حال ہی میں 8سالہ اور16سالہ دولڑکیوں پرخوفناک جنسی حملوں
کے بعددن بدن تیزہوتاہوایہ سلسلہ اورموجودہ جنسی جرائم کی لہرنے مودی
سرکارکے تاریک ترین اوربدنما چہرے کی اصلیت دنیاکودکھادی ہے۔26جون2018ء کو
مشہورزمانہ سی سی این نےخواتین کے مسائل پرانسانی حقوق کی ایک عالمی
تنظیم"تھامسن رائٹرزفاؤنڈیشن"کے 550 ماہرین کی ایک سروے رپورٹ نشر کی جس
میں سات سال پہلےبھارت خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے ساتھ ساتھ گھریلو کام
کیلئےانسانی اسمگلنگ، جبری مزدور، جبری شادی ،جنسی غلامی،ایسڈ حملے،جسمانی
بدسلوکی اور جینیاتی تنازعہ میں دنیاکاچوتھا سب سے خطرناک ملک تھا،مودی
سرکارکے دور میں دوسرے نمبرپرجاپہنچاہے۔ ایک اطلاع کے مطابق اب بھی بھارت
میں سخت قوانین کے باوجودہرروز پورے ملک میں تقریبا 100ً جنسی حملوں کی
اطلاع دی جاتی ہے جبکہ بھارت کے شہروں اوردیہی علاقوں میں اب بھی بدنامی کے
خوف اورجبرکی بنیادپرہزاروں واقعات رات کی تاریکی میں دفن ہوجاتے
ہیں۔10ممالک میں سے نو ایشیا، مشرق وسطیٰ یا افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں
جبکہ10ویں نمبر پر امریکاواحد مغربی ملک ہے۔
ترقی کے جدید ترین معیارات کو اپنانے کے باوجود بھارت اب تک بہت سی ایسی
پریشانیوں سے نجات نہیں پاسکا ہے جو اُس کے ماتھے پر داغ کے مانند ہیں۔
سماجی برائیوں کا ایک دائرہ ایسا ہے جس سے باہر آنا بھارت کیلئےانتہائی
دشوار ثابت ہو رہا ہے۔گزشتہ دنوں پارلیمان میں ایک رکن نے بھارت میں خاتون
سے زیادتی کے واقعے سے متعلق بیرون ملک بنائی جانے والی دستاویزی فلم پر
تبصرہ کرتے ہوئے اِسے بھارت کے خلاف سازش قرار دیا۔ مرکزی وزیر داخلہ راج
ناتھ سنگھ نے پارلیمان میں بیان دیا کہ وہ برطانوی نشریاتی ادارے ’’بی بی
سی‘‘ کو حکم دیں گے کہ وہ اِس فلم کو ٹیلی کاسٹ کرنے سے باز رہے۔ حزب
اختلاف کے غیر معمولی دباؤ پر حکومت نے یہ فلم بھارت میں ٹی وی پر ریلیز
ہونے سے روک دی۔ اِس صورت میں ’’بی بی سی‘‘ کوبراہِ راست تو سامعین کی بڑی
تعداد سے محروم ہونا پڑامگرسوشل میڈیااوردیگرذرائع نے بھارتی چہرے کے نقاب
کواس بری طرح سے تارتارکیاکہ خودپابندی لگانے والے اپنی غلطی پرشرمندہ
ہیں۔یہ فطری امرہے جب کسی چیزپرپابندی عائدکی جاتی ہے تولوگوں میں اس کے
بارے میں تجسس بڑھ جاتاہے اوراس کی طلب میں بے تحاشہ اضافہ ہو جاتاہے۔
بھارت کے سیاست دان بہت پتلی کھال کے ہیں۔وہ ذرا ذرا سی بات پر بِدَک جاتے
ہیں اور ہر معاملے میں بیرونی ہاتھ یاسازش تلاش کرنے لگتے ہیں۔ ان کا
استدلال ہے کہ بھارت کو ساری دنیا میں بدنام کرنے کی سازش پر عمل کیا جارہا
ہے۔ جب بیرون ملک سے آنے والے سماجی محققین اپنی تحقیق میں بھارت کے
معاشرتی مسائل کا ذکر کرتے ہیں، آلودگی کی بلند ہوتی ہوئی سطح کی طرف توجہ
دلاتے ہیں اور ساتھ ہی کھلے علاقے میں رفعِ حاجت جیسے مسائل کی نشاندہی
کرتے ہیں ،ایک بین الاقوامی این جی اوزنے مقامی درجن بھرتنظیموں کے توسط سے
ملک بھر میں سروے کے مطابق رپورٹ جاری کی ہے کہ دنیابھرمیں سب سے زیادہ
