وزیر اعظم کا انٹرویو

بسم اﷲ الرحمان الرحیم

موجودہ حکومت اقتدار سنبھالنے کے بعد ابتدائی سو روز مکمل کرچکی ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے سو روز کے اختتام پر پہلے تو اسلام آباد میں ایک تقریب کا انعقاد کیا، تقریب کا مقصد سو روزہ حکومتی کارکر دگی کو پیش کرنا تھا لیکن اس سلسلہ میں شایدکہنے کو کچھ زیادہ موجود نہیں تھا کیونکہ حکومت نے سو روز میں وعدوں اور دعووں کی ایک بلند عمارت کو سر کرنا تھا جبکہ ابھی ا س کی پہلی سیڑھی پربھی قدم نہیں رکھا جاسکا تھا ، اس لیے حکومت کی جانب سے مستقبل کے حوالہ سے مزید دعووں اور وعدوں پر ہی اکتفاء کیا گیا۔ عمران خان صاحب کو شاید اس سے تسلی نہیں ہوئی اس لیے انہوں نے اس کے بعدگزشتہ دنوں میڈیا کو اپنا پہلا اور طویل انٹرویو دیا ہے۔انٹرویو کا مقصد بظاہر ان سوالات کا جواب دینا تھا جو ان کی ذات اورحکومت سے متعلق موجود تھے ،لیکن اس انٹرویو نے مزید کئی اہم اور سنگین سوالات کو جنم دے دیا ہے۔

ملک کا اس وقت ایک بہت بڑا مسئلہ معیشت ہے جو کہ حکومت سنبھالنے میں ناکام نظر آرہی ہے ۔ ملک میں اس وقت روپیہ کی قدر مسلسل گرتی جارہی ہے جس کی وجہ سے معیشت کو بے پناہ نقصان ہورہا ہے اور ملکی قرضوں میں بھی بلا وجہ مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔حکومت کے ابتدائی سو روز کے دوران دو مرتبہ ایک ہی دن میں روپیہ کی قدر میں تاریخ ساز کمی ہوئی ہے ۔ عمران خان انٹرویو میں اس حوالہ سے کہتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک نے حکومت سے پوچھے بغیرروپیہ کی قدر کم کی ہے،دونوں مرتبہ روپیہ کی اس قدر گراوٹ کا ان کو پیشگی پتہ ہی نہیں تھا ،بعد میں ان کو میڈیا سے پتہ چلا ہے ۔ملک کے وزیر اعظم کی طرف سے اس قسم کی بات سمجھ سے بالا تر ہے ،سوال یہ ہے کہ اگر یہی صورت حال ہے تو پھر ملک کے وزیر اعظم اور ایک عام شہری میں کیا فرق ہے؟ اس سلسلہ میں ایک اہم بات یہ ہے کہ وزیر خزانہ اس سے پہلے واضح طور پر کہ چکے ہیں کہ اسٹیٹ بینک نے روپیہ کی گراوٹ کے حوالہ سے ہمیں پیشگی مطلع کردیا تھا اور میں نے اس بارے میں خود وزیر اعظم کو بھی آگاہ کردیا تھا ۔معیشت جیسے اہم اور سنگین ملکی مسئلہ پر حکومت کی اہلیت اور سنجیدگی کا یہ عالم ہے ۔

