پاکستان ایک خود مختار ملک؟

کسی قوم کو اس وقت خود مختار کہا جاتا ہے جب وہ مکمل طور پر بیرونی مداخلت سے آزاد ہو، کسی اور کے سامنے سر جھکانے کی بجائے اپنے وسائل، دست و بازو اور صلاحیتوں پر انحصار کرے۔ مگر ہم بحیثیت پاکستانی قوم، اپنی غیرت اور ہمیت اپنی سرکار امریکا کو بیچ چکے ہیں۔ یوں تو ہم میں غیرت بہت ہے، غیرت کے جوش میں اکثر کھول اٹھتے ہیں۔ غیرت کے نام پر ہم اپنی بہنوں، بیٹیوں اور ماؤں کو مارتے ہیں، ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتے ہیں مگر ہماری غیرت کا جوش پھر بھی ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اسی جوش اور نشے میں پورا خاندان ختم کر دیتے ہیں لیکن اپنے ملک کی سلامتی، خود مختاری اور خود داری کو گروی رکھتے ہوئے ہمیں کچھ نہیں ہوتا۔ ملکی غیرت، عزت اور وقار کے سودے کرتے ہوئے ہماری غیرت کہاں مر جاتی ہے؟

پاکستان کا قیام حاکمیت اور خود مختاری کے حصول کے لیے تھا، کہنے کو تو ہم آزاد ہوگئے مگر غلامی سے نجات نہیں ملی۔ ریمنڈ ڈیوس نے تو ہمیں، ہماری غلامی کی وہ تصویر دکھائی ہے جسے ہم دیکھنا ہی نہیں چاہتے تھے، وہ آئینہ دکھایا ہے جس میں ہم اپنا اصلی چہرہ دیکھ سکتے ہیں کیونکہ آج تک ہم نے اپنا اصلی چہرہ دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اس واقعہ سے پہلے بھی امریکی پورے ملک میں دندناتے پھرتے رہے اور کئی پکڑے بھی گئے مگر اعلیٰ افسران انہیں چھڑاتے ہی نظر آئے۔ کہاں گئے وہ لوگ جو سینہ ٹھونک کر کہتے تھے کہ نہ تو امریکیوں کو ممنوعہ اسلحہ رکھنے کی اجازت ہے اور نہ ہی بلیک واٹر نامی کسی تنظیم کا وجود ہے۔ اس واقعہ کے بات وہ اپنی ان باتوں کا جواز کیسے پیش کریں گے؟

چاکری چونکہ ہمارا پسندیدہ پیشہ ہے لہٰذا اس میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ اس چاکری کے عوض امریکا کرپٹ حکمرانوں کی پشت پناہی اور انہیں بچ نکلنے کا راستہ مہیا کرتا ہے۔ آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے وسائل نچوڑتا ہے۔ پتھر کے دور میں واپسی کے دروازے دکھا کر استحصالی حکمرانوں کو مسلط کرتا ہے اور پھر پتھر کا دور عود آتا ہے۔ بے روزگاری، افلاس اور غربت کو عوام کا مقدر بنا دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف دونوں کی نظریں امریکا کے پھینکے ہوئے چھیچڑوں ﴿ڈالروں﴾ پر لگی رہتی ہیں اور یہ سب کچھ صرف ہماری چاکری کے عوض ہوتا ہے۔

ڈرون حملوں سے لیکر شاہراؤں پر امریکی قتل و غارت گری اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ہم کتنے خود مختار ہیں؟ ایسے میں لاہور میں ہونے والے اس واقعے سے ہماری خود مختاری پر کوئی اثر نہیں پڑا اور نہ ہی ہماری غیرت جاگ اٹھی ہے۔ دہشت گردی کے اس واقعہ کے باجود امریکیوں پر دہشت گردی کی کوئی دفعہ نہیں لگائی گئی، انہیں ہتھکڑی تک نہیں پہنائی گئی البتہ مرنے والوں کو ڈاکو ضرور ثابت کیا جارہا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لیے وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ جس ملک میں امریکی غنڈے رنگے ہاتھوں پکڑے جائیں اور پھر چھوڑ دیے جائیں تو ملک کی خود مختاری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

کیا ہماری غیرت کو جوش دلانے کے لیے اس سے بڑے واقعے کی ضرورت ہے؟کیا ہم آج بھی اپنے بھائیوں کے ناحق خون پر خاموش رہیں گے؟ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غلامی کہ یہ سنہرا طوق اگر اب بھی نہ اتارا گیا تو پاکستان ایک امریکی کالونی کی شکل اختیار کر لے گا۔ جہاں ڈرون حملوں کی طرح امریکی قتل و غارت گری بھی معمول کی بات بن جائے گی اور سڑکوں پر نکل آنے والے "یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں " یہ بھی نہیں آئیں گئے۔۔ پھر یہی بندوق کی نالی آپ کی سمت ہوگی، تب شائد آپ کو یہ احساس ہو کہ کاش غلامی کا طوق اس وقت اتار پھینکا ہوتا مگر تب بہت دیر ہو چکی ہوگی۔
اُسی بندوق کی نالی ہے میری سمت کے جو
اس سے پہلے میری شہ رگ کا لہو چاٹ چکی
Mahmud Ayaz
About the Author: Mahmud Ayaz Read More Articles by Mahmud Ayaz: 4 Articles with 3279 views مجھے ایسا باغ نہیں ملا‘جہاں گل ہوں میری پسند کے
جہاں زندہ رہنے کا شوق ہو مجھے وہ سماج نہیں ملا

میرے نزدیک۔۔۔
مذہب اور قوم
اپنی ملت پر قیاس اقوام
.. View More