خبردار حکمرانوں! پاکستان میں بھی انقلاب
کی فصل تیار ہے
آج دنیا کے بالخصوص اُن مسلم ممالک میں جو عرصہ دراز سے امریکا کے زیر اثر
رہے ہیں اُن میں اپنی چالاکی اور ہوشیاری سے امریکا نے ایسے حالات پیدا
کردیئے ہیں کہ آج اُن میں انقلابی طوفان نے ایک ایسی تباہی مچا دی ہے کہ
اَب اِس سے اُن ممالک کا سنبھالنا مشکل ہوگیا ہے یوں اُن ممالک میں برپا
ہونے والی انقلابی و طوفانی صُورتِحال سے اِن مسلم ممالک ( بشمول
پاکستان)کے حکمرانوں کو بھی عبرت لینی چاہئے جو اَبھی تک اپنی آنکھیں بند
کئے امریکا کو اپنا ہمدرد اور دوست سمجھے ہوئے ہیں اور اِس کے کاندھوں پر
سر رکھ کر سونا اپنے لئے باعثِ راحت و اطمینان سمجھتے ہیں آج اِن کے اِسی
دوست نے دنیا کے بیشتر اُن مسلم ممالک کے حکمرانوں کے خلاف جو اِن ہی کی
طرح امریکا کو اپنا آقا سمجھتے تھے آج اِس ہی امریکا نے اُن ہی کے خلاف اِن
کی عوام کو انقلاب کے نام پر اُکسا کر باہر سڑکوں پر نکال دیا ہے تو ایک
طرف دنیا یہ تماشہ دیکھ رہی ہے کہ دنیا میں انقلاب کیسے آتا ہے...؟ تو
دوسری طرف وہ یہ بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ دس سے بارہ برسوں کے دوران جن
ممالک میں انقلاب آئے ہیں یا جن میں آنے کی بازگشت سُنائی دے رہی ہے اُن
میں اکثریت مسلم ممالک کی ہے جہاں انقلاب برپا ہوئے یا ہوں گے....مصر میں
موجودہ پیدا ہونے والی انقلابی صُورتِ حال کے حوالے سے ایک بڑے امریکی
اخبار نے بدنامِ زمانہ وکی لیکس کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ مصر میں
جاری حکومت مخالف مظاہروں کو امریکا کی خفیہ حمایت حاصل ہے کیونکہ تیس سال
سے زائد عرصے تک مصر پر امریکی آشیرواد کے ساتھ حکمرانی کرنے والے اپنے
پِٹھو مصری صدر حُسنی مبارک سے امریکا کو جو کام لینا تھا وہ لے چکا ہے اَب
اِس کی تبدیلی ضروری ہوگئی ہے جس کی وجہ سے امریکا خفیہ طور پر مصری
مظاہرین کی ایک طرف مدد کررہا ہے تو دوسری طرف اپنے پِٹھُو مصری صدر حُسنی
مبارک کو یہ تھپکی بھی دے رہا ہے کہ یہ اِس کے ساتھ ہے اور جب تک امریکا
اِس کے ساتھ ہے تو پھر کوئی اِس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے جبکہ حقیقت اِس
کے بالکل برعکس ہے وہ یہ کہ امریکا اَب خود بھی حُسنی مبارک کو مصر میں
برداشت نہیں کرنا چاہتا ہے۔
بہرحال میں یہاں اپنے قارئین کو یہ بتاتا چلوں کہ انقلاب کیا ہے....؟اور
اِس کے لغوی معنی کیا ہیں....؟ تو جان لیجئے کہ انقلاب کے لُغوی معنی
تبدیلی ، اور ایک ایسی دوررس تبدیلی کے ہیں جو تاریخی ، روائتی ، سماجی ،
سیاسی اور نظریاتی پس منظر کو یکسر بدل ڈالے اور معاشرے میں اُن افراد کو
جن کا کسی بھی وجہ سے استحصال ہوا ہے اِن کی زندگی کو نئے قالب میں ڈھالنے
کا موجب ہو وہ انقلاب کہلاتا ہے سمجھنے کے لئے یہ بھی جان لیجئے کہ کہا
جاتا ہے کہ انقلاب یکدم سے رونما نہیں ہوجاتا بلکہ انسانی معاشرے میں کافی
عرصہ تک نظر نہ آنے والی آہستہ آہستہ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن سماج کی
ساخت میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آتی اور پھر یکایک یہ تسلسل ٹوٹتا ہے اور
