جنگ اور امن ساتھ ساتھ رہتے ہیں، ہمیشہ جنگ میں امن کی
امید اور امن میں جنگ کا خطرہ رہتا ہے،امریکی صدر نےہمارے وزیراعظم کو خط
لکھا تو ہم پھولے نہیں سمائے، چونکہ ہم نے صلیبی جنگوں سےکچھ نہیں سیکھا
لیکن ہمارے دشمنوں نے صلیبی جنگوں کے بعد عسکری میدان کے علاوہ اقتصادی، و
سیاسی نیز ثقافتی میدان میں بھی ہمیں اتنا کمزور کردیا ہے کہ اب ہم دوسرے
ممالک سے اپنے تعلقات کی نوعیت کو ہی نہیں جانتے۔
آج ہماری حالت بھی ایسی ہے کہ ہم ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں، فرقوں میں تقسیم
ہیں اور پارٹیوں میں منقسم ہیں، ہمیں ذہنی طور پر ایسا مغلوب کیا گیا ہے کہ
ہمارے نزدیک امریکہ و یورپ میں ہر چیز ترقی یافتہ ہے اور وہاں پر رہنے والے
لوگ، انسانِ کامل ہیں جبکہ باقی دنیا میں ہر چیز ترقی پذیر ہے اور باقی
دنیا کے رہنے والے لوگ، انسانِ ناقص ہیں۔لہذا باقی دنیا کے انسانوں کو
چاہیے کہ وہ اخلاق و رسوم و آداب نیز سیاست و حکومت میں امریکہ و مغربی
ممالک کی تقلید کریں۔
اس ذہنی شکست اور مغلوبیت کانتیجہ یہ ہے کہ اگر آپ ایک سوئی کے اوپر بھی
میڈ ان امریکہ کندہ کروادیں تو لوگوں کے نزدیک اس سوئی کی قدرو قیمت بڑھ
جائے گی۔
یوں توامریکہ ومغرب کی ساری تاریخ ہی ظلم و ستم سے رقم ہے۔ لیکن ہم آپ کو
زیادہ دور نہیں لے جاتے بلکہ اپنے ہی دور میں یعنی ۲۰۰۳اور ۲۰۰۱میں ابوغریب
اور گوانتا نامو جیل کا دورہ کراتےہیں، ان جیلوں میں انہوں نے جنگی قیدیوں
پرجو مظالم کے پہاڑ توڑے ، انہی کا مطالعہ کر کے دیکھ لیجئے، انسان کا
انسان پر اتنا ظلم، اتنی شقاوت اور ایسے شکنجے کہ جن کا احسا س کر کے ہی
انسان کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انسان کے دل سے بے ساختہ یہ آواز
نکلتی ہے کہ یہ ظالم، وحشی اور درندے جو کسی اخلاق اور قانون کے پابند نہیں
یہ نہ صرف یہ کہ انسان کہلانے کے حقدار نہیں، بلکہ انسانیت کے دامن پر
بدنما داغ ہیں۔
ان کا اخلاق ہی وحشت و بربریت ہے اور ان کی سیاست ہی دھونس ہے، انہیں جہاں
بھی کوئی فائدہ نظر آیا یہ بغیر کسی اخلاقی و قانونی رعایت کے وہاں گھس
گئے، انہوں نے ہمارے دور میں ہی عراق ، شام اورافغانستان کے باسیوں پر جو
ظلم کر سکتے تھے وہ کئے اور اس وقت عرب ریاستوں کو اسرائیل کے ہاتھوں دبا
رکھا ہے جبکہ ایران کے خلاف جو حربہ ان کے اختیار میں ہے وہ استعمال کئے جا
رہے ہیں۔
یہ استعماری ممالک صرف طاقت کی زبان استعمال کرتے ہیں اور طاقت کے زور پر
دوسروں کی اہانت اور توہین کرنا ان کا اخلاق ہے۔ آج امریکہ میں جتنے بھی
سیاہ رنگ کے افریقی نظر آتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہیں یورپی ممالک نے
افریقہ سے بعنوان غلام زبردستی امریکہ لاکر فروخت کیا تھا۔
انہوں نے افریقہ کی دولت کو لوٹا، خاندانوں کو تباہ کیا، بچوں کو والدین سے
جدا کیا اور جوانوں کو غلام بنا کر امریکہ میں لاکر بیچ دیا۔ یہ کسی اور نے
نہیں کیا بلکہ انہوں نے کیا جو اپنے آپ کو انسانیت اور جمہوریت کا
