سترہ دسمبر 2010ء کا ابھرتا ہوا
سورج براعظم افریقہ کے ملک تیونس پر اپنی کرنیں بکھیر رہا تھا،سورج کی
سنہری کرنوں سے بحیرہ روم کی چمکتی ہوئی لہریں تیونس کے ساحلوں سے ٹکرا رہی
تھیں،تیونس کے مشرقی ساحلی شہر سفکس سے لگ بھگ 75 کلومیٹر دور سیدی بوزید
کے قصبے میں معمولاتِ زندگی کا آغاز ہو چکا تھا،لوگ اپنے اپنے کام کاج
کیلئے گھروں سے نکل رہے تھے،محمد بوعزیزی نے بھی اپنا سبزیوں کا ٹھیلا
اٹھایا اور روزی کی تلاش میں گھر سے روانہ ہوگیا،محمد بو عزیزی ایک 26 سالہ
محنتی گریجویٹ نوجوان تھا،جس نے نوکری کی تلاش میں ناکامی کے بعد اپنے
دوستوں سے کچھ رقم ادھار لے کر سبزی کا ٹھیلا لگا لیا تھا،اُسے ابھی ٹھیلا
لگائے زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ دو پولیس کانسٹیبل اُس کے پاس پہنچے اور
ٹھیلا لگانے کا لائسنس طلب کیا،محمد بوعزیزی نے حیران ہوکر پولیس والوں سے
پوچھا کہ کیا سبزی کا ٹھیلا لگانے کیلئے بھی لائسنس ہوتا ہے؟پولیس والوں نے
کہا ہاں،لیکن تمہارے پاس یہ لائسنس نہیں ہے،لہٰذا تمہارا ٹھیلا ضبط کیا
جاتا ہے،محمد بو عزیزی نے اُن سے بہت منت سماجت اور فریاد کی،لیکن پولیس
والوں نے اُس کی ایک نہ سنی اور بوعزیزی کا ٹھیلا ضبط کرلیا،ناچار وہ اپنی
فریاد لے کر گورنر ہاؤس گیا۔
مگر گورنر ہاؤس میں بھی اُس کی فریاد سننے والا کوئی نہیں تھا،وہ گورنر
ہاؤس کے دروازے پر اعلیٰ حکام تک اپنی فریاد پہنچانے کیلئے اصرار کرنے
لگا،اِس شور شرابے میں گورنر ہاؤس کی ایک خاتون اہلکار باہر آئی،محمد بو
عزیزی نے خاتون کو دیکھ کر انصاف کی دہائی دی،وہ خاتون آگے بڑھی اور محمد
بو عزیزی کے گال پر تھپڑ جڑ دیا،بو عزیزی سکتے میں آ گیا،خاتون اہلکار کے
تحقیر آمیز سلوک نے بو عزیزی کو شدید احساس محرومی اور ذلت کی اتھاہ
گہرائیوں میں دھکیل دیا،اُس نے گورنر ہاؤس کے سامنے اپنے اوپر مٹی کا تیل
چھڑکا اور خود کو شعلوں کے حوالے کر دیا،یہ خبر جنگل کی آگ بن کر تیونس کے
گلی کوچوں میں پھیلتی چلی گئی،جگہ جگہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے،سیدی بو عزیزی
کا عوامی احتجاج ہنگاموں کی شکل اختیار کرتا چلا گیا،محمد بو عزیزی کے
جھلسے جسم پر چپکے کپڑے تیونس کے عوام میں بغاوت کے علم بن چکے تھے،سبزی
فروش نوجوان کے جسم کی ٹیسیں اُس صدر زین العابدین بن علی کا پیچھا کر رہی
تھی جو 23سال سے تیونس کے اقتدار پر بلا شرکت غیرے قابض تھا اور جس نے
تیونس میں سیاست کو ممنوع قرار دے رکھا تھا ۔
ابھی محمد بو عزیزی اسپتال میں ہی تھا کہ ایک اور 22سالہ نوجوان نے بے
روزگاری سے مجبور ہوکر خود کو بجلی کا کرنٹ لگا کر ہلاک کرلیا،اُسی روز
پولیس فائرنگ نے ایک نوجوان کی جان لے لی،ہنگامے بڑھتے جا رہے تھے،احتجاج
پھیلتا جا رہا تھا،عوام صدر زین العابدین بن علی کی قربانی چاہتے تھے،محمد
بو عزیزی نے تین ہفتے زندگی اور موت کی کشمکش میں گزارنے کے بعد دم توڑا،تو
پورا تیونس سڑکوں پر آچکا تھا، اِس المیے نے قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑ
ڈالا،لوگ کرفیو کی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے،یہ وہ
