جس طرح گیدڑ کی شامت آئے تو کہتے
ہیں وہ شہر کا رخ کر لیتا ہے، لگتا ہے امریکی اہل کار ریمنڈ ڈیوس (اب تک کا
معلوم نام) کی بھی شامت ہی آئی ہوئی تھی کہ اس نے پاکستان کے اس حصے میں
پاکستانی نوجوانوں کو نشانہ بنایا، جہاں این آر او مارکہ حکومت نہیں۔ اگر
اس نے یہی جرم کسی اور صوبے یا اسلام آباد میں کیا ہوتا تو بہت ممکن تھا کہ
اب تک مقتول نوجوان بعد از مرگ شدت پسند یا جرائم پیشہ جیسے اعزازات پا چکے
ہوتے اور ریمنڈ ڈیوس باعزت طریقے سے اپنے ملک واپس جا چکا ہوتا، لیکن یہ اس
کی بدقسمتی اور ہم پاکستانیوں کی خوش قسمتی تھی کہ اس نے بقول بابر اعوان
تخت لاہور میں یہ سب کچھ کیا، جہاں شہباز شریف کی حکومت ہے۔ سو اسے نہ صرف
گرفتار کیا گیا، بلکہ مقدمہ درج کر کے اس کا ریمانڈ بھی لے لیا گیا۔ گزشتہ
کئی برسوں میں پہلی بار کوئی ایسا کام ہوا ہے، جس پر فخر کرنے کو جی چاہ
رہا ہے۔ ورنہ پرویز مشرف نے جس طرح ہمیں سستے داموں فروخت کیا تھا، اس کے
بعد تو پاکستانی دنیا کی ارزاں ترین جنس بن گئے تھے۔ جس ملک کا دل چاہتا
پاکستانیوں کو پکڑ کر بند کردیتا۔ ان کا تعلق القاعدہ اور طالبان سے جوڑ
دیتا۔ دنیا بھر میں کہیں بھی کوئی واقعہ پیش آتا، سب سے پہلے انگلی پاکستان
پر اٹھائی جاتی۔ پکڑ دھکڑ کا آغاز پاکستانیوں سے ہوتا۔ پھر دوسروں سے تو
گلہ ہی کیا، پاکستانی تو خود اپنے ملک میں ہی بے قدر و قیمت ٹھہرے۔ بلیک
واٹر اور نہ جانے کون کون سی غیر ملکی تنظیموں کو ملک میں دندنانے اور
پاکستانیوں کو گرفتار و ہلاک کرنے کی اجازت دی گئی۔ بے حمیتی کی انتہا تھی
کہ ملک کی سربراہی پر فائز پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں فخر سے لکھا کہ اس
نے کس طرح ہم وطنوں کو امریکیوں کے ہاتھوں بیچ کر ڈالر وصول کیے۔ اپنوں کے
ساتھ ساتھ افغان سفیر ملا ضعیف تک کا بھی سودا کیا گیا۔ حالانکہ ایلچی کو
تحفظ تو انسان اس وقت بھی دیتا تھا، جب وہ پتھر کے دور میں رہتا تھا۔ پرویز
مشرف تو آج بھی وطن فروشی کی قیمت لیکچرز کی صورت میں وصول کررہا ہے۔ دوسری
طرف اس کے جانے کے باوجود ملک میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ جمہوریت کے
نام پر قائم ہونے والی حکومت کے رہنما بھی زیادہ تر مشرف کی پالیسیوں پر ہی
عمل پیرا ہیں۔ آمر ہمارے گرد امریکی غلامی کا جو شکنجہ کس گیا تھا، اسے
توڑنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ قومی عزت و غیرت کے تحفظ کے لیے
اقدامات اٹھانے کے بجائے موجودہ حکمران بھی امریکی خوشنودی میں ہی مصروف
نظر آتے ہیں۔ سیکورٹی اداروں کے تحفظات کے باوجود امریکیوں کے لیے فراخ
دلانہ ویزا پالیسی برقرار رکھی گئی ہے۔ واشنگٹن میں حسین حقانی کو سفیر
لگایا گیا ہے، جن کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ پاکستان کے بجائے
امریکہ کے مفادات کے تحفظ میں زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں۔ پھر وہ سفیر لگنے
