پاکستان میں پینےکے صاف پانی کی عدم فراہمی سے اموات!

آلودہ پانی پاکستان میں پولیو کے پھیلانے کا اہم عنصر

ہر سال پانچ جون کو ماحولیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد ماحولیات اور اس سے وابستہ مسائل و پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں کے حوالے سے شعور بیدار کرانا ہے۔ یوں تو پاکستان میں بھی یہ دن برائے نام کچھ حد تک منایا جاتا ہے لیکن پینے کے صاف پانی کے فراہمی کے حوالے سے زمینی حقائق بہت تلخ ہیں۔تحقیق اور میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان بالخصوص پشاور میں آلودہ پانی پولیو وائرس کے پھیلانے کا اہم سبب ہے ۔پولیو وائرس پوری دنیا سے ختم ہو چکا ہے لیکن اب بھی پاکستان افغانستان اور نائجیریا میں پایا جاتا ہے۔ پولیو پھیلنے کی کئی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ مٹھی بھر تکفیری مائنڈ سیٹ طالبان اور ان کے مفتیوں کی طرف سے پولیو مہم کی جاسوسی میں استعمال کی وجہ سے مخالفت بھی ہے لیکن یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ پچیس سال پہلے سن نوے کی دہائی میں جب دنیا بھر سے آئیوڈین کی کمی کی وجہ سے بیماریاں ختم کرنے کے لئے آئیوڈین ملا نمک کے استعمال ایک مہم چلائی گئی اس وقت بھی مٹھی بھر تکفیری مائنڈ سیٹ اور ان کے مفتیوں کی طرف سے آئیوڈین ملا نمک کے خلاف فتوے دئیے گئیے حالانکہ اس وقت پاکستان افغانستان میں نہ ہی امریکہ تھا اور نہ ہی نیٹو۔

برسر اقتدار آنے والی قومی و صوبائی حکومتوں کے لئے یہ ایک چیلنج ہے کہ کیا پینے کا صاف پانی کی فراہمی ان کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے یا نہیں؟؟ بدقسمتی سے پاکستان وہ ملک ہے جہاں سیاسی پارٹیاں چاہے حکومت میں ہو یا اپوزیشن اور سول سوسائٹی و میڈیا دونوں عوام کے اہم مسائل ماحولیات و صحت پر توجہ دینے کی بجائے اپنی اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لئے حکومت و سیاسی پارٹیاں سیاسی ریٹنگ اور میڈیا کرائم اور چٹ پٹی و مصالحہ دار خبروں کی دوڑ میں آگے نکلنے کی ریٹنگ میں مصروف ہیں، اسلئے ماحول و صحت اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسے مسائل تو گویا اس ملک میں سرے سے پائے ہی نہیں جاتے،،،،،اسلئے آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے مصداق ان پر کوئی توجہ نہیں،،

جبکہ زمینی حقائق اور ریسرچ و اعداد شمار سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ اکثر بیماریوں بالخصوص بچوں میں پھیلنی والی موذی بیماریوں جیسے گیسٹرو،اسہال، قے،خسرہ اور ہیپاٹائٹس وغیرہ کی بنیادی وجہ و جڑ پینے کے صاف پانی کی عم فراہمی کی وجہ سے مضر صحت پانی کا استعمال ہے، اور پاکستان ایسا ملک ہے جہاں کی تقریبا دو تہائی آبادی کو ان کا بنیادی حق پینے کا صاف پانی دستیاب ہی نہیں، دوردراز اور پسماندہ علاقے تو چھوڑئیے جہاں بیچارے عوام و مویشی ایک ہی جوہڑ سے پانی پیتے ہیں پاکستان کے اکثر شہروں کے عوام کو بھی یہ اہم ترین سہولت و ضرورت پینے کا صاف پانی مہیا نہیں۔۔۔۔۔۔یہی وجہ ہے کہ ہیپاٹائٹس خسرہ یا گیسٹرو جب تباہ کن صورتحال اخیتار کرکے سینکڑوں انسانوں کو لقمئہ اجل بنا دیں تو اس وقت سیاسی پارٹیاں چاہے حکومت میں ہو یا اپوزیشن اور سول سوسائٹی و میڈیا دونوں اپنی اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لئے چند دن شور شرابہ کر لیتے ہیں لیکن ان بیماریوں کی جڑ و بنیادری وجہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے اقدامات کرنے کی بجائے ایک بار پھر خاموشی اور پھر انتظار کہ کب دوبارہ گیسٹرو آئے اور ہم سب اپنی اپنی بولی بول پڑیں۔۔۔۔

