ایک تبدیلی جو آتے آتے رہ گئی،،،،،،

ہمارے محترم دوست یٰسین چوہدری جو ایک ہی وقت میں بزنس مین صحافی،کوہ پیما ٹورسٹ، گائیڈ، لیکچرر، مقرر اور نجانے کیا کیا ہیں نجانے کب سوتے اور کب جاگتے ہیں،لگتا ہے ان کی راتیں جنگلوں میں اور دن پہاڑوں میں گذرتے ہیں تاہم اگر یہ مان لیا جائے تو باقی بے شمار کام وہ کب کرتے ہیں اور کیسے ترتیب دیتے ہیں اس کا وہ خود ہی بہتر بتا سکتے ہیں مگر ایک گلہ یا شکوہ ان سے یقینا بنتا ہے کہ جب بھی وہ کسی مہم پر نکلتے ہیں تو خود یہی نکلتے ہیں ایک دو بار کے علاوہ انہیں توفیق نہیں ہوئی کہ ہمیں بھی ساتھ لے جائیں وجہ اس کی ان کی بے اعتنائی نہیں ہماری سستی اور کاہلی ہے کہ وہ اپنی دھن کی طرح اپنے وقت کے بھی سخت پکے اور پابند ہیں جبکہ ادھر معاملہ ذرا مختلف ہے،خیر یٰسین چوہدری صاحب نے اپنی شبانہ روز محنت اور سخت جدوجہد کے بعد چکوال کے لوگوں کو ضلع کے ان گوشوں سے متعارف کروایا جنہیں دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے کہ ہم کہاں مری اور ایبٹ آباد میں خجل خوار ہوتے پھر رہے ہیں دنیا جہان کی خوبصورتی تو اپنے گھر موجود ہے،یٰسین چوہدری نے نہ صرف یہ خوبصورت جگہیں دریافت کر کے چکوال کے لوگوں کو گفٹ کیں بلکہ ان کی مزید آسانی اوررسائی کے لیے CUTEکے نام سے ایک فیس بک پیج بھی متعارف کروایا تاکہ ہر کوئی آسانی سے اپنی مطلوبہ جگہ پر جب جانا چاہے پہنچ جائے، شروع شروع میں لوگوں نے سمجھا نجانے کو ن دیوانہ جھاڑ جھنکاڑ میں بھٹکتا پھر رہا ہے مگر یٰسین چوہدری کی محنت اور کاوش جاری رہی اور جلد ہی لوگ اس طرف باقاعدہ متوجہ ہونا شروع ہو گئے،پھر فوراً بعد ہی حکومتی ایوانوں میں بھی CUTEکی باز گشت گونجنا شروع ہو گئی اور پہلی دفعہ حکومتی سطح سے بھی چکوال کے ابن بطوطہ یٰسین چوہدری سے رابطے شروع ہوئے اور غالباً ڈاکٹر اظہار صاحب کو بھیجا گیا کہ وہ یٰسین صاحب سے رابطہ کریں اور خصوصاً کلر کہار کے آس پاس کے علاقے کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز لیں،جہاں تک میری ناقص معلومات کا تعلق ہے تو وزیر اعظم میاں نواز شریف کے نمائندے ڈاکٹر اظہار نے یٰسین چوہدری صاحب سے مکمل بریفنگ لے کر وزیر اعظم کو مطلع کیا اور اس کے بعد وزیر اعظم نے شاید پانچ ارب روپے کا ایک خصوصی پیکج دینے کا اعلان بھی کیا تھا ،بعد ازاں جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو ہمارے دوست ایم پی اے راجہ یاسر سرفراز کو ہائر ایجوکیشن کے ساتھ سیاحت کی بھی وزارت دے دی گئی،راجہ یاسر نوجوان ہیں اور اپنے کام کے ساتھ جنون کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں نے فوراً یٰسین چوہدری صاحب سے سے رابطہ کیا اور ایک بھرپور بریفنگ لے کر چکوال میں سیاحت اور ٹوارزم کے فروغ کے لیے دس کروڑکا پیکج منظور کروا لیااگلے دن بھرپور پریس کانفرنس کروا کر چکوال کی خوبصورتی کا ذکر کیا اور اسے مزید خوبصورت بنانے کا عزم کیا قومی میڈیا پر بھرپور کوریج ہوئی اوریہاں سے معاملہ ان حلقوں تک پہنچا جنہیں مخصوص حلقے کہا جاتا ہے لبرل ازم اور روشن خیالی جن کی گھٹی میں شامل ہے