سے پہلے بھی امریکہ میں مقیم تھے اور جب فارغ ہوں گے تو تب بھی انہوں نے
وہیں رہنا ہے۔ ان کے سارے مفادات امریکہ سے وابستہ ہیں۔ اب ایسی شخصیت کو
سفیر لگا کر کوئی یہ توقع رکھے کہ وہ اپنی پوزیشن سے انصاف کر پائیں گے،
خام خیالی ہی کہلائے گی۔ ان سے تو وہی توقع کی جا سکتی ہے، جو وہ کر رہے
ہیں کہ امریکیوں کو دھڑا دھڑ ویزوں کا اجرا کیا جا رہا ہے۔ شاید کرہ ارض پر
پاکستان واحد ملک ہے، جس نے واشنگٹن اور لندن جیسے اہم دارالحکومتوں میں
ایسے سفیر لگا رکھے ہیں، جن کا عملی طور پر جینا مرنا انہی ممالک میں ہے۔
پھر سفیروں پر ہی بس نہیں، ہمارے ایک اہم وزیر خیر سے برطانیہ کے مستقل
رہائشی ہیں۔ ان کا سارا کاروبار اور اہل خانہ وہیں ہیں۔ اب اہم پوسٹوں پر
ایسے حضرات کی موجودگی میں، جو صرف اقتدار کی ڈیپوٹیشن پر ہوں، اقوم عالم
میں وقار بحال ہونے کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ
واشنگٹن سے کوئی ڈپٹی سیکریٹری یا ایلچی کی سطح کا افسر بھی آجائے تو ایوان
صدر سے لے کر ہر جگہ تک اسے ملاقات کا وقت مل جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ
ہمارے صدر صاحب ہالبروک کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے چلے جاتے ہیں، جو
امریکی محکمہ خارجہ کے درمیانے درجے کے عہدے دار تھے۔
جب اعلیٰ سطح پر اس طرح کا رویہ اپنایا جارہا ہو تو پھر نچلی سطح کے افسران
ان مشکوک غیر ملکیوں کے خلاف کس طرح کاروائی کا سوچ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے
کہ اسلام آباد میں سفارت کاروں کے روپ میں تعینات امریکی اہل کاروں کی جانب
سے، مسلح گھومنے اور شہریوں کو ہراساں کرنے سمیت قانون شکنی کے متعدد
واقعات کے باوجود کسی کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی۔ ابھی چند ماہ قبل صوبہ
خیبر پختون کے ضلع چترال سے ایک امریکی اسلحہ اور جاسوسی آلات سمیت پکڑا
گیا، لیکن ہم اسے ڈیپورٹ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکے۔ پھر پشاور میں
امریکی سفارت کاروں کی طرف سے صحافیوں کو خریدنے کی کوشش بھی ایک صحافی نے
بے نقاب کی تھی، لیکن اس پر بھی کوئی کاروائی ہوئی نہ احتجاج۔ ہماری انہی
کمزوریوں کی وجہ سے بات یہاں تک آن پہنچی کہ ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں سر
عام دو پاکستانی نوجوانوں کو گولیاں مار دیں، جب کہ اس کے ساتھیوں نے ایک
نوجوان کو کچل ڈالا۔ اب بجائے اس کے کہ ہم اس واقعے پر امریکی سفیر کو دفتر
خارجہ طلب کر کے احتجاج کرتے، انہیں نوجوان کو کچلنے میں ملوث گاڑی اور
ڈرائیور کی حوالگی کے لیے الٹی میٹم دیتے، ہمارے وفاقی حکام دباؤ میں نظر
آئے۔ یہ وضاحت کرنے میں تین دن لگا دیئے گئے کہ قاتل امریکی سفارت کار نہیں،
