پا کستان کی تاریخ میں شاید پہلی بار ایسا ہوا ہوگا کہ جب
امریکا کی جانب سے وہ بھی اعلیٰ سطح یعنی صدر امریکا کا بیان اور دھمکی کہ
ہم نے پاکستان پر اعتبار کیا اور پاکستان نے ہمیشہ دھوکہ دیا ۔ پاکستان
اپنے وعدے پورے نہیں کرتا وغیرہ وغیرہ اس پر وزیراعظم پاکستان عمران خان کا
ردعمل کہ پاکستان نے امریکی امداد 20ارب ڈالر کے مقابلے میں123ارب ڈالر کا
نقصان کیا اور اپنے 75ہزار لوگوں کو شہید کیا اس سے زیادہ قربانی دہشت گردی
کی جنگ میں کس ملک نے دی ہے ؟ امریکا افغانستان میں اپنی ناکامی پاکستان پر
نہ ڈالے ۔پاکستان مزید قربانی نہیں دے گا بلکہ اب ہم اپنی ملک کے مفاد میں
فیصلے کریں گے۔ امریکا کو ایساجواب پاکستان کی جانب سے کبھی نہیں دیا کیا
ہے کہ جس سے پورے دنیا کو معلوم ہوا کہ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک
ہے ۔ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیا دہ قربانی دی ہے۔ وزیراعظم
عمران خان کے اس بیان کو پوری عالمی میڈیا میں ڈسکس کیا گیا کہ اب پاکستان
کو ایک لیڈر مل کیا ۔ اب ڈومور کے مطالبے اور پاکستان پر الزامات کا
پروپیگنڈا نہیں چلے گا۔ یہی وجہ تھی کہ عالمی اسٹبلشمنٹ اور امریکا عمران
خان کے خلاف تھا کہ عمران خان وزیراعظم نہ بنے۔پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ
میں جو قربانی دی ہے اس کی مثال امریکا سمیت کوئی ملک نہیں دے سکتا کہ
امریکا کا اس نام نہاد جنگ کی وجہ سے ملک معاشی اور معاشرتی طور پر تباہ
ہوا ۔ ہزاروں جانوں کی قربانی دی جس میں تمام مکتب فکر کے لوگ شامل ہے جبکہ
اس کے باوجود الزامات اور ڈومور کے مطالبے امریکا کے خاتمہ نہیں ہورہے ہیں
۔ امریکی صدر کے بیان پر امریکی فوج بھی کشمکش میں ہو گی کہ پاکستان پر اس
طرح دباؤ امریکی صدر کا درست نہیں تھاجس کا اظہار شاید کھل کر نہ ہولیکن اس
کی صفائی اور وضاحت امریکی اسٹبلشمنٹ ضرور دے گی کہ امریکا کی پالیسی
پاکستان سے تعلقات خراب کرنا نہیں بلکہ امریکا پاکستان کی قربانیوں کی قدر
کرتا ہے۔
آج پاکستان نے جس طرح معاشی بحران کا سامنا کیا‘ اس کی مثال بھی تاریخ میں
نہیں ملتی اس کی ایک وجہ جہاں پر اندررونی سطح پر کرپشن اور لوٹ مار تھی
تودوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کی وجہ سے برآمدات میں کمی اور
بیرونی سرمایہ کاری ختم ہوئی جس کے لئے تحر یک انصاف کی حکومت ایمرجنسی
صورت حال میں کام کررہی ہے جس پر کافی حد تک قابو پایا کیا اب اقتصادی
پوزیشن مستحکم ہورہی ہے ۔ موجودہ حکومت نے صرف اس سال 1900ارب روپے قرض کی
صورت میں واپس کرنے ہیں۔ اس معاشی صورت حال پر گزشتہ دنوں عمران خان کی
صحافیوں سے گفتگو ہوئی جس میں اس طرح کے سوال وجواب میں کہا کیاکہ حالات کے
مطابق یو ٹرن لینا لیڈر کی پہچان ہوتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں یوٹرن لفظ
مثبت معنوں میں استعمال نہیں ہوتا ۔ اس لئے سوشل میڈ یا سمیت قومی میڈیا
