کیا خبر تھی کہ جا بجا زمیں جنبد نہ جنبد گل محمدکی
مصداق شہر کراچی میں براجمان پتھارے، ٹھیلے، دوکانیں اور غیر قانونی
عمارتیں جو اپنی ا پنی جگہ اٹل حقیقت کی مانند ڈٹے ہوئے تھے ․کہ محض ایک
جنبش قلم کے سبب ایسے غائب ہونگے جیسے گدھے کے سر سے سینگ
․․․․․․․․․․․․․․!!!!
مگر کون جانتا تھا کہ وطن عزیز کی عدالت عالیہ میں کبھی ایک قاضی ایسا بھی
جلوہ افروز ہوگا جو ان سے باز پرس کرے گا ،اور اس دبنگ منصف کے دبنگ فیصلوں
کے سامنے کوئی لیڈر،سیاسی جماعت چور،لٹیرے،غاصب سب بے بس ہوجائیں گے آج اسی
قاضی وقت کادور دورہ ہے ․
علاج یہ ہے کہ مجبور کردیا جاؤ
وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے
اور قاضی وقت ان سے غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کا حساب طلب کرے گا اور
تمام بدعنوان عناصر کے پاس اس منصف کے کسی سوال کا کوئی خاطر خواہ جواب
نہیں ہوگا اب سب ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں ․
قیام پاکستان کے بعد کراچی ایک خوبصورت شہر تھا کشادہ
سڑکیں،پارک،میدان،قبرستان،اور تعمیرات سب ترتیب سے تھے پھر یکایک بے ترتیبی
کا آغاز ہوا جب چالیس سال قبل وطن عزیز میں چور بازاری کی ایسی کرپشن آلود
ہوا چلی جس نے سرکاری اداروں ،سیاستدانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ملک
میں کچھ لو اور کچھ دو کا چلن عام ہوگیا،سرکاری ملازمین،سیاسی جماعتیں اور
ان کے کارندے ،سیاستدان اتنے خود غرض ہوگئے کہ انہوں نے پاک سر زمین کی
فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ اس کی بقاء و سلامتی کو بھی بالائے طاق رکھ دیا
․یہ اسی بات کا شاخسانہ ہے کہ کروڑوں کی سرکاری اراضی ،پارک ،گراؤنڈ ،کوڑیوں
کے مول فروخت کئے جانے لگے ،شہر کراچی کا پورا انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد
ہوکر رہ گیا ․
چالیس سے نوے گز کے پلاٹوں پر چھ سے سات منزلہ بلند وبالا غیر قانونی
عمارتیں بلا خوف و خطر تعمیر کی جانے لگیں ،راتوں رات تعمیر کی جانے والی
کثیر المنزلہ ان عمارتوں میں ناقص میٹیریل استعمال کیا جانے لگایہ عمارتیں
مضبوطی اور تعمیرات کے معیار پر کسی طور پورا نہیں اترتیں ،جو یقینا انسانی
جانوں سے کھیلنے کی مجرمانہ حرکت جس پر متعلقہ محکموں نے کمال سفاکی سے
غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلڈرز مافیا کو کھلی چھوٹ دے دی ،سندھ بلڈنگ
کنٹرول اتھارٹی تو جیسے منہ میں دہی جمائے چپ سادھے بیٹھی رہی ․
کراچی کے مختلف علاقوں میں تعمیر کی جانے والی ان کثیرالمنزلہ عمارتوں نے
ایک جانب شہر کی خوبصورتی کو بری طرح متاثر کیا تو دوسری جانب شہر کا سارا
انفرا اسٹرکچر ان کی وجہ سے برباد ہوگیا ․سیوریج کا نظام اس کا بوجھ برداشت
نہیں کرسکا اور جگہ جگہ ابلتے گٹر اپنی بے بسی کی داستان سنانے لگے ،گیس کی
قلت کے سبب گھریلو صارفین مشکلات سے دوچار رہے ،بجلی بھی ماتم کیئے بنا نہ
رہ سکی کہ پی ایم ٹی اضافی لوڈ برداشت نہ کرتے ہوئے باربار ٹرپ ہونے لگے
جابجا کوڑا کرکٹ کے انبار اپنی کہانی بیان کرتے نظر آئے ،مگر کمال بے حسی
کا مظاہرہ کرنے والی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ،کے ڈی اے،اور کے ایم سی
ڈپارٹمینٹ خاموش تماشائی کا کردار بحسن و خوبی انجام دیتے رہے یہ حریص اور
لالچی بلڈرز،مافیا،قبضہ گروپس اپنے مفاد کی خاطر ہوس زر میں شہر بھر کے کئی