ایڈزکاشکارافرادبھارت میں ہیں بلکہ کئی مکمل گاؤ ں اس موذی بیماری میں
مبتلاہیں اورلوگوں کومتنبہ کرنے کیلئے گاؤں کے باہرباقاعدہ بورڈ تک آویزاں
ہیں،کروڑوں افرادفٹ پاتھ اورگندگی کے ڈھیروں پررات گزارنے پرمجبورہیں
اورفاقہ کشی کایہ عالم ہے کہ ملک کی 67فیصدآبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی
گزاررہے ہیں لیکن مودی سرکارمتعصب قوم پرست عناصران چشم کشاحقائق کے
باوجودیہ کہتے ہوئے لوگوں کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں کہ یہ سب کچھ بھارت کو
بدنام کرنے کیلئےکہا جارہا ہے۔
"بی بی سی" کی دستاویزی فلم میں ایک مرکزی ملزم کو یہ کہتے ہوئے بھی سُنایا
گیا ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ یعنی نہ صرف یہ کہ وہ اپنے کیے پر
نادم نہیں بلکہ اپنے سنگین جرم کاجوازبھی پیش کررہاہے۔ایک وکیل صفائی نے
بھی عدالتی کاروائی کے دوران کہا کہ اگر اُس کی بیٹی ایساکرے(یعنی جرم میں
ساتھ دے) تووہ اُسے سرِعام قتل کرنا پسند کرے گا!یہ ایسے ریمارکس ہیں
جوبھارت کے مردوں کوانتہائی سفّاک،مکّاراوربدمعاش ثابت کرتے ہیں۔ بھارت میں
خواتین سے روارکھے جانے والے بُرے سلوک کے بارے میں بہت سے لوگوں کی آراء
خاصی واضح ہیں۔ ایک عدالتی کمیشن کی رپورٹ کے مصنف نے لکھا ہے کہ جن مردوں
کے بُرے سلوک کی بات ہو رہی ہے، وہ ہمارے ہی معاشرے کا حصہ ہیں۔
بھارت کے معاشرتی مسائل کو بہتر انداز سے حل کرنے کی ضرورت پر اب عالمی
انسانی حقوق کی تنظیمیں نےوزیراعظم نریندرمودی پرخاصازوردیاہے۔ان کاکہناہے
کہ خواتین سے بدسلوکی کو ہرقیمت پرروکنے کی ضرورت ہے۔جب تک ایسانہیں
ہوگا،تب تک معاشرے کابگاڑختم نہیں ہوگا۔ انہوں نے خواتین سے زیادتی
کوبھارتی قوم کیلئےانتہائی شرم ناک قراردیاہے۔ انہوں نے خواتین کو پارلیمان
میں نمایاں نمائندگی دینے کی بھی وکالت کی ہے۔ ساتھ ہی یہ مطالبہ کیاہےکہ
الٹراساؤنڈ کے ذریعے رحمِ مادر میں بچے کی جنس معلوم ہوجانے پرلڑکی کورحمِ
مادرہی میں قتل کرنے کاچلن اب نہ صرف ختم بلکہ اسے جرم قراردیاجاناچاہیے۔
بھارت میں آج بھی لڑکوں کولڑکیوں پرغیر معمولی اورواضح فوقیت دی جاتی
ہے۔انہوں نےمودی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیاہے کہ خواتین سے امتیازی سلوک
اور زیادتی جیسے معاملات پر قومی سطح کی بحث کی جائے اور شاید اِس کا وقت
بھی آچکاہے۔ بھارت میں زچگی کے دوران زچہ کی اموات کی شرح میں چند برسوں
کے دوران نصف کی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔خواتین سے زیادتی کے واقعات توبہت
ہوتے تھے مگر پولیس کورپورٹ کرنے کی ہمت کم ہی لڑکیاں کرپاتی تھیں مگر جب
غیرملکی سیاح لڑکیوں کوتواتر کے ساتھ جنسی زیادتی کانشانہ
بنایاگیااورمتعلقہ ممالک کاتحقیقات کیلئے دباؤبڑھااورغیرملکی میڈیا نے
توباقاعدہ بھارتی دارلحکومت نئی دہلی کوسیاح عورتوں کیلئے دنیاکاسب سے
خطرناک شہرقرار دےدیاتوان واقعات کے بعدان مظلوم بھارتی خواتین کاحوصلہ
بڑھااوروہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف انصاف کیلئے میدان میں
اترآئیں اورمیڈیاپران واقعات کی رپورٹ ہونے لگی۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی ایک
چلتی بس میں ایک لڑکی کے ساتھ ہونے والی زیادتی اوربعدازاں اس کو قتل کرنے
کے واقعے نے توبھارت کے اس شرمناک فعل نے ساری دنیامیں انسانی حقوق کی
تنظیموں نے بھارت کے خلاف کئی پابندیوں کابھی مطالبہ کیا۔ان واقعات کے
بعداب قدرے رپورٹنگ بڑھ گئی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ خواتین میں اپنے
حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے شعورکی سطح بلند ہوئی ہےلیکن ایسی
خواتین کم ہیں جن کی باضابطہ ملازمت یا بینک اکاؤنٹ ہے۔ جہیز اور گھریلو
مسائل پر خواتین کو قتل کرنے کی مشق اب تک کمزور نہیں پڑی۔بیشتر گھروں میں
مردوں کا کنٹرول نمایاں ہے۔ خواتین کو خاصے دباؤ کے ساتھ زندگی بسر کرنا
پڑتی ہے۔ یورپی یونین کی انسانی حقوق کمیٹی نے حال ہی میں اپنے ایک اجلاس
میں تجویزکیاہے کہ ایسے میں لازم سا ہوگیا ہے کہ بھارت میں خواتین کی زندگی
بہتربنانے کیلئےقومی سطح پربحث کی جائے۔اس مقصد کیلئےبھارتی پارلیمان کے
فورم کو فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ خواتین سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے
واقعات،گھروں میں اُن سے بُراسلوک، کام کے مقامات پراُنہیں ہراساں کرنے کے
واقعات اورعمومی سطح پر اُنہیں کمتر سمجھنا،ایسے مسائل ہیں جن کاحل
کیاجاناناگزیرہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ خواتین سے بہتر سلوک کی راہ ہموار کرنے کے معاملے میں اہل
سیاست میں ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ بھارتی پالیسی سازی کے حوالے سے ایک
کتاب کے مصنف مِہِر شرما کہتے ہیں کہ بھارت میں سیاست دانوں نے یہ وتیرہ
بنالیا ہے کہ خواتین کے بیشتر معاملات درست کرنے کی اہمیت ہی سے انکار
کردیا جائے۔ اُن کے نزدیک کسی مسئلے کے وجود سے انکار ہی اُس کے حل کا
بہترین طریقہ ہے۔
ماہرِ عمرانیات دیپانکر گپتا کہتے ہیں کہ بھارت میں ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے
کہ کسی پارٹی کا لیڈر کچھ کہتا ہے اور اُس کی پارٹی کے دیگرمرکزی عہدیداران
اور کارکنان کچھ اور سوچ رکھتے ہیں۔ بہت حد تک اِسی مخمصے کا نریندر مودی
کو بھی سامنا ہےاوربظاہر وہ خواتین کو انصاف دلانا چاہتے ہیں، اُن کے حقوق
کا تحفظ یقینی بنانا چاہتے ہیں مگر اُن کی اپنی پارٹی میں ایسے لوگوں کی
کمی ہے جو اِس معاملے میں اُن کے ساتھ قدم ملا کر چلنا چاہتے ہوں لیکن ان
کی اپنی جماعت کے اہم عہدیداروں کاکہناہے کہ یہ صرف مودی کاوہ سیاسی چہرہ
ہے جس کی بناء پروہ سیاسی مقبولیت کے خواہاں ہیں۔ایک بڑا مسئلہ اور بھی ہے۔
بھارت کے لیڈر تمام اہم معاملات پر یکساں لگن اور دلچسپی کے ساتھ بات کرنے
کو تیار نہیں۔ نریندر مودی نے تمام مذاہب کے احترام کی بات اُس وقت کہی جب
امریکی صدر براک اوباما نے نئی دہلی کے دورے میں اُن سے یہ کہا کہ بھارت کو