عمران خان نے انٹرویو میں ڈی پی او پاکپتن اور زلفی بخاری کیس کے تناظر میں سپریم کورٹ کے حوالہ سے کہا کہ مجھے چیف جسٹس کے ریمارکس اور فیصلہ پر افسوس اوراعتراض ہے ۔حیرت ہے کہ جب یہی سپریم کورٹ آسیہ مسیح کو توہین رسالت کے جرم میں دو عدالتوں سے سزا ہونے کے باوجود بری کرتی ہے جس پر پورے ملک کی عوام کو افسوس اور اعتراض ہوتا ہے،موصوف کے سیاسی مخالفین کے خلاف ریمارکس اور فیصلے دیتی ہے ،ان کو سزائیں سناتی ہے تو اس وقت وہ سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں، عوام کو قانون کی حکمرانی کا درس دیتے ہوئے عدالتی فیصلہ من و عن تسلیم کرنے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں لیکن جب اسی سپریم کورٹ میں خود ان پر یا ان کے کسی وزیر پر بات آتی ہے توان کو اس پر افسوس اور اعتراض ہوجاتا ہے۔ ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے جب کسی حکومتی فرد پر کوئی الزام بھی لگتا تھا تو وہ تحقیقات سے پہلے ہی فوراان کے استعفی کا مطالبہ کرتے تھے اور اس کے لیے یورپ کی مثالیں دیا کرتے تھے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد بعد ان کی سوچ اب شاید تبدیل ہوچکی ہے جو کہ دوہرے معیار کی علامت ہے ۔

انٹرویو میں سب سے حیران کن بات قبل از وقت انتخابات کی بات ہے، ان کی اس ایک غیر ذمہ دارانہ بات نے ملک میں پہلے سے موجود غیر یقینی کی صورت حال میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ حیرت ہے کہ حکومت قائم ہوئے ابھی معمولی عرصہ ہوا ہے ،اپوزیشن کی اکثریت بھی فی الحال حکومت کو چلتا ہوادیکھنا چاہتی ہے اسی وجہ سے وہ حکومت کے لیے کوئی پریشانی کھڑی نہیں کررہی ہے، ملکی ادارے بھی بظاہر حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں ،ایسے میں قبل از وقت انتخابات کی بات کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، اس کا بظاہر ایک ہی مقصد ہوسکتا ہے اور وہ اپنی ناکامی چھپانے کے لیے راہ فرار اختیار کرنا ہے ۔

فوج کے حوالہ سے انٹرویو میں کہا گیاکہ وہ مکمل طور پر پاکستان تحریک انصاف کے منشور کے ساتھ کھڑی ہے ۔پاک فوج ایک غیر جانبدار ادارہ سمجھا جاتا ہے اور یہ ضروری بھی ہے کیونکہ وہ پورے ملک اور قوم کی فوج ہے ،فوج حکومت کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور یہ اس کی ذمہ داری ہے لیکن وہ کسی ایک سیاسی جماعت کے منشور کے ساتھ نہیں ہوتی ہے ۔ چیف جسٹس کے بارے میں بھی ایک تقریب میں کہا گیا کہ انہوں نے ’’نئے پاکستان ‘‘ کی بنیاد رکھی تھی ۔اس قسم کے بیانات سے ملکی اداروں کی غیر جانبداری موضوع بحث بن جاتی ہے جو کہ ملک کے لیے نقصان دہ ہے لیکن وزیر اعظم کو شاید اس کا احساس نہیں ہے ۔

موجودہ حکومت کے لیے اس وقت بہت بڑا مسئلہ وزیر اعظم کے اپنے بیانات ہیں جو وہ مناسب تیاری کے بغیر بلا سوچے سمجھے دیتے ہیں اور ان کی وجہ سے معاملات حل ہونے کے بجائے مزید الجھ جاتے ہیں۔ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز شخص کی طرف سے اس قسم کی غیر ذمہ داری انتہائی نا مناسب ہے ۔مذکورہ انٹرویو سے قبل بھی بحیثیت وزیر اعظم ان کے کئی بیانات اور باتوں سے مختلف سواالات اور مسائل نے جنم لیا ہے ۔ عمران خان ، ان کی جماعت اور چاہنے والوں نے ماضی میں میاں نوازشریف کو پرچی سے تقریر اور بات کرنے پر خوب تنقید اور تضحیک کا نشانہ بنایا ہے لیکن اب شاید ان کو خود بھی اسی جانب آنا ہوگا کیونکہ موجودہ حکومت کو فی الحال خطرہ کسی اور سے نہیں بلکہ ’’وزیر اعظم عمران خان‘‘ سے ہے ۔

Usman Uddin
About the Author: Usman Uddin Read More Articles by Usman Uddin: 7 Articles with 5999 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.