“ مجھے کوئی بات نہیں کرنی تم سے “ ولید نے دوسری طرف سے
کال اٹینڈ کرتے ہی کہا، جو وہ جانے کتنے مہینوں سے زرا زرا سی بات پر اسے
یوں ہی کہ دیا کرتا تھا۔ اس بار بھی اسکے ایسا کہے جانے پر اسکا دل ہر بار
کی طرح ڈوبا اور آنکھوں میں نمی ٹھر گئی۔
“ لیکن مجھے کرنی ہے۔ “ اس نے ڈھیٹ بنتے ہوئے خود کو نارمل کرتے ہوئے کہا،
وہ ایسے ہی اسے بار بار رد کرتا تھا نفی کرتا تھا۔ پر وہ آگے سے ڈھیٹ بن
جاتی تھی۔
“ بولو ،،،، کیا بات کرنی ہے ؟ اور ختم کرو یہ بات مجھ سے روز روز ایسے بات
نہیں ہوتی۔ “ اسنے غصے سے کہا۔ اسکا یہ انداز سن کر تو ایک لمحے کے لئے اسے
بھول ہی گیا کہ وہ کیا کہنا چاہتی تھی۔ جو کہا کرتا تھا مجھ سے کبھی بات
کرنی نا چھوڑنا اور جانے کیا کچھ کہا کرتا تھا سب کچھ اسکے ذہن میں گھوم
گیا۔ آنسو تھے کہ بہنے کو بے کرار ہو رہے تھے۔
“ بولو “ دوسری طرف سے پھر غصے سے کہا گیا۔
“ آپ ،، پلیز مجھ سے بات کر لیا کرے ، میں پیار کرتی ہوں آپ سے۔ “ اس سے
بمشکل بس اتنا کہا گیا۔
“ میں آپ سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا اوکے اللہ حافظ۔ “ اتنا کہ کر اسنے
کھٹ سے فون رکھ دیا۔
“ سنے پلیز “ وہ ابھی یہ کہ ہی نہیں پائی تھی۔ پھر وہ کھالی فون ہاتھ میں
پکرے کافی دیر سکرین کو دیکھتی رہی، ٹپ ٹپ کرتے آنسو اسکی آنکھوں سے گرنے
لگے اور نا جانے کب تک وہ روتی رہی، دوبارا اس میں اب فون کرنے کی سکت باقی
نہ رہی۔
ولید شیزا کی دوست کا بھائی تھا۔ دونوں کی ملاقات کئی مرتبہ ہوئی تھی، لیکن
محبت نام کی کوئی چیز تب انکے دل میں نہیں تھی۔ دونوں آتے جاتے اکثر ایک
سرسری نگاہ ایک دوسرے پر ڈال لیا کرتے تھے مگر اس نگاہ میں اپنائیت نہیں
تھی بس شناسائی ہوا کرتی تھی۔ ولید ماہم کو روز کالج لینے اور چھوڑنے جایا
کرتا تھا تب کبھی کبھار ایک دوسرے کو دیکھ لیا کرتے تھے۔ ایک دن ماہم کو
کچھ نوٹس چاہیے تھے، اسنے اپنے بھائی کے موبائل سے شیزا کو بیلنس نا ہونے
کی وجہ سے کال کی تو شیزا کے پاس اسکے بھائی کا نمبر اور ولید کے پاس اسکا
نمبر آگیا دونوں کبھی کبھار ایک دوسرے کو کوئی شعر وغیرہ بھیج دیا کرتے تھے
اسی طرح دونوں کبھی کبھار ہلکی پھلکی بات بھی کر لیا کرتے تھے۔
ہلکی پھلکی باتیں کرتے کرتے دونوں گھنٹوں باتیں کرنے لگ گئے آہستہ آہستہ
دونوں کو ایک دوسرے کی عادت ہونے لگی ، پھر پسندیدگی بھری ، پھر
محبت،،،،،پیار بھری باتیں ہونے لگی کچھ وعدے قسمیں کیا کچھ نہیں تھا۔ لگتا
تھا یہی زندگی ہے ،،، یہی سب کچھ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو ایمپریس کرنے کے
لئے جتنا اچھے بن سکتے تھے اتنا بن گئے ، وہ جو کہتی تھی ولید رد نہیں کرتا