مذہبی بنیاد پر تقسیم نہیں ہونا چاہیے۔ اِس سے قبل دہلی کے الیکشن کے موقع
پر مودی نے گرجا گھر جلائے جانے پر کوئی ردِّعمل ظاہر کرنے سے گریز کیا
تھا۔ یہ دو رُخا پن دور کیے بغیر کسی بھی بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
ماحول کے بگڑتے ہوئے معیار اور آزادیٔ اظہار کے بارے میں جو لوگ کچھ کہنا
چاہتے ہیں، اُنہیں خاموش کرانے میں زیادہ دلچسپی لی جارہی ہے۔نریندرمودی
اور اُن کی ٹیم نے اب تک آزادیٔ اظہار اور ماحول سے متعلق ایسی واضح
پالیسی نہیں دی جس سے کوئی بڑی اُمید وابستہ کی جاسکے۔ نئی دہلی ایئر پورٹ
پر حکام نے ماحول کیلئےکام کرنے والی ایک خاتون کو برطانیہ جانے سے روک
دیا۔ یہ خاتون برطانیہ کی ایک پارلیمانی کمیٹی کویہ بتانے والی تھیں کہ کان
سے کوئلہ نکالنے کے ایک منصوبے سے بھارت کے ایک علاقے میں جنگل کو شدید
نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اور اُس کے مکین بھی متاثر ہوں گے۔ بھارت میں آج
بھی لوگوں کو اپنے دل کی آواز لب تک لانے کی مکمل آزادی میسرنہیں۔معاملہ
ماحول کیلئےکام کرنے والی خاتون کوروکنے تک نہیں رُکا، بلکہ اُس کی تنظیم
پرمالی پابندیاں بھی عائد کی گئیں۔اسی سال12مارچ کودہلی ہائی کورٹ نے فیصلہ
سنایا تھاکہ خاتون کوروکنے کاحکومت کے پاس کوئی جوازنہیں۔
نیشنل سینسربورڈ نے(جس میں اب بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق یا ہمدردی رکھنے
والوں کی بھرمار ہے) جنوری میں ایک فیصلے کوبرقراررکھاجس کے تحت ایک
مشہورمیوزک وڈیوسے لفظ ’’بامبے‘‘ہٹاکر’’ممبئی‘‘ڈالناتھا۔ واضح رہے کہ بمبئی
یابامبے کواب سرکاری طورپر’’ممبئی‘‘ کہا جاتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں نے ایک اسٹیج شو کو یہ کہتے ہوئے رکوا دیا
کہ اُس کی زبان بے ہودہ ہے۔ مشہور پبلشر پینگوئن نے جنوری میں معروف امریکی
مصنف وینگی ڈینیگر کی کتابیں شائع کرنے سے محض اس لیے ہاتھ کھینچ لیا کہ
ہندو انتہا پسندوں کو بھارت کے بارے میں وینگی ڈینیگر کے نظریات پسند نہیں۔
چند ایک معاملات ایسے ہیں جن کے باعث بھارت کوپریشانی تو ہوتی ہے مگر اُس
کا شکایت کرنے کاجوازبھی بنتاہے۔ایک جرمن پروفیسر نے اپنے ان الفاظ پربعد
میں معافی مانگی کہ وہ کسی بھارتی طالب علم کو اپنا شاگرد اِس لیے نہیں
بناسکتا کہ بھارتی مرد خواتین سے زیادتی کے حوالے سے بدنام ہیں۔معروف کالم
نگارسوپن داس گپتاکاکہنا ہے کہ بھارت کے بارے میں دنیابھر میں یہ تصور
پایاجاتاہے کہ یہ انتہائی غریب اورسماجی طورپرنہایت پسماندہ ملک ہے جہاں
خواتین سے بُرا سلوک روارکھاجاتاہے اورزیادتی کے حالیہ واقعات نے بھارت
کاامیج مزید خراب کردیا ہے۔سوپن داس گپتاکاکہناہے کہ اگربھارت
کاتاثربہتربناناہے اوردنیابھرمیں اُسے نیک نامی سے متصف کرنا ہے تومسائل
کونظراندازکرنے یادبانے کے بجائے اُنہیں حل کرنے پرتوجہ دینا ہوگی۔ یہی ایک
طریقہ ہے جس کے تحت بھارت کیلئےپیدا ہونے والے تاثر کی مشکلات ختم کی
جاسکتی ہیں۔ |