رائٹ پرسن فار رائٹ جاب

وزیر اعظم عمران خان کی سینئر صحافیوں کے ساتھ بیٹھک میں اداروں کی مضبوطی کا متعدد بار ذکر ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جو ممالک ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں وہاں مضبوط ادارے کام کر رہے ہیں ، یعنی ملکوں کی ترقی میں مضبوط اداروں کا کردار مسلمہ ہے۔ کہتے ہیں کہ جن دنوں قائداعظم محمد علی جناح علالت کے باعث زیارت میں مقیم تھے تو وہاں اُن کی خدمت پر صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والی نرس تعینات تھی۔ ایک دن قائد اعظم نے اس سے ازراہ ہمدردی پوچھا۔ ’’ بیٹی ! آپ میری بہت خدمت کرتی ہیں۔ کیا میں بھی آپ کی کوئی خدمت کر سکتا ہوں ‘‘۔ نرس نے کہا کہ وہ صوبہ بلوچستان میں اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے جب کہ اُن کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے۔ اگر اُن کا تبادلہ اپنے صوبے کر دیا جائے تووہ نہایت مشکور ہوں گی۔ قائد اعظم نے اس کی خواہش کے جواب میں کہا۔ ’’ بیٹی ! میں آپ کا تبادلہ نہیں کر سکتا ہوں کیوں کہ یہ کام محکمہ صحت سے تعلق رکھتا ہے ‘‘۔ یقینا خاتون نرس بانی پاکستان اور پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کے اس انکار سے ناراض ہوئی ہوں گی لیکن قائد کو محکمہ صحت کے ادارے کی مضبوطی کا خیال تھا اور اداروں میں مداخلت کا قائل نہ تھا۔ حالاں کہ بظاہر دیکھا جائے تو یہ ایک معمولی نوعیت کا کام تھا اور اُن کی چند الفاظ پر مشتمل ایک چھوٹی سی چیٹ نرس کا تبادلہ کر سکتی تھی لیکن انہیں اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال اور اداروں میں بے جا مداخلت پسند نہ تھی ۔ قائد کوئی ایسی غلط مثال قائم نہیں کرنا چاہتے تھے کہ آنے والے وقتوں میں دوسرے اُن کی پیروی کریں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں بڑی عمدہ مثالیں آنے والے حکمرانوں کے چھوڑی ہیں لیکن ہم نے اداروں میں بے جا مداخلت سے قائد کے اُصولوں کو اپنے پاؤں تلے روندھ ڈالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ادارے کمزور ہیں اور ہم بحیثیت قوم ترقی کے مخالف سمت جا رہے ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کو متعدد بار یہ بات دہرانا پڑی کہ اداروں کو مضبوط بنایا جائے گا۔ مجھے وزیراعظم کی یہ بات نہایت اچھی لگی لیکن انہوں نے زلفی بخاری کی تعیناتی پر چیف جسٹس کے ریمارکس پر دکھ کا اظہار کیا۔ البتہ انہیں ناراضگی کی بجائے وہ وجوہات بتانی چاہیے تھی کہ جن کی بنا ء پر اُن کی تعیناتی عمل میں لائی گئی۔

ہمارے ملک میں اداروں کی بدحالی اور کمزوری کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ جن میں رائٹ پرسن فار رائٹ جاب سرفہرست ہے۔ کہنے کو تو ہمارے ہاں ہر شعبے میں باصلاحیت اور ہنرمند لوگوں موجود ہیں لیکن بد قسمتی سے ایسے لوگ اپنے جائز مقام پر فائز نہیں ہیں۔ ان کی جگہ رانگ پرسن نے سنبھالی ہوئی ہے۔ درحقیقت ہمارے پاس کوئی ایسا معیار اور میکنزم نہیں ہے کہ رائٹ پرسن خود کار طریقے سے رائٹ جگہ پر تعینات ہو جائے۔ شعبہ تعلیم کی مثال لے لیں۔ ایک استاد پرائمری سکول میں بھرتی ہوجاتا ہے۔ وہ ترقی کرتے کرتے ہیڈ ماسٹر کی پوسٹ پر پہنچ جاتا ہے جو کہ خالصتاً انتظامی پوسٹ ہوتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ وہ استاد فرض شناس نہیں ہے یا وہ وسیع تجربے کا حامل نہیں ہے۔ مگر تدریس اور انتظامی اُمور چلانے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک اچھا استاد ‘ ایک اچھا انتظامی اُمور کا ماہر بھی ہوگا۔ پس معیار اور میکنزم کی کمی کی وجہ سے ہمارا ایک اچھا استاد ‘ایک کمزو ر منتظم بن جاتا ہے کیوں کہ اُس کو بجٹ ، پی سی ون اور سکول مینجمنٹ اور آرگنایزیشن سے زندگی بھر واسطہ نہیں پڑا ہوتا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ اس پوسٹ تک پہنچتے پہنچتے اپنی ریٹائرمنٹ کے بالکل قریب پہنچ چکا ہو تا ہے۔ پس وہ احتیاط سے کام لیتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ سکول کو دیا گیا بجٹ( آڈٹ کے خوف و ڈر سے ) کسی طور پر استعمال نہ ہو۔ سکول کی سطح سے ذرا اوپر ضلعی تعلیمی دفاتر کو دیکھیں جہاں آپ کو شاذ ونادر افیسر انتظامی کیڈر کے ملیں گے۔ واضح رہے صوبہ خیبر پختون خوا میں اے این پی کے دور حکومت میں ابتدائی و ثانوی تعلیم کے اندر تدریس اور انتظامی کیڈر الگ الگ کیے گئے تھے لیکن بعد میں ایسے مسائل پیدا ہوئے کہ حکومت کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ گزشتہ روز صوبہ خیبرپختون خوا کے ضلعی تعلیمی افسران کی فہرست نظروں سے گزری ، قریباً تمام اضلاع میں انتظامی پوسٹوں پر تدریسی عملہ تعینات تھا۔ جب تک یہ دونوں کیڈر جدا نہ ہوں گے اُس وقت تک سیاسی مداخلت ، من پسندی اور اقرباپروری کے سہاروں سے ان پوسٹوں پر تعیناتی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اور اداروں کی مضبوطی خواہشات کی فہرست میں شامل رہے گی۔ اَب ذرا ضلعی سطح سے اوپر صوبائی ڈائریکٹوریٹ کا جائزہ لیں وہاں بھی یہی حال نظر آئے گا۔

تعلیم سے ہٹ کے محکمہ صحت کی بات کی جائے تو وہاں ایڈمن پوسٹوں پر سرجن ڈاکٹر تعینات ملیں گے جن کو آپریشن تھیٹروں میں ہونا چاہیے تھا۔ یہی حال ہمارے عدالتی نظام کا بھی تھا لیکن انہوں اصلاحات کے ذریعے ضلعی سطح پر موجود عدالتوں میں سینئر سول جج (ایڈمن ) تعینات کر دیئے ہیں جن کا کام صرف و صرف انتظامی اُمور ہوگا۔ پس اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ادارے مضبوط و مستحکم ہوں تو ہمیں رائٹ پرسن فار رائٹ جاب کی پالیسی اپنانا ہو گی بصورت دیگر رانگ پرسن ایٹ رانگ پلیس نظر آئیں گے۔
 

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 226 Articles with 301562 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.