تھا اسے لگتا تھا محبت بہت خوبصورت احساس ہے انسان محبت کر کے کبھی تنہا
نہیں رہتا کیونکہ اسکی محبت خیالوں میں ہر وقت اس سے باتیں کرتی ہیں ۔ تب
انسان کے پاؤں زمیں پر نہیں ٹکتے وہ کسی اور ہی دنیا میں گھوم رہا ہوتاہے۔
سب کے بیچ بیٹھ کر بھی وہ اسی کے خیالوں میں گم رہنے لگتا ہے تب اسکا دل
کرتا ہے اسے کوئی تنگ نا کرے کوئی اسکے محبوب کے خیال میں خلل نہ ڈالے ۔ تب
اسے تنہائی سے بھی محبت ہونے لگتی ہے۔ تب اسے تنہائی کاٹ کھانے کو نہیں
دوڑتی کیونکہ تب وہ اپنے محبوب کی کہی گئی باتیں یاد کرتا ہے۔ جس سے دل کو
ایسی خوشی ہوتی ہے جو پہلے کبھی نہٰیں ہوئی۔
وہ دونوں بس وہ دیکھ رہے تھے جو وہ دیکھنا چاہتے تھے یوں ہی وقت گزرتا گیا
، دوستی پیار میں بدل گئی اور دونوں ہر وقت رابطہ میں رہنے لگے ، اپنی ہر
بات ایک دوسرے سے شئر کرنے لگ گئے۔ دیکھتے دیکھتے سال گزرتے گئے کالج لائف
ختم ہوگئی۔ ولید کی نوکری لگ گئی جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی میں مصروف ہو
گیا۔ وہ شیزا کو کم ٹائم دینے لگ گیا۔ اسکا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ پیار
نہیں کرتا تھا۔ پیار وہ اس سے اتنا ہی کرتا تھا ، پر ١٢ گھنٹے کی تھکا دینے
والی نوکری کے بعد وہ گھر آکر بس سو جایا کرتا تھا۔ شیزا کو لگتا کہ وہ اسے
اگنور کرنے لگا ہے۔ وہ جب بھی بات ہوتی گلہ کرنے لگ گئی وہ بس وضاحتیں دیتا
رہتا۔ اس طرح آئے دن کے جھگڑے زیادہ بڑھنے لگے دونوں میں دوریاں آگئی۔
“ آپ نے بات کرنی کہ نہیں ؟ کب سے میسج کر رہی ہوں بس سین کر رہے ہیں آپ ۔
“ شیزا نے بغیر سلام دعا کہ کال اٹھاتے ہی غصے سے کہا۔
“ یار ابھی گھر آیا ہوں۔ بیٹھا بھی نہیں ہوں کہ آپ کی کال پہلی بیل پر ہی
اٹھا لی۔ چھوڑو سب بتاو کیسی ہو ؟ “ اسنے خود کو ہشاش بشاش کرتے ہوئے
پوچھا۔
“ پتہ نہیں کیسی ہوں اپکا آفس آف ہوئے آدھا گھنٹہ ہوگیا آپ اب گھر آئے اچھا
جھوٹ ہے۔ “ اسنے پھر غصے سے کہا۔
“ یار کیا ہو گیا ہے گھر آتے آتے ٹائم لگ جاتا ہے، آپکو پتہ تو ہے سب۔ “
اسنے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
“ کچھ نہیں ہوا اللہ حافظ “ دوسری طرف سے کھٹ سے فون بند کر دیا گیا۔
وہ بار بار کال کرتا رہا جواب میں بس ایک ٹیکسٹ میسج آیا “ اگنور کرے آپ
مجھے کوئی بات نہیں کرنی “ ولید نے میسج پڑھتے ہی موبائل اٹھا کر بیڈ پر
پٹخا اور خود فریش ہونے چلا گیا۔
پھر ہر روز کسی نہ کسی بات پر جھگڑا ہونا روز کا معمول بن گیا۔ دونوں ایک
دوسرے کو سمجھ نہیں پا رہے تھے جس کی بنا پر غلط فہمیاں بڑھتی چلی گئی۔
اینڈ دونوں اب ان روز کے جھگڑوں سے تنگ آچکے تھے۔
“ یار وہ بھائی نے سب کی ناک میں دم کیا ہوا ۔ “ ولید کی بہن نے کہا۔
