آفاق کی انکھوں سے آنسو گِر گئے۔ اس نے ناک کو ٹشو سے صاف کرتے ہوئے کہا۔ مجھے پتہ تھا کہ نصرت واپس گھر آ گئی ہے ۔ میں اسے کس منہ سے بتاتا کہ اس کا بیٹا مر گیا ہے۔ میں نصرت کی طرح لوگوں کی باتیں سننا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے اٹلی آ گیا۔سپاس نے اس بے بس روتے ہوئے بوڑھے کو دیکھا ، وہ اس کا باپ تھا ۔جس سے تمام عمر اس نے نفرت کی تھی۔ آفاق نے سپاس کو سوچتے ہوئے پایا ۔ اس نے دھیرے سے کہا۔ مجھے تم پر فخر ہے کہ تم میرے بیٹے ہو۔
سپاس کی انکھوں سے بھی آنسو گِر گئے۔ اس نے روتے ہوئے کہا۔ آپ کا فخر جس نے مجھے بنایا ہے ،اس نے یہ بات اس وقت کہنا شروع کیا ،جب سارے مجھے نامکمل ہونے کے طعنے دیتے تھے۔ آفاق نے اپنی انکھوں کو صاف کیا اور کہا۔ مجھے اب احساس ہو رہا ہے کہ میں غلط تھا۔ نصرت حق پر تھی۔ ہم کسی کو کچھ بھی دے نہیں سکتے ،ہمارا لینے کا بھی حق نہیں بنتا۔ دیکھو سپاس ۔ بہت خواہش کے باوجود میں تمام عمر اولاد کی نعمت سے محروم رہا ہوں ۔
میں راحت سے تمہارے اور نصرت کے بارے میں پوچھتا رہا ۔ یہ سچ ہے کہ مجھ میں نصرت جیسی ہمت نہیں تھی کہ لوگوں کی باتوں اور نظروں کا سامنا کر سکوں ۔ سپاس نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ میں اب چلتا ہوں ۔ آفاق نے کھڑے ہوتے ہوئے، اسے افسردگی سے دیکھا۔
سپاس چلتا ہوا باہر کے دروازے کے قریب پہنچا ۔خاموشی سے باہر نکل گیا۔ آفاق نے ہلکی سی آواز سنی ۔ اللہ حافظ ۔دروازہ کھول کر سپاس باہر نکل گیا۔دروازہ کھلا چھوڑ کر آفاق واپس آ کر صوفہ پر بیٹھ گیا۔
آفاق اس کے جانے کے بعد پھوٹ پھوٹ کے رو رہا تھا۔ اس کی بیوی اسے تسلی دے رہی تھی۔ آفاق نے روتے ہوئے کہا۔ کاش میں لوگوں کی پروا نہ کرتا ۔ کاش ۔۔۔۔کاش میں نصرت کی بات مان لیتا۔ کاش ۔آج وہ سپاس جی ۔۔۔۔۔۔ہے ۔سپاس دروازے پر کھڑا سن رہا تھا۔ اسے نصرت کی باتیں یاد آئیں ۔ جب روتا ہوا سپاس اس کے گلے لگا تھا۔ یہ کہتا ہوا ،امی جو آپ کو رولائے اس کا کیا کرنا چاہیے۔ نصرت نے اسے سینے سے لگا کر کہا تھا۔ معاف کر دینا چاہیے۔ سپاس نے روتے ہوئے غصے سے کہا تھا۔ نہیں اسے بھی رولانا چاہیے ۔ تب ہی تو اسے پتہ چلے گا ہماری تکلیف کا۔
نصرت نے اس کے ماتھے پر چومتے ہوئے پیار سے کہا تھا۔ سپاس ہماری تکلیف کسی کو تکلیف دینے سے کم نہیں ہوتی مگر کسی کے آنسو صاف کرنا ایک اعلیٰ ظرف انسان کی نشانی ہے۔وہ پیچھے مڑا اور چلتا ہوا آفاق کے پاس آیا ۔ اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بولا ۔ پاپا۔
آفاق نے اپنا آنسووں سے دُھلا ہوا چہرہ اوپر اُٹھایا۔ وہ اُٹھ کھڑا ہوا تو سپاس نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا۔ آفاق نے اس کے گلے لگنے کے بعد کہا بیٹا مجھے معاف کر دو۔ سپاس نے مسکرا کر کہا۔ میری ماں نے آپ کو معاف کر دیا تو میں کیوں نہ کروں ۔ میری ماں نے مجھے ہمیشہ سکھایا ہے کہ دماغ جب فساد مچائے تو اس فسادی کو شروع ہی میں روک لو۔دماغ ہر کسی کا فسادی ہی ہوتا ہے۔ اسے درست سمت لے کر جانا ہمارا کام ہے۔
سپاس اپنے نئے گھر میں چلا گیا،اس کی شادی ہو چکی تھی۔ اس نے اپنی بیٹی کا نام سندس سپاس رکھا تھا۔وہ کمرے سے بھاگتی ہوئی آئی ،اس کے ہاتھ میں ڈائری تھی۔ عاتکہ اسے روکنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ سپاس گارڈن میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ سندس بھاگتی ہوئی سپاس سے لپٹ گئی اس نے اپنی توتلی زبان میں کہا۔ پاپا، پاپا ۔ مما مجھے ڈائری نہیں لینے دے رہیں۔ عاتکہ نے سپاس کی طرف دیکھا۔ سپاس نے ڈائری کی طرف دیکھا۔ جس میں سے ارحم کی تصویر نہیں گِر گئی۔ سپاس نے تصویر اُٹھا کر ڈائری کے ساتھ ہی سند س کو اُٹھا کر گود میں بیٹھا لیا۔ اس نے پیار سے سندس کو چوما اور دھیرے سے بولا ۔ آپ کو پتہ ہے یہ ڈائری کس کی ہے۔ سندس فوراً کہا میری ہے۔ سپاس نے مسکرا کر کہا ،یہ آپ کی دادی کی ہے ،میری امی کی۔ سندس نے سپاس کی طرف دیکھ کر کہا۔ وہ کہاں ہیں ؟سپاس نے کچھ دیر خاموشی سے سندس کی طرف دیکھااور بولا ۔یہاں ہی ہیں۔ ہر وقت میرے پاس ۔ سندس نے آگے پیچھے دیکھتے ہوئے کہا۔ کہاں ۔ سپاس کی انکھوں میں آنسو تھے۔ وہ خاموش تھا۔ سندس نے سپاس کی انکھو ں میں سے گرتے ہوئے آنسو اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے صاف کیے اور بولی ۔ آپ روئیں نہیں ۔یہ آپ لے لیں ۔ سپاس خاموش تھا ۔ ڈائری اس کے ہاتھ میں تھی ۔ آنسو بے اختیار اس کی انکھو ں سے چھلک گئے۔

 

kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 263724 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More