عوامی سیلاب تھا جس میں فرانس کالوئی XVI، زارِ روس،چین کا چیانگ کائی
شیک،شاہ ایران اور کرغیزستان کا قربان بیگ تک بہہ گئے،پھر بھلا زین
العابدین کیسے ٹھیر سکتا تھا؟23 برس تک مسند اقتدار پر براجمان رہنے والے
زین العابدین بن علی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ تیونس کے صابرو شاکر
عوام یوں اچانک آگ بگولہ بھی ہوسکتے ہیں،وہ تو بڑے بڑے منصوبے بنائے بیٹھا
تھا،اس کا داماد شاکر الماتری،اگلے صدر کے طور پر قطار میں کھڑا تھا، اس کی
بیوی لیلیٰ،کرپشن کی الف لیلائی داستانوں کا مرکزی کردار بنی ہوئی
تھی،سرکاری بوئنگ جیٹ طیارہ اس کی تحویل میں تھا،وہ جب چاہتی شاپنگ کے لئے
پیرس،جینوا اور یورپ کے دوسرے شہروں کو نکل جاتی،قومی وسائل کی بے دردانہ
لوٹ مار جاری تھی،بڑے بڑے شاپنگ پلازا،درآمدو برآمد کرنے والی کمپنیاں،ٹاؤن
پلانرز،پراپرٹی ڈیلرز،بینک،میڈیا کے ادارے، ٹیلی کمیونی کیشن،انٹر نیٹ
پرووائڈرز،کسٹم ڈیوٹیز،سب کچھ ”شاہی خانوادے“ کی مٹھی میں تھا ۔
یہ لوگ سرکاری اثاثے کوڑیوں کے مول خریدتے اور پھر بھاری قیمت پر بیچ
دیتے،جو کاروبار اچھا دکھائی دیتا،یہ اُس میں زبردستی حصہ دار بن
جاتے،سرکاری ٹھیکوں میں بھاری کمیشن لیتے،سیاسی مبصرین کے نزدیک یہ ٹھگوں
کا ٹولہ تھا،لالچ اور نااہلی کا عفریت جو خوشحال تیونس کی رگوں کا لہو چوس
رہا تھا اور لوگ مہنگائی اور بے روز گاری کی چکی میں پس رہے تھے،گو کہ وکی
لیکس نے تیونس کے حکمرانوں کی بہت سی کہانیاں بیان کیں لیکن یہ کہانیاں
تیونس میں وہ قیامت برپا نہ کرسکی،جو قیامت محمد بو عزیزی کی خود سوزی نے
پیدا کردی،صدر زین العابدین نے بہت داؤ پیچ اور حربے آزمائے،تمام قیدیوں کی
رہائی کا حکم دیا،وزیر داخلہ کو برطرف کردیا،پارلیمنٹ توڑ کر ساٹھ دنوں میں
نئے انتخابات کا اعلان کیا،تیس لاکھ نئی ملازمتیں دینے کا وعدہ کیا،یہ بھی
کہا کہ میں 2014ء میں صدارت سے الگ ہوجاؤں گا،لیکن اب بہت دیر ہوچکی
تھی،اور وہ لمحہ آگیا تھا جب بدعنوان حکمراں کےلئے تیونس کی زمین تنگ
ہوگئی،اس نے اپنے سب سے بڑے سرپرست فرانس سے رابطہ کیا،پیغام ملا”ہم آپ کو
خوش آمدید نہیں کہہ سکتے“اور پھر 14جنوری کو وہ مرحلہ بھی آگیا جو ایک نہ
ایک دن ہر آمر کی زندگی میں آتا ہے،فوج نے زین العابدین بن علی کا ساتھ
چھوڑتے ہوئے عوام پر گولی چلانے سے انکار کر دیا،بپھرے ہوئے عوام مقتلوں کو
سجاتے اور قتل گاہوں سے پرچم چنتے ہوئے دارالحکومت تیونس کی طرف بڑھتے
رہے،یوں ڈیڑھ کروڑ آبادی والے ملک تیونس کا آمر جنرل زین العابدین تین ہفتے
سے جاری عوامی شورش سے خائف ہوکر اپنے اہل خانہ کے ساتھ چوروں کی طرح
صدارتی محل سے سعودی عرب فرار ہوگیا ۔
آج تیونس اور الجزائر میں برپا عوامی شورش صرف انہی دو ممالک تک محدود نہیں
ہے، بلکہ محمد بو عزیزی کی خود سوزی سے آمروں کے خلاف جنم لینی والی
انقلابی تحریک کے شعلے اب مصر تک جا پہنچے ہیں اور اِس آگ کی تپش نے اردن،
یمن اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سوڈان کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا
ہے،آج تیونس کی بازگشت لیبیا اور سعودی عرب میں بھی سنائی دے رہی ہے،عوامی
انقلاب اِن ممالک کے دروازوں پر دستک دے رہا ہے،تیونس کے موجودہ حالات اور
اُس کے عرب دنیا پر اثرات کے بعد ایک بات تو واضح طور پر کہی جا سکتی ہے کہ
اب عرب دنیا سے امریکی و سامراجی غلبہ ختم ہونے کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے،
تیونس میں جو کچھ ہوا اُس نے باقی عرب دنیا کے عوام کو بھی بیدار کردیا
ہے،اِس بیداری کا اثر ہمسایہ عرب ممالک پر صاف دیکھا جاسکتا ہے،تیونس میں
حالیہ عوامی احتجاج کے بعد اردن اور یمن میں بھی عوامی احتجاج کی لہر ابھر
آئی ہے،اردن میں بھی عوام اُسی طرح مشکلات کا شکار ہیں جس کا تیونس کے عوام
کو سامنا تھا،یمن کے دارالحکومت صنعاء میں بھی ہزاروں کی تعداد میں طالب
علموں نے جلوس نکالا،جس میں عرب دنیا کے سربراہوں کے خلاف اور انقلاب کے حق
میں نعرے لگائے گئے،نوجوانوں کا کہنا تھا کہ عرب سربراہ دھوکے باز،بزدل اور
امریکہ کے غلام ہیں،اُن کو عرب عوام کے معاملات سے زیادہ امریکی مفاد کی
فکر رہتی ہے۔
یہ پرجوش طالبعلم اپنے حکمرانوں کو انتباہ کررہے ہیں کہ اب تمہاری رخصتی کا
وقت آگیا ہے،اگر خیریت چاہتے ہو تو شرافت سے رخصت ہوجاؤ،ورنہ ہم تمہیں نکال
باہر کریں گے،مصر کے بعد اردن کا عوامی مظاہروں کی زد میں آجانا یہ ظاہر
کرتا ہے کہ عرب دنیا بیدار ہو رہی ہے،عین ممکن ہے کہ اگلے چند روز میں عرب
دنیا کے باقی ممالک بھی اِس لہر کی ز د میں آجائیں اور پاکستان میں بھی اِس
کے اثرات دیکھنے کو ملیں،اگر ہمارے موجودہ حکمرانوں میں تاریخ سے سبق
سیکھنے کی کچھ بھی اہلیت ہوتی تو وہ دیکھ سکتے کہ تاریخ کے ورق ورق پر یہ
گواہی ثبت ہے کہ ایسے حکمراں ہمیشہ اپنے عوام کے عتاب کا نشانہ بنتے ہیں جو
عوام سے زیادہ اپنے بیرونی آقاؤں کے مفادات کی نگہبانی کرتے ہیں،آج تیونس
اور مصر کے عوام کا طرز عمل اِس بات کا گواہ ہے کہ جہاں احتساب و توازن کا
کوئی نظام نہیں ہوتا وہاں عوام سڑکوں پر نکل کر اِس کمی کو پورا کردیتے
ہیں،فلپائن میں مارکوس،ایران میں رضا شاہ پہلوی اور نیپال میں بادشاہت کی
رخصتی کے بعد پچھلے سال بدعنوانی،مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ آئے ہوئے
کرغیزستانی عوام کی بغاوت اِس کی روشن مثالیں ہیں۔
آج تیونس سے شروع ہونے والا احتجاجی طوفان شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے
بہت سے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے،تیونس میں عوامی شورش اور زین
العابدین بن علی کے فرار کے بعد احتجاجی مظاہروں کی شدت نے اِس وقت مصر کو
اپنے لپیٹ میں لیا ہوا ہے،قاہرہ سمیت کئی شہر فوج کے حوالے کردیے گئے
ہیں،لیکن کرفیو کے باوجود عوامی مظاہرے جاری ہیں، عوام ”گو مبارک گو“ کے
نعرے لگا رہے ہیں،صرف چند دنوں کے مظاہروں سے ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ
مصر میں حکومت مخالف تحریک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اور مصر کے
ناقابل شکست آمر حسنی مبارک کے اقتدار کا عنقریب خاتمہ ہونے والا ہے،مصر