علمبردار اور انسانِ کامل کہتے ہیں۔ آج بھی ان کا دوسری اقوام کے ساتھ یہی
رویہ ہے۔
آج ہم اپنے ملک میں بھی دیکھتے ہیں کہ لوگ غلاموں کی طرح ماورائےقانون
لاپتہ ہوجاتے ہیں اور بغیر کسی عدالتی کارروائی کے انھیں پھینک دیاجاتا ہے،
سول شہریوں کو اس طرح ستانا اور آزار دینا یہ اسلامی اخلاق اور اسلامی
قانون نہیں بلکہ امریکہ ومغرب کی نقالی ہے۔
استکبار و استعماراپنے مفاد کے علاوہ کسی دوسری چیز کا قائل نہیں ، اس کے
نزدیک امریکہ وسعودی عرب و ایران اور پاکستان کابھی کوئی فرق نہیں، اگر آپ
اسے ایک مسئلے میں یس سر کہیں گے تو وہ آپکا شکریہ ادا نہیں کرے گابلکہ
آپ سے سر کو جھکانے کامطالبہ کرے گا، جب آپ سر جھکا دیں گے تو آپ سے
سجدہ کروائے گا ، جب آپ سجدہ کرلیں گے تو آپ کے سر پر قدم رکھ کرتصویریں
بنوائے گا اور دنیا میں نشر کروائے گا۔
آپ سعودی عرب کودیکھ لیں، آج سعودی عرب کی یہی حالت ہے، جو ملک جتنا بھی
امریکہ و یورپ کے قدموں میں گرتا جائے گا اس کی عزت و آبرو اور شرف و حمیت
پائمال ہوتی جائے گی۔
ہمارے حکمران مانیں یا نہ مانیں لیکن بحیثیت قوم، ہم مسلمان اور پاکستانی
حالتِ جنگ میں ہیں، ہمارا دشمن ہماری کمزوریوں سے آگاہ ہے اور وہ ہمارے
سیاستدانوں کی ڈوریوں کو ہلانا بھی جانتا ہے۔
اگرچہ سفارتی ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے امریکی صدر کا خط وزارت خارجہ کو
دے کر جواب تیار کرنے کی ہدایت کردی ہے۔لیکن فقط حکومتی سطح پر اس خط
کاجواب دیا جانا کافی نہیں بلکہ ہر منبر، ہر قلم، اور ہر سطح سے ہمیں
بحیثیت قوم اس خط کا جواب دینا چاہیے اور امریکہ و یورپ کے ساتھ تعلقات کے
بارے میں تاریخی و زمینی حقائق پر مشتمل ایک قومی بیانیہ تشکیل دینا چاہیے۔
امریکی صدرکا خط اپنے مفادات کے حصول کی خاطر ایک طبلِ جنگ کی حیثیت رکھتا
ہے اور ہمیں بھی اسے چوم کر میوزیم میں سجانے کے بجائے اس کے نتائج اور
عواقب پر غور کرنا چاہیے۔
ہمیں اب ان کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کو استوار کرنے سے پہلے یہ بات
ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ امریکہ و مغرب سائنس اور ٹیکنالوجی میں جس قدر
بلندی پر پہنچ چکے ہیں،انسانی حقوق، انسانی ہمدردی، مساوات، عدالتِ اجتماعی
اور باہمی احترام کےحوالے سے اسی قدر پستی کو چھو رہے ہیں۔
امریکہ سے تعلقات کے بارے میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بانی کے یہ الفاظ
ہر غیرت مند قوم کے لئے مشعلِ راہ ہیں:
تعلقات سے کیامراد ہے؟ اگر تعلقات سےمراد یہ ہے جو شاہ کے زمانے میں ایران
اور امریکہ کے درمیان تھے توانہیں تعلقات نہیں کہتے ، یہ تو امریکہ کا
آقاہونا تھا کہ جو اپنے نوکر سے ہر کام لیتا تھا اور ہر کام ا نجام دیتا
تھا،ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس طرح اسلام پر عمل کریں کہ کسی کےنوکر نہ رہیں،
اگر ہم نوکر نہ رہیں تو امریکہ ہم سے رابطہ قطع کر لے گا، ہم بھی خدا سے
یہی چاہتے ہیں کہ ایسا ذلت آمیز رابطہ منقطع ہو جائے ، ہم ذلت کو برداشت
نہیں کریں گے۔ |