چند روز قبل لاہور کے انتہائی رش
والے علاقہ قرطبہ چوک، کہ جہاں چوبیس گھنٹے ٹریفک رواں دواں رہتی ہے، پر
ایک امریکی نے فائرنگ کر کے موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں کو جاں بحق
کردیا۔ ذرائع کے مطابق امریکی قاتل، جس کا نام بعد میں ریمنڈ ڈیوس معلوم
ہوا، اس نے نہ صرف دونوں موٹر سائیکل سواروں کو پیچھے سے نشانہ بنایا بلکہ
ایک زخمی پر گاڑی سے اتر کر اس کی موت یقینی بنانے کے لئے دوبارہ فائر کیا
اور اس کے بعد اپنے ویڈیو کیمرے سے ان کی فلم بھی بناتا رہا۔ یہ سارا واقعہ
چند منٹوں میں ہوگیا اور جب اس نے موقع واردات سے فرار ہونے کی کوشش کی تو
وہاں سارا ماجرا دیکھنے والے لوگوں کو ہوش آیا اور انہوں نے اسے فرار ہونے
کی اجازت نہ دی، قاتل اسی دوران اپنے وائرلیس سیٹ سے ”کسی“ کو وقوعہ کی
رپورٹ پہنچا چکا تھا چنانچہ آناً فاناً وہاں پر ایک بڑی گاڑی سے پہنچنے کی
کوشش کی جو ٹریفک کے رش کی وجہ سے جائے واردات پر پہنچنے میں ناکام رہی تو
اس نے ون وے کی خلاف ورزی کر کے قاتل تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس
دوران سامنے سے آنے والے ایک موٹر سائیکل سوار کو ٹکر مار دی اور
عبادالرحمان نامی وہ موٹر سائیکل سوار بھی موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔ عباد
الرحمان کو ٹکر مارنے والی گاڑی فوراً موقع سے غائب ہوگئی جبکہ دوسری طرف
عوام نے فائرنگ کرنے والے قاتل کو گھیرا ہوا تھا، پولیس کے پہنچنے پر بھی
اس نے اکڑ دکھانی بند نہ کی، اگر وہاں عوام کا جم غفیر موجود نہ ہوتا تو
یقیناً ہماری ”ماڑی اور ضعیف“ پولیس میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ اس
امریکی قاتل کو روک سکتی لیکن عوام کے جذبات اور موڈ کو دیکھتے ہوئے کسی
پولیس والے کو قاتل کو فرار کروانے کا موقع ہاتھ نہ آسکا کیونکہ جو پولیس
پاکستانی روپوں کی خاطر قتل کے ملزموں کو چھوڑ دیتی ہو اگر اسے ڈالروں سے
نوازا جاتا تو کس کافر کا دل ”ناں“ کرنے کو کرتا؟نتیجہ یہ نکلا کہ پولیس
اسے گھیر گھار کر لاہور کے تھانہ پرانی انارکلی تک لے گئی جہاں سے بعد ازاں
پولیس کے اعلیٰ عہدیدار ایک سیاہ شیشوں والی VIP گاڑی میں اسے کسی
”محفوظ“مقام تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل
گئی۔عوام اشتعال میں تھے چنانچہ سارے معاملہ کو ”ہائی جیک“ کرنے کا فوری
پروگرام بنا لیا گیا۔ میڈیا پر بھی پہلے تین گھنٹے صرف امریکی قاتل کا ذکر
ہوتا رہا جبکہ بعد ازاں ”اچانک“سٹوری کو ایک اور رنگ دینے کی کوشش کی جانے
لگی۔ کہا جانے لگا کہ دونوں موٹر سائیکل سوار ”مبینہ“ طور پر ڈاکو تھے اور
انہوں نے امریکی کو لوٹنے کی کوشش کی تھی نیز وہ امریکی ایک بنک سے کچھ رقم
ڈالروں کی صورت میں نکلوا کر آیا تھا جہاں سے مبینہ ڈاکو اس کے پیچھے لگ
گئے تھے۔ پولیس اور میڈیا کی ملی بھگت سے کاروائی کو آگے بڑھایا جانے لگا
لیکن عوامی دباﺅ اتنا شدید تھا کہ مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہوسکے اور بالآخر
پولیس کو نہ صرف دوہرے قتل کا مقدمہ امریکی کے خلاف درج کرنا پڑا بلکہ اس
باقاعدہ گرفتاری بھی ”ڈالنا“ پڑی، اگلے روز اسے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت
میں پیش کیا گیا جہاں سے پولیس نے اس کا چھ روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ملزم نے پولیس کو کسی قسم کا بیان دینے سے
انکار کردیا ہے اور ابھی تک امریکی قونصل خانے نے عبادلرحمان نامی شخص کے
قتل میں ملوث گاڑی اور ڈرائیور کو بھی پولیس کے حوالے نہیں کیا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کی خبر کے مطابق ایک سابق امریکی سفارتی سکیورٹی سروس کے ڈپٹی
چیف ”فریڈ برٹن“ کے بقول ایک ”انفارمر“ سے ملاقات کا ایک برا انجام ہوا اور
یہ ایک جاسوسی کا معاملہ تھا نہ کہ ڈکیتی یا کار چھیننے کا، آزاد ذرائع بھی
اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا امریکن ، ان کی کاسہ
لیس پاکستانی حکومت و سیاسی قیادت بیان کر رہی ہے، یہ ہرگز کوئی ڈکیتی کی
واردات نہیں تھی بلکہ موٹر سائیکل سواروں نے کوئی ایسی بات یا کاروائی
دیکھی تھی جس کو امریکن چھپانا چاہتے تھے، قاتل امریکی نے پہلے اپنی گاڑی
سے موٹر سائیکل سواروں کو دو بار سائیڈ مارنے کی کوشش کی لیکن سوئے اتفاق
سے وہ بچ گئے(سوئے اتفاق اس لئے کہ اگر موٹر سائیکل سوار مقتولین کو گاڑی
کی سائیڈ لگ جاتی تو شائد ان کی جانیں بچ جاتیں) جبکہ قرطبہ چوک پہنچ کر
انہوں نے اپنی موٹر سائیکل کو گاڑی کے آگے اس لئے کھڑا کیا تھا کہ وہ اس
امریکی سے پوچھ سکیں کہ وہ انہیں سائیڈ مارنے کی کوشش کیوں کررہا تھا، ایک
اور بات جو ملحوظ رکھی جانی چاہئے، وہ یہ ہے کہ قاتل نے مقتولین کو پیچھے
سے گولیاں ماری ہیں جبکہ کسی ڈکیت کو پیچھے سے ہرگز گولیاں نہیں لگتیں بلکہ
سامنے سے لگتی ہیں، البتہ جب جعلی پولیس مقابلہ کیا جاتا ہے تو گولیاں
پیچھے سے بھی مار دی جاتی ہیں۔ ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس
پاکستان سفارتی ویزے پر نہیں آیا اور وہ اصل میں امریکی خفیہ فوج کا اہلکار
ہے جو بلیک واٹر / زی کے لئے خفیہ سرگرمیاں سرانجام دے رہا ہے۔ امریکہ نے
قاتل کے لئے سفارتی استثنیٰ طلب کر لیا ہے اور کہا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو
سفارتی استثنیٰ حاصل ہے اور اسے گرفتار کرنا ”ویانا کنونشن“ کی خلاف ورزی
ہے۔ سفارتکاروں اور سفارتی عملہ کے متعلق امریکہ کے طرز عمل پر بعد میں بحث
کرتے ہیں، پہلے یہ دیکھا جائے کہ کیا واقعی ”ویانا کنونشن“ کے تحت ریمنڈ
ڈیوس کو استثنیٰ مل سکتا ہے۔ ویانا کنونشن کے آرٹیکل 37(2) کے تحت سفارتی
عملہ یا ان کے اہلخانہ (اگر وہ اس ملک کے رہائشی نہ ہوں جہاں سفارتکار
تعینات ہو) کو اس صرف اس صورت میں استثنیٰ مل سکتا ہے اگر وہ سفارتخانے/مشن
کی قانون کے مطابق آفیشل ڈیوٹی پر ہوں ، اگر کوئی سفارتکار یا اہلکار کسی
غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہو تو اس کے لئے کسی بھی حوالہ سے استثنیٰ کا
کوئی وجود نہیں ہے، جبکہ لاہور والے کیس میں نہ تو قاتل سفارتی ڈیوٹی پر
تھا، نہ اس نے پاکستانی حکام کو ایسی کوئی پیشگی اطلاع دی تھی اور نہ ہی
امریکہ اب تک اس کی ”مزنگ یاترا“ کی کوئی بھی توجیح پیش کرسکا ہے، ایسی
صورت میں جب قاتل نے ناجائز اسلحہ اپنے پاس رکھا اور ممنوعہ بور کے ناجائز
اسلحہ سے قتل جیسا گھناﺅنا جرم کر کے پاکستانی قوانین کی طاقت اور غرور کے
نشہ میں دھجیاں بکھیر دی ہوں، اس کے لئے قطعاً کسی قسم کا سفارتی استثنیٰ
موجود نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کا حقدار ہے۔ پاکستانی عدالتوں کو اس کے
ساتھ نہ صرف ایک جاسوس اور قاتل کے طور پر نمٹنا چاہئے بلکہ اسے اپنے
قوانین کے مطابق سخت سے سخت سزا بھی دینی چاہئے۔ جہاں تک تعلق ہے پاکستانی
حکومت یا سیاستدانوں کا تو اس سلسلہ میں پوری قوم جانتی ہے کہ پہلے تو
وفاقی وزیر داخلہ نے قاتل کو چھڑوانے کے لئے فون کیا اور بعد ازاں پنجاب
پولیس مقتولین کو ڈاکو ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے جبکہ
آزاد ذرائع اور کچھ میڈیا رپورٹس اس کے بالکل برعکس ہیں۔ مقتولین میں سے
ایک جس کے پاس اسلحہ موجود تھا اس کی کچھ لوگوں سے دشمنی چل رہی ہے اور اسی
دشمنی کے نتیجہ میں اس کا حقیقی بھائی بھی ڈیڑھ ماہ پہلے قتل ہوچکا ہے،
دونوں مقتولین اچھے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا کوئی سابقہ
ریکارڈ پولیس کے پاس موجود نہ ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق اب پنجاب پولیس پچھلی
تاریخوں میں مقتولین کے خلاف ڈکیتی کے جرائم میں پرچوں کے اندراج کی کوشش
کررہی ہے جو بذات خود ایک گھناﺅنا فعل ہے بلکہ کچھ لوگ تو یہاں تک کہہ رہے
ہیں کہ اس سلسلہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایک جیسی امریکہ نواز
پالیسی تیار کئے ہوئے ہیں اور پنجاب پولیس سابقہ تاریخوں میں کچھ پرچے درج
بھی کرچکی ہے اور مقتولین کو ڈاکو ثابت کرنے کا پورا انتظام و اہتمام کیا
جاچکا ہے اسی لئے وزیر اعظم، صدر اور نواز شریف کی جانب سے یہی کہا جارہا
ہے کہ معاملہ عدالت میں ہے اس لئے عدالت کے فیصلہ کا احترام کیا جائے گا،
کیونکہ ان لوگوں کو علم ہے کہ عدالت کا سارا دارومدار پولیس کی تفتیش پر
ہوگا اور اگر پولیس مقتولین کا کوئی سابقہ ریکارڈ پیش کرنے میں کامیاب
ہوگئی (جیسا کہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے) تو عدالت بھی قانون کے مطابق قاتل کو
ضمانت پر رہا کرنے پر مجبور ہوگی۔ یعنی مقتدر قوتیں دونوں پہلوﺅں پر نظر
رکھے ہوئے ہیں کہ اگر عوام کے غم و غصہ کی وجہ سے قاتل کو سفارتی استثنیٰ
نہ دیا جاسکا تو اسے پولیس کے ذریعہ بے گناہ ثابت کیا جاسکے۔
یہاں اس امر کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ کیا امریکہ نے آج تک کسی بھی
ملک کے سفارتکار کو کسی قسم کا استثنیٰ دیا، ان کے ساتھ ”ویانا کنونشن“ کے
مطابق سلوک کیا یا اپنے ملک کی عدالتوں میں کیس چلائے۔ اگر تاریخ پر نظر
ڈالیں تو ”ویانا کنونشن“ پر 24 اپریل 1963ء میں ویانا کے مقام پر اقوام
عالم نے دستخط کئے تھے جبکہ اس کے بعد 1997 میں جارجیا کے نائب سفیر
گریگوری مخاراٹزے کو ایک سڑک کے حادثہ کا مجرم قرار دیتے ہوئے امریکی عدالت
نے 21 سال کی سزا سنائی تھی، امریکی صدر بل کلنٹن نے جارجین نائب سفیر کو
کوئی استثنیٰ نہیں دیا تھا اور امریکی عدالت کو ”فری ہینڈ“ دیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم اپنی ایک دوست کے کیس
میں لوث ہوگئے تھے اور اس میں بھی امریکہ نے کسی قسم کے استثنیٰ سے صاف اور
کورا جواب دیدیا تھا جبکہ اس سے پہلے 1982ء میں شمالی کوریا کا ایک
سفارتکار نیویارک شہر کے باہر ریسٹ چیئر پارک میں ایک خاتون کو چھیڑ بیٹھا
تھا اور اس ”معمولی“ جرم میں وہ دس ماہ تک ملک کے ایک مشن میں پناہ گزین
رہا اور جرم کا اعتراف کر کے ملک چھوڑنے پر اس کی خلاصی ممکن ہوئی تھی۔
جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا کہ حکومت پاکستان بشمول پنجاب حکومت اس سلسلہ
میں قاتل کو آزاد کرنے کا پورا پورا ارادہ اور اہتمام کئے ہوئے ہیں جو ان
کی اپنے آقا کو خوش کرنے کی سعادت حاصل کرنے کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے،
یہاں پر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگا کہ
انہوں نے مقتولین کے لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور ملک کے طول و
عرض میں عوامی جذبات کو پیش کیا۔
امریکی دہشت گرد کا مقدمہ پاکستان کی آزاد عدالتوں کے لئے ایک ”ٹیسٹ کیس“
کی حیثیت رکھتا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں کتنا ”دباﺅ“ برداشت کرنے کی اہلیت
رکھتی ہیں جبکہ اس کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے لاہور ہائی کورٹ میں ایک
شہری کی جانب سے رٹ درخواست دائر کی گئی تھی جس میں عدالت عالیہ سے استدعا
کی گئی تھی کہ قتل میں ملوث امریکی خفیہ ایجنٹ کو ہرگز کوئی استثنیٰ نہ دیا
جائے اور نہ ہی اسے ہائی کورٹ کی حدود سے باہر لیجانے کی اجازت دی جائے جس
پر چیف جسٹس ہائی کورٹ جناب جسٹس اعجاز چودھری نے عمومی طور پر دیا جانے
والا ”ریلیف“ بھی ابھی تک نہیں دیا اور صرف وفاقی اور صوبائی حکومت کو نوٹس
جاری کرنے پر اکتفا کیا۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ اس کیس
میں کتنی ”آزادی“ اور ”بہادری“کا مظاہرہ کرتی ہے کیونکہ حکومت استثنیٰ کا
فیصلہ عدلیہ کے کندھوں پر رکھ کر کرنا چاہتی ہے۔ پورے ملک کے عوام کی عدلیہ
سے استدعا ہے قاتل کو کسی قسم کا کوئی استثنیٰ نہ دیا جائے اور نہ ہی پولیس
کو اس بات کی اجازت دی جائے کہ وہ اپنی روائتی ہتھکنڈوں سے مقتولین کو ڈاکو
ثابت کرسکے۔ اس سلسلہ میں وقوعہ کے اگلے روز دو ڈاکٹروں کی جانب مقتولین کے
خلاف ڈکیتی کے اقدام کے جرم میں ایف آئی آر کے اندراج کی درخواست کو بھی
ضرور سامنے رکھنا چاہئے (ویسے ابھی تک پولیس نے میڈیا کو ایسی کوئی درخواست
نہیں دکھائی جس سے معاملہ اور زیادہ مشکوک ثابت ہوجاتا ہے) اور ان دونوں
ڈاکٹروں کے متعلق بھی آزاد انکوائری ہونی چاہئے کہ کیا انہوں نے اس سلسلہ
میں کوئی نقد رقم حاصل کی ہے یا ان سے امریکہ لیجانے یا نیشنلٹی کا وعدہ
کیا گیا ہے؟ اور یہ کہ کیا انہوں نے یا ان کے اہل خانہ میں سے کسی نے کبھی
امریکی ویزے کے لئے درخواست تو نہیں دی تاکہ ان کے کردار کا بھی پتہ چل
سکے۔ امریکی بلیک واٹر تنظیم کے کمانڈو کی دہشت گردی کے خلاف لاہور کے عوام
تین فروری کو ایک احتجاجی ریلی کا بھی اہتمام کررہے ہیں جو مزنگ سے امریکن
قونصلیٹ آفس تک جائے گی، محب وطن لوگوں کو اس ریلی میں بھرپور شرکت کرنی
چاہئے تاکہ حکومت، پولیس اور عدلیہ سمیت کسی بھی ادارہ کو قانون سے
روگردانی کی جرات اور حوصلہ نہ ہوسکے۔ اگر حکومت نے اپنی پالیسی اور ارادہ
کے مطابق امریکی دہشت گرد کو سفارتی استثنیٰ یا کسی عدالتی و قانونی
موشگافی کا سہارا لے کر چھوڑ دیا اور امریکہ بھیج دیا تو سمجھ لیں کہ مصر،
تیونس اور اردن والی لہر جو ابھی کچھ عرصہ بعد سعودی عرب کے راستہ پاکستان
پہنچنے والی تھی، وہ فوراً پہنچ جائے گی اور یقین رکھیں کہ وہ صرف حکومت کے
خلاف مہنگائی، کرپشن، بے روزگاری، اقرباء پروری اور عدم انصاف جیسے مسائل
کی وجہ سے نہیں ہوگی بلکہ اس کی واحد وجہ اس ملک سے امریکی اثر کا خاتمہ
اور اس کے غلاموں سے نجات ہوگی اور حکومت و اپوزیشن سمیت کوئی بھی اس طوفان
کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، کیونکہ یہ سب تو خود ”کانے“ ہیں....! |