انقلاب آجاتا ہے پُرانے قسم کے سماج کی جگہ نئے قسم کا سماج آجاتا ہے یعنی
یہ کہ جب مقصد اور کسی بھی مثبت و تعمیری عمل کا اشراک ہوتا ہے تو ایک نئی
دنیا تخلیق ہونا شروع ہوجاتی ہے اور یہی انقلاب ہوتا ہے اورجو لوگوں کی
زندگی کا کسی نئے اور درست سمت میں تعین کر دیتا ہے اِسی طرح اِس حققیت سے
شائد دنیا کا کوئی بھی شخص انکار نہ کرسکے کہ ہر انقلاب شروع میں صرف کسی
ایک شخص کے دماغ کی سوچ ہوتا ہے جس کی باتوں کا بعض مرتبہ لوگ مذاق بھی
اُڑاتے ہیں مگر جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے اور لوگ اپنے حکمرانوں کے ہاتھوں
اپنا استحصال ہوتا محسوس کرتے ہیں تو پھر یہی لوگ اُس شخص کی فکر کے گرویدہ
ہوجاتے ہیں جس کا یہ پہلے مذاق اُڑایا کرتے تھے اور پھر جب وہی سوچ اِن کے
ذہن میں پیدا ہوجاتی ہے تو ملکوں میں انقلاب کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔
ارسطو نے کہا ہے کہ انقلاب چھوٹی چھوٹی باتوں سے متعلق نہیں ہوتے بلکہ
چھوٹی چھوٹی باتیں ہی انقلاب پیدا کرنے کی باعث بنتی ہیں اور آج دنیا کے
بہت سے ممالک جن میں مصر، تیونس اور اردن شامل ہیں اِن میں جو انقلابی
طوفان آرہے ہیں یقیناً اِن طوفانوں کو اُن چھوٹی چھوٹی لہروں نے ہی مل کر
طاقتور بنایا ہے جس کی وجہ سے اِن ممالک میں انقلابی طوفان نے جابر و فاسق
حکمرانوں کی چولیں ڈھیلی کر کے رکھ دی ہیں مصر میں امریکی پٹھُو صدر حُسنی
مبارک کے خلاف مظاہرے چھٹے روز بھی جاری ہیں خبر یہ ہے وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ مصر میں انقلاب کے لئے نکلنے والے مصریوں کے پُر تشدد مظاہروں میں شدت
آتی جارہی ہے جہاں لاکھوں مصری سڑکوں پر نکل کر اپنے امریکی پٹھُو صدر
حُسنی مبارک کے خلاف مظاہرے میں اینٹ سے اینٹ بجا ڈالنے پر تلے ہوئے ہیں
اَب تو حد یہ ہوگئی ہے کہ مصر کے امریکی پٹھُو صدر حُسنی مبارک کے جابرانہ
رویوں کے خلاف نہ صرف مصر کے عوام ہی سڑکوں پر نہیں نکلے ہیں بلکہ اِس کے
خلاف مصر کی فوج ، پولیس اور جج بھی اِن پُر تشدد مظاہروں میں شامل ہوگئے
ہیں جو پہلے کسی وجہ سے خاموش تھے مگر اِنہیں جیسے ہی یہ موقع ہاتھ لگا تو
وہ بھی عوام کے ساتھ ہوگئے ہیں اور مطالبہ کررہے ہیں کہ امریکی اشاروں پر
چلنے والے مصری صدر حُسنی مبارک کو برطرف کر کے اِسے مصری قانون کے خلاف
سخت ترین سزا دی جائے جس نے مصری عوام کی زندگیاں تنگ کر رکھی ہیں مصر کی
موجودہ صُورتحال کے حوالے سے امریکا نے حُسنی مبارک کی جگہ اپنا کوئی نیا
مٹھو بیٹا صدر لانے کے لئے مصر میں آزادانہ الیکشن کا مطالبہ کر دیا ہے
اُدھر اِس امریکی مطالبے کے خلاف بھی کرفیو کے باوجود ہزاروں مظاہرین
التحریہ اسکوائر پر جمع ہوگئے ”نو مبارک نو“ اور ”گو مبارک گو“ کے فلگ شگاف
نعرے لگائے اِن مظاہرین میں سرکاری ملازمین اور جج کا بھی بڑی تعداد میں
شامل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اَب کسی بھی سطح پر امریکی پِٹھُو مصری صدر
حُسنی مبارک کو عوامی حمایت اور تائید حاصل نہیں رہی ہے مگر اِس کے باوجود
بھی کہا جاتا ہے کہ حُسنی مبارک کو کچھ خفیہ افراد کی حمایت اَب بھی حاصل
