سرد موسم کی آمد کے ساتھ ہی ملک کے مختلف شہروں میں سموگ
کے اثرات ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ یہ ایک قسم کی دھند ہوتی ہے ، جو فضائی
آلودگی کے باعث پیدا ہوتی ہے ، اس سے آنکھوں میں چبھن ہونے لگتی ہے ۔ یہ
کہر یا دھند مسلسل برقرار رہے تو مختلف امراض ہونے کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیامیں ہر سال چھ ملین کے
قریب لوگ فضائی آلودگی کے اثرات سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔امریکہ اور
بہت سے دوسرے ممالک نے سموگ میں کمی کے قوانین ترتیب دیے گئے ہیں۔ جن کے
نتیجے میں فیکٹریوں کے خطرناک کیمیکلز پر مشتمل دھوئیں کے اخراج پر پابندی
لگائی گئی ہے ۔ صنعتی علاقوں میں انتہائی درجے کا سموگ نظر آتا ہے پچھلے
سال کی طرح اس بار بھی فضائی آلودگی کے سبب ملک کے بیشتر شہروں کواپنی لپیٹ
میں لے رکھا ہے ۔بہت سی جگہوں پر تو سموگ کے باعثِ کچھ نظر بھی نہیں آتا
ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں سموگ کی ایک وجہ اناج چننے کے بعد کھیتوں
کے ناقابل استعمال سوکھے پیڑوں کو آگ لگانا بھی ہے، جس سے دھواں پیدا ہوتا
ہے ، جو سموگ کا باعث بنتا ہے ۔ ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ اگر بارشوں کا
سلسلہ شروع ہو جائے تو حالات معمول پر آ جائیں گے۔
سموگ فضائی آلودگی کی ایک خطرناک قسم ہے۔ جس میں صنعتوں سے نکلنے والے
خطرناک زہریلے مادے ، گاڑیوں اور بھٹوں سے نکلنے والا کالا دھواں شامل ہوتا
ہے ۔ہمارے ملک میں دھند عموماً دسمبر کے آخر میں اور جنوری کے مہینے میں
پائی جاتی ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ وقت سے پہلے ہی شروع ہو
جاتی ہے اور اس کا دورانیہ بھی مخصوص نہیں یعنی کبھی کم اور کبھی زیادہ
ہوتی ہے۔سموگ نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں، پودوں اور فطرت کی ہر چیز کو
نقصان پہنچاتی ہے چین میں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں افراد سموگ کی وجہ سے
جان ہار بیٹھتے ہیں، وہاں 17 فیصد اموات سموگ کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتی
ہیں۔سموگ کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچاؤ
کے لیے ماہر امراض کان، ناک اور گلے کے ماہرین بتاتے ہیں کہ فضائی آلودگی
میٹھا زہر ہے جو انسانوں کی جانیں بھی لے سکتا ہے۔بارش میں تاخیر کے ممکنہ
خدشات ہیں جو ناصرف سموگ بلکہ آنکھوں میں تکلیف اور نظر کی کمزوری کا باعث
بھی بنیں گے ، اس کے علاوہ سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریاں بڑھنے کے بھی
امکانات ہیں ۔ گلیوں ، سڑکوں کے ساتھ ساتھ گھروں کے اندر تک پہنچ جانے والی
یہ آلودگی بالخصوص بچوں کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر فضا میں
آلودگی کی یہ شرح برقرار رہی تو اس سے مختلف قسم کی بیماریاں پھیل سکتی
ہیں۔ فضا میں موجود سلفیٹ اور کاربن مونو آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار
زمین پر بسنے والے انسانوں کے پھیپھڑوں اور دل کے نظام کے علاوہ جلد اور
گلے کو متاثر کر سکتی ہے۔جس میں خاص طور پر دل کے امراض،پھیپھڑوں کے امراض
اور سانس کی بیماریاں لا حق ہو سکتی ہیں۔ گلا خراب اور آواز بیٹھ سکتی ہے۔
مسلسل خشک کھانسی اور چھنیکیں آنی شروع ہو جاتی ہیں۔ حلق میں ریشہ پیدا ہو
سکتا ہے۔ یہ تمام شکایات ایک تندرست آدمی کو سموگ کی وجہ سے پیدا ہو سکتی
ہیں۔ مگر جو لوگ پہلے سے سانس کی بیماریوں ، دمہ ، ٹی بی اور الرجی کی
بیماری میں مبتلا ہوں ان میں سموگ کی وجہ سے یہ امراض زیادہ تکلیف کا باعث
بنتے ہیں اور بیماری میں شدت آنے سے ان کی صحت بگڑ سکتی ہے۔ سموگ زہریلی
گیسوں اور مٹی کے ذرات کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ سموگ کے مہلک اثرات انسانی جسم
کےلئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سموگ مختلف بیماریوں کا
باعث بھی بن رہی ہے۔ فضائی آلودگی سے عمر رسیدہ افراد، حاملہ خواتین اور
چھوٹے بچے کمزور مدافعتی نظام ہونے کی وجہ سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔
آلودگی کی یہ خطرناک قسم کارڈیو ویسکیولر بیماریوں کے اضافہ کی وجہ بن رہی
ہے۔سموگ ایک فضائی آلودگی ہے جو انسان کی دیکھنے کی صلاحیت کم کردیتی ہے۔
یہ دھواں کوئلہ جلنے سے بنتا ہے۔ سموگ نظر کی خرابی کے علاوہ گلے کی خراش،
سینے اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے۔ سموگ بھی زیادہ وقت
گزارنے سے سانس لینے میں دشواری خاص کر گہری سانس لینا مشکل ہو سکتا ہے۔
کھانسی یا گلے اور سینے میں جلن ہو سکتی ہے۔ صرف چند گھنٹوں میں ہی سموگ
آپ کے پھیپھڑوں میں داخل ہو کر جلن پیدا کر سکتی ہے اور آپ کے پھیپھڑوں
کو نقصان پہنچا سکتی ہے ۔ اگر آپ دمہ کے مریض ہیں تو سموگ میں جانا آپ کے
لیے خطرناک ہو سکتا ہے بعض اوقات گہری سموگ میں زہریلی مادے آنکھوں میں
جلن اور جبھن پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے آنکھیں سرخ ہو سکتی ہیں اور
آنسو بہہ سکتے ہیں۔سموگ کے زیادہ منفی اثرات بچوں اور جوانوں پر پڑتے ہیں
تاہم یہ کسی نہ کسی درجے میں تمام عمر کے افراد کو متاثر کرتی ہے۔ سموگ کی
وجہ تیزی سے بڑھتا ہوا تعمیراتی کام ، کارخانوں اور گاڑیوں سے نکلنے والا
دھواں اور زہریلی گیسیں ہیں۔ اس کے علاوہ تیزی سے کم ہوتے ہوئے درخت اور
سبزہ بھی سموگ کی ایک وجہ ہیں۔ قدرتی ماحول زندگی کی بقا کا ضامن ہوتا ہے
اور جب اس قدرتی ماحول کو ایک خاص حد سے زیادہ چھیڑا جائے تو اس کا ردعمل
ہمیشہ تباہ کن ہوتا ہے۔
انفرادی طور پر ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے ارد گرد کا ماحول صاف رکھیں ۔سموگ
کے نقصانات سے بچائو اور احتیاطی تدابیر کے حوالے سے ماحولیاتی ماہرین کا
کہنا ہے کہ سموگ کے اثرات سے بچنے کے لئے سادہ پانی کی بھاپ دن میں دو سے
تین مرتبہ باقاعدگی سے لیں۔ ہلکا اور ڈھیلا ڈھالا لباس پہنیں ۔۔ سر پر ٹوپی
یا رومال ضرور رکھیں اور ناک و منہ کو ماسک یا رومال سے ڈھانپ کر رکھیں ۔
بہت زیادہ ٹھنڈے مشروبات پینے سے اجتناب کریں ۔گھروں کے باہر مٹی والی جگہ
پر پانی کا چھڑکائو کریں ۔ تعمیراتی جگہوں اور کوڑا کرکٹ والی متعفن جگہوں
پر بھی توجہ دیں تاکہ دھول یا مٹی وغیرہ نہ اڑے۔گھر سے نکلتے وقت چشمے کا
استعمال کریں ،سفر کے دوران اور بعد میں آنکھوں اور منہ کو پانی سے دھوئیں
، غیر ضروری سفر سے اجتناب کریں۔بچوں اور بزرگوں پر خصوصی توجہ دیں،زیادہ
سے زیادہ وقت گھر میں گزاریں،گھروں اور دفاتر کی کھڑکیاں، دروازے بند
رکھیں۔ہر کوئی محض چند عادات اپنا کر سموگ کے خاتمے میں اپنا کردار ادا
کرسکتا ہے۔جیسا کہ گیس چھوڑنے والے آلات کی بجائے بجلی کے آلات کا
استعمال کرنا، گاڑی کم چلانا ، زیادہ پیدل چلنا، اپنی گاڑی کا خیال رکھنا،
وقتاًفوقتاً گاڑی کا تیل بدلنا اور ٹائروں کی سطح کو ٹھیک رکھنا۔ مندرجہ
بالا احتیاط دھواں کے اخراج میں کمی کا باعث بن سکتے ہیں۔ کونٹیکٹ لینز کی
بجائے نظر کی عینک کو ترجیح دیں۔ تمباکو نوشی کو ترک کردیں۔ زیادہ پانی اور
گرم چائے کا استعمال کریں ۔ غیر ضروری باہر جانے سے پرہیز کریں۔ کھڑکیوں
اور دروازوں کے کھلے حصوں پر گیلا کپڑا یا تولیہ رکھیں۔ فضا صاف کرنے کے
آلات کا استعمال کریں۔ گاڑی چلاتے ہوئے گاڑی کی رفتار کم رکھیں اور فوگ
لائٹس کا استعمال کریں۔ زیادہ ہجوم والی جگہیں خصوصاً ٹریفک جام سے پرہیز
کریں۔چھوٹے بچوں اور سانس کی بیماری میں مبتلا افراد کو خاص طور پر احتیاطی
تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ سموگ سے بچنے کے لئے حکومت کو آلودگی کے
خاتمہ میں سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کو دھواں چھوڑنے والی
گاڑیوں پر پابندی لگادینا چاہئے ۔ لوگوں کو بھی اپنا طرز زندگی بدلنا
چاہئے۔شہر میں بڑھتی ہوئی سموگ شہریوں کیلئے خطرہ ہے اگر احتیاطی تدابیر
اختیار نہ کی گئیں تو نتائج خوفناک ہوسکتے ہیں۔ نومولود اور کم عمربچوں کو
کھلی فضا میں لے کے نہ جائیں۔دمہ، دل اور پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا مریضوں
کا خاص خیال رکھیں۔ علامات میں شدت کی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ |