دانش بہت دین دار ،باخلاق اوراچھی طبیعت رکھنے والا فرد
تھا۔وہ چھوٹا بڑا ہرکام شروع کرنے سے پہلے مسنون دعائیں پڑھتا اور معاملہ
اللہ رب العزت کے سپرد کردیتا۔ وہ بہت زیادہ راسخ العقیدہ تھا اورباعمل
مسلمان تھا۔
وہ ہمہ وقت اپنے رب کو یاد کرنے کی کوشش کرتا حتی کہ دوران سفر چلتے چلتے
بھی قرآن کی تلاوت میں مشغول رہنے کی کوشش کرتاہے۔لیکن اس کی کوتاہ فہمی
اوراسلامی تعلیمات سے صحیح معانی میں ناشناسی کے باعث اس میں ایک خرابی
پیدا ہوگئی تھی کہ وہ سمجھتا اب میں نے مسنون دعا پڑھ لی ہے اورتمام
معاملات اپنے رب کو تفویض کردیئے ہیں جو بہترین کارساز اورخیر الحافظین ہے
اب میں کچھ بھی کروں مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔مثلاً جب وہ گھر سے
نکلتا توگھر سے نکلنے کی دعا پڑھ لیتا،سواری کی دعا پڑھ لیتا ہر جگہ ،ہروقت
رب کو یاد کرنےکے بعد وہ ہرطرح کے خطرات میں بے خطر کودپڑتا۔ حتی کہ سامنے
سے تیزرفتار گاڑیوں کوآتادیکھ کر بھی اپنی گاڑی کی رفتار نہ دھیمی کرتا
اورنہ ہی انتظاربلکہ یہ جا وہ جا کہ فارمولہ پر عامل رہتا۔
ایک دفعہ وہ اپنی اسی بے احتیاطی کی وجہ سے سگنل بند ہونے کے باوجود آگے
بڑھا ۔جس کے نتیجے میں ایک سنگین حادثہ پیش آیا جس میں اگرچہ اسے کوئی
نقصان نہ پہنچا لیکن اس کا مخالف اس کو بچاتے ہوئے دوسری گاڑی سے ٹکراگیا
جس کی وجہ سے دوسرے دونوں افراد کو نقصان پہنچا۔ حالانکہ غلطی سراسر اس کی
تھی یعنی اس کی غلطی کا خمیازہ دوسروں کوبھگتنا پڑا اوراس کی وجہ سے ایک
ایکسیڈنٹ ہوا ۔
ٹریفک پولیس نے اس موقع پر اسے روکا اور اس سے ڈرائیونگ لائسنس اورگاڑی کے
دیگر کاغذات مانگے۔ اس کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔
ٹریفک پولیس نے اس سے کہا ڈرائیونگ لائسنس تمہارے پاس نہیں،ہیلمٹ تم نے
نہیں پہنا،سگنل تم نے توڑا،یعنی شروع سے آخر تک مکمل قانون کی خلاف ورزی تم
کررہے ہو آخر کیوں؟
وہیں ایک بزرگ بھی موجود تھے ۔انہوں نے اس سے نام دریافت کیا۔
اس نے کہا "دانش"۔
کہا بیٹا آپ کے نام "دانش" کا مطلب "عقل" ہے۔یعنی جس شخص میں دانش پائی
جائے گی تو وہ دانشور یا دانشمندکہلائے گا۔ لیکن آپ کا کردار اسی دانش مندی
کی سراسرنفی کررہا ہے۔کیونکہ اس قدربے ہنگم بائیک چلانا،لاپرواہی کا مظاہرہ
کرنا اور قانون کی اتنی خلاف ورزی کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟کیوں اپنی
اوردوسروں کی جان کے دشمن ہوئے ہو؟
دانش: نے مسکراتے ہوئے بزرگ کی جانب دیکھا اورکہا دنیا میں کسی اورکوجواب
دہ نہیں میں صرف اورصرف اپنے رب کو جوابدہ ہوں۔پھر اس نے منیر نیازی کا یہ
شعر پڑھ ڈالا:
کسی کواپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیادیتے
بزرگ نے اس شعر کوسنے ان سنے کرتے ہوئے اب کی بار کچھ بارعب اور گھمبیر
آواز میں کہا میں نے کچھ پوچھاتھا:
اس دفعہ دانش بزرگ کے لہجے کچھ ایسا تاثر تھا کہ دانش قدرے مرعوب ہوگیاا
اوریوں کہا: میں اپنی جان رب کے سپرد کرکے نکلتا ہے۔میں صبح وشام کی تمام
دعائیں اور دیگر تمام چھوٹے بڑے امور سے متعلق دعائیں پڑھ کراورخود کورب کے
حوالے کرکے نکلتاہوں۔ان دعاؤں کو پڑھنے کے بعدمیرے اندر ایک خاص قسم کی
طاقت وقوت بھرجاتی ہے اوراگر میں کہوں کہ یہ خاک کا پتلا فولادی مجسمہ بن
جاتاہے تو غلط نہ ہوگا۔نیزمجھے اپنے رب پر کامل بھروسہ ہے کہ وہ میری مکمل
حفاظت کرے گا اور مجھے کچھ نقصان نہ ہوگا۔بلکہ میراایمان ہے کہ ہرمؤمن
کوہمہ وقت اسی ایمانی کیفیت سے معمور ہونا چاہئے، ان سب کی حفاظت بھی رب
فرمائے گا۔
وہ بزرگ نہایت ہی سمجھدار ،جہاندیدہ اورمعرفت رکھنے والے تھے۔ وہ اس کے ذہن
کو پڑھنے میں کامیاب ہوگئے ۔ وہ ایمان،تقویٰ ،توکل اور اس کی بنیادوں کو
بھی جانتے تھے اورایسے مزاج والے افرادسے بھی آشنا تھے ۔اب کی بار وہ
مسکرائے اورگویاہوئے۔
ہوں، تو یہ بات ہے؟ اب نوجوان قدرے حیرت زدہ ہوکر بزرگ کی جانب دیکھنے لگا
اورپھر ان سے کہنے لگا :میں نے کچھ غلط تو نہیں کہا کہ ایمان ایک بہت بڑی
قوت اورطاقت ہے ؟ بزرگ اس کے سوال کونظرانداز کرتے ہوئے بولے بیٹا یہ بات
تو صحیح ہے کہ ایمان ایک بہت بڑی طاقت ہے اورحفاظت کرنے والا رب ہے لیکن
کیا ہمیں حق پہنچتا ہے کہ ہم رب کا امتحان لیں؟ہم اس کی آزمائش کریں؟ ہم
دعا پڑھ کر زہرکھالیں یا پہاڑ سے کود جائیں کہ اب رب مجھے ضروربچائے گا۔
اس نے کہا کہ تاریخ میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ
عنہ نے عمداًاللہ کا نام لے کر زہر کھالیا اوراس زہر نے ان پر قطعاً کوئی
اثر نہ کیا۔
دیکھو بیٹا قرآن وحدیث کی رو سے توکل علی اللہ کا یہ مطلب ہرگز نہیں نکلتا
جو ہم اپنی جہالت کی وجہ سے سمجھتے ہیں۔ توکُّل‘‘ دراصل ایک باطنی کیفیت ہے
جو قلب میں پیدا ہوتی ہے ۔ یہ ظاہری اسباب چھوڑنے کا نام نہیں بلکہ ان تمام
اسباب کواختیار کرنے اوربہترین حکمت عملی اپنانے کے بعد رب پر بھروسہ کرنے
کا نام ہے۔ اسباب کواختیارکرنا توامر لازم ہے مگر ان تمام اسباب اوربہترین
حکمت عملی کے باوجود کامیاب کرنے والی ذات صرف رب کی ہے۔لیکن اگرکبھی کسی
کے جبر کرنے پر(مظلوماً) یا اپنی کسی خاص حکمت عملی یا کسی تبلیغی مشن یا
کسی بڑے مقصد کے حصول کی خاطر کوئی صاحب ایمان وتقویٰ شخص توکل علی اللہ
کرتے ہوئے اپنی جان خطرے میں ڈالتاہے تو پھر رب ضرور حفاظت بھی کرے گا
اورایساکرنے والے کو سرخرو بھی ۔جیسا کہ تم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ
عنہ کی مثال دی ۔
اس کا مکمل واقعہ کچھ یوں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں حضرت
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کفار اورعیسائی سلطنتوں کو پے درپے شکستیں دیتے
رہے لیکن ایک شہر حیرہ کی فتح کا معاملہ کچھ طول پکڑگیا ۔ہوایوں کہ حضرت
خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شہر کے سب قلعوں کو چاروں طرف سے
محصور کرلیا اور کئی دنوں تک قلعوں کامحاصرہ کئے رکھا اور جنگ سے گریز کیا
کہ شاید یہ لوگ حالات سے تنگ آکر ہتھیارڈال دیں یا پھر راہ راست پر آجائیں
لیکن جب قلعہ کے اندرکسی قسم کے کوئی آثار نہ دیکھے تو حضرت خالدؓ شہر پر
حملہ آور ہوئے اورآپ نے قلعوں کی فصیلوں سے دشمن کو پیچھے دھکیلتے ہوئے اہم
فصیلوں پراپنے دستے تعینات کردیئے ۔مسلمانوں کو غالب آتے دیکھ کر ایک شخص
عمرو بن عبدالمسیح جو کہ بہت ضعیف اورطویل العمر تھا، اپنے قلعہ سے باہر
آیا۔ مسلمان اسے اپنے سپہ سالار حضرت خالدبن ولیدؓ کی خدمت میں لے آئے ۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے ہاتھ میں ایک زہر کی پڑیا
دیکھی۔ اس پر حضرت خالدؓ نے پوچھا”یہ کیا ہے۔اس نے جواب دیا :"مہلک زہر" آپ
رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسے ساتھ کیوں لائے ہو؟“
اس نے کہا ”اس خیال سے کہ اگر تم نے میری قوم کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا تو
میں اسے کھا کر مرجاؤں اور اپنی قوم کی ذلت و تباہی نہ دیکھوں“
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے کہا” موت کا ایک وقت مقرر
ہے اوروقت مقررہ سے قبل کوئی نہیں مرتا اگر موت کا وقت نہ آیا ہو تو زہر
بھی اپنا کچھ اثر نہیں کرسکتا“
بوڑھا پادری بولا :اگرتمہارا یہ یقین ہے تو ،لوپھر یہ زہرکھالو۔
حضرت خالد نے اس پڑیا سے زہر نکال کر اپنی ہتھیلی پر رکھا اور یہ کلمات ادا
کرکے" بسم اللہ خیر السماء رب الارض والسماءالذی لایمرمع اسمہ داءالرحمن
الرحیم"وہ زہر پھانک لیا۔ اوپر سے پانی پی لیا۔بوڑھے پادری کو مکمل یقین
تھا کہ چندلمحوں میں آپ موت کی آغوش میں چلے جائیں گے مگر اس کی حیرت کی
انتہاء نہ رہی جب چند منٹ آپ کے بدن پر پسینہ آنے کے سوا اس زہر نے آپ پر
کوئی برااثرنہ ڈالا۔اس کے بعد حضرت خالد رضی اللہ عنہ اس سے مخاطب ہوئے کہ
دیکھا اگرموت نہ آئی ہوتو زہرکچھ نہیں بگاڑتا۔ اس بوڑھے کافر نے یہ ایمانی
کیفیت خدا پر بھروسہ دیکھا تو ششدر رہ گیا۔(کہا جاتا ہے کہ وہ اوروہاں
موجود بہت سے عیسائیوں نے اسلام قبول کرلیا۔)
اس کے بعد پادری اٹھ کر قلعہ کی طرف بھاگا اورقلعہ میں جاکر کہنے لگا اے
لوگو میں ایسی قوم سے مل کرآیاہوں خداتعالیٰ کی قسم! وہ مرنے سے آشنا نہیں
انہیں تو صرف مارنا ہی آتا ہے ۔اگراتنا پانی میں ملاکرہم سب اہل قلعہ کھاتے
تویقیناً مرجاتے مگر یہ آدمی مرنا تو درکنار بے ہوش تک نہ ہوا۔میری مانو
تولڑے بغیر ہتھیار ڈال دو اور قلعہ اس کے حوالے کردو۔چنانچہ وہ قلعہ بغیر
لڑائی کے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی قوت ایمانی سے فتح ہوگیا۔(یہ واقعہ تو
یہاں تمام ہوا )
اچھا اب آتے ہیں تمہارے رویہ کی جانب ۔ اگر انسان کے سامنے اس طرح کا کوئی
مقصد نہ ہو توخواہ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی،کسی فرد یا قوم کو اپنے
ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہیں ڈالنا چاہئے۔ہمارے لئے بہترین اورکامل ترین
اسوہ حضور ﷺ کا اسوہ حسنہ ہے جس پر عمل کرنا چاہئے۔آپﷺ کی زندگی کا
اگرمطالعہ کیا جائے تو ہمیں حالات وکیفیات کی مناسبت سے
حکمت،تدبیر،مصالحت،احتیاط جیسی صفات بھی بدرجہ اتم ملتی ہیں۔
اب تم اپنا رویہ دیکھو یہاں نہ تم پر کسی قسم کا جبر ہے اور نہ ہی اس طرح
کا کوئی عظیم مقصد سامنے ہے۔ جب ایسا نہیں، تو اپنی جہالت، ذاتی سستی ،
لاپروائی ،کاہلی،بد انتظامی، لاابالی پن کو اس عظیم مشن سے ملانا زیادتی
ہے۔ مثلاً تم نے ڈرائیونگ لائسنس نہیں بنوایا،ہیلمٹ نہیں پہنا،سگنل خود
توڑا،اس طرح کی دیگر پے درپے اورفاش غلطیاں یہ ان ہی بیان کی گئی کوتاہیوں
سے متعلق ہیں۔اوربیٹا ماشاء اللہ آپ دینی ذہن رکھنے والے ہیں۔آپ پر تو یہ
ذمہ داری دوسروں کی بنسبت زیادہ عائد ہوتی ہے آپ کو توبہت زیادہ محتاط اور
خبرداررہنا پڑے گا۔ دیکھو سفید کپڑے پر معمولی داغ بھی بہت نمایاں محسوس
ہوتا ہے جب کہ سیاہ یا میلے کپڑے پر مزید ایک داغ بھی کچھ حیثیت نہیں
رکھتا۔آج کے دور میں لوگ دینی رجحان اورذہن رکھنے والے افراد (بالخصوص
علماء کرام) پر انتہائی محدب عدسہ کی مدد سے تنقیدی نگاہ ڈالتے ہیں کہ کچھ
برائی ملیں تاکہ ان پر کیچڑ اچھالاجاسکے اور انہیں مطعون کیاجاسکے ۔اس لئے
آپ کو زیادہ محتاط ہونا پڑے گا،اس بات کا آئندہ خیال رکھیں۔بیٹا آپ شاعری
سے بھی شغف رکھتے ہیں اس لئے " توکل" کے موضوع پرمولانا ظفر علی خان کا یہ
شعر تو آپ کے ذہن میں ہوگا:
توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
نتیجہ اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر
خواہ کوئی کام(عظیم مقاصد کا حصول) کرنا ہو یا اس(حادثات اورناکامی) سے
بچنا ہو دونوں صورتوں میں اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ انسان ممکنہ طور پر تمام
ذرائع واسباب اختیار کرے،بہترین حکمت عملی اختیار کرے،پھر حتی المقدور
انتہائی محنت،جانفشانی،تندہی اورتلاطم خیز جذبات سے ان میں رنگ بھرنے کے
بعد نتیجہ اللہ رب العزت پر چھوڑ دے۔لیکن ایسا نہ کرے کہ ابتداء میں ہی
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرفرداں رہے۔اورپھر اپنی ناکامی کا رونا روتا
رہے۔بقول شاعر
کتنے معصوم ہیں انساں کہ جل جاتے ہیں
اپنی کوتاہی کودے کر غم وآلام کانام
دانش اس بزرگ سے بہت متاثر ہوا اوران سے عرض کرنے لگا حضرت آپ نے میری
آنکھوں سے جہالت کا پردہ اٹھا دیا ہے۔ آج ایمان،تقویٰ اورتوکل کی جووضاحت
آپ نے کی ہے وہ واقعی زیادہ موثر اور دل بدلنے والی ہے۔ میں آپ کا شکرگزار
ہوں کہ آپ نے میری صحیح رہنمائی فرمائی۔ یہ چھوٹا سا حادثہ جو ابتداء
ناگوار تھا زحمت کے بھیس میں رحمت(Blessing in disguise) ثابت ہوا۔ اللہ رب
العزت ہمیں دینِ اسلام سمجھنے اوراس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین
|