ہر ملک کی خارجہ پالیسی ہوتی ہے اور ہر ملک دوسرے ملک کے
ساتھ تعلق بناتے وقت اپنے ملکی مفاد میں خارجہ پالیسی بناتا ہے۔لیکن سب سے
پہلے دیکھتے ہیں خارجہ پالیسی کو عام الفاظ میں بیان کیسے کیا جا سکتا ہے ؟
خارجہ پالیسی شاید ایک واحد طریقہ کار ہے جسکو اپناتے ہوئے کوئی ملک اپنے
ملک کے عوام کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی دوسرے ملک کے ساتھ کوئی ڈیل
کرتا ہے یہ ڈیل کئی قسم کی ہو سکتی ہیں جیساکہ سیکیورٹی کے حوالہ سے تجارت
کے حوالہ سے کلچر اور ٹیکنالوجی کے حوالہ سے وغیرہ وغیرہ۔۔
اب دیکھتے ہیں پاکستان کی خارجہ پالیسی مسٹر محمد علی جنّاح کے نزدیک کیا
تھی یا انہوں نے اسکے لیے کیا اصول وضع کیے تھے؟ جناح صاحب کا کہنا تھا کہ
پاکستان کی خارجہ پالیسی بہت ہی دوستانہ اور نیک نیتی والی ہوگی دنیا کی
تمام تر اقوام کے لیے،اور ہم کبھی بھی اپنی پالیسی کسی ملک یا قوم کے خلاف
ترتیب نہیں دیں گے ہم ایمانداری اور صاف اصولوں پر مبنی پالیسی پر یقین
رکھتے ہیں اور ہم ایسی پالیسی تیار کریں گے جس میں امن اور خوشحالی کو دنیا
کی تمام اقوام کے لیے یقینی بنایا جا سکے اور پاکستان کبھی بھی ایسے لوگوں
کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرے گاجو دنیا میں وحشت پھیلائیں اور
پاکستان اقوام متحدہ کے بنائے گئے اصولوں پر عمل پیرا ہوگا۔۔!
اب اگر جناح صاحب کی باتوں پر غور کیا جائے اور یہ تعین کیا جائے کہ کیا یہ
پالیسی پاکستان اپنے آج کے اس دور میں اپنائے ہوئے ہے؟تو یقینا جواب آپکو
تعین کرنے کے بعد ہی پتا لگ سکتا ہے،لیکن ایک بات یہاں پر قابل غور یہ ہے
کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی بناتا کون ہے؟تو سب سے پہلے جو نام ذہن میں آئے
گا وہ منسٹری آف فارن افیئرز ہی ہے اور فارن آفس میں ہی پاکستان کی خارجہ
پالیسی بنائی جاتی ہے اور پھر اسکو صدارتی اجلاس ،پارلیمنٹری اجلاس،فوجی
اجلاس اور پولیٹیکل پارٹیز اپنے اپنے اجلاس میں ڈسکس کرتی ہیں،مگر سوال یہ
ہے کہ بین اقوامی تعلقات بناتے وقت پاکستان کن کن اصولوں پر قائم رہتا
ہے؟اب چونکہ پاکستان کی بنیاد اسلام کے نام پر رکھی گئی اب ہم اس بات کو
مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بین اقوامی تعلقات بنائیں گے کہ اسلام کی آئیڈیالوجی
کو کسی طرح کا نقصان نہ پہنچے اور دنیا بھر میں امن کی فضاء بھی قائم ودائم
رہے اب پاکستان کے اصولوں میں یہ اصول تو شامل ہے کہ پاکستان اسلامی ممالک
کے ساتھ سب سے زیادہ دوستانہ تعلقات رکھے گا مگر ہم اگر آج کے دور کی بات
کریں تو آج کے دور میں ہر ملک چاہے وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی وہ ہمیشہ
اپنے ملک کے مفاد کو دیکھتا ہے مثال کے طور پر اگر عرب عمارات کی بات کی