“ وہ کیوں “ ہاتھ میں کولڈ ڈرنک کا گلاس پکرے وہ پوری اس کی طرف گھوم گئی۔
شیزا کبھی کبھار اس سے ملنے اس کے گھر چلی جایا کرتی تھی۔ آج بھی وہ اسے
ملنے ہی آئی ہوئی تھی۔
“ کوئی لڑکی ہے کہتے ہیں اسی سے شادی کروگا۔ اس کے گھر رشتہ لے کر جائے۔
مگر ماما کہتی ہیں کہ تمھاری پسند کی لڑکی سے نہیں کرنا۔ آئے دن گھر جھگڑا
کرتے ہیں بھائی۔ “ شیزا کے دل کی دھڑکن ایک دم تیز ہوگئی۔
“ کک کون ہے وہ لڑکی ؟ “ اسنے ڈرتے ہوئے پوچھا۔
“ ارے پتہ نہیں بھائی کے کسی دوست کی بہن ہے۔ “ اسنے لاپروائی سے کہا۔
“ دوست کی بہن ؟ “ شیزا نے دوبارہ سے تصدیق چاہی اسے لگا وہ اسکا نام لے
گی۔ مگر یہ کون تھی ؟ اسنے دل میں سوچا۔
“ ہاں انکا کوئی بچپن کا دوست ہے انکے گھر بھی جاتے ہیں اسکی کوئی بہن ہے ،
ردا نام ہے اسکا۔“ اسنے لاپرواہی سے کہا۔
“ ردا “ اسنے زیر لب دھرایا۔ “ کیا بہت پیاری ہے وہ ؟ “ اسنے کھوئے ہوئے
انداز میں کہا۔
“ ہاں بہت پیاری ہے ، میں ایک بار اسے دیکھا ہے۔ “ اسنے مسکراتے ہوئے کہا۔
شیزا کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی وہ ایک دم سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
“ مجھے اب چلنا چائیے ٹائم کافی ہوگیا۔ “ وہ بس اتنا کہہ پائی اور تیز تیز
قدم اٹھاتی وہاں سے چلی گئی۔ وہ حیرانی سے اسے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔
وہ گھر جانے کے بجائے پاس ہی بنے پارک میں جا کر بیٹھ گئی۔ اسے یقین نہیں
آرہا تھا جو اج تک اسے مل رہا تھا وہ سب دھوکا تھا۔ ٹپ ٹپ کرتے آنسو اسکی
گود میں رکھی ہتھیلیوں پر گرتے رہے۔ رشتہ انکا پہلے ہی بہت سی غلط فہمیوں
کی نظر ہو چکا تھا یہ آخری ضرب تھی جو اسکے دل پر لگی تھی جس سے سب چکنا
چور ہو چکا تھا۔ اسکے خواب ، احساسات ، جزبات اور محبت،،،،،
اسنے پرس سے اپنا موبائل نکالا اور اسے ٹیکسٹ میسج کرنے لگ گئی۔
“ یہ جو آپ گھر جس کے لئے جھگڑا کر رہے ہیں نا اب اسی کے ہو کر رہنا۔ میں
نفرت کرتی ہوں ،،، کبھی میرے سامنے نا آنا آپ ۔ اب سونے کے بھی بن کر آؤگے
تو مجھے قبول نہیں ہوگے۔ “ وہ یہ میسج کر کے موبائل اپنے بیگ میں ڈال کر
آنکھوں سے آنسو صاف کرتی ہوئی گھر کی طرف چلی گئی۔
اسنے گھر جا کر موبائل دیکھا تو اسکا صرف ایک میسج آیا تھا “ صفائی نہیں
دوگا اب مجھ سے بات نہیں کرنا مہربانی۔ “ اسنے یہ میسج پڑھا تو ایک بار پھر
آنسو اسکی آنکھوں سے گرنے لگے۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا جس محبت پر اسے
اتنا مان تھا وہ اس طرح سے ٹوٹے گا۔اور جب وہ انسان آپ کا مان توڑے جسے آپ
نے سب سے زیادہ چاہا ہوتا تب جو تکلیف ہوتی کانٹو پر گھیسٹے جانے پر بھی
اتنی نہ ہوتی ہوگی۔ اسنے کچھ دن خاموشی سے گزار لئے مگر ایک لمحہ بھی اسےکے