اور اپوزیشن نے وزیراعظم کے اس بیا ن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ
سیاسی لوگ یوٹرن نہیں لیتے عمران خان اور نئی حکومت ناکام ہوئی اس لئے یو
ٹرن کی باتیں ہورہی ہے۔ اپوزیشن کی اس تنقید پر پوری حکومت بھی یو ٹرن کے
فضائل بیان کرتی رہی ۔ صدر اور وزیراعظم سے لے کر پی ٹی آئی کے ایک عام
ورکر بھی یوٹرن کے معنی بیان کرتے رہیں ۔ عمران خان کا شاید یوٹرن سے مراد
لچک دکھانا یا حالات کے مطابق پالیسی تبدیل کرنا ہولیکن انہوں نے یو ٹرن کا
لفظ استعمال کرکے اپوزیشن اور اپنے ناقدین کو خوب موقع دیاجس کا خواب
استعمال بھی ہوا جو خان صاحب خود بھی کیا کرتے تھے۔
کسی بھی سیاسی جماعت یا لیڈر کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی بنیادی پالیسی یا
نظریے پر قائم رہیں‘ہاں اس نظریے یا پالیسی کو کامیاب بنانے کیلئے جہاں جہا
ں ضروری ہووہاں اپنی سوچ میں تبدیلی لانے میں حرج نہیں لیکن اگر کوئی پارٹی
لیڈر جس کا بنیاد ہی کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ہو اور عوام نے ان کو ووٹ
اسلئے دی ہوکہ وہ کرپشن کا خاتمہ اور میرٹ کا سسٹم قائم کریں اس سے پیچھے
ہٹنا یا یوٹرن لینا‘ لیڈر کا کام نہیں بلکہ منافقت ہے ۔ ہم نے دیکھنا ہے کہ
عمران خان اپنی پالیسی جو کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ملک میں اداروں کی
مضبوطی سمیت میرٹ کا نظام قائم کرنے کیلئے تھا‘ سے ہٹ گئے ہیں یا اس پر آج
بھی قائم ہے ۔ تو اس کا جواب اب تک یہ ہے کہ وہ اپنی بنیادی فلسفے پر قائم
ہے جونہی وہ ہٹنے کی کوشش کریں گے تو مجھ سمیت بہت سے آزاد کالم نگا ر اور
تجزیہ کار ان پر تنقید کریں گے ۔ یہ سچ ہے کہ عمران خان نے کہا تھا کہ میں
بھیگ نہیں مانوں گا یعنی قرض لینے سے بہتر ہے کہ میں خود کش کر لوں لیکن جب
ان کو وزیراعظم بننے کے بعد معلوم ہوا کہ آپ قر ض لے یا نہ لے لیکن ملک دیو
الیہ ہونے والا ہے ۔ ملک کو چلانے کیلئے پیسے نہیں جس پر انہوں نے سوچا کہ
اب ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے سہارا یعنی قر ض لینا پڑے گا جو کہ
پارٹی پالیسی نہیں کہ ملک کو چلانے اور بڑے بڑے پر وجیکٹ قرض لیکر شروع کرو
لیکن مجبوری میں اس کے سوا کوئی چار نہیں جو تمام اقتصادی ماہرین پہلے سے
کہہ رہے تھے ۔ مسلمان کا شیوا ہے کہ وہ جب غلطی پر ہوتو معافی مانگے یا
کوئی اس سے معافی مانگے تو وہ معاف کریں اپنی روایے میں لچک اور تبدیلی
بہتر لیڈر یا انسان کی نشانی اور کامیابی ہوتی ہے لیکن منافقت کے کام
مسلمان کا شیوا ہر گز نہیں ۔ سیاست دانوں کے پاس اور کو ئی دوسر ی وجہ نہیں
کہ وہ یوٹرن کو قومی ،علاقائی یا ملکی مسئلہ بنائے جس میں یہ لوگ خود ملوث
رہے ہو وہاں تنقید کیسی ۔ البتہ وزیر اعظم اور ان کی حکومت نے بعض غلط
فیصلے کیے ہیں جس کا اثر بیوروکریسی عام نوکر پرڈال رہی ہے جس پر حکومت کی
ہنی مون پریڈ کے بعد تنقید کا سلسلہ شروع کریں گے اور عمران خان اور ان کے
حکومت کو وعدے اور پارٹی پالیسی یاد دلاتے رہیں گے۔ |