ہے جس کی وجہ سے اِس نے عوام کے آگے ہتھیار ڈالنے کے بجائے اُلٹا فوج کو
اپنے خلاف تحریکیں چلانے والے مظاہرے کرنے والوں پر گولی چلانے کا اختیار
دے دیا ہے جس کے بعد مظاہرین اور فورسز کے درمیان جھڑپوں میں اَب تک 60سے
زائد افراد کی ہلاکتیں عمل میں آچکی ہیں جس کے بعد اِن ہلاکتوں کی مجموعی
تعداد 160تک پہنچ چکی ہے اور لگ بھگ ساڑھے چار ہزار کے قریب افراد زخمی
ہوگئے ہیں۔
اُدھر بی بی سی نے اپنے یہاں ایک رپورٹ میں دنیا بھر میں مصری عورتوں کی
خوبصورتی کے حوالے سے مشہور ملک مصر کی موجودہ صُورتِ حال کے حوالے سے وہاں
کے شہریوں کی عادات سے متعلق جو تبصرہ کیا ہے وہ ہر لحاظ سے درست کہلانے کے
قابل ہے اِس نے مصریوں سے متعلق اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ مصری عوام طبعاََ
صابروشاکر اور اپنی مستیوں میں مست مولا ملنگ لوگ ہیں اِن کی سرشت میں جلد
بازی نہیں ہے یہ ٹھنڈے دل و دماغ اور اچھی فہم وفراست والے سلجھے ہوئے لوگ
ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مصری 4000برس سے فراعین کے ساتھ خاموشی سے گزارہ کر
رہے ہیں اِس حوالے سے اِس نے مصر کے موجودہ امریکی پِٹھُو صدر حُسنی مبارک
کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اِسی کو ہی دیکھ لیں 1975سے آج تک اِس مصری
صدر کی تصویر دُھندلی نہیں ہوئی ہے۔
مصر میں اپنے پِٹھُو صدر حُسنی مبارک کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں عوامی
غیض وغضب کے حوالے سے امریکا نے فوراََ اپنا پینترا بدلا اور مصری صدر
حُسنی مبارک اور فوج پر امریکی لومڑی جیسی آنکھوں والی انتہائی تیزو طرار
وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے ایک سرکاری ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے زور دیا
ہے کہ اَب بہت ہوچکی ہے جو امریکا کی برداشت سے باہر ہے مصری صدر حُسنی
مبارک اور فوج منظم انداز سے اقتدار جمہوری قوتوں کو منتقل کردے۔اِس کے بعد
کیا اَب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ امریکا کبھی بھی بُرے وقت میں کسی کا ساتھ
نہیں دیتا ہے یہ اپنے مفادات کے حصول تک تو دوستی رکھتا ہے مگر جب بھی کسی
پر بُرا وقت آتا ہے تو منہ پھیر لیتا ہے اِس لئے اُن مسلم ممالک کے
حکمرانوں کو اپنی آنکھیں کُھول لینی چاہئیں جو ابھی تک یہ سمجھتے ہیں کہ
اِن کے کسی بھی بُرے وقت میں امریکا اِن کا ساتھ دے گا۔
آج مصر کی موجودہ بگڑی ہوئی صُورتِ حال کے حوالے سے سب سے زیادہ تشویش
امریکی بغل بچہ اسرائیل کو ہے جس کی ہر مشکل گھڑی میں اِسی امریکی پِٹھُو
مصر صدر حُسنی مبارک نے مدد کی تھی اور اسرائیل کے ہر اُس منصوبے کو پوری
قوت سے کامیاب بنایا تھا جو فلسطینیوں کے خلاف تھا جس کی ایک تازہ ترین
مثال یہ دی جارہی ہے کہ یہی وہ مصری صدر حُسنی مبارک ہے جس نے اپنی عوام کی
لاکھ مخالفت مول لے کر بھی امریکی اشاروں پر مصر اور اسرائیل کے درمیان
ہونے والے امن معاہدے کو موثر بنایا تھا آج یہی وجہ ہے کہ مصر میں اٹھتے
انقلابی طوفان سے خوفزدہ اسرائیل اَب اِس فکر میں دُبلا ہو رہا ہے کہ اگر