جائے تواسکے اتنے گہرے تعلقات انڈیا کے ساتھ ہیں کہ پاکستانی شاید تصور بھی
نہیں کر سکتے جس میں ایک یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ میں جب بھی انڈیا کسی
ملک کے خلاف ووٹ کرے گا تو عرب عمارات انڈیا کے ساتھ اسی ملک کے خلاف یا حق
میں ووٹ کرے گا سعودیہ کو دیکھا جائے تو وہ بھی امریکہ کے ساتھ بھائی بھائی
بن کر انٹرنیشنل لیول پر چل رہا ہے۔
میں اگر اسکو اپنی نظر سے دیکھوں تو مجھے ذرا بھی گراں نہیں گزرتا کیونکہ
میں جانتا ہوں دنیا میں ہر ملک اپنے عوام کے مفاد میں کسی دوسرے ملک کے
ساتھ تعلق بناتا ہے،مذہب کا صرف نام ہی استعمال ہوتا ہے جیساکہ فلسطین اور
روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ کون کون سا ظلم نہیں ہوا؟ مگر پاکستان اس پر نہیں
بولا جسکی وجہ ہمارے مفاد میں نہیں تھا اب اگر ہم بولتے تو شاید ہمیں عملی
مظاہرہ کرنا پڑتا اور اپنے ملک کے افواج کو جہاد کے لیے وہاں بھیجنا
پڑتامگر ہم ابھی اس درجہ پر نہیں پہنچے کہ اتنے پیسے افورڈ کر سکیں اس لیے
ہمارے مفاد کے خلاف عمل ہوتا اگر ہم فلسطین یا روہنگیا مسلمانوں کی مدد
کرتے ہاں مگر اقوام متحدہ میں انسانی حقوق میں آواز ضرور اٹھا سکتے تھے
لیکن جو ممالک مسلمانوں پر ظلم کر رہے تھے وہ ہم سے کئی گنا زیادہ طاقت
رکھتے تھے جیسا کہ روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کرنے والے چائینیز بدھ مت تھے
جن سے ہمارا بہت اچھا تعلق ہے ہم اسی وجہ سے نہیں بول سکے کیونکہ چائینہ کے
خلاف جانا ہمارے ملک کے مفاد میں بالکل بھی نہیں ہے آپ جانتے ہیں چائینہ کی
مدد سے ہی سی پیک کا پروجیکٹ پروان چڑرہا ہے ۔
اسی طرح دوسری طرف اسرائیل کے خلاف بھی جانا پاگل پن ہے کیونکہ امریکہ کے
ساتھ اسرائیل بہت ہی زبردست قسم کے تعلقات جاری ہیں اور امریکہ سے ہم امداد
سمیت قرض بھی لیتے ہیں اس لیے ہمارے مفاد میں نہیں تھا پس سمجھانا اس بات
سے یہی مقصود تھا کہ انٹر نیشنل لیول پر جب خارجہ پالیسی تیار کی جاتی ہے
تو سب سے پہلے اپنے ملک میں رہنے والے عوام کے مفاد کو بروئے کا ر رکھا
جاتا ہے ناکہ مذہب کو ۔۔۔!اور جناح صاحب نے بھی یہی بات کی تھی کہ دنیا میں
امن اور خوشحالی کو یقینی بنایا جائے اور پاکستان ایسے لوگوں کو اپنے مقاصد
کے لیے استعمال نہیں کرے گا جو دنیا میں وحشت پھیلائیں لیکن اب کیاکیا جائے
؟ چائینہ نے روہنگیا مسلمانوں کے دلوں میں اپنی وحشت پھیلائی مگر ہم نہی
بولے کیونکہ ہمیں ابھی اپنے مفاد کے لیے چائینہ کو استعمال کرنا تھااور
اسرائیل کو اقوام متحدہ میں اس لیے کچھ نہیں کہ پائے کیونکہ امریکہ کو ہم
نے ابھی اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا ہے۔۔۔۔! |