بلکہ بزنس ویزے پر آیا ہوا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ریمنڈ کی رہائی کا
مطالبہ کرنے والے امریکی حکام سے پوچھا گیا ہے کہ انہوں نے ریمنڈ کو
پاکستان میں کس کاروبار پر لگا رکھا تھا۔ وہ جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑی میں
مسلح ہو کر کیوں گھوم رہا تھا۔ امریکہ میں تو کوئی پاکستانی سفارت کار سگنل
توڑ دے تو اسے عدالت بلالیا جاتا ہے۔ کیا امریکی کوئی خصوصی مخلوق ہیں کہ
تین بے گناہ پاکستانیوں کو قتل کرنے کے باجود ریمنڈ کی رہائی کا مطالبہ کیا
جا رہا ہے اور دیگر ملزمان کو اب تک حوالے نہیں کیا گیا۔ پھر اس بات کی
تحقیقات بھی ہونی چاہیے کہ کاروبار کے نام پر امریکی اہل کاروں کو امریکہ
میں پاکستانی سفارت خانہ کیوں ویزے دے رہا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں
خطے اور ملک کی خراب صورت حال کے باعث عالمی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر
ہے، یہ امریکی اتنے بڑے پیمانے پر کاروباری ویزے لے کر کیا کرنے آرہے ہیں؟
کیا ریمنڈ کو ویزا دینے والے پاکستانی حکام نے اس سے دریافت کیا تھا کہ وہ
کیا کاروبار کرنے پاکستان جا رہا ہے؟ پھر اسے ویزے میں توسیع دینے والوں سے
بھی پوچھا جانا چاہیے کہ انہوں نے ریمنڈ کے کون سے کاروبار کی دستاویزات
دیکھنے کے بعد اسے توسیع دی تھی۔
اب تک ان مشکوک امریکیوں کا جو کاروبار سامنے آیا ہے وہ تو یہی ہے کہ
بلوچستان میں کسی طرح علیحدگی پسندوں کو توانا کیا جائے۔ خیبر پختون میں ان
شدت پسند گروپوں کو مضبوط کیا جائے جو افغانستان کے بجائے ملک کے اندر
کاروائیوں پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے
گرد سازشوں کا جال بُنا جائے۔ ویسے برصغیر کے لوگ ایسٹ انڈیا کمپنی کو بھی
نہیں بھولے جو کاروبار کے نام پر ہی آئے تھے اور پھر اس نے وہ کاروبار کیا
کہ ہندوستان سے مسلم حکومت کا ہی خاتمہ ہو گیا۔ پنجاب حکومت نے تو ریمنڈ کے
خلاف قانونی کارروائی کر کے اپنا فرض اد ا کر دیا ہے۔ اور اس پر شہباز شریف
تحسین کے مستحق ہیں۔ اب یہ وفاقی حکومت کے کرتا دھرتاؤں کی ذمہ داری ہے کہ
وہ بھی حوصلہ پکڑیں اور امریکیوں کو ویزے دینے میں مہربان حکام کے خلاف
کاروائی کا آغا ز کریں۔ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو قوم یہ سمجھنے میں حق
بجانب ہو گی کہ وہ بھی مشرف کی طرح مستقبل کے لیکچرز کی قیمت پر قومی وقار
کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سیکورٹی اداروں کو بھی اب ان
امریکی ”کاروباریوں“ کی نگرانی اور ان کے مقامی پارٹنرز کیخلاف کاروائی تک
محدود رہنے کے بجائے ان اصل سرمایہ کاروں کا راستہ روکنا ہوگا۔ پنجاب حکومت
نے جو مثال قائم کی ہے اسے آگے بڑھانا چاہئے۔ سیاسی و مذہبی رہنماؤں کو بھی
چاہئے کہ وہ ویزوں کی زنجیر پاؤں سے اتار کر کھل کر اس معاملے پر سامنے
آئیں تاکہ پنجاب حکومت دباؤ کا مقابلہ کر سکے۔ |