پارکس ،گراؤنڈز،سرکاری اراضی اور حد یہ کہ قبرستانوں کے لیئے الاٹ کی گئی
زمین بھی بنا ڈکار لیے ہڑپ گئے ․مجال کسی حکومت یا متعلقہ اداروں نے خاطر
خواہ اقدام اس کی روک تھام کے لیے اٹھایا ہو ․گذشتہ ماہ و سال میں کچھ
عمارتیں ناقص میٹیریل اور غیر معیاری تعمیرات کے سبب زمین بوس ہوکر ناجانے
کتنی معصوم جانیں نگل گئیں مگر ارباب اختیار اور کرتا دھرتا افراد کے کانوں
پر جوں تک نہ رینگی اور محض مذمت جیسے مخملی لفظوں سے بدعنوانی کی دھول کو
ڈھانپ دیا گیا ،اور پھر رات گئی بات گئی کے مصداق معاملہ رفع دفع کرکے
فائلیں بند ․․․․․․․! اور پھر دوبارہ بدعنوانی کا یہ گھناؤنا کھیل من و عن
جاری وساری رہا ․یہ دراصل گذشتہ حکومتوں اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی
جانب سے کی جانے والی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے کہ غیر قانونی تعمیرات اور
تجاوزات پر یکسر چشم پوشی کی گئی اور رشوت کا بازار گرم رہا عوام بھی ان
حالات کے عادی ہوگئے․حالات نے یکا یک کروٹ بدلی اور چیف جسٹس آف پاکستان
ثاقب نثار صاحب کے احکامات پر شہر کراچی اور ملک بھر میں تجاوزات اور غیر
قانونی تعمیرات کے خلاف کاروائی کا زوروشور سے آغاز ہوا کراچی میں تجاوزات
آپریشن کا مقصد کراچی کو اس کی پرانی حالت میں واپس لانا ہے جو کہ خوش آئند
ہے ورنہ شہر کراچی کی سڑکوں پر تجاوزات کا یہ حال ہے کہ اگر مزید اس جانب
توجہ نہیں دی جاتی تو عوام سڑکوں پر اور گاڑیاں فٹ پاتھوں پر رواں دواں
ہوتیں ․تجاوزات کراچی کا اہم مسئلہ ہے مگر اس گھمبیر مسئلے کا یہ حل ہرگز
نہیں کہ محض ایک جنبش قلم سے ہزاروں لوگوں کو بے روزگاری کی دلدل میں دھکیل
دیا جائے ،لوگوں کا خیال خام تھا کہ چیف جسٹس کا احکام محض دیوانے کا خواب
ثابت ہوگا اور تجاوزات آپریشن کا شوروو غل ایک دو روز میں اختتام پذیر
ہوجائے گا اور راوی پھر چین ہی چٰین لکھے گا مگر بد قسمتی سے لوگوں کا یہ
خواب خواب ہی رہا نہ احتجاج کا کوئی اثر نہ ہی مک مکا کام آیا شاول چلتے
رہے بلڈوزر اپنا کام تندہی سے کرتے رہے اور غیر قانونی تعمیرات ،ایمپریس
مارکیٹ کے اردگرد کا علاقہ تجاوزات سے صاف کردیا گیا ․سترہ سو دوکانیں
مسمار کرنے کا مطلب سترہ سو کاروبار تباہ کرنا ہے رف اندازے کے مطابق دس
ہزار دوسو افراد بے روزگار ہوئے اور اگر ہر شخص کے ساتھ تیں فیملی میمبر
گنے جائیں تو تیس ہزار آٹھ سو کے لگ بھگ لوگ دو وقت کی روٹی سے محروم ہوگئے
یہ صرف ایمپریس مارکیٹ کی بات ہے اگر پورے شہر اور ملک کا حساب لگایا جائے
تو سینکڑوں دوکانیں اور ہزاروں افراد کا روزگار یہ تجاوزات آپریشن نگل گیا
ان میں سے کئی دوکاندار کے ایم سی کو باقاعدگی سے کرایہ دے رہے تھے،ناجائز
تجاوزات ہٹانے کے نام پر بے روزگاری بڑھانا کہاں کی عقلمندی اور کونسی ترقی
ہے ؟؟؟
میرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کردے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے
یہ تو تھی شاعر افتخار عارف کی دیرینہ خواہش مگر سپریم کورٹ کے موجودہ
احکامات کے سبب مکان گھر بنے یا نہیں البتہ تجاوزات کی زد میں آکر کئی
گھرملبے کا ڈھیر ضرور بن گئے ہیں ۔گھر وہ سب ہی توڑ گیا جاتے جاتے کیوں کہ
چیف جسٹس کے احکامات پر عمل درآمد جو ضروری ہے ،ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے
خلاف نہیں ہیں اور شہر کراچی کو میگا سٹی دیکھنا ہماری بھی خواہش ہے ․مگر․․․․․․․․․․․․․!!