پیدا پاکستان میں ہوئے ہیں مگر چاہتے ہیں کہ رہیں یورپ میں اگر وہاں رہنا ممکن نہیں تو وہاں کا رہن سہن ہی ادھر لے آئیں،یقین مانیں اگر ان کے بس میں ہوتا تو یہ کبھی بھی پاکستان میں پیدا نہ ہوتے ،ان لوگوں نے چکوال کی طرف اپنی توجہ مرکوز کی او ر کروڑوں روپے کی انویسٹمنٹ سے اس علاقے میں ایک بہت بڑی مخلوط ڈانس پارٹی کا اہتما م کرنے کا رادہ کیا یہ علاقہ انہیں لاہور ، اسلام آباد اور پشاور ملتان سمیت فیصل آباد کے لوگوں کے لیے ہر لحاظ سے آئیڈیل ترین جگہ لگی،کیوں کہ موٹر ووے کی وجہ سے آنے جانے کا کوئی مسئلہ یا پریشانی نہ تھی سب کے لیے تقریباً یکساں سفر اور سب سے بڑی سہولت اس علاقے کا شاندار ترین موسم ہے جو عموماً ایسی پارٹیوں اور پروگراموں کو خراب کر دیتا ہے ،مگر یہاں سخت گرمی پڑتی ہے نہ سردی ، برف باری اور نہ ہی لگاتار بارش کا کوئی خدشہ سو اپنی جگہ ان لوگوں کی پلاننگ زبردست تھی،یہاں پر قرعہ فال دھرابی ڈیم کے نزدیک نکلا مگر دھرابی ڈیم پر چونکہ ایک پکنک سپاٹ ہے اور ہر وقت لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے لہٰذا وہاں ایسی کسی پارٹی کا اہتمام ممکن نہ تھا ،ڈیم کے آس پاس ہی کوئی ایسی جگہ دیکھی جانے لگی جہاں کسی کے آنے کا خدشہ ہو نہ مخل ہونے کاکھٹکا ،سو جنگل کے عین بیچوں بیچ تین دیہات مرید،تھوہا اور اہنہ سادات کی حدود جہاں ختم ہوکر شروع ہوتی ہیں وہاں پر ڈیرہ لگانے کا پروگرام بنایا گیا،یہ جگہ جہاں سے دھرابی ڈیم شروع ہوتا ہے وہاں پر ہے واضح رہے کہ دھرابی ڈیم کی لمبائی تقریباً دس کلومیٹر ہے،یہاں پر چونکہ عام حالات میں پہنچنا نا ممکن ہے کیوں کہ کوئی راستہ یا گذر گاہ نہیں ہے جگہ کا انتخاب کرنے کے بعد وہاں تک پہنچنے کے لیے جب راستے کا مسئلہ ہوا تو علاقہ کے ولوگوں سے رابطہ کیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ ہم نے پانی کے لیے سروے کرنا ہے لہٰذا ہمیں آپکی زمینوں سے گاڑیاں گذارنی ہیں علاقہ مکین جو سارے شریف اور سچے پاکستانی ہیں نے علاقے کی تعمیر و رترقی کے لیے اپنی کھڑی فصلوں کو اجاڑنے کی اجازت دے دی ،انہیں بتایا گیا کہ آپ کو اس کا باقاعدہ معاوضہ بھی دیا جائے گا تھوہا بہادر سے ہمارے دوست نجیب بھٹہ نے کہا آپ علاقے کو پانی دیں ہمارا جتنا نقصان ہوتا ہے ہونے دیں میری زمین سے گذریں ہم ایک پائی بھی وصول نہیں کریں گے،ان لوگوں نے بعد ازاں جنگل میں موجود جگہ کے مالک کا کھوج لگایا تو وہ صاحب مرید کے نکلے انہیں بھی کسی آئل کمپنی کے کیمپ کا بتا کر ان سے باقاعدہ پے منٹ کر کے ایگریمنٹ کا اسٹامپ پیپر حاصل کیا گیاجس کے فوری بعد ہی علاقے میں بھاری مشینری سے راستے سیدھے کرنے کے ساتھ ممکنہ جاے وقوعہ پر زمین کی کٹائی اور تیاری شروع کر دی گئی،مشکوک سرگرمیاں دیکھ کر کئی ایک لوگوں کا ماتھا ٹھنکا مگر ساتھ کے لوگوں نے وہی سنی ہوئی کہانی دہرا دی کہ دھرابی ڈیم سے پانی چکوال اور دوسرے علاقوں کو مہیا کیا جانا ہے سو اس پر کام جاری ہے،معا ملہ اس وقت بگڑا جب ہمارے ایک دوست کو ان کے کسی دوست نے ایک میسج بھیجا کہ مجھے یہ جگہ بتائیں میں نے آنا ہے وہاں پر ہمارا