دوسری طرف یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سیاسی پارٹیاں چاہے حکومت میں ہو یا اپوزیشن یا پھر سول سوسائٹی و میڈیا بھی پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے وعدے کے حوالے سے سابق حکمرانوں و سیاستدانوں اور فوجی ڈکٹیٹرز سے پوچھنے کی جرآت تک نہیں کرتے جب کہ اپنے اپنے مفاد کی نکات پر واویلا کرکے آسمان کو سر پر اٹھا لیتے ہیں،،،، جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کی بنیادی ضرورت پینے کے پانی کے حوالے سے ان کی ترجیحات کیا ہیں؟؟ مثلا ان دنوں سابق فوجی آمر جنرل مشرف کی پاکستان آمد کے بعد ٹرائل جاری ہیں۔۔کوئی مشرف کو بے نظیر قتل کیس میں قید کرنا چاہتا ہے تو کوئی آئین توڑنے اور غداری کے جرم میں یا پھر کوئی پی سی او کے تحت مشرف کے زیرسایہ حلف اٹھانے والے ججوں کے کردار کو لانا چاہتا ہے الغرض ہر شخص و پارٹی اپنا اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا ہے۔۔۔لیکن عوام کے اہم ترین و بنیادی مسئلے پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر مشرف اور دوہری شہریت والے سابق امپورٹڈ وزیراعظم شوکت عزیز کے زبانی جمع خرچ وعدے اور قومی خزانے کے اربوں کھربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا وعدہ پورا نہ کرنے پر کوئی بھی آواز نہیں اٹھاتا۔۔۔۔۔کسی کو یاد ہو یا نہ ہو لیکن نائن الیون کے بعد مشرف و شوکت عزیز کے پانچ سالہ دور حکومت میں اخبارات و میڈیا پر سرکاری اشتہارات( جیسا کہ جرنیلوں کی حکومت میں اکثر عوام کو دھوکہ دینے کے لئے ایسے ہی ہوتا ہے۔۔) کی بھرمار ہوتی تھی کہ سن دو ہزار سات عیسوی تک پاکستان کے ہر شہری کو پینے کا صاف پانی مہیا ہوگا۔۔۔۔واہ جی واہ چھ سال مذید گزر گئے لیکن پاکستانی عوام اب بھی اس انمول نعمت صاف پانی کی فراہمی سے محروم ہیں۔۔۔۔۔چلئے مان لیتے ہیں مشرف و شوکت عزیز نے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے حوالے سے وعدہ پورا نہ کیا اور نہ ہی یہاں کوئی ان سے سوال پوچھے گا،،، کیونکہ ریٹائرڈ جنرل مرزا اسلم بیگ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جرنیل چاہے موجودہ ہو یا سابق وہ مقدس گائے ہے، اسلئے اس سے پوچھنا اور سوال کرنا گناہ کبیرہ ہے۔۔۔۔۔۔لیکن اس حمام میں تو سب ہی ننگے ہیں، چاہے مشرف سے پہلے کی حکومتیں ہوں یا بعد کی جیسے پیپلز پارٹی، سعودی عرب بھاگنے والی مسلم لیگ نواز،ایم ایم اے،ایم کیو ایم، اے این پی یا پھر پانی سے وابستہ سونامی لانی والی انقلاب کی دعوایدارعمران خان کی پی ٹی آئی،،،، مذکورہ تمام سیاسی پارٹیوں کے انتخابی منشور میں اس اہم ترین مسئلے کو کیا بنیادی اہمیت حاصل ہے۔۔۔۔اس کا فیصلہ ہم یہاں قارئین پر چھوڑتے ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔۔۔لیکن ہماری نظر میں اگر کوئی بھی حکومت اس اہم ترین مسئلے کے حل میں سنجیدہ ہے تو وہ اگر صرف کروڑوں موبائل صارفین سے کٹنی والی لازمی اور جبرا ٹیکس جس کا وجود دنیا میں پاکستان کے علاوہ مشکل سے ہی ملے گا،،،یعنی آپ سو روپے والا کارڈٖ موبائل میں لوڈ کریں یا ایزی لوڈ کریں آپ سے پندرہ تا بیس روپے لازمی ٹیکس کٹے گا، کم از کم اس سلسلے میں امیر و غریب برابر ہیں یعنی اگر کوئی وڈیرا جاگیردار جرنیل و سیاستدان بھی ہو کم از کم اس طریقئہ ٹیکس کٹوتی میں چوری نہیں کرسکتا۔۔۔۔سے حاصل ہونی والی اربوں روپے سالانہ صرف اور صرف پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے مختص کر دیں تو چند سالوں میں پاکستان کا ہر شہری پینے کے لئے بنیادی ضرورت پینے کا صاف پانی مہیا ہوگا۔۔۔۔وگرنہ پھر پاکستان کے عوام کو شاباش ہی دی جا سکتی ہے کہ وہ پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے ہیپاٹیٹس خسرہ اور گیسٹرو سے مرنے والے اپنے پیاروں اور معصوم بچوں کی لاشیں دفنانے کے بعد بھی ہر نئے آنے والے انتخابات میں کسی جاگیردار ریٹائر جرنیل و سیاستدان کے لئے ذندہ باد مردہ باد کے نعرے اور پنجاب کے لوگ جاگ پنجابی جاگ کے نعرے کے تحت نواز لیگ کو سندھ کے لوگ بٹھو خاندان کو ووٹ دینے سمیت تن من دھن کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے یہ جانتے ہوئے یا نہ جانتے ہوئے بھی کہ مذکورہ جاگیردار جرنیل و سیاستدان اور ان کے گھر والے و بچے تو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منرل واٹر پیتے ہیں، انہیں پینے کی صاف پانی کی فراہمی اور عدم فراہمی کی صورت میں ہزاروں اموات بالخصوص معصوم بچوں کی جاں بحق ہونے سے کیا سروکار.

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Syeda Midhat
About the Author: Syeda Midhat Read More Articles by Syeda Midhat: 5 Articles with 4107 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.