تم گرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں
میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہو جاونگا
کیونکہ تجاوزات آپریشن کی آڑ میں بدعنوان عناصر پھر اپنا گھناؤنا کھیل کھیل
رہے ہیں اس کی آڑ میں عوام کے ساتھ زیادتیاں کی جارہی ہیں ذاتی دشمنی کا
نشانہ بنایا جارہا ہے پسند ناپسند کی بنیاد پر لوگوں کی املاک گرائی جارہی
ہیں تجاوزات کے خاتمے کے ساتھ ساتھ سرکاری اور متعلقہ محکموں میں موجود
کالی بھیڑوں پر بھی احتساب کا بلڈوزر چلایا جائے کیونکہ اس سب کے اصل مجرم
ان محکموں میں موجود بدعنوان عناصر ہیں جب یہ شہر بھر میں یہ غیر قانونی
تعمیرات اور تجوزات قائم کی جارہی تھیں جب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ،کے
ڈی اے،اور کے ایم سی خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے آپریشن ان تمام کرتا
دھرتا افراد کے خلاف کے خلاف بھی ہونا چاہیے جن کی بدولت یہ تجاوزات اور
غیر قانونی بستیاں آباد ہوئیں ․
دیکھو مجھے اب میری جگہ سے نہ ہلانا
پھر تم مجھے ترتیب سے رکھ کر نہیں جاتے
گذشتہ ادوار میں پرانی سبزی منڈی کو جب ہٹانا مقصود تھا تو پہلے سپر ہائی
وے پر نئی سبزی منڈی قائم کی گئی پھر پرانی سبزی منڈی کو نئی جگہ منتقل کیا
گیا بالکل اسی طرح لیاری ایکپریس وے کی راہ میں آنے والے مکانوں کے مکینوں
کو مناسب معاوضہ اور متبادل جگہ آلاٹ کی گئی پھر ایکسپریس وے تعمیر کیا گیا
،یہ ہے درست طریقہ نہ یہ کہ راستے میں آنے والی غیر قانونی تعمیرات اور
تجاوزات کو بلڈوزر تلے روندتے ہوئے نئی سڑکیں اور جدید تعمیرات بنائی جاہیں
یہ کہاں کا انصاف ہے بتا مجھے اے منصف ؟؟؟؟؟؟؟؟
عوام کا جان و مال حکومت وقت کی ذمہ داری ہے ․ہماری وزیراعظم پاکستان عمران
خان اور چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار صاحب سے پرزور اپیل ہے اور انصاف کا
تقاضہ بھی یہ ہی ہے کہ ہر کاروائی سے پہلے باقاعدہ نوٹس جاری کیے جائیں وقت
دیا جائے اور متاثرین کے نقصان کا مناسب ازالہ کیا جائے اور ان کو مکان اور
دوکان کے لیے متبادل جگہ فراہم کی جائے ․یہ کیا کہ․․․․․․․!
روز جاتے ہوئے ایک اینٹ گرا جاتے ہیں
چند لوگوں سے میرا گھر نہیں دیکھا جاتا |