مصر میں عوامی تحریک اِس کے جگری دوست مصری صدر حُسنی مبارک کو ہٹانے میں
کامیاب ہوجاتی ہے تو اِس کا کیا بنے گا....اور آئندہ کون ہوگا جو اِس کے
فلسطینیوں کے خلاف بنائے جانے والے منصوبوں کی حمایت کرے گا...؟؟یہاں میرے
قارئین یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں کہ تیونس، مصر اور اُردن یہ وہ ممالک ہیں
جن کے ایجنڈے میں یہ ہمیشہ شامل رہا کہ یہ فلسطینیوں کے مقابلے میں
اسرائیلی مفادات کو ترجیح دیں گے اور اِن ممالک نے ہمیشہ ایسا ہی کیا۔
اُدھر مصر میں حکومت مخالف مظاہروں سے پیدا ہونے والی صُورتِ حال پر گہری
تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امریکی نائب صدر جوبائیڈن اپنے ایک اور قریب ترین
مسلم ملک پاکستان کے حکمرانوں، اپوزیشن رہنماؤں سمیت سیاستدانوں اور مذہبی
و سماجی تنظیموں کے کرتا دھرتاؤں کو بھی یہ عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ
تیونس اور مصر سمیت کئی ملکوں میں حکومتوں کے خلاف عوامی احتجاجوں اور
مظاہروں کی جو لہر چل پڑی ہے خدشہ ہے کہ مظاہروں کی یہ لہر پاکستان بھی
پہنچ سکتی ہے جوبائیڈن کے اِس خدشے کو ہمارے حکمران کس معنی اور زاویئے میں
لیتے ہیں یہ اِن کی صوابدید پر ہے کہ یہ آیا جوبائیڈن کے اِس بیان کو کتنا
سمجھ پائے ہیں جبکہ میرا خیال تو یہ ہے ہمارے حکمران جوبائیڈن کے اِس عندئے
کو سمجھ ہی نہیں سکے ہیں میرا اپنے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی سے یہ
کہنا ہے آپ امریکی نائب صدر کے اِس عندیئے کو اچھی طرح سے سمجھیں کہ وہ کیا
کہہ گیا ہے اور آپ نے شائد اِس کے اِس عندیئے کو سمجھے بغیر ہی یہ کہہ دیا
ہے کہ”پاکستان میں جمہوری حکومت اور آزاد عدلیہ ومیڈیا ہیں مصر، تیونس سے
پاکستان کا موازنہ نہ کیا جائے “ جبکہ میرا خیال تو ہے کہ آپ کے کہنے کے
مطابق پاکستان میں اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی امریکا نہ تو پاکستان میں
رائج کسی جمہوریت اور آزاد میڈیا سے ہی مطمئین ہے اور نہ ہی پاکستانی
حکمرانوں کی کسی ایسی جمہوریت سے جس کے ثمرات اُوپری سطح سے نچلے طبقے تک
نہیں پہنچ پائے ہیں تو وزیراعظم یہ بات بھول جائیں کہ پاکستان میں انقلاب
دستک نہیں دے رہا ہے پاکستان میں بھی انقلاب آئے گا اور ضرور آئے گا اور
امریکا ہی عوام کے ساتھ مل کر لائے گا کیونکہ حکمرانوں کے رویوں اور ملک
میں بڑھتی ہوئی اقربا پروری، کرپشن، لوٹ مار، بےروزگاری، دہشت گردی، قتل
وغارت گری اور مہنگائی کے عفریت نے اِس ملک کے غریبوں کو جھنجھوڑ کر رکھ
دیا ہے کہ وہ ملک میں حکمرانوں کے ہاتھوں اپنے ہونے والے استحصال کے خلاف
انقلاب کے لئے نکلنے کو تیار بیٹھے ہیں اور اگر حکومت نے یکم فروری 2011 یا
اِس کے بعد جیسا کہ خبریں آرہی ہیں پیڑولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں بے
لگام اضافہ کیا اور تین پاکستانیوں کے قتل کے مجرم امریکی عیسائی دہشت گرد
ریمنڈ کو امریکی دباؤ میں آکر چھوڑ دیا تو پھر کوئی مائی کا لعل ملک میں
آنے والے انقلاب کو نہیں روک سکے گا کیونکہ اَب پاکستان میں انقلاب کی فصل
تیار ہے بس اِسے کٹنے کی دیر ہے۔ |