فنکشن ہے جگہ کی تصویر پروگرام منیجمنٹ کمیٹی نے میسج میں بھیجی تفصیل کے ساتھ بھیجی تھی جو یہ تھی کہ آپ نے اپنے پارٹنر کے ہمراہ کس وقت اور کس جگہ پر آنا ہے اور آگے سے آپ کی گاڑیاں فلاں جگہ پارک کر کے آپ کو شٹل کے ذریعے مذکورہ جگہ پر پہنچایا جائے گا اور تمام شرکاء کے پہنچنے کے بعد شٹل سروس بند ہو جائے گی اور اگلے دن اور رات کے بعد آنیوالی صبح کو بحال ہو گی تب تک سب لوگوں کو اپنے اپنے کیمپوں میں ہی رہنا ہو گا،یہ پر اسرار میسج آنے کے بعد ہمارے کان کھڑے ہوئے کہ اگر کوئی فنکشن ہے تو اس کو اتنا خفیہ رکھنے کیا ضرورت ہے،ہم الوجود کے دوستوں نے ایک ہنگامی میٹنگ کا اہتمام کیا جس میں ریاض بٹ ،یٰسین چوہدری،ریاض انجم ،راجہ برہان اور راقم نے شرکت کی اور فیصلہ کیا کہ معاملہ لوکل کمیونٹی کے علم میں لایا جائے جس کے لیے فوری طور پر سابق ناظم مرید شبیر جنیال اور تھوہا بہادر سے نجیب بھٹہ سے رابطہ کیا گیا جنہوں نے ایسے کسی بھی پروگرام سے لاعلمی کا ذکر کیا اور کہا کہ ہمیں سروے کا علم ہے جب حقیقت ان کے علم میں لائی گئی تو دونوں معزز صاحبان نے اس مخلوط ڈانس پارٹی کو رکوانے کے لیے ہمیں ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا،جگہ کا تعین یٰسین چوہدری صاحب نے فورا ً ہی کر دیا کہ مطلوبہ جگہ یہاں واقعہ ہے اور راستہ بھی کہاں سے جاتا ہے اس کا بھی انہیں علم ہے اس کے بعد ہم نے ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کیا انہوں نے بھی ایسی کسی بھی سرگرمی سے مکمل لاعلمی کا اظہا رکیا،بڑی مشکل سے پروگرام کوارڈینیٹر صاحب کا نمبر حاصل کیا جب ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی پروگرام نہیں ہونے جا رہا،ہم نے فیصلہ کیا کہ مذکورہ جگہ کا وزٹ کیا جائے وہاں جائے بغیر کوئی بھی خبر بریک کرنا ممکن نہیں ،رات دیر ہو جانے کی وجہ سے یہ طے ہوا کہ صبح سویرے سات بجے وہاں پہنچا جائے اور موقع پر صورتحال کا جائزہ لیا جائے کہ حقیقت کیا ہے،جس کے بعد دوست اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے راقم کو ضروری کام کے لیے اسلام آبا جانا پڑ گیا اس دوران ادھر ادھر سے مختلف قسم کے فونز آتے رہے جن میں ترغیبات بھی تھیں اور دھکمیاں بھی رات کوگیارہ بجے اطلاع ملی کی پارٹی کے انتظامات مکمل ہیں اور ساؤنڈ سسٹم کی گاڑیاں موقع پر پہنچ چکی ہیں ،اس وقت دوبارہ میں نے یٰسین چوہدری اور ریاض انجم نے آپس میں رابطہ کیا اور جب اس پروگرام کے رکنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو متفقہ فیصلہ کیا کہ خبر بریک کر دی جائے،رات ساڑھے گیارہ بجے ہم نے خبر بریک کر دی،خبر کا بریک ہونا تھا کہ ایک طوفان آ گیا ہر طرف سے مختلف قسم کی بولیاں سامنے آنا شروع ہوگئیں کسی نے مجاہد تو کسی نے بلیک میلر کہنا شروع کر دیا،تبدیلی سرکار فوراً حرکت میں آئی اور راجہ یاسر سرفرازکی طرف سے باضابطہ اسٹیٹمنٹ آ گئی کہ ہمارا یا ہماری حکومت کا ایسے کسی بھی پروگرام سے کوئی تعلق نہ ہے ،ڈی پی او صاحب نے کہا کہ ہم ایسے کسی پروگرام کو یہاں پر نہیں ہونے دیں گے،علماء کرام خم ٹھونک کر میدان میں آگئے ،علاقہ مکین الگ سے تیار ہو گئے کہ ہم اپنی زمین ایسی کسی بھی سرگرمی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے،ہمیں اپنے مقصد میں کامیابی نظر آنا شروع ہہو گئی ،اگلے دن صبح تڑکے ریاض انجم صاحب کا فون آیا کہ فوراً فلاں جگہ پہنچیں،میں بتائی گئی جگہ پر پہنچا تو وہاں پر پہلے سے یٰسین چوہدری،راجہ ثاقب،مرزا ساجد،نجیب بھٹہ اور شبیر جنیال صاحب موجود تھے ہم نے دو جیپ نما گاڑیوں میں ڈانس پارٹی کی جگہ کی جانب سفر شروع کیا ،علاقہ اور راستہ دیکھ کر ہم حیران رہ گئے وہاں پر راستہ بناتے پٹھانوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایاکہ ہمیں نہیں پتہ یہاں کس نے آنا اور کیا کرنا ہے ہمیں ٹھیکیدار نے ساڑھے چار لاکھ روپے دیے ہیں کہ اس جگہ تک راستہ بنانا ہے ،ہم جب وہاں پہنچے تو آگے ایک شاندار اور حیرت ناک منظر ہمارا منتظر تھا خوبصورت صاف اور پالش زدہ بانسوں سے ایک مکمل خیمہ بستی تقریباً آباد تھی،بارز اور دکانیں بھی بن چکی تھیں ،لیکن موقع پر سوائے دو چار پٹھانوں کے جو وہاں کام کر رہے تھے کوئی شخص موجود نہیں تھاوہاں ہم نے فوٹیج اور تصویریں بنائیں اور گھرکی راہ لی،واپسی پر راستے میں شبیر جنیال کی گاڑی ریت اور مٹی میں دھنس گئی جہاں ہمیں کئی گھنٹے خوار ہونا پڑا ،تحقیق مکمل ہونے کے بعد الیکٹرانک چینلز اور لوکل و قومی اخبارات نے اس پارٹی کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے جس پر چکوال کا تمام میڈیا مبارکباد کا مستحق ہے مگر ابتدائی اور اصل کاوش کا کریڈٹ الوجود کے ساتھ سابق ناظم مرید شبیر جنیال اور چکوال چیمبر کے نجیب بھٹہ کو جاتا ہے،بعد ازاں اس پارٹی کے منتظمین کی طرف سے شرکاء کو ایک دلچسپ میسج موصول ہوا کہ ہم پاکستان میں حقیقی تبدیلی کے علمبردار ہیں جس کے لیے ہماری جد جہد جاری ہے مگر کیا کہیے کہ ہمیں اسی معاشرے میں رہنا ہے جس میں چند قدامت پسند عناصر اور ملا ز، بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے ہمارا آج کا پروگرام منسوخ ہو گیا تاہم پریشان ہونے کی ہر گز کوئی ضرورت نہیں آپ نے جو رقم اس فنکشن کے لیے جمع کروائی وہ ہمارے پاس آپکی امانت ہے ہم بہت جلد نئی جگہ اور نئی تاریخ کا اعلان کریں گے ۔ بہت سے دوست اس حوالے سے ہم پر طعن و تشنیع کے تیر برسا رہے ہیں کہ ہم ترقی کے دشمن ہیں اس ایونٹ سے چکوال کا نام ٹورازم کی دنیا میں روشن ہوتا ،ہماری ان سے صرف اتنی گذارش ہے کہ بخدا ہم ترقی کے دشمن نہیں مگر ترقی اور بے حیائی میں فرق ہونا چاہیے،اگر صرف یہ ایک عام پارٹی تھی تو پھر یہ منسوخ کیوں ہو گئی ،اس سارے پروگرام کو اس حد تک خفیہ کیوں رکھا گیا کہ اس میں شرکت کرنے والوں کو بھی آخر وقت تک اس کے مقام سے بے خبر رکھا گیا،لوگوں سے چھپایا جا سکتا ہے مگر انسانوں کے خالق سے نہیں،شیطانی طاقتیں جتنی بھی قوت پکڑ لیں رحمانی طاقتوں کو زیر نہیں کر سکتیں،برائی کے لیے بڑے لوگ بڑے سے بڑا بندوبست کر لیں مگر اچھائی کے لیے لینے پرآئے تو اﷲ رب العزت ہم جیسے ادنیٰ ترین لوگوں سے بھی اعلیٰ ترین کام لے سکتا ہے،،،اﷲ ہم سب پر رحم کرے،،،،