دل کو سکون نہیں تھا ۔ ہر لمحہ ازیت بنتا جا رہا تھاآنسو تھے کہ ہر وقت
آنکھوں میں رہنے لگے تھے۔ پھر وہ اسے کال کرنے لگ گئی وہ ہر بار کٹ کر دیتا
بار بار کرنے پر اگر اٹھا بھی لیتا تو بات سنے بغیر کٹ کر دیتا تھا۔
“پلیز میری بات سن لیں آپ ایک بار پلیز “ ہر روز کی طرح آج بھی شیزا نے اسے
میسج کیا۔ دوسری طرف بس سین کیا گیا۔ وہ ابھی میسج کر رہی تھی، اور اسکی
آنکھوں سے تیزی سے آنسو گر رہے تھے، وہ درد کی انتہا پر تھی تب اچانک سے
اسکی بچپن کی دوست حنا آگئی جس نے اسے روتا ہوا دیکھ لیا۔
“ کیا ہوا ہے یار اس طرح کیوں رو رہی ہو ؟ “ حنا اسے اس طرح دیکھ کر ایک دم
سے گھبرا گئی۔
“ کچھ نہیں “ اسنے ہتھیلیوں سے آنسو رگرتے ہوئے مسکرا کر اسکی طرف دیکھا۔
حنا کو اسکی سرخ آنکھیں دیکھ کر برا دکھ ہوا اور وہ اسرار کرتی رہی جس پر
نا چاہتے ہوئے بھی اسے سب بتانا پرا۔
“ کیا وہ اکیلا لڑکا ہے دنیا میں ؟ تم اس انسان کے لئے آنسو بہا رہی ہو جو
کسی اور کے لئے گھر جھگڑا کرتا ہے۔ تمہاری اہمیت اسکی زندگی میں اتنی ہے
جتنی وہ اب تمہیں بتا رہا ہے۔ دیکھو شیزا تم ایک پڑھی لکھی سلجھی ہوئی لڑکی
ہو اس انسان کے لئے خود کو ضائع نا کرو جس کو تمہاری پروا تک نہیں۔ ارے
تمھارے جیسی اور نا جانے کتنی ہوگی اسکی زندگی میں یہ ایک تلخ حقیقت ہے
جتنی جلدی سمجھ جاؤ بہتر ہے۔ “ اسنے اسے پیار سے سمجھایا۔
“ اسکو میں نظر نہیں آتی ، اسکو میری تڑپ نظر نہیں آتی حنا میرا دل جل گیا
ہے میں ختم ہو چکی ہوں۔ ہر روز ،،،، ہر روز اسکو میسج کرتی ہوں وہ روز میری
نفی کرتا ہے بار بار میری محبت ٹھکراتا ہے۔ میں پھر اٹھتی ہوں پھر گرتی
ہوں۔ میری عزت نفس دو کوڑی کی رہ گئی حنا ،،،، “ اتنا کہ کر وہ رونے لگی
حنا نے اسے رونے دیا ، کچھ دیر رو دینے کے بعد وہ پھر گویا ہوئی۔ عشق انسان
کو مار دیتا ہے، جلا دیتا ہے ، ختم کر دیتا ہے ،،، کچھ نہیں بچتا کچھ بھی
نہیں اندر کی دنیا ویران ہو جاتی ہے ایسی اداسی ،،، جو کبھی نہیں دیکھی ،،،
میں ختم ہو گئی حنا،،،، “ وہ بمشکل بول رہی تھی۔
حنا نے اگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا وہ واقعی قابل رحم لگ رہی تھی۔ حنا
کو اس پر بے اختیار ترس آیا۔
“ میرا دل نہیں مانتا ،،،، مجھے آج بھی اس پر پورا یقین ہے۔ مجھے پتا نہیں
کیوں ایسا لگتا ہے اسنے بھی مجھ سے محبت کی تھی وہ بس ناراض ہے مجھ سے،
میرا دل نہیں مانتا میں کیا کرو ؟ “ اسنے اسے پتا نہیں کیا یقین دلانے کے
لئے یہ سب کہا۔ حنا نے کچھ نہیں کہا وہ خاموش رہی اسے پتا تھا وہ کچھ بھی
کہ لے اس پر کوئی اثر نہیں ہونے والاتھا۔ کچھ دیر وہ اس کے پاس بیٹھی رہی
پھر اپنے گھر چلی گئی۔ (جاری ہے )
|