میں بدلتے ہوئے حالات کو دیکھتے ہوئے امریکہ نے بھی اپنی روایت کے مطابق
اپنے چیلے حسنی مبارک سے آنکھیں پھیر لی ہیں اور اُسے ہری جھنڈی دکھا دی
ہے۔
دوسری طرف عرب دنیا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی عوامی بیداری امریکہ کے غلام
عرب حکمرانوں کے لئے درد سر بنی ہوئی ہے اور اس نے ان کی نیندیں حرام کردی
ہیں،تیونس سے چلنے والا یہ کارواں آنے والے دنوں میں مزید کن کن ممالک کو
اپنی لپیٹ میں لیتا ہے،یہ دیکھنا ابھی باقی ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ اِس
خطے میں سیاسی تبدیلیوں کا عمل شروع ہوچکا ہے اور آنے والے دنوں میں عوامی
بیداری کا یہ سلسلہ عرب دنیا میں ایک ایسی نئی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو
گا،جو عرب ممالک کی بادشاہتوں اور کئی عشروں سے قابض آمروں کے مستقبل کو
سوالیہ نشان بنا دے گا، تیونس کے غیور عوام نے ظلم وجبر کیخلاف انقلاب برپا
کر کے پوری دنیا کے جابر حکمرانوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ کوئی بھی حاکم
فوج اور مسلح اداروں کے بھروسے پر زیادہ دیر اپنی حکومت قائم نہیں رکھ
سکتا،حکومتوں کی بقاء کیلئے انصاف کی فراہمی اور عوامی حقوق کی پاسداری
لازمی امَر ہے،دیکھا جائے تو تیونس کے عوام کی بیداری اور مزاحمت امریکہ
نواز حکمرانوں کیلئے ایک کھلا پیغام ہے۔
یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ ہمیشہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں،جمہوری نظام
ہو یا بادشاہت،سب پر لازم ہے کہ وہ عوام کے مصائب و آلام کے تدارک کے لئے
عملی اقدام کریں،اِس وقت مسلم دنیا ہی نہیں دوسرے ترقی پذیر ممالک بھی
امریکہ بالادستی اور اُس کے توسیع پسندانہ عزائم کا شکار ہیں اور امریکہ
بہادر ہر ملک میں اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے اور اپنے مفادات کے حصول
کے لئے اُن کے حکمرانوں کی اِس طرح سرپرستی کرتا ہے کہ حکمران یہ یقین کرنے
لگتے ہیں جب امریکی سپر پاور اُن کے ساتھ ہے تو انہیں کس بات کا ڈر،امریکہ
کے ہوتے ہوئے کون انہیں مسند اقتدار سے ہٹاسکتا ہے۔
اِس خوش فہمی میں وہ یہ اہم بات بھی بھول جاتے ہیں کہ جب کسی امریکہ نواز
حکمران کی کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو سب سے پہلے اس کا مربیّ امریکہ نہ صرف اُس
سے آنکھیں پھیرتا ہے بلکہ اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد اُسے پناہ دینے سے
بھی انکار کردیتا ہے،تیونس اور مصر کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں،لہٰذا
تیونس کا عوامی انقلاب اور مصر، اردن، یمن، الجزائر اور سوڈان سمیت عرب
دنیا کے بپھرے ہوئے عوام،ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے غلام حکمرانوں کی
آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں،اگر اب بھی ہمارے حکمرانوں نے اصلاح احوال کی
کوئی موثر کوشش نہ کی،سیاسی کرتب بازی اور الفاظوں کی شعبدہ گری نہ چھوڑی
تو پاکستان کے دروازے پر دستک دیتا ہوا عوامی انقلاب اپنے ساتھ سب کچھ بہا
